donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Mazahiya Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rizwan Abid Quraishi
Title :
   Dr. Khaleeq Anjum Bargahe Aizdi Mein

ڈاکٹر خلیق انجم بارگاہِ ایزدی میں
 
ایک ’’شیطان‘‘ کے قلم سے آنکھوں دیکھا حال
 
رضوان عابد قریشی
 
بہت لمبے عرصہ تک سوا نیزے پر دھوپ کی تمازت برداشت کرنے کے بعد اعلان ہوا کہ ڈاکٹر خلیق انجم کو حاضر کیا جائے۔ ڈاکٹر صاحب کا نام آتے ہی سنّاٹا چھا گیا۔ پھر چہ مگوئیاں شروع ہوئیں۔ کوئی کہتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب کا تو بغیر حساب کتاب کے ہی فیصلہ ہونا تھا، کوئی کہتا تھا، کہ کچھ تو نیک کام کئے ہی ہوں گے، کوئی کہتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب بے فیض آدمی تھے، کوئی کہتا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نہایت خائن آدمی تھے غرض کہ جتنے منھ اُتنی باتیں۔ البتہ ایک خواتین کا گروہ ایک کونے میں کھڑا ہوا تھا جو آپس میں باتیں کر رہا تھا کہ ڈاکٹر صاحب نے ’’تن و دھن‘‘ سے ہماری بہت مدد کی اور ہمیں کہاں سے کہاں پہنچا دیا۔ وہ بات دوسری ہے کہ ہماری جوانیاں ختم ہونے کے بعد ڈاکٹر صاحب نے ہم سے بات بھی کرنا گوارہ نہیں کیا۔ لیکن جوانی میں کبھی کسی چیز کی کمی محسوس نہیں ہونے دی۔ ہم خواتین تو بالکل جاہل تھیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے ہمیں اعلیٰ تعلیمی ڈگریاں دلوا دیں۔ ہم سماج کے بہت نیچے درجے میں آتیں تھیں لیکن ڈاکٹر صاحب نے ہمیں اُردو گھر میں نوکریاں دے کر ہمارا سماجی وقار بڑھایا۔ ہم خواتین شکلوں، عقلوں، دہنی اور علمی معیار کے مطابق تو وہیں کے وہیں رہیں لیکن ہماری ڈگریاں اور اُردو گھر کی نوکری کی وجہ سے ہمارا سماجی رُتبہ بلند ہو گیا۔
 
اتنی دیر میں دو فرشتے ڈاکٹر خلیق انجم کو دونوں طرف سے پکڑے ہوئے حاضر ہو گئے اور بارگاہِ ایزدی میں پیش کر دیا۔ یہ بہت اچھا ہوا کہ اس وقت اللہ رب العزت شاید ذرا عجلت میں تھے تو بغیر کسی تمہید کے پہلا سوال کر لیا۔ پوچھا کہ کتنی کتابیں لکھیں؟ ڈاکٹر صاحب نے فوراً جواب دیا کہ72 کتابیں۔ دوسرا سوال بغیر وقفے کے کہ اتنا علم کہاں سے لائے؟ جواب میں ڈاکٹر صاحب نے فوراً ایک شعر پیش کیا     ؎
اوروں جیسے ہوکر بھی ہم باعزت ہیں بستی میں
کچھ لوگوں کا سیدھا پن ہے کچھ اپنی عیّاری ہے
 
پوچھا گیا کہ اس شعر کاکیا مطلب ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے فوراً جواب دیا کہ اے پروردگار تو تو سب جانتا ہے میرے دور میں پڑھنے والوں کی اتنی کمی تھی کہ کوئی میری کتاب یا کوئی اورکتاب پڑھ کر ہی راضی نہیں تھا۔ لوگ یہی نہیں جانتے تھے کہ تصنیف اور تالیف میں کیا فرق ہے۔ بس یہ کہتے تھے کہ ڈاکٹر خلیق انجم کی کتاب ہے تو معیاری ہی ہوگی۔ اور اے اللہ تو تو سب جانتا ہی ہے جو کتابیں میں نے تصنیف کی ہیں وہ بھی دو چار کتابیں سامنے رکھ کر ایک کتاب بنا دیتا تھا۔ جس کی سمجھ میں نہیں آتی تھی وہ یہ سوچتا ہوگا کہ بہت معیاری کتاب ہے اور باقی کتاب پڑھنے والے اس دور میں تھے بھی کتنے۔ لیکن اے خدا میں نے 72 کتابیں لکھ کر اُردو دنیا میں بہت نام کمایا اور اپنی دھاک جما دی۔ میں نے اپنے دور میں کسی ادیب کو ابھرنے کا موقع نہیں دیا۔ جو نئے نئے ادیب میرے پاس کبھی مدد کے لئے آتے تھے میں نے انہیں ہمیشہ احساسِ کمتری کا شکار بنا دیا اور آخر کار وہ اُردو ادب کے میدان سے ہی بھاگ کھڑے ہوتے تھے۔ اور دوسری مختلف نوکریاں کر لیتے تھے۔ اے خدا تو تو جانتا ہی ہے کہ اُردو ادب سے میں نے کسی کو کمانے کا موقع نہیں دیا اور میں نے خود بھی اُردو ادب سے کمائی نہیں کی یہ تو میری ذہانت تھی جو میں نے بے تحاشہ دولت کمائی لیکن تو گواہ ہے کہ یہ دولت میں نے کبھی اپنی اولاد یا اولاد کے شوہر یا بیوی پر خرچ نہیں کی۔ ساری دولت تیری راہ میں جمع کرتا گیا اور سود در سود لے کر اس دولت کو بڑھاتا گیا۔ دنیا میں تو سب مجھے غریب ہی سمجھتے تھے۔ کیوں کہ پوری زندگی میں کبھی بھی کسی نے مجھ سے ایک روپے کی بھی مدد چاہی تو ہمیشہ میرا جواب یہی ہوتا تھا کہ میرے پاس ہے ہی نہیں۔ اور تو یہ بات جانتا ہے کہ پیسہ میرے پاس ہوتا ہی کب تھا۔ میں تو فوراً اسے سود پر چڑھا دیتا تھا یا زمین خرید لیتا تھا۔ اور تو اور میں نے پوری زندگی میں کبھی کسی کی زبانی مدد بھی نہیں کی۔ اگر مجھے یہ لگتا تھا کہ میرے کسی جملے سے کسی کو فائدہ پہنچ سکتا ہے تو ایسا جملہ میں نے کبھی نہیں بولا۔ کیوں کہ تونے میری سرشت میں کسی کی مدد کرنا رکھا ہی نہیں تھا۔ تو میں کیا کرتا میری سرشت تو تونے ہی بنائی تھی۔ یہ سن کر اللہ تعالیٰ سوچ میں پڑ گئے اور ایک اور سوال کیا۔ اچھا ڈاکٹر خلیق انجم یہ بتائو کہ تم نے اس عورتوں کے گر وہ کی ’’تن اور دھن‘‘ سے مدد کیوں کی۔ اس پر ڈاکٹر صاحب زیرِ لب مسکرائے اور کہا اللہ تعالیٰ یہ تو راز کی بات ہے اور یہ راز میرے اور ان خواتین کے بیچ میں ہے اور یا پھر تو جانتا ہے کیوں کہ تو تو ہر راز سے واقف ہے۔ بلا توقف ایک اور سوال ہوا۔ اچھا تو یہ بتائو کہ تمہاری ان کباڑ گاڑیوں کا ایک مکینک تھا جس سے تم وہ کباڑ سے خریدی ہوئی گاڑیاں ٹھیک کرواتے تھے وہ اتنا امیر کیسے ہو گیا کہ اس نے مایا پوری جیسی ہول سیل مارکیٹ میں اسپیئر پارٹس کی ایک سے زیادہ دُکانیں کر لیں۔ ڈاکٹر صاحب نے برملا جواب دیا کہ اے خدا تجھے تو سب معلوم ہے میرا پیسہ جب سود کی معیاد ختم ہونے کے بعد واپس آتا تھا تو میں یہ پیسہ اس مکینک کی دکانوں میں لگا دیتا تھا۔ میری بیوی مجھے منع کرتی رہتی تھی لیکن میں باز نہیں آیا اور آخرکار وہ سارا پیسہ جو میں نے لگایا تھا وہ میرے وارثین کو نہیں مل پایاکیوں کہ کسی کو معلوم ہی نہیں تھا کہ میرا پیسہ کہاں ہے۔ 
 
اب تو سوالوں کی جیسے جھڑی سی لگ گئی اچھا تم نے ایک پرنٹنگ پریس بھی کھولا تھا؟ جی ہاں! اے خدا وہ پریس میرا ہی تھا اور ایک بے روزگار کو لگوایا تھا۔ وہ مجھے آمدنی کا 70% دے دیتا تھا۔ میں بھی پوری اُردو دنیا سے اسے کام دلواتا تھا۔ جو کام سو روپے کا ہوتا تھا وہ ہزار روپے میں دلواتا تھا اور اے خدا تو سب جانتا ہے اس پریس سے مجھے کتنا منافع ہوتا تھا۔ وہ پرنٹنگ مشین میں نے چار لاکھ کی خریدی تھی۔ اور اس کو فائنانس NSIC نے کیا تھا۔ جب قرض ڈیڑھ لاکھ رہ گیا تو میں نے وہ مشین تین لاکھ کی بیچ دی اور اسمال اسکیل انڈسٹری کا ڈیڑھ لاکھ روپے بھی ہضم کر گیا۔ اور بیس سال بعد جب وہ قرض خواہ ڈیڑھ لاکھ روپے کا تھا قرض (جو جب تک آٹھ لاکھ روپے ہو چکا تھا) لینے آئے تو میں نے اپنے رسوخ کا استعمال کرتے ہوئے وہ معاملہ رفع دفع کروا دیا اور اے اللہ تو جانتا ہے کہ حکومت ہند کا پیسہ کھا جانا کوئی گناہ تو تھا نہیں۔
 
سوال ہوا کہ ڈاکٹر خلیق انجم یہ بتائو کہ ہم نے تو کہا تھا کہ قرابتداری کا پاس رکھنا اور رشتے داروں کی مدد کرنا تم نے تو اپنے بیٹے اور داماد کی بھی مدد نہیں کی۔ ڈاکٹر صاحب نے معاناً جواب دیا کہ اگر میں رشتے داروں کو اُردو گھر میں داخل ہونے دیتا تو انہیں سارے معاملات کا پتہ چل جاتا۔ اس لئے میں نے تو اپنی اولاد کو بھی اُردو گھر میں داخل نہیں ہونے دیا۔ میں نے اُردو گھر میں جو بھی دغل فصل کی اس میں میرے تین ساتھی اور تھے گو کہ وہ تھے تو کلرک ہی لیکن ان کی تنخواہیں میں نے ستر ہزار سے نوے ہزار کے بیچ رکھی تھیںکیوں کہ میںخود ایک لاکھ روپے ماہوار سے زیادہ تنخواہ لیتا تھا۔ ان تینوں کلرکوں نے اپنی کوٹھیاں تعمیر کر لیں۔ کیوں کہ تنخواہ کے علاوہ ان کی اُوپر کی آمدنی تنخواہوں سے کہیں زیادہ تھی۔ لیکن میں نے اس بات کا ہمیشہ خیال رکھا کہ مجھ سے میرے بیٹے یا داماد کو کوئی فیض نہ پہنچ جائے۔ میں نے اُردو گھر کے کلرکوں کی تو کوٹھیاں بنوا دیں لیکن میرا داماد مرتے دم تک کرائے کے مکان میں ہی رہا اور میرا بیٹا کناڈا چلا گیا۔ مالی مدد تو دور کی بات میں نے اپنے داماد کو لکھنے پڑھنے کے لئے بھی انجمن ترقی اُردو ہند کا پلیٹ فارم استعمال نہیں کرنے دیا۔ مجھے تو معلوم نہیں اور نہ ہی میں نے کبھی معلوم کرنے کی کوشش کی لیکن لوگ بتاتے تھے کہ میرا داماد اچھا خاصہ لکھ لیتا تھا۔ میںتو اپنے گھر میں بھی اُردو گھر کی ایک خاتون چپراسن کو اپنے بیٹے پر ترجیح دیتا تھا یہ خاتون چپراسن میرے گھر میں چھٹی کے دن خدمت کے لئے آتی تھی۔ میں بھی اس کی خدمت سے خوش ہو کر اس کو نوازتا رہتا تھا۔ اور میں نے اس چپراسن کو اپنی بیوی کی مدد سے عمرانیات میں ایم اے بھی کروا دیا کیوں کہ میری بیوی عمرانیات کی پروفیسر تھیں۔ پڑھنے لکھنے میں بھی مدد تو میری بیوی نے بھی کسی کی نہیں کی لیکن میرے کہنے پر اس چپراسن کو ایم اے عمرانیات کروا دیا۔ جو ایم اے کرنے کے بعد بھی لکھنا پڑھنا نہیں جانتی تھی لیکن اصل اہمیت تو ڈگری کی ہوتی ہے۔ لیکن جس سے میرا کوئی مطلب حاصل نہیں ہوتا تھا اس کے لئے میں بہت خودغرض اور کنجوس تھا۔ میں نے پوری زندگی میں کسی مرتے کے حلق میں پانی نہیں ٹپکایا۔ میری خود غرضی کا عالم یہ تھا کہ لوگ میری مثالیں دیتے تھے کہ خود غرض اور بخیل کوئی ہو تو ڈاکٹر خلیق انجم جیسا ہو۔ اور یہ خودغرضی میری بنائی ہوئی نہیں تھی۔ یہ خودغرضی تو میرے جینز میں تھی اور تیری بنائی ہوئی تھی۔ اگر میں نے آج تک کسی حقدار کو اس کا حق نہیں دیا۔ اُردو گھر میں جو میرے ساتھی تھے ان کی تنخواہیں تو میں نے بہت زیادہ کردیں لیکن جو حقدار تھے، قابل تھے، اہل تھے اور میرے عظیم کاموں کو انجام دینے کے لئے بیکار تھے ان کی تنخواہیں میں نے پندرہ ہزار روپے سے زیادہ نہیں ہونے دیں۔
 
بارگاہِ ایزدی سے ایک بہت اہم سوال ہوا کہ جب تم اتنے بے ایمان تھے تو تم نے اپنے بعد جو جنرل سیکریٹری بنایا وہ اتنا ایماندار کیسے تھا۔ جواب دینے سے پہلے ڈاکٹر صاحب رو پڑے۔ پھر بولے کہ میں تو ایسے ایماندار بے لوس اور بہترین ایڈمنسٹریٹر کو کبھی بھی جنرل سیکریٹری نہیں بننے دیتا لیکن تونے ایسے حالات بنا دیئے کہ کمیٹی کے اس ایماندار جنرل سیکریٹری کی نامزدگی پر میں انکار نہیں کر سکا اور مجھے ہاں کرنی پڑی۔ میں تو سمجھ رہا تھا کہ میں ابھی پندرہ بیس سال تک صحت مند رہوںگا لیکن صرف پچاسی (85) سال کی عمر میں تونے مجھ سے صحت چھین لی اور میں بے یارو مددگار ہو گیا۔ اس کے جنرل سیکریٹری بننے کے بعد سب نے مجھ سے منھ پھیر لیا اور اس ایماندار انسان نے اُردو گھر کے سارے نظام کو چند دنوں میںدرست کر دیا اور میرے سارے راز کھول دیئے۔ تین دن کے اندر وہ جگہ خالی کرا لی جو ہم پانچ سال میں خالی نہیں کروا پائے، کیوں کہ اس میں ہماری اور کرایہ دار کی ملی بھگت تھی۔ اور کیا کیا بتائوں تو تو سب جاننے والا ہے۔ تجھ سے کوئی چیز چھپی نہیں ہے۔ میں نے تو کبھی حقدار کو حق نہیں دیا لیکن بس اس شعر کے ساتھ ختم کرتا ہوں     ؎
ہوئے نامور بے نشاں کیسے کیسے
زمیں گھا گئی آسماں کیسے کیسے
اور آخر کار حقدار کو حق مل ہی گیا۔
اتنے سارے سوالوں کا جواب دینے کے بعدڈاکٹر صاحب کا ڈر بھی کچھ کم ہوا اور ہمت بھی بندھی۔ اب ڈاکٹر صاحب نے ہمت جمع کر کے اللہ تعالیٰ سے کہا کہ میں نے اتنے سارے سوالوں کے جواب دیئے مجھے بھی ایک سوال کرنے کی اجازت دی جائے۔ نداہوئی اجازت ہے۔ ڈاکٹر صاحب نے کہا کہ اے خدا میں تو سمجھ رہا تھا کہ تو ایمان، نماز، روزہ، حج سے متعلق سوالات کرے گا لیکن یہ تو اُمید کے برخلاف زیادہ تر سوالات اُردو گھر، میری کمائی، میری خود غرضی اور بُخل اور خواتین کے بارے میں ہیں۔ اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ تم نے دراصل قرآن نہیں پڑھا۔ ہم نے 102 سورۃ التکاثر آیت (۱) اور (۲) میں فرمایا تھا۔ ’’تم لوگوں کو اور زیادہ اور زیادہ کی ہَوس نے غفلت میں ڈالے رکھا یہاں تک کہ تم قبروں تک پہنچ گئے۔‘‘
اس کاروائی کے بعد ڈاکٹر خلیق انجم کے اللہ تبارک و تعالیٰ کے حضور میں مقدمے کی سماعت ڈیڑھ لاکھ سال کے لئے ملتوی کر دی گئی۔ اب اگلی قسط میںانشاء اللہ اگلی کاروائی ڈیڑھ لاکھ سال کے بعد پیش کی جائے گی۔
رضوان عابد قریشی
نئی دہلی
موبائل:  9811134881
 
rizwanabidquraishi@yahoo.com
***************
Comments


Login

You are Visitor Number : 884