donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Mazahiya Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Aap Kahan Hain Aayie Na Larhte Hain


پ کہاں ہیں؟ آئیے نا لڑتے ہیں !

 

زبیرحسن شیخ

 

بقراط کا برقی دعوت نامہ کیا تھا ایک ترغیب تھی کہ قبول کیجیے تو لڑنا ہے اور رد کیجئے تو بھی لڑنا ہے.... لکھ بھیجا کہ ..." آپ کہاں ہیں؟  آئیے نا لڑتے ہیں... کچھ وقت گزارتے ہیں"...... اول تو پڑھکر ہی ہم طیش میں آگئے اور سوچا آج بقراط کی خیر نہیں ...اس سے پوچھیں گے کہ یہ کیا تک ہوئی، بھلا یہ کہاں کی شرافت ہوئی... کیا سمجھ رکھا ہے... لیکن خیال آیا کمبخت یہی تو وہ چاہتا ہے اور اسی کے لئے تو مدعوکیا ہے.....سوچا آج چمن میں شیفتہ کے سامنے بقراط کی خبر لیں گے... اور بس پھر ہم  چمن جا پہنچے ... دیکھا کہ کمبخت نے اچھا خاصہ مجمع لگا رکھا ہے....سوچا اب اسے کس قسم کی نشست سے موسوم کریں...بحث لڑائی کا رنگ اختیار کر چکی تھی....شیفتہ سر جھکائے بیٹھے تھے... بقراط اچک اچک کر کسی کی تائید کر رہے تھے تو کسی کی ستائیش... جس کی تائید کررہے تھے پھر اسی کی برا ئی بھی کررہے تھے.... جس کی ستا ئیش کررہے تھے پھر اسی سے اختلاف کررہے تھے.. پتہ نہیں کیا کررہے تھے.... ایک صاحب نے آو دیکھا نا تاو اور لگے مغربی ممالک کی تہذیب کے گن گانے، انکی صاف صفائی اور انکے عدل و انصاف کی دہائی دینے.. دوسرے ایک صاحب سائینس اور منطق سے اپنا مدعا پیش کرنے لگے... ایک صاحب نے غالب کا شعر پیش کردیا تو دوسرے صاحب ٹالسٹائی کی روح کو بلا کر بات کرنے لگے... ایک صاحب میں تو شیکسپیئر کی روح سما گئی.... ہم نے بہت کوشش کی کہ موضوع کو سمجھتے لیکن تھک ہار کر بقراط کو مخاطب کر پوچھ ہی لیا کہ .. جناب کس موضوع پر بحث ہورہی ہے..... اور یہ کس سیاسی رہنما کا ذکر جا ری ہے... کہا... آپ ذرا خاموش رہیے اور بات پر غور کیجیے،  ہاں تو بات شروع ہوئی تھی کہ پاکستان کے سابق وزیر رحمان ملک نے گھنٹوں ہوائی جہاز  میں   مسافر وں کو انتظار کروا کر عوام کے حقوق کا استحصال کیا تھا یا!!!!!....... بقراط کا جملہ مکمل بھی نہ ہوا کہ ایک صاحب بول پڑے نہیں بلکل غلط... میرے مکتب فکر  کے اصولوں کے مطابق حقوق پامال کیا تھا کہیے... ایک صاحب کہنے لگے .. نہیں جناب یہ تو عوام کا غصہ ابل پڑا ہے کہیے.... جو بہت پہلے ابلنا چاہیے تھا، میرا مسلک یہی  کہتا ہے... ایک محترمہ نے بڑے مودبانہ لہجہ میں فرمایا... یہ ایک عام سا واقعہ ہے اور عوام کا غصہ اپنے اپنے گھر جا کر سرد ہوجاتا ہے.. ایک صاحب نے آگ لگا ئی کہ ... محترمہ ایسے کہہ کر آپ غصہ سرد کر رہی ہیں یہ   وطن  دشمنی کی نشانی  ہے ... ہماری زبان نے بے حد آہستگی سے لا حول ولا کہا تو بازو بیٹھے صاحب نے کان میں گھس کر کہا.. خیال رکھیے ولا کے واؤ پر زیر ہے زبر نہیں..... ہم تعجب سے انہیں دیکھنے لگے اور دل ہے دل کہا  اچھا ہوا اپنا مسلک نہیں بتایا  .... بقراط نے کہا عوام کا غصہ بے شک ابل......پھر بات اچک لی گئی اور ایک صاحب نے کہا یہ تو امر با المعروف اور نہی عن المنکر کا مظاہرہ ہے جس پر سب کو کار!!!!! .... ایک نوجوان غصے میں آگئے اور کہا جناب اب آپ غیر ضروری سیاست میں مذہب کو گھسیٹ کر لے آرہے ہیں.. مذہب   ایک بے حد  ذاتی  معاملہ ہے   ... بحث میں پہل کرنے والے صاحب نے بقراط کا ہاتھ پکڑ کر اسے بولنے سے روک دیا   اور  خود بول پڑے...... جمہوریت میں مذہب کا کوئی عمل دخل نہیں...... بیس برس قبل فرانس میں ایسا ہی!!!!!...... دوسرے ایک صاحب نے ان کی بات اچک لی اور کہا.... قانون کی شق ستائیس دفع بارہ بٹہ ..... ایک سخت گیر قسم کے صاحب سامنے آئے اور بات کاٹ کر کہا..ملک کے قانون کو بٹہ لگا کر رکھ دیا ہے..... ایک بزرگ خاتون نے حلق خشک ہونے کا اشارہ کیا جس پر کسی نے بھی غور کرنا ضروری نہیں سمجھا ...اور انہوں نے یہ کہہ کر پانی مانگنا چاہا کہ ..... پانی ملے گا پی... پی!!!!... انکی بات بھی  اچک لی گئی اور بقراط موقع کا فایدہ اٹھاتے ہوئے فورا اپنے رنگ میں آگئے اور کہا... محترمہ واہ واہ بلکل صحیح کہا... کیا بات ہے .. کسقدر بلیغ اشارہ کیا .... پانی میں ڈوب مرنے کا مقام ہے... چلو بھر پا نی میں..... ایک بزرگ جو بہت دیر سے خاموش تھے کچھ کہنے کے لئے ابھی منہ کھولنا ہی چاہتے تھے کہ  بقراط نے کہا واہ واہ جناب.. بہت بہتر.... بزرگ نے کہا اماں یار مجھے شعر تو مکمل کر لینے دو... ہاں تو میں کہہ رہا تھا کہ سیلاب کے پانی نے کشمیر میں جو تباہ کاری کی ہے اس کی ..... انکی بات اچک کر ایک صاحب نے کہا... اللہ ان سیاست دانوں سے ضرور حساب لے گا یہ سب تباہ کاریاں انہیں کی وجہ سے ہے.... عوام کا جینا دو بھر کردیا ہے.... دوسرے صاحب بولے میں نہیں مانتا... یہ سن کر ایک صاحب  بول پڑے ... کیوں نہیں مانتا تمہارے !!!!! دوسرے صاحب نے بات اچک لی اور کہا ... آپ جیسے لوگوں نے ہی سیاست دانوں کو شہ دے رکھی ہے..... وہ صاحب بولے یہی تو میں بھی کہنا چاہتا تھا کہ میں نہیں مانتا کہ جینا دو بھر کردیا ہے بلکہ زندگی عذاب کردی ہے سب کی... ... ایک صاحب بول پڑے عذاب کا تعلق الله سے ہے اور و ہی اس پر قادر ہے اس لئے اس لفظ کا استعمال کفر میں مبتلا کر دیگا.... ایک صاحب فرمانے لگے...  ارے چھوڑو کیا بات کررہے ہو.... یہ سارے سیاست دان ایک جیسی  !!!!!...... ان کی بھی بات اچک لی گئی ... بلآخر ہم نے سر جھکا کر واپسی کے لئے قدم بڑھائے ہی تھے کہ بقراط  نے چیخ کر کہا... یہ دیکھیے یہ حال ہے ہماری قوم کا..... حق بات پر کچھ کہنے کا وقت آیا تو چل دئے...... شیفتہ نے کہا اماں ہم بھی چلتے ہیں ... آپ لوگ سب ایک ہی بات کررہے ہیں بس لڑنے کا بہانہ چاہیے...تم سب فی الحقیقت متحد و متفق ہو لیکن وقت گزاری کا چسکا لگ گیا ہے....الله تعالی صحیح فرماتا ہے کہ انسان بڑا جھگڑالو واقع ہوا ہے..... یہ سنتے ہی بقراط نے کہا یعنی انسان کا لڑتے رہنا لکھا جا چکا ہے... اور اس سے چھٹکارا ممکن نہیں ہے تو چلو... پھر لڑتے ہیں ... یہ سنتے ہی شیفتہ نے ہمارے ساتھ قدم بڑھائے ...  باہر آتے آتے ہمارے کانوں میں لوگوں کی باتیں برابر آتی رہیں...وہ سب یہی کہنا چا رہے تھے کہ انسان کسی دوسرے انسان کا حق نہیں مارسکتا... لیکن اسے ثابت کرنے کے لئے ہی وہ سب ایکدوسرے کا حق مار رہے تھے.....


۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 793