donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Mazahiya Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Aah Professor Be Laus Nahi Rahe


آہ! پروفیسر بے لوث نہیں رہے

 

زبیر حسن شیخ

 

تعلیم و تدریس کی دنیا میں جو خلا پیدا ہورہا ہے اب اس کا پر کرنا بے حد مشکل نظر آتا  ہے..... پروفیسر بے لوث  کی موت کی خبر ملتے  ہی اول تو ذہن  بے شمار اساتذہ  کی فہرست  میں چہرہ  تلاش  کرنے  میں محو  ہوگیا، پھر  اپنے    فکری سفر پر نکل پڑا  اور قلم انگلیوں میں مچلنے لگا... پروفیسر بے لوث  ایک  طویل عمر گزار کر علم کو داغ مفارقت  دے گئے.... انہیں خراج عقیدت پیش کرنے  میں  شاید  ہی یہ تحریر کامیاب  ہو ...اور اگر یہ کوئی نوحہ ہوا  تو عالمی ہوگا کہ پروفیسر چاہے مغربی ہو یا مشرقی وہ صرف پروفیسر ہوتا ہے،  وہ سلطنت العلوم   کا سخی بادشاہ ہوتا ہے، اور یہ سلطنت   جغرافیائی حدود کی محتاج نہیں ہوتی ...ایک سچا پروفیسر صرف ایک معلم ہوتا ہے  اور اسکے سوا وہ کچھ ہونا بھی نہیں چاہتا... پروفیسر بے لوث کا اصل نام   شاید ہی کسی   کو یاد رہا ہو....ویسے بھی نام چاہے راحت ہو یا زحمت،  محیط ہو یا موہت،  خان ہو یا پانڈے، رچرڈ ہویا  راحیل ،  رچنا ہو یا  مرجانہ  ہر ایک نام پروفیسر کے لاحقہ کے ساتھ محترم و معتبر ہوجاتا ہے... پروفیسر بے لوث بھی دنیا کے ان تمام پروفیسر کی طرح بے شمار   صفات کے حامل تھے،  اور جس میں ان کا بے لوث ہونا   ایسا  مشہور ہوا کہ دنیا ان کا اصل نام ہی بھول گئی... ایسی ہی چند مخصوص صفات دنیا کے تقریبا تمام پروفیسر میں ہوا کرتی تھیں جو تعلیم و تدریس و تربیت میں پیدا ہونے والے خلا کو پر کرتی تھیں،  اور جس سے کارخانہ حیات کے دیگر  شعبوں  میں بھی  خلا پیدا ہونے کے امکانات دور ہوجایا کرتے تھے... لیکن اب کہاں  وہ  ہمالہ صفت   لوگ جنہیں  دیکھنے  پرکھنے  میں    ہی  طلبا کو  سر بلندی   عطا ہوجا یا کرتی،   اور جنہیں  یاد کر  کے  سر  خود بخود نگوں  ہو جایا کر تے ..

تہذیب یافتہ انسان   نے ترقیا تی  منصوبوں کومعیشت  کے ماتحت اور زیر عمل  کر رکھا، اور جیسے جیسے معیشت  زوال پذیر ہورہی ہے  ویسے ویسے تعلیم و تدریس اور روحانی و اخلاقی صحت عامہ کو بھی زوال آتا   جا رہا ہے.... جبکہ ایک دور وہ بھی تھا  جب انسان تعلیم و تدریس کی بنیاد پر تہذیب و تمدن  اور  معیشت   کی عمارات  تعمیر  کرتا تھا،  جہاں خاندان، محلہ، معاشرہ، گاؤں، شہر  ہر جگہ سے  تہذیب تدریجا اپنے عروج کی طرف گامزن ہوتی،  اور پھر دنیا میں مختلف ذرائع و وسائل کے تحت سفر کرتی.. لیکن  تہذیب  جدیدہ  کا سفر بہت جلد اپنے اختتام پر پہنچنا چاہتا ہے  اوراسکی بے شمار وجوہات ہونگی لیکن بنیادی وجہ  تعلیم و تدریس  کے شعبہ میں بڑھتا   خلا ہے،  جو  بے لوث   اساتذہ  کی  غیر موجودگی  سے پیدا ہورہا ہے...افسوس  کہ  اب آسمان علوم کے  اکثر سورج غروب ہوا چاہتے ہیں... پروفیسر بے لوث سے منسوب بے شمار واقعات ہیں جنہیں رقم کرنے میں طلبا کو شاید زندگی سے طویل مہلت درکار ہوگی.... لیکن  یہاں ان واقعات کا ذکر ضروری ہے جو موضوع کے مطابق اور حالات حاضرہ کے عکاس ہیں....شاید  اس سے  خراج تحسین  کا کچھ حق  ادا  ہوجائے..... پروفیسر صاحب اعزاز و اسناد   و انعام اور منصب و اختیار کے قائل نہیں تھے...اکثر فرماتے... ان کی اہمیت  ایسے انسانوں  کے نزدیک بھلا کیا ہوگی جو اپنے اندر ایک دنیا  بسائے  رکھتے ہوں... اور وہ دنیا اس خارجی دنیا سے بے انتہا وسیع و عریض ہوتی ہے.. اکثر   کہتے  کہ ، ادب  کارخانہ  حیات  کے  ہر ایک  شعبہ کی ضرورت ہے.... اپنی گفتگو اور تقریر میں نئے نئے الفاظ کا استعمال کرتے ...  کہا کرتے..الفاظ سے پیار کرنا سیکھو گے تو ادب سیکھ جاوگے .. ہر ایک نئے پرانے، جانے انجانے الفاظ کو اپناتے رہو.. پھر وہ بھی تمہیں اپنائیں گے ...اور  اس کیلئے  مسلسل مطالعہ چاہیے  ...کتابوں کا  مطالعہ..انسانوں کا   مطالعہ،، حالات کا مطالعہ اور مختلف  علوم کا مطالعہ..... پروفیسر صاحب نصیحت زیادہ نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے عمل سے  سمجھاتے تھے...اکثر عبادات کے اوقات میں اپنے کام کاج  چھوڑ کر اٹھ جاتے،  ایک نظر طلبا پر ڈال کر مسکراتے اور عبادت کے لئے چل پڑتے... چند طلبہ بھی انکی تقلید میں نکل پڑتے.. کسی نے پوچھا تھا کہ آپ طلبا  کو بھی  اپنے ساتھ   کیوں نہیں لے جاتے    تو فرمایا تھا...معلم ایک اچھا مبلغ  تب ہی ہوتا ہے جب وہ عملیت پسند واقع  ہوا ہو... دعوت و تبلیغ میں بیان سے زیادہ عمل موثر ہوتا ہے.. فرماتے ،  حضور اقدس کا ہر مبارک بیان کہیں نہ کہیں کسی نہ کسی نیک عمل کی عکاسی کرتا ہے اور مکارم اخلاق کی جامع  و کامل  مثالیں  پیش کرتا ہے....جب ان سے پوچھا گیا تھا کہ آپ اپنے وقت کو دن بھر کی مصروفیات کے علاوہ فرائض، مطالعہ اور غور فکر میں کیسے تقسیم کرپاتے  ہیں تو انکا جواب تھا... یہ سب کام تقریبا  فرائض کے ہی زمرے میں آتے ہیں ... اس کے علاوہ زندگی میں جو کچھ ہے وہ سب تفریح ہے...اور زندگی تفریح بھی  چاہتی ہے،  جو اس کا حق ہے....لیکن تفریح کا انتخاب انسان اپنے اپنے ظرف کے مطابق کرتا ہے... غور و فکر و مطالعہ کے لئے بہت وقت درکار ہوتا ہے، اس  کام کے لئے ہمیشہ وقت کی کمی کا احساس ہوتاہے... اس لئے  رفع حاجت، کپڑوں کو استری کرتے ہوئے،  گھرکی  صاف صفائی کرتے ہوئے، کھانا کھاتے ہوئے، بس اور ٹرین میں سفر کرتے ہوئے  اور ایسے ہی دیگر کاموں کے دوران  اس کے لئے وقت نکالا جاسکتا ہے..... پروفیسر بے لوث کا گھر بھی دنیا کے کسی عام پروفیسر کے گھر کی طرح ہی تھا کہ جہاں داخل ہوتے ہی سادگی، نفاست اور سلیقہ مندی  میں ایک  عجیب بے ترتیبی  نظر  آتی ، اور جس کا اپنا ایک الگ حسن ہوتا.... تنگدستی میں وضع داری،  قطع رحمی میں عزا داری،  سر خروئی میں دلداری ، مصائب  پر   پردہ داری اور   درشتی پر  روا داری جیسی صفات سے جن کے گھر کا ماحول  منور رہتا... پروفیسر کی اہلیہ گرچہ اسکول میں معلمہ تھیں لیکن وہ انہیں اور انکے پیشہ کو اپنے پیشہ پر فوقیت دیتے... اکثر طلبا کے سامنے کہتے....بیچ بونا آبیاری کرنے سے زیادہ مشکل اور عظیم کام ہوتا ہے...آپ کی اہلیہ بس مسکرا دیا کرتی اور پھر اپنے کام میں مصروف ہو جاتی...

چند  اور واقعات   پروفیسر  بے لوث  سے منسوب ہیں  ... دو طلبا حق و باطل کی بحث میں پروفیسر صاحب کے سامنے الجھ پڑے... انہوں نے اس کاتصفیہ کچھ یوں کیا تھا کہ ایک عرصہ تک اس پر طلبا غور و فکر کیا کرتے تھے... کہا   تھا،  افکار و بیان کا نقص صرف اہل باطل کے ساتھ ہی منسوب ہو یہ ضروری نہیں ہے... بلکہ اکثر اپنے آپ کو اہل حق میں شمار کرنے والے بھی باطل افکار و بیان وعمل میں مبتلا ہوجاتے ہیں ... اسی طرح ایک غیر تعلیمیافتہ کے مقابلے ایک تعلیمیافتہ، غیر مہذب کے مقابلے مہذب  اور ایک غیر دانشمند کے مقابلے دانشمند کے بھی باطل افکار و بیان و عمل میں مبتلا ہونے کے امکانات ہوتے ہیں....جس طرح  ایک ان پڑھ سے یہ توقع کی جا سکتی  ہے کہ وہ حقائق کو جانے اور پرکھے بغیر اپنے اجداد کی تقلید پر  قائم رہنے کو حق سمجھتا ہے... اسی طرح ایک پڑھے لکھے اور سمجھ دار سے  بھی یہ توقع کی جاسکتی ہے کہ وہ حقایق کو سمجھے اور پرکھے بغیر انہیں پرانے وقتوں کی کہانیاں سمجھ  سکتا ہے ...اس طرز فکر کے پس پشت جانبدارانہ یا تعصبانہ یا غیر منصفانہ طرز فکر کا عمل دخل ہوتا ہے،   اور اس کے پروان چڑھنے میں مختلف عناصر شامل ہوتے ہیں جیسے نفاق، مفاد، عداوت، رقابت،  ضرورت اور مسابقت کے علاوہ اور بھی عناصر ہیں.... اور ان میں سے کوئی ایک یا ایک سے زائد عنصر حق سے انحراف کے لئے کافی ہوجاتا ہے..... پروفیسر بے لوث  اپنی بذلہ سنجی کے  لئے بھی  جانے جاتے تھے  ..بذلہ سنجی  بھی ایسی کہ  نصیحت  و حکمت سے پر ہوتی..  .. ایک بار دل کے متعلق  چھڑی ادبی بحث کا یوں  تصفیہ کیا اور کہا،  دل کی رضامندی کا سارا انحصار ضمیر کی کارگردگی پر منحصر ہوتا ہے.. دل کا کیا ہے وہ تو ضرورت پڑنے پر گدھے کو بھی باپ بنا سکتا ہے.. ایک طالب علم نے کہا ...اور اگر کسی پر آنے کے  لئے    بضد ہو تو گدھی پر بھی آسکتا ہے...فرمایا ... مقام افسوس ہے کہ ادب نے  ایسے جملوں  کو  جملہ معترضہ میں شمار نہیں کیا... جبکہ ایسا کیا جانا چاہیے تھا.. کیونکہ ادب ہو یا تعلیم و تدریس یا زندگی کا  کوئی اور شعبہ،  اکثر مرد نے عورت کا استحصال کیا ہے... اور ایسے جملے تخیلق کئے ہیں جو عام بول چال کے علاوہ ادب میں بھی رائج ہوتے چلے گئے... اور گدھی کا استعارہ مستعمل کردیا گیا...یہ تو ایسے ہی ہوا جیسے دل صرف گدھوں کے پاس ہی ہوتا ہو.. اور جو کسی پر بھی آسکتا ہے.....تہذیب جدیدہ میں تو دل کبھی بچہ کہلاتا ہے تو کبھی پاگل...یہ تو  زلفوں کو کالی گھٹا اور چہرے کو چاند کہنے میں بھی تامل نہیں کرتا اور ضرورت پڑنے پر یا اچاٹ ہوجانے پر اسی زلف کو جکڑ کر اور اسی چاند چہرے پر دو ہتھڑ مارنے سے نہیں چوکتا.... اور اسکے پاس ایسا کرنے کے بے شمار جوازات ہوتے ہیں جس میں وہ اپنے آپ کو حق بجانب بھی سمجھتا ہے... دل کی مانے تو نہ جانے کیا کچھ ہوجائے، جانبداری پر آجائے تو محبوبہ کی خاطر ماں جیسی عظیم ہستی کو بھی چھوڑ سکتا ہے... ضمیر کا ایسے دل پر کوئی زور نہیں چلتا... یہ دل انسانی ضرورت کے سامنے سارے اصول و ضوابط توڑنے پر آمادہ ہوسکتا ہے.... ایسا دل کسی کا بھی ہوسکتا ہے.. اور جو کبھی بھی زندگی کے کسی کمزور لمحہ میں غیر منصفانہ طرز فکر و عمل  پر راضی یا مجبور کرسکتا ہے، عارضی طور پر بھی کرسکتا ہے اور مستقل طورپر بھی، اور اس کا انحصار اس بات پر ہوتا ہے کہ دل کتنا ضمیر کے تابع رہتا ہے.. دین و مذہب، اخلاق و آداب، تہذیب و ادب، عدلیہ و مقننہ،   سیاست و حکومت،  سیاحت و صحافت، پیشہ و تجارت، تحقیق و تواریخ، ایسے اور انکے علاوہ دیگر تمام شعبوں میں حق کو پرکھنے میں کوتاہی ممکن ہے، اور جو دل کے ہاتھوں مجبور ہوکر ضمیر کا گلہ گھوٹنے کے بعد ہی ممکن ہے.....

آہ! اب کہاں ایسی ہستیاں  جو تعلیم و تدریس کے کعبہ میں بہ مانند حجر اسود  ابتدا و اختتام کی علامت بنتی...اب  کہاں ایسے معلم جو بہ  مثل پارس خوش نصیب طلبا کو ملا کرتے،   اور جن کی صحبت میں ہمارے جیسی گارے اور ٹھیکرے سے پیدا شدہ مٹی بھی سونا بن جایا کرتی ...اب ایسے چند گنے چنے پروفیسر ہی حیات ہیں...جن کی زندگی  کا  سورج  بھی  اب  غروب ہوا چاہتا ہے،   اور وہ بھی تب جب جہالت کی تاریکی کو علم کے نور سے موسوم کیا جارہا ہے....آہ!  پروفیسر  بے لوث  نہیں رہے ....ان للہ و ان الیہ راجعون....    


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 690