donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Mazahiya Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Yousuf Alamgireen
Title :
   LOTA

لوٹا 
------- طنزومزاح
 
تحریر ۔ یوسف عالمگیرین
 
 
لوٹا شائد اُن چند ایک مصنوعات میں سے ہے جو مذہب اور سیاست دونوں شعبوں میں یکساں مقبول ہے۔ عوام لوٹے کے بغیر ایک دن بھی نہیں گزار سکتی۔ لوٹا  اکثر اوقات سلور‘ پیتل اور مٹی سے بنایا جاتا ہے۔ لوٹا اپنی تشکیل سے  پہلے پہلے جس بھی کیفیت میں چاہے رہ سکتا ہے لیکن ایک مرتبہ جب وہ لوٹا  بن جائے پھر کم از کم عزت کے ساتھ واپسی کے امکانات ختم ہو جاتے ہیں۔
 
لوٹا ضروری نہیں ایک ٹوٹی والا ہی ہو۔ مٹی کے بنے ہوئے بعض لوٹے دو  ٹوٹیوں والے ہوتے ہیں لیکن ان کی ٹوٹیاں اتنی بے ضرر اور اتنی چھوٹی ہوتی  ہیں کہ انہیں ٹٹول کر دیکھا جاتا ہے۔ لوٹے میں دو ٹوٹیاں ہوں تو اس کا کم  از کم ایک فائدہ ضرور ہے کہ یہ معلوم ہوتا اصل میں لوٹا ہے کس کی طرف۔  گویا ہر پارٹی سمجھتی ہے کہ یہ لوٹا ہمارا ہے۔ لیکن وہ لوٹا کسی کا تو  کیا اپنا بھی نہیں ہوتا۔
 
لوٹے کی افادیت کثیرالجہتی ہوا کرتی ہے کہ نہ صرف یہ کہ لوٹا اونٹ کی طرح کسی کروٹ بھی بیٹھ سکتا ہے بلکہ لوٹا چور پکڑنے کے کام بھی آتا ہے۔
 
لوٹے کا کمال ہے کہ وہ چور تو پکڑ لیتا ہے لیکن خود کبھی نہیں پکڑا جاتا۔لوٹا جب کوئی چوری پکڑنے کے لئے میدان عمل میں آتا ہے چوروں میں تھرتھلی  مچ جاتی ہے وہ لوٹا خود اندر سے انتہائی ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوتا ہے کہ اس کے اندر چور ہوتا ہے۔ گویا جس طرح پیٹ کے اندر اڑھی ہوتی ہے اسی طرح لوٹے  کے اندر چور ہوتا ہے۔ لیکن اس کے اندر کا چور باہر کے چوروں کے ساتھ ڈیلنگ اور مُک مکا کا اتنا ماہر ہو چکا ہوتا ہے کہ وہ چھوٹی موٹی  ہیراپھیری کرتے ہوئے نہیں چوکتا۔
 
لوٹے کی ایک خوبی جو اسے دیگر مصنوعات سے ممتاز کرتی ہے کہ وہ بلاامتیاز  سب کی خدمت کے لئے آمادہ دکھائی دیتا ہے۔ اسے واش روم میں رکھ دیں تب  خوش۔ اسے صرف وضو کے لئے گھر کے کونے میں رکھ چھوڑیں تب بھی اس کی پیشانی پر کوئی بل نہیں پڑتے یا پھر اسے ہاتھ میں تھامے شہر سے یا کسی گاؤں سے  دور نکل جائیں وہ بخوشی ہم سفری قبول کرتا ہے۔ لوٹا فطری طور پر آزادمنش
واقع ہوا ہے۔ لیکن ریلوے حکام نجانے لوٹوں سے کیوں نالاں ہیں کہ انہوں نے  ٹرینوں میں لوٹوں کو زنجیر سے باندھ کر رکھا ہوتا ہے۔ لوٹا پلاسٹک‘ سلور‘  تانبا‘ لوہا‘ مٹی ہر شکل میں ڈھل جاتا ہے۔ اسی لئے لوٹا بہت مقبول ہوتا  ہے۔ لوٹے کے کسی محفل میں داخل ہوتے ہی لوگوں کے چہرے دمک اٹھتے ہیں اور  وہ لوٹا آ گیا لوٹا آ گیا۔ کا نعرہ مستانے بلند کرتے ہوئے لوٹے کا استقبال کرتے ہیں۔
 
لوٹوں کی مختلف اوقات میں مختلف قیمت لگتی ہے۔ لوٹے کی قیمت دس دس ‘ بیس بیس‘ چالیس چالیس روپوں سے چالیس چالیس کروڑ بھی لگتی ہے۔ لیکن چالیس کروڑ کا لوٹاکوئی کوئی مائی کا لال ہوتا ہے۔ وہ کم قیمت لگنے پر لال پیلا  بھی ہو جاتا ہے۔ لوگ اسے جو بھی کہیں اسے اس کی فکر نہیں ہوتی۔ لیکن جو  اُس کی بولی لگا رہا ہوتا ہے اس کے لئے وہ کوہ نور ہیرے سے کم نہیں ہوتا۔
 
گویا لوٹا چاندی بھی ہے‘ لوٹا سونا بھی ہے اور لوٹا ہیرا بھی ہے لیکن ایک لوٹا مٹی بھی کہ وہ مٹی ہی سے بنا ہوتا ہے۔ اور اس نے لوٹ کر اسی مٹی میں  جانا ہوتا ہے۔ جو لوٹا اپنی مٹی سے تعلق نہیں توڑتا اس کی شان ہی نرالی ہوتی ہے۔ اس کی خوشبو ہی منفرد ہوتی ہے۔ اس میں گرم تپتا ہوا پانی بھی ڈالیں تو کچھ لمحوں بعد وہ ٹھنڈا ہو جاتا ہے۔ الغرض لوٹے کی تاثیر ٹھنڈی ہوتی ہے کہ لوٹا خیرِ کثیر ہوتا ہے۔ لوٹا صرف ووٹ ہی نہیں حوصلے بھی بڑھاتا ہے۔ بعض اوقات ایک لوٹا آنے سے کہانی کا رُخ ہی بدل جاتا ہے‘  پانسے پلٹ جاتے ہیں۔ بہرکیف لوٹا اگر ایک گروہ کے لئے خوشی کا باعث ہے تو  دوسروں کو چھوڑ کر آنا بھی شائد اس کے لئے دکھ کا باعث نہ ہوتا ہو جن کو  وہ چھوڑ کر آتا ہے ان کے لئے غم کا ایک کوہ گراں بن جاتا ہے۔ لوٹے کی زندگی میں غم اور ندامت رچی بسی معلوم ہوتی ہے کہ لوٹا جتنا بھی بارعب ہواس کی آنکھیں پیچھے چھوڑ کر آنے والوں کا سامنا نہیں کر پاتیں۔ لیکن لوٹا  تو لوٹا ہوتا ہے۔ وہ کیا کرے کہ اس کی اگر آنکھیں دو ہیں تو ٹوٹیاں بھی دو ہوتی ہیں۔ جو اسے نت نئی سمتوں کا تعین کرنے کے لئے بے تاب رکھتی ہیں۔
 
ہم تو یونہی چلتے رہیں گے
جلنے والے جلتے رہیں گے
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1327