donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Mazahiya Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghul Khan
Title :
   Baba Jamhura

بابا جمہورا

 

 غل خان


بابا جمہورا کو میں بزرگ سیاست دان اس لئیے نہیں کہوں گا کہ وہ خود بزرگ ہوں تو ہوں، مگر اس کی سیاست میں ابھی لڑکپن ہے ، اس وقت سے سیاست میں ہیں جب انہوں نے ابھی ہوش بھی نہیں سنبھالا تھا، اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ سیاست میں نوادر ہیں، اتنے بڑے سیاست دان ہیں کہ اکیلے پارٹی میں پورے نہیں آ سکتے ، سو دوسری پارٹیوں سے اشتراک کر کے رہنے کی جگہ بناتے ہیں، کچھ لوگ انہیں اقلیتوں کا رہنما مانتے ہیں، ویسے ان کی پارٹی ممبروں کی تعداد دیکھ لیں تو آپ بھی مان جائیں گے ۔

ہمارے ہاں آج کل اگر آپ اپنا شجرۂ نسب اور سارا خاندانی کچا چھٹا معلوم کرنا چاہتے ہیں، تو آپ کو کسی لائبریری میں جانے کی ضرورت نہیں، سیاست میں آ جائیں، مخالفین خود ہی بتا دیں گے کہ آپ کے داد پر داد کیا کیا کرتے تھے ، نواب زادہ صاحب نے سیاست کو عبادت بنا دیا ہے ، جس سے یہ پتہ چلے نہ چلے کہ وہ سیاست کو کیا سمجھتے ہیں، یہ پتہ چلتا کہ وہ عبادت کو کیا سمجھتے ہیں، ان کی پوری زندگی میں ان کی پیدائش کے علاوہ کوئی غیر سیاسی  واقعہ رونما نہیں ہوا، وہ تو صبح اٹھ کر سیب بھی یوں کھاتے تھے جیسے اپنی صحت کیلئے نہیں  جمہوریت کیلئے  کھا رہے ہوں، ان کی تو چھینک تک غیر سیاسی  نہیں ہوتی، تشدد کے اس قدر خلاف کے اسکول میں ضرب سے کئی کتراتے ، تقسیم تو کبھی کی ہی نہیں ، البتہ جمع ایسی کرتے کہ حساب  کا ماسٹر حساب داد دیتا، ذہین اتنے کہ جس روز ماسٹر شیو بڑھائے بغیر استری کے کپڑے پہن کر کلاس روم میں آتا، انہیں فوراً پتہ چل جاتا، کہ آج ماسٹر صاحب اردو شاعری پڑھائیں گے ، مزاج ایسا جمہوری کہ ایچی سن کالج میں کرکٹ کھیلتے وقت اردو شاعری کے دوران اسی گیند کو پکڑنے بھاگتے ، جس کی طرف سب سے زیاد کھلاڑی بھاگتے ۔

پیر پگارا صاحب کو نابالغ سیاست دان کہتے ہیں، ان کے بقول نواب زادہ کا مطلب ہی نواب کا لڑکا ہے اصغر خان فرماتے ہیں نواب زادہ صاحب 80 فیصد شاعری اور 20 فیصد سیاست کرتے ہیں، انہوں نے سیاست اور اپنی شاعری کی کتاب کا نام  جمہوریت  رکھا، ایک صاحب سے کہا دیکھیں یہ نام ٹھیک ہے یا بدل دوں؟ اس نے ان کی شاعری پڑھ کر کہا نام تو ٹھیک ہے مگر شاعر بدل دیں۔

حقہ اور نواب صاحب اس قدر لازم و ملزوم ہیں کہ دونوں کی شخصیت ٹوپی کے بغیر مکمل نہیں،مادر ملت فاطمہ جناح نے ایک بار کہا تھا، نواب زادہ نصر اللہ خان حقے کے بغیر کچھ نہیں، حالانکہ ان کے پاس حقہ نہ بھی ہو تب بھی لگتا ہے ، کہ ہے ، حقے کی نے منہ میں یوں دبائے ہوتے ہیں جیسے مخالف کی گردن، وہ حکم عدولی برداشت  کر لیتے ہیں، مگر حقہ عدولی نہیں، حقہ وہ ساتھی ہے جو اس وقت بولتا ہے جب آپ چاہتے ہیں، مارشل لاء کے دنوں میں جب کوئی نہیں بولتا،حقہ پھر بھی بولتا ہے م حقہ اجتماعیت کی علامت ہے اور سگریٹ الگ الگ کرنے کی، وہ سیاست کا حقہ ہیں، جس کے گرد کئی پارٹیاں کش لگا رہی ہیں، ان کی پسندیدہ موسیقی تازہ حقے کی آواز ہے ، وہ حقہ نہ بھی پی رہے ہوں، پھر بھی دھواں  دیتے ہیں ، سگار بھی پیتے ہیں، جس کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ سگار صرف  پئے ہی جا سکتے ہیں کھائے جانے سے تور ہے ۔

کھانے میں مچھلی پسند ہے ، مچھلی اور سیاست دانوں میں یہ قدر مشترک ہے کہ دونوں سانس لینے کیلئے منہ کھولتے ہیں، البتہ ایک مچھلی پورے جال کو گندا کر دیتی ہے مگر وہ سیاست دان مل کر بھی یہ نہیں کر سکتے ، البتہ نہ مل کر کر سکتے ہیں، جمہوریت کیلئے کوشش کرنے والوں کو جو پھل ملتا ہے ، وہ نواب صاحب کے باغ کے آم ہوتے ہیں، جو عام نہیں ہیں، ہمیں تو آم میں یہی خوبی لگتی ہے ، کہ یہ کھایا بھی جا سکتا ہے اور پیا بھی، انہیں سنترہ بھی اچھا لگتا ہے مگر ہمیں تو سنتری کا مذکر لگتا ہے ۔

نواب زادہ صاحب کئی دہائیوں سے وہی کر رہے ہیں جس کی دہائی آج دے رہے ہیں،  وہ ہے اتحاد بنانا، ہر حکومت کے خلاف اتحاد بناتے ہیں، جس کی حکومت کے خلاف اتحاد نہ بنائیں، اس میں اتحاد نہیں رہتا، ان کا بنایا اتحاد اتنا پائیدار ہوتا ہے کہ اب تو لوگ انہیں اپنے بچوں کی شادیاں پر بھی بلانے تاکہ نومولود اتحاد اٹوٹ ہو، ان کی طبعیت خراب ہو تو ڈاکٹر کہتا ہے ،تین دن تک نہار منہ اتحاد بنائیں، انشاء اللہ افاقہ ہو گا، شیاد اس کی وجہ یہی  ہو کہ اس میں بہت سے  لوگ اتحاد کرے یوں گاتے ہیں کہ کسی ایک کی آواز بھی صاف سنائی نہیں دیتی ، قوالی بندہ فاصلے سے سنے تو بہت مزہ آتا ہے ، یعنی اتنے فاصلے سے جہاں تک آواز نہ آتی ہو۔

سیاست کو انہوں نے کبھی دکان نہیں سمجھا، ویسے بھی سیاست میں دکان تو کیا، ایک کان کی بھی ضرورت نہیں،البتہ زبان چاہئیے اور ان کی زبان ایسی ہے کہ اتنی ان کہ منہ میں نہیں رہتی جتنی صحافیوں کے کانوں میں رہتی ہے ، ان کی تقریر بہرے بھی سمجھ جاتے ہیں، کیونکہ اتنا منہ سے نہیں، جتنا ہاتھوں سے بولتے ہیں، ہر سوال کا جواب سوچ کر دیتے ہیں، نام تک پوچھیں تو سوچ میں پڑ جائیں گے ، گفتگو کا ایسا انداز کہ بندہ بات سننے سے پہلے کنونس ہو جائے ، شاید کنونس ہونے کی وجہ بھی یہی ہو، ویسے ہم ایک ایک ایسے سیاست دان کو جانتے ہیں جو روز کنوسنگ کیلئے نکلتے ہیں، کئی دنوں کے بعد آخر ان سے ایک خاتون کنونس ہوہی گئیں، اب وہ ماشاء اللہ ان کے بچوں کی ماں ہیں، نواب صاحب کی تقریر  کا آغاز اور انجام تقریر کو دلکش بنا دیتا ہے ، تقریر اور بھی دلکش بن سکتی ہے بشرطیکہ اختتام آغاز سے پہلے کا ہو۔

وہ ان سیاست دانوں میں سے ہیں جو عوام کے نمائندہ نہیں، سیاست دانوں کے نمائندہ ہوتے ہیں، وہ غور ہے ، نواب صاحب پوزیشن بنا کر نہیں اپوزیشن بنا کر خوش ہوتے ہیں، وہ پیدائشی حزب اختلاف ہیں، اب تو انکی اس عادت کی وجہ سے یہ صورتحال ہے کہ اگر وہ کسی بات پر فورا متفق ہو جائیں تو لوگ پریشان ہو جاتے ہیں، کہ اللہ کرے ان کی طبعیت ٹھیک ہو، گھڑ سواری کرتے ہیں، اب بھی کرسی پر بیٹھے باتیں کرتے ہوئے دائیں ٹانگ سے کرسی کو ایڑھ لگا رہے ہوتے ہیں، ٹانک اس قدر پسند ہے کہ کھانے میں مچھلی کا بھی لیگ پیس ہی مانگتے ہیں۔

مارک ٹوئن نے کہا ہے صحت مند رہنے کا ایک ہی طریقہ ہے کہ وہ کھاؤ جو آپ پسند نہیں کرتے ، وہ پیو جو آپ نہیں چاہتے اور وہ کرو جو آپ ویسے بھی کبھی نہ کرتے ، اس حساب سے انہوں نے کبھی صحت مند رہنے کی کوشش نہیں کی، پرانی چیزیں دیکھنا پسند ہیں، اس لئے کمرے میں شیشہ ضرور رکھتے ہیں، اپنی چیزیں نہیں بدلتے ، ان کا وہ برش ہس سے شیو کرتے وقت صابن لگاتے ہیں، اتنا پرانا ہو گیا ہے کہ اس کے آدھے بال سفید ہو چکے ہیں، جمہوریت میں مارشل لاء کی راہ ہموار کرتے ہیں، مارشل لاء میں جمہوریت کی راہ بناتے ہیں، اور ہمیشہ راہ میں ہی رہتے ہیں، حکومت میں کبھی نہیں رہے کیونکہ کبھی عہد ان سے بڑا ہوتا ہے اور کبھی وہ عہدے سے بڑے نکلتے ہیں، مغطر گڑھ جو کبھی ان کا گڑھ تھا اب ان کیلئے گڑھا بن چکا ہے ،  جنرل ضیا الحق کے جنازے پر نہ گئے مگر غفار خان کے جنازے پر گئے جس کی وجہ یہ بتائی جاتی ہے کہ وہ سرحدی گاندھی غفار خان کے جنازے پر یہ یقین کرنے گئے تھے ،  کہ واقعی سرحدی گاندھی غفار خان مر گئے ہیں۔

مزاج ایسا کہ سردیوں میں گرمیاں اور گرمیوں مین سردی چاہتے ہیں، صحافی ان کے پاس خبر لینے یوں جاتے ہیں جیسے ان کی خبر لینے جا رہے ہوں، بھینسیں پالنے کا شوق ہے ،  سنا ہے جو بھینسیں پالتے ہیں،  وہ اچھے شوہر ثابت ہوتے ہیں،  اس قدر وضع دار کہ جس جگہ ایک بار پاؤں پھسلا، جب بھی وہاں  سے گزرے ، پھسل کر ہی گزرے ، ان کی پوری زندگی سے یہی نتیجہ نکلتا ہے سیاست بچوں کا کھیل نہیں، بوڑھوں کا ہے ۔


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1136