donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Mazahiya Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Aye Sale Nau : Tere Fareb Se Allah Bachaye


اے سال نو   ! تیرے فریب سے الله  بچا ئے

 

زبیر حسن شیخ

 

شیفتہ اور بقراط میں آج  چھیڑ چلی-   شیفتہ پوچھ رہے تھے..... جناب بقراط، سال نو کی کیا کیا تیاری کی ہے-  بقراط کہنے لگے حضور  دو بار" کیا کیا"  کہنے سے بات کا مفہوم بدل جاتا ہے -  آپ صرف کیا تیاری کی  ہے پوچھتے تو بجا ہوتا-  فرمایا پچھلے برس تو آپ سال نو کی طویل چھٹی پر باہر گئے ہوئے تھے – اس سال بھی تو کچھ کچھ انتظام کیا ہوگا نا  --- کہا ، آپ پھر ادب کا سہارا  لے کر کچھ کو کچھ کچھ کہہ رہے ہیں -  خیر اس برس ہفتہ واری چھٹیاں سال نو سے ٹکرا رہی ہیں اس وجہ سے سال نو کا جشن مختصر ہوگا-  ہم نے پوچھا بقراط صاحب آپ  ٣١ دسمبر  کو اور   یکم جنوری کو کرتے کیا ہیں؟ ..... بقراط نے کھنکارا اور پانی کے چند گھونٹ سے گلا صاف کیا اور کہا..... پہلے شیفتہ بتائیں کہ وہ کیا کرتے ہیں – فرمایا، ہم  کیا کرتے ہیں، بس تہذیب کی میت پر فاتحہ پڑھتے ہیں....اور بقراط کی طرف ایک ناقدانہ نظر ڈال کر فرمایا... گلا تو گھونٹ دیا اہل تمدن تیرا... کہاں سے آئے صدا لا الہ الا الله ...... بقراط نے کہا حضور علامہ نے تو فرمایا تھا گلا تو گھونٹ دیا اہل مدرسہ نے ترا .... فرمایا وہ دور اور تھا.... اور واقعی ہمارا  گلا گھونٹا گیا تھا جس کے نتیجہ میں ہماری نسلوں نے دین سے  دنیا کو یوں خارج کیا کہ دنیا اہل شر کے ہاتھوں لگ گئی.... اور ہمارا دین صرف مذہب بن کر رسومات و عبادات تک محدود ہوگیا- آج آپ اور آپ جیسی نسلیں وجود میں آئی ہیں جنہیں دین میں سما ئی ہوئی دنیا کو چھوڑ بے دینی دنیا کے پیچھے بھاگنے پر مجبور ہونا پڑا –  فرمایا... بقول علامہ ...اٹھا میں مدرسہ و خانقاہ سے ہو کر غمناک -  نہ زندگی، نہ محبت نہ معرفت نہ نگاہ .... لیکن جناب ، آپ کا گلا تو اہل مدرسہ نے نہیں گھونٹا نا ..تو پھر کس نے گھونٹا ؟ .. کیا اہل تمدن نے گھونٹ دیا ہے،  یا اہل خرد نے، یا تہذیب جدیدہ نے ...فرمایا.... اہل مدرسہ نے  ہمارا گلا گھونٹا تھا ،  اہل حق نے تو نہیں، تمام کے تمام اہل مدرسہ ایک جیسے نہیں تھے.... جیسے تمام کے تمام اہل تمدن بھی ایک طرح نہیں ہیں ... لیکن بات تناسب، اثرات نتائیج کی ہے اور ان سب سے بڑھ کر مقصدیت کی -  ہم نے بقراط سے پھر استفسار کیا کہ فی الحقیقت آپ سال نو پر کرتے کیا ہیں؟ .. کچھ پتا تو چلے...... کہا لیجیے یک نہ شد دو شد، آپ بھی اردو ادب کی چھڑی کا استعمال خوب کرتے ہیں... جملوں میں ذرا سی رد و بدل کیجے  اور مفہوم بدل جاتا ہے، لیکن لہجہ تو بتا دیتا ہے کہ مخاطب کا منشا کیا ہے -  آپ یہ بھی تو کہہ سکتے تھے کہ آپ سال نو پر کیا کرتے ہیں ، بجائے پوچھنے کے کرتے کیا ہیں ؟ کہا ، بس نئے سال کی آمد پر خوشیاں مناتے ہیں.......

 

شیفتہ نے کہا حضور آپ کی زندگی کا نیا سال یکم جنوری کو تو  شرو ع نہیں ہوتا نا.... بلکہ آپکی ولادت کے سال سے ہوتا ہوگا .........اور آپ تو اپنی ولادت کا جشن بھی مناتے ہیں .... گر چہ آج تک اس سے کسی کو کچھ فایدہ نہیں ہوا ہے -  بلکہ خود آپکو بھی فایدہ ہوتا نظر نہیں آتا-  کہا... ساری دنیا سال نو کا جشن مناتی ہے... فرمایا ، تو کیا ساری دنیا کا یوم ولادت یکم جنوری ہے... کہا نہیں..... فرمایا .. کونسی دنیا کی آپ بات کر رہے ہو جو ساری دنیا کو اس جشن سے وابستہ کر رہے ہو ....... کہا ، حضور ایک آپ ہی نہیں مناتے ورنہ، آپ کو پتا نہیں ہوگا کہ آپکی آل اولاد، آپکے خاندان کی اکثریت، آپ کے سماج کی اکثریت، آپکے ملک کی اکثریت، اور دنیا کے اکثر ممالک اور انکی عوام سب یکم جنوری کو ہی سال کی شروعات سمجھتے ہیں....... اور اسی دن سال نو کا جشن مناتے ہیں-  فرمایا، یہ تمام اکثریت اور کیا کیا جشن ساتھ میں مناتی ہیں........ کہا اس جیسا کوئی بھی جشن نہیں ہے-   فرمایا، یہ دنیا کب سے یہ جشن ساتھ ملکر منا رہی ہے ؟ کتنے برسوں سے.. یہی کوئی سو سوا سو برس سے، اور اسکی کوئی تو وجہ ہوگی.. کوئی تو مقصد ہوگا، اسکے پس پشت کوئی تو ہوگا، کچھ تو ہوگا ؟ بقراط نے کہا کوئی مقصد ہو یا نہ ہو لیکن سال نو کے جشن میں دنیا تمام غم بھول کر یکجا ہوجاتی ہے اور تہذیب و تمدن کے تمام تفرقات مٹ جاتے ہیں-  تہذیبیں تہذیبوں میں ضم ہو جاتیں ہیں-  فرمایا، اسکے پیچھے تہذیب و تمدن میں موجود عناصر و عوامل،  اصول و ضوابط، نظام وعقائد کا تصادم کارفرما ہے- اور یہی عناصر ہیں جو قوموں کی شناخت ہوا کرتےہیں ، اور جب تہذیبیں ضم ہوتی ہونگی تو نتیجا قومیں بھی ضم ہوکر اپنی شناخت کھو بیٹھتی ہونگی-  ٹکراو کے بغیر تہذیبیں کبھی ضم نہیں ہوا کرتی تھیں، اور جب جب ماضی میں یہ ٹکراؤ ہوا تو اسی ایک تہذیب کو غلبہ حاصل ہوا جو اچھا ئی اور سچائی کا ماحاصل تھی،  دوسری تمام تہذیبیوں کو اسی میں ضم ہونا پڑا- فرمایا،تاریخ بتاتی ہے کہ قومیں مختلف وجوہات کی بنا پر ہجرت کرتی تھیں-  یہ ہجرتیں مختلف صورت حال اور ضرورتوں  کے تحت کی جاتی تھیں.... جیسے نقل مکانی، سیاست، تجارت، جنگ و جدل و فتوحات، اور جانے انجانے تہذیبوں کا ٹکراؤ ہوا کرتا تھا، اور اچھی اور طاقتور تہذیبیں کمرزور پر غلبہ حاصل کر لیتی تھیں-  کمزور تہذیبوں میں چاہے بے شمار قوتیں پوشیدہ ہوں لیکن خیر و بھلا ئی کے عناصر کے بغیر یہ تہذیبیں اکثر مغلوب ہوتی تھیں-   اور جو قومیں کمزور اوصاف کی حامل ہوتی تھیں ان پر دوسری قوموں کے تہذیبی عناصر غالب آ جاتے تھے-  یہی وہ غلبہ ہے جو قوموں کی نا اہلی کی وجہ سے انکی تہذیب  و تمدن اور انکے  اصول و ضوابط اور  نظام و عقاید کو شکست دیتا تھا- لیکن دور جدید میں تہذیبوں کے عناصر اور ہجرتوں کے مقاصد کی حیثیت ثانوی ہوگئی..... اور دوسروں کی تہذیب پر غلبہ حاصل کرنے کے جدید طریقہ کار دریافت کر لئے گئے- بقراط نے کہا، کچھ تشریح کیجیے تو بات سمجھ میں آئے گی، اور شاید پھر ہم جشن سال نو منانا چھوڑ دیں اور اہل تمدن کے ہاتھوں ہمارا گلا بھی نہ گھونٹا جا سکے-  

 

فرمایا،  بود باش، رہن سہن، بول چال، اخلاق و آداب، عقائد و رسومات و روایات، سیاست و حکومت، ثقافت و صحافت،  آئین و قوانین، تعلیم و تربیت، معاشی و معاشرتی نظام، نقل و حمل، تجارت و روزگار،  صنعت و حرفت، نظام مواصلات اور ٹیکنالوجی، یہ سب تہذیب و تمدن کے ضروری عناصر و عوامل  قرار پا ئے ہیں-  لیکن تہذیب جدیدہ نے ان عناصر میں کچھ اور اضافہ کیا جس میں صارفیت اور مادیت اور بے قابو سرمایہ داری  نے اہم کردار ادا کیا اور پھر تہذیب و تمدن کے سارے عناصر و عوامل ان میں جذب ہو گئے-   ان میں سے ہر ایک کا تجزیہ آپ دور جدید کے پس منظر میں کیجیے تو پتا چل جا ئے گا کہ دور جدید میں تہذیب و تمدن کے پیمانے کیا ہیں، کس تہذیب کا غلبہ ہے؟ کیوں ہے؟ اور اس کے اثرات کیا ہیں؟- میڈیا جو ٹیکنالوجی کا بغل بچہ ہے اور جو تہذیب جدیدہ کی عکاسی کرتا ہے، اور کسی قوم میں پائے جانے والے مذکورہ تمام عناصر کی بھی عکاسی کرتا ہے......یہ بھی بتاتا ہے کہ  کس قوم کی تہذیب کا غلبہ ہے، اور کیوں ہے، اور اسکے اثرات و نتائج کیا ہیں ؟ اور کونسی قومیں اپنی شناخت  کھوتی جارہی ہیں؟  کونسی تہذیبیں ہیں جو اب بھی متصادم ہیں ؟   تہذیب جو نظام فطرت کے اصولوں کے تحت ارتقائی مراحل کی متقاضی ہوتی ہیں،  اور ایک بہترین توازن کا بھی تقاضہ کرتی ہے، روحانیت اور مادیت میں خوبصورت توازن کا – نظام فطرت کے تقاضوں سے اغماض برت کر جو تہذیب وجود میں آتی ہے یا لا ئی جاتی ہے وہ تہذیب غلیظہ کی صورت آج میڈیا میں نظر آتی ہے-  یہی وہ تہذیب ہے جس کا غلبہ تمام تہذیبوں پر ہے، یہی وہ تہذیب ہے جو اہل مغرب کی دین ہے،  یہی وہ تہذیب ہے جو بے قابو سرمایہ داری، سیاست غلیظہ اور  عسکری  قوت کے خبط میں مبتلا مسابقت کی دین ہے-  یہی وہ تہذیب ہے جس نے اچھا ئی اور برائی کا فرق ختم کر دیا ہے، اچھا ئی پر غلبہ حاصل کر لیا ہے، اور جو انسانوں کو اچھائیوں میں تو یکجا نہیں کرتی لیکن برائیوں میں ضرور یکجا کر لیتی ہے-  یہی وہ تہذیب ہے جس نے مسلسل پچھلے سو برسوں سے آنے والی نسلوں کا گلا گھونٹ دیا ہے، اور اگلی آنے والی نسلوں کے لئے تہذیب و تمدن کی نئی تعریف لکھ چھوڑی ہے، نئے پیمانے مرتب کر دئے ہیں،  جو نظام فطرت سے میل نہیں کھاتے – جس نے اجارہ داری، استحصال و استبداد، ظلم و غصب، جنگ و جدل، تعصب و تخریب کے سانپوں کو صارفیت، قوم پرستی اور مادیت پرستی کی آستینوں میں چھپا کر رکھا ہے- تعلیم کے خنجر سے تربیت کا خون کر رکھا ہے، ضرورتوں اور آسائیشوں کی آندھیوں میں عقائد کی آنکھوں میں دھول  جھونک  رکھی ہے-  روزگار کے جام میں مادیت پرستی کا نشہ رکھ دیا ہے اور روحانیت کی پیاس کا گلا گھونٹ کر مار دیا ہے-  اب کہاں سے آئیگی صدا لا الہ الا الله -   پچھلے کئی برسوں سے تہذیب جدیدہ سال نو کا جشن منا  رہی ہے اور مبارکبادیں ہیں کہ تھمتی نہیں ہیں، اور انسان کا  یہ حال  ہے کہ  بس برا حال ہے – خود فریبی  کا ایسا جال تہذیب جدیدہ  نے دنیا کو دیا ہے  کہ بے  تکے  عزائم اور  جھوٹے دلاسوں  سے ایکدوسروں کو بہلایا جا رہا ہے ،  انسانیت  آج بھی  جنگ و جدل میں   خون کے آنسوں روتی ہے- سیاست  مکروہ  تبسم لئے ہوئے سرمایہ داری کی گود میں بیٹھی ہے ،   اور سرمایہ داری  دولت کے نشے میں چور  ہے،     عدالتیں   نا  بینا کردی گئی ہیں،   قوانین  کو گھن لگ گیا ہے،  وفا شعاری، فرمانبرداری ، ایمانداری ، رواداری، اعزا  داری  جیسے اوصاف   دنیا میں ناپید ہیں-  تعلیم بغیر تربیت  کےگریباں چاک روزگار   کی تلاش میں  سرمایہ داری کے جنگل میں بھٹک رہی ہے -  قوموں نے  حمیّتوں   اور غیرتوں  کے  مدفن  بنا لئے ہیں   - غریبی  چیتھڑے اوڑھتی ہے ،  بچپن  بھوک سے  بے حال ہے،   جوانی عریاں ہے اور حیا کو ترستی ہے ، ممتا چھاتیاں پیٹتی ہیں،  نسوانیت  جوتیاں چٹخاتی ہیں ، دعائیں عرش سے واپس  لوٹ آتی ہیں-  پچھلے کئی   نو سالوں  کے جشن اور مبارکبادوں نے  انسان کو  یہی کچھ دیا ہے -  اے سال نو  !  تیرے فریب سے الله  بچا ئے - 

**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 694