donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Mazahiya Mazameen
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Zubair Hasan Shaikh
Title :
   Bach Gaya Jo Aafate Naag Hani Me - Mar Gaya TV pe Ik Kahani Me


بچ گیا جو آفتِ ناگہانی میں۔مرگیا ٹی وی پہ اک کہانی میں

 

زبیر حسن شیخ

 

بقراط کی طویل غیر حاضری سے پریشان ہوکر شیفتہ کو ہم نے فون کیا اور کہا بقراط کی  نہ کوئی ،مس کال،  اور نہ بلاوا۔ کہا،  ...خبر ملی ہے کہ جناب بقراط حادثہ کا شکار ہو کر اسپتال میں ہیں۔ شیفتہ کیساتھ بھاگے بھاگے ہم اسپتال پہنچے۔ بقراط کی حالت دیکھکر شیفتہ نے دلجوئی کی اور کہا.....حضور بڑی جلدی ہے ستاروں سے آگے جہاں بسانے کی ۔ خلائی لباس میں  عشق کے امتحاں دینے نکلے ہو۔  ہم نے کہا.... حضور یہ کیا سوجھی تن تنہا چل دئے، شیفتہ کو ہی لے لیتے اپنے ساتھ۔ کیا شامت آئی تھی۔ کہا برادرِ نسبتی کا کام شامت ہی سمجھو،  کمبخت اسکی بائیک ،سونا، اوراس پر وہ سہاگا ۔ ہم سامان لانے نکل پڑے بے رحم راستوں پر۔ پتہ نہ تھا  اہلِ ایمان کے حالات پر قبل از وقت ہی آسمان آنسو بہانے لگے گا۔ سڑکیں بھیگ گئیں اور غریبوں کی آنکھیں بھی۔ بہ مانند بد عنوانی سڑک پر جابجا گڈھے۔ افراطِ زر کی طرح بائیک کا توازن بگڑنا طے تھا۔ اور پھرحادثہ ہوگیا۔ بس سمجھیے اللہ نے بچایا۔

ہم نے کہا اور کون کسی کو بچاسکتا ہے ۔ اکثر لوگ تو ایکدوسرے کو مارنے میں مصروف ہیں اور باقی سب انھیں ٹی وی پر دیکھنے میں ۔ شیفتہ نے کہا لیجیے بقراط مسکرا رہے ہیں۔ لگے ہے سب کچھ سلامت ہے۔ کہا ہاں صرف دو چار ہڈیاں ناراض ہوئی ہیں اور چند دن ہات پیر ہلانے سے معذوری رہے گی۔ آپ لوگوں کو دیکھکر طبیعت بحال ہوگئی،  ورنہ کل سے اسپتال میں ہوں اور اس سڑک حادثہ سے بڑا سانحہ تو کل رات ہمارے ساتھ اسپتال میں پیش آیا۔ ہم نے حیرت سے پوچھا۔ کسی نے بے جا مسیحائی کی کوشش تو نہیں کی۔ کہا نہیں، بس سمجھیں کسی نے ساری رات ہمیں پھانسی پر چڑھائے رکھا۔ شیفتہ نے بے چینی سے کہا حضور اب بتائیے بھی کہ ہوا کیا تھا۔ کہا طویل اور درد بھری کہانی ہے ۔ اس اسپتال میں ایک ہی ،تارِ نفس، سے اسپتال کے تمام ٹی وی جڑے ہیں اور انتظامیہ کے کمرے میں کنٹرول ہوتاہے۔ یعنی وہاں جو چینل چل رہا ہوگا وہی اسپتال کے ہر کمرے میں دکھائی دیگا۔ اور سب کچھ ایک کنٹرولر کی نیت اور ذہنیت پر منحصر ہوگا ۔ان پر ایک اور کنٹرولر ہے اور اس پر ایک اور۔  ایک اور نیاآنے والا ہے۔

 شیفتہ نے کہا یہاں بھی وہی لوک پال کا معاملہ۔ہر کنٹرول پر ایک کنٹرول کی مانگ تو ہوتی ہی رہےگی۔ انسان کا انسان پر ،کب تک اور کہاں تک، بھروسہ اور کنٹرول قائم رہ سکتا ہے۔ جمہوریت ہے کوئی خلافتِ راشدہ تو نہیں کہ بیت المال کے چراغ کی روشنی پر خود احتسابی فرما رہے ہیں جبکہ چاند سورج قدم چومنے بیتاب ہیں ۔ عوام کے پوچھنے پر حساب دے رہے ہیں جسم پر  پہنی ہوئی قبا کا۔ جبکہ دوجہاں کی دولت قدموں کی ٹھوکر میں ہے۔ بلکہ گریباں کے اک اک تار کا حساب دے رہے ہیں تاکہ حضورِ یار میں پیش ہونے کی تیاری رہے۔ بقول فیض ۔ حضورِ یار ہوئی دفترِ جنوں کی طلب۔۔۔ گرہ میں لے کے گریباں کا تار تار چلے۔ کیا لوک پال اور کہاں کی جمہوریت۔ جمہوریت کے نام پر ڈرامہ کرنے والوں نے ایک اور نئی سیریل شروع کرنی ہے ۔،ایل پی، جسکا مخفف ہوگا ۔ ایم پی اور سی ایم کی طرح۔ ہم نے کہا شیفتہ چھوڑیے مظلوم جمہوریت کی روداد اور سنیے مظلوم بقراط کی، اب چلیے بھی کہ گلشن کا کاروبار چلے۔

 بقراط پھر گویا ہوئے۔ کہا ہمیں خبروں سے چڑ سی ہوگئی ہے۔ بس اتنی ہی دیکھتے اور سنتے  ہیں جتنی ہضم ہوسکے۔ اسپتال سے کل رات گھر والوں کو بھیج دیا تھا اوراسپتال کے عملہ سے بھی کہہ دیا کہ کچھ خبریں سنکر ہم سوجائیں گے۔ بعد میں پتہ چلا کمبخت ریموٹ کی بیٹری مرچکی ہے اور وہ بھی ایسے اسپتال میں جو کسی حکومتی ادارہ کی طرح بے پرواہ نکلا۔ نہ کوئی پرسش نہ دیکھ بھال نہ کوئی ،کال بیل،۔ خبریں چینل پر چلتی رہی۔ عجب بے بسی کا عالم تھا۔ ہات پیر پلاسٹر سے بندھے،بلکہ لٹکائے گئےتھے۔ اسکے باوجود اک سعئ ناکام کرتے ہوئے ہم نے ریموٹ پر لکھے دو اور پانچ کے عدد کا گلا دبا دبا کر ماردیا۔ ہمارے گھر پر اردو چینل دو اور پانچ دباتے ہی آجاتا تھا۔

اچانک دکھائی دیا کہ ٹی وی پر تیز رفتاری سے چینلز تبدیل ہورہے ہیں۔ کنٹرول روم میں بیٹھا کنٹرولر شاید کسی  فردوسِ گم گشتہ کی تلاش کررہا تھا۔ ہم نے  احباب کی محبتوں کا حساب کرنا شروع  کیا کہ جلد نیند آجائے اور آنکھیں بند کرلی۔ لیکن بے چینی اور بڑھ گئی۔ کمبخت وہ کنٹرولر کسی نیوز چینل پر چند لمحے رکتا اور پھر وہی رفتارِ بے ڈھنگی۔ ہماری بے چینی اور بے بسی در اصل کنٹرولر کی ہی پیداکردہ تھی۔ شیفتہ نے کہا حضور آپکی بے چینی اور بے بسی تو سمجھ میں آگئی اور یہ بھی کہ ٹی وی کی آواز کے سامنے سامعین کی چیخ پکار نقار خانے میں طوطی کی آواز کے مصداق ہے۔ لیکن آپ یہ گلاس گرا کر توڑ دیتے تاکہ کچھ شور برپاہوتا اور کسی کو متوجہ کرتے۔ کہا یہ کوشش بھی کی تھی جیسے شعروادب کی محفل میں کئی بار دیکھاتھا لیکن کوئی نہیں آیا ۔ یہی گنگناتے رہے کہ۔دلِ مضطر،کہاں تیری سنوائی ہے۔۔خود تماشا ہے،  خود تماشائی ہے ۔

ہم نے پو چھا جناب آخر میں کیا ہوا ۔ کہا حضور آپ کہاں آخر میں پہنچ گئے..... اذیت کی تو شروعات ہوئی تھی۔ وہ کمبخت کنٹرولر ایسے ایسے چینل سے گزرہا تھا کہ بادلِ نخواستہ جہنم کو قریب سے دیکھتے رہے۔ اور پھر اچانک اس نے ایک چینل کو اذیت کے لیے منتخب کر ہی لیا۔ دیکھا کوئی بابا کسی محترمہ کے کپڑے پہنے بھاگا جارہا ہے اور اسکے پیچھے پولیس۔ ابھی ہم اس بابا کی خصلت کو سمجھ ہی پاتے کہ اس نے چینل تبدیل کر دیا۔ اک اشتہار نظر آیا اور سمجھ میں نہیں آرہا تھا کہ مردوں کی مصنوعات کے اشتہار میں کوئی مرد تو کجا کوئی صنفِ نازک بھی نہیں۔ بلکہ کسی خواجہ سرا کی طرح ایک مخلوق اور تیور سلطانوں کے۔ کمبخت اترا رہی تھی یا پتہ نہیں اترارہا تھا اپنی پوششِ دریدہ پر۔ ہم نے سوچا سلطانِ جمہور اپنی موت پر اسی کی تاج پوشی نہ کر دیں ۔

ابھی اس صدمہ سے ابھرے بھی نہ تھے کہ پھر چینل تبدیل ہوگیا اور اس کمبخت نے مانو ،فاسٹ فارورڈ، کی ٹھان لی۔ ایک جغرافیائی چینل پر اسرائیل کی تاریخ کے قصیدے پڑھے جارہے تھے تو ،ہسٹری، چینل پر امریکہ اور اسرائیل کی مشترکہ جغرافیائی ،اسٹراٹیجی، کے ۔ کسی سائینسی چینل پر جانوروں کی معلومات۔ تصاویر اور عکاسی کا اعلی ترین معیار و نمونہ اور خالقِ حقیقی کی خلاّقی پر دل سے بیساختہ نکلے سبحان اللہ۔ جانوروں کے چینل پر انسانی ایجادات کے وہ نادر نمونے کہ علاّمہ کے فارسی اشعار گنگنانے لگے جس کا مفہوم ہے ۔  تو نےگر رات بنائی تو دیکھ ہم نے چراغ بنا کر اسے روشن کردیا۔۔۔۔ پھر جو چینل تبدیل ہوا تو الاماں۔ کوئی خواجہ سرا پیٹ پکڑ کر رو رہا ہے۔ کبھی آسمان کی سمت دیکھ کر دہائی دے رہا۔ کبھی ہماری طرف انگلی اٹھا رہا۔ کمبخت  ذرا منظر آگے بڑھا تب سمجھ میں آیا  کوئی انگریزی مشاعرہ ہورہا ہے اوروہ ایک جمِّ غفیر کی طرف انگلی اٹھا رہا ہے۔ ،دے دو، دے دو، کہہ کر شاید پیسوں کا تقاضا کر رہا تھا۔ ،انٹرسٹ، ،انٹرسٹ، پر اسکا ٹیٹوا دب گیا تھا۔ بار بار دہرا رہا تھا تو ہم سمجھ گئے مردود سود خور ہی ہوگا۔ ہم اس کنٹرولر کے بارے میں سوچ  رہے تھے کہ شاید اپنی تلون مزاجی کے تحت چینل بدل دے۔ لیکن وہ تو کہیں اورچل دیا۔ اللہ کا شکرکہ ہمیں نیند کا جھونکا آگیا۔

پھر آنکھ کھلی جب ایک دھماکے سے کان بجنے لگے۔  کیا دیکھتے ہیں ایک ہندی چینل پر ہماری تصویر مع سرخی کے ،.....بکرات آلم، عرف بکرا........ کراچی کے بم بلاسٹ میں مارا گیا۔ پس منظر میں بم دھماکوں کی گرج۔ ہمارے ہوش اڑگئے۔ وقت دیکھا رات کا دوسرا پہر تھا۔ وہ جھوٹا، چینل پرچیخ رہا تھا کہ ہزاروں سال پرانا دہشت گردی کا یونانی نیٹ ورک جسکا سر غنہ بکرات عرف بکرا۔....... وہ بک رہا تھا، آپ اس کے نام کو انگریزی اور اردو میں پڑھیں۔ ھندی میں ،ق، اور ،کیو، نہیں ہوتا۔ یہ نام بقراط ہے، بقراط عالم،  دھیان سے دیکھیں۔ ہم نے سوچا ھندی میں ع بھی نہیں ہوتا ہے کہ ان جناب  کی عقل کو ل سے لگام دی جائے۔ اور انکے انگریز چینل پارٹنر کے پاس بھی ع کہاں جو حق کو دیکھ سکے۔ پولیس کی مستعدی دیکھیے اور انکے ساتھ ٹی وی والوں کی ،ڈیٹنگ، اور ،ٹائیمنگ، کہ صبح جائے حادثہ سے ہماری تصویر اور سارا شجرہ لے لیا۔ اسی وقت ایک کمبخت کہہ بھی رہا تھا، یہ جانے والا ہے اور کام کا ہے ،۔ لیجیے کام تمام ہوا اور کمبختوں نے ہمارے نام کے ساتھ ایک ،عالم، کو جوڑ دیا۔ ابھی بے بسی اور غصے سے ہم کسمسا رہے تھے کہ عجیب آواز سنائی دی۔ خیال ہوا ایک آدھ ہڈی شاید یہ صدمہ سہہ نہ سکی۔ آنکھ چراتے ہو ئے منحوس ٹی وی کی طرف دیکھا تو پتہ چلا کنٹرولر کے ہاتھ پھر  ریموٹ لگ گیا۔ چینل تیز رفتاری سے تبدیل ہونا شروع ہوا اور یہ اسی کی آواز تھی۔ اچانک پھر ایک چینل پر ہماری خبر۔ جوان  کچھ اپناسا کچھ شناسا لگا اور شاید یہی وجہ تھی کہ خبر کے ساتھ ہماری تصویر ندارد۔ کہہ رہا تھا۔ بریک کا وقت ہے تھوڑی دیر میں پھر حاضر ہوں گا، ”جائیے گا نہیں جرم ابھی باقی ہے” ۔  بس پھر چینل تبدیل ہو گیا ہم نے اس شناسا کا نام وغیرہ یاد کرنے کی کو شش کی تاکہ صبح پہلی فرصت میں اس سے رابطہ کریں اور اپنا حال بتائیں اور کہیں میرے بھائی  ”جائیے گا نہیں ظلم ابھی باقی ہے” ۔

پھر ہمیں یاد آگیا وہ تو ہمارے سسرال کا پڑوسی ہے۔ بس جان میں جان آئی کہ کچھ تو راہ نکلی۔  شیفتہ نے متجسس ہوکر بقراط کو درمیان میں ہی روک دیا اور پوچھا۔ کیا اس ٹی وی صحافی سے بات ہوئی تھی اور اب آپ اس ،چکر ویو، سے باہر ہیں یا نہیں۔ کہا اس سے بات ہوئی تھی تو کہنے لگا میں ابھی کچھ نہیں کرسکتا کیونکہ ہمارا ایک  ساتھی مارا گیا ہے اور ساری برادری اسکے قاتل کو ڈھونڈنے میں لگی ہے۔ اسکا دن دہاڑے سرِ عام قتل ہوا ہے۔ ہم نے کہا بہت دکھ ہوا سنکراور کسی بھی انسان کا قتل ناقابلِ معافی جرم ہے۔ کہنے لگا ہم لوگ سب سڑکوں پر نکل آئیں ہیں اور حکومت کی نیند حرام کردینگے۔ ہم لوگ قاتل کو ڈھونڈ نکالیں گے اور۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے کہا حضور اتنا وقت کیوں لگ رہا ہے۔ آپکی برادری تو  منٹوں میں مجرم کو ، پیدا،  کر کے پکڑوا لیتی ہے بلکہ کئی ، سّروگیٹ مدر ،  آپلوگوں نے پولیس کے ساتھ ملکر پال رکھی ہے۔ اور ٹی وی میڈیا کے تو خود کئی ،فوسٹرنگ فادرز، ہیں جو سیاست کی بساط کے بادشاہ ہیں۔  ،آواگون، کی تھیوری کا استعمال کر کے قاتل مجھے ہی ٹھہرا کیوں نہیں دیتے۔ دیکھو ہمارا نیا جنم تمہاری برادری نے کل ہی تو کیا ہے۔ اس نے فون منقطع کر دیا یا ہو سکتا ہے منقطع ہوگیا۔ لیکن کچھ سوچکر فوراً کال کر کے ہم سےملنے کا وعدہ کیا ہے اور مسئلہ حل کرنے کا یقین بھی دلایا ہے۔ اب ہر ایک ٹی وی صحافی ،انٹیلکچولی کرپٹ یا بینکرپٹ، نہیں ہوتانا۔ شیفتہ نے کہا الحمداللہ پھر کیا آپکو نیند آگئی تھی۔ کہا حضور وہ کنٹرولر شاید اپنی رات کی ڈیوٹی سے پرشان ہوکر چینلز بدلتا رہا اور ہماری نیند کا رخ بھی۔

  کنٹرولر پھر فاسٹ فارورڈ پر تل گیا۔ پھر جو چینل بدلا تو ایک مشہور امریکی چینل پر تر وتازہ خبریں۔ ہم نے سوچا ایسی تر وتازگی کا راز کیا ہو سکتا ہے۔  پھر یاد آیا وہاں تو یہ ابھی خوابِ خرگوش سے جاگے ہونگے۔انکے اپنے لیے کوئی بری خبر نہیں ہوتی بلکہ ساری بری خبریں اور برائیاں وہ منسوب کرچکے ہیں مسلمانوں کے نام۔ انکی صبح ڈالر سے شروع ہوتی ہے اور شام درہم و دینار لوٹ کر ختم۔ ہر صبح کو یہ دنیا کے لیے ایک نئی صبح لے کر آتے ہیں۔کنٹرولر شاید امریکہ مخالف ہوگا،   زیادہ وقت انکو برداشت نہ کرسکا اور چینل تبدیل کر دیا۔  ایک چینل پر عقل کا بیڑا غرق کرتے ہوئے ،ایم وی ویزڈم، نامی  ایک دیو قامت جہاز دکھایا گیا جو بمبئی جوہو کے ساحل پر قدم رکھنا چاہ رہا تھا۔ ہمیں لگا ہمیں ہی لینے آیا ہے اور کہہ رہا ہو آ اب لوٹ چلیں۔ ٹی وی پر خبری بتا رہا تھا شاید راستہ بھٹک گیا ہے۔ شیفتہ نے کہا وہ تو کولمبس بھی بھٹک گیا تھا جس کا خمیازہ آج ساری دنیا بھگت رہی ہے۔ بقراط نے مسکرا کر بات جاری رکھی اور کہا، خبری کہنے لگا۔ بریک کا وقت ہے کہیں مت جائیے، آپ سب بنے رہیے۔ ہم نے سوچا کیوں اور کبتک ہم بنے رہیں(بیوقوف) ۔ایک انگریزی چینل پر ایک جج صاحب اور انکے وکیل صاحبزادے پر بدعنوانی کا الزام لگایا گیا۔ ہمیں لگا انھوں نے عطاءاللہ قاسمی صاحب کی گزارش سن لی ہوگی ان کا مصرع ثانی تھا۔ عدل کو بھی صاحبِ اولاد ہونا چاہیے۔ دونوں پر الزام ثابت ہونے سے رہا کیونکہ  الزام اور ثبوت تو ان دونوں کے غلام رہ چکے تھے۔

وقت دیکھا گزرنے کا نام ہی نہیں لے رہا تھا۔ تھکن کے باوجود نیند تھی کہ ناراض۔  پھر اچانک چینل بدلا تو کچھ ایسی  بات سنائی دی ہم مستعد ہوگئے۔ کوئی کہہ رہا تھا اگر آپ ستمبر میں اور اتوار کو پیدا ہوئے اور وغیرہ وغیرہ میں سے ہیں ۔ سفید رنگ پسند کرتے ہیں تو آج کا دن آرام وسکون اور عیش سے بھر پور سمجھو۔ اور اگر آپ کے نام کا پہلا حرف ب ہے تو پورا ہفتہ لاکھوں کا مالی فائدہ سمجھو۔ کمبخت ساری نشانیاں اور علامتیں ہماری بتا رہا تھا اور اثرات و نتائج کسی خلیجی امیر کے۔ ہماری بد حالی پر طنز کررہا تھا۔ ہم ستمبر کے، ہم اتوار کے اور سفید رنگ پر مرنے والے۔ اور ہم ہی ب سے بقراط ۔سوچا کون ہو سکتا ہے یہ۔ کہیں کنٹرولر کی سازش نہ ہو۔ابھی یہ سوچ کر پریشان تھے کہ وہ کچھ ایسی علامتوں کا ذکر لے بیٹھا جو تھیں تو ہماری بیگم کی لیکن احمق  باتیں  غالب مرحوم کے دور کی کر رہا تھا۔ بلکہ کئی باتیں تو خود غالب سے منسوب کررہا تھا۔ اپنا نام کچھ دارو والا بتارہا تھا۔ کمبخت پیا ہوا ہی لگ رہا تھا۔ ہم سمجھ گئے یہ اس جھوٹے طوطا چھاپ کا رشتہ دار ہوگا۔ سوچا۔

اب گیا وہ "رفت و بود"، اب کہاں"چراغ و دود"۔۔۔جو غزل کی رکھّ حدود، جلائے دل کا آشیانہ

عالمِ بے بسی میں کیا کرتے۔ آنکھیں تو بند کر لیتے تھے لیکن کانوں کو بھی بند کرنا ضروری تھا۔ سوچا کاش کانوں پر بھی پلکوں کی کوئی چلمن ہوتی یا دو دو پٹ ہوتے اور آنکھوں کی طرح کانوں کو بھی موند کر سو جاتے۔ اکثر سو چا کرتےتھے اس فتنہ انگیز ماحول کے عذاب سے نابینا لوگ بچ گئے ہونگے لیکن آج احساس ہوا کہ بصارت و سماعت دونوں کا نہ ہونا کہاں کہاں فائدہ دے سکتا ہے۔

اچانک ایک ہندی چینل پر مسلمانوں کے خلاف وہی ذلالت کا مظاہرہ دیکھنے ملا۔ پس منظر میں پردہ دار خواتین کی تصویریں۔ تبصرہ دہشت گردی پر۔ ٹی وی صحافت کی آوارگی کا گھٹیا معیار کہ کوئی دہشت گرد ہو یا نہ ہو وہ الگ بات لیکن کسی کے شبستاں میں گھس کر خبروں کی گند چاٹنا صحافت کا کونسا اصول ہے۔ ہم نے سوچا، آوارگئ شوق کا عالم نہ پوچھیے۔۔ ہر پوشیدہ کو عریاں کرکے سنسنی پیدا کرو کیونکہ اطالوی، فرانسی اور آئی ایم ایف کے امراء و روساء کی عریانیت میں سنسنی کہاں کہ خبروں کے ننگے بازار میں کوئی قیمت ملے۔ شیفتہ نے کہا حضور بجا فرمایا۔ یہی وجہ تھی کہ کلنٹن جب تک اپنے معاشقہ کو ،کنزرویٹیو، اور فنڈامینٹلسٹ، کی طرح پوشیدہ رکھتے رہےٹی وی صحافت سنسنی پھیلاتی رہی لیکن وہ تو اسی ،رومن ہمام، سے نکلے تھے جہاں سے ایسی صحافت۔ اس لیے فوراً عریاں ہو گئے بلکہ پورے ملک کو عریاں کردیا تاکہ وطن کی پردگی بھی سنسنی نہ پیدا کردے۔ سفید جھوٹ کا منہ کالا کر ٹی وی صحافت پر دے مارا۔ سارا قصہ ختم اور سنسنی بھی ختم، خبر بھی ختم۔      

ایسا لگا اب جو چینل آیا کنٹرولر کا پسندیدہ ہوگا کیونکہ ہم تھک کر آنکھ موند چکے تھے اور اشتہارات کی بھرمار کے باوجود چینل تبدیل ہونے کی کوئی آواز سنائی نہیں دی ۔ اچانک اسی موگیمبو کی آواز سنائی دی۔ دیکھا تو وہی مقامی انگریزی چینل، وہی سرکس، وہی طے شدہ سیاستداں،  تاجر،  مبصر و  مشتہر۔ وہی ہرزہ سرائی اور زہر افشانی۔ لیکن میزبان موگیمبو کچھ چڑچڑا لگ رہا تھا۔ شیفتہ نے کہا حضور انگریزی بولتے ہوئےچڑچڑا پن انگریزوں پر تو جچتا ہے مگر اوروں پر نہیں۔ کیونکے وہ ،اپ سیٹ، ہو کر بھی،اپ اور سیٹ، ہی رہتے ہیں چڑچڑے نہیں ہوتے۔ بقراط پھر گویا ہوئے۔ کہا موگیمبو کسی سے غصے میں کچھ کہہ رہا تھا ....لیکن ہمیں تو لگا اسکا ،رخِ نا زیبا، ہماری طرف ہی ہے اور وہ ہمیں سے کہہ رہا ہے کہ۔ کسی کو ہم مجبور نہیں کررہے ہیں یہ نیوز چینل دیکھنے۔ کوئی چاہے تو نہ دیکھے۔ ہم نے سوچا اچھا بیوقوف بنایا جارہا ہے قوم کو کہ وہ لوگ کچھ نہ دیکھیں اور کچھ نہ جانیں کہ انکے خلاف کیا ہورہا ہے اور کتنا زہر اگلا جارہا ہے اور انکے جمہوری حقوق کا ،شدھی کرن، کیا جارہا ہے ۔ اچانک موگیمبو نے صوبہ بہار کے ایک سیاستداں کو تبصرہ کرنے مدعو  کیا جو غالباً کافی دیر سے بلکہ عرصہ سے خاموش تھے اس لیے بولے تو یوں بولے کہ جمائیاں لینے لگے اور بس پھر ہماری مراد برآئی اور ہم نیند کی آغوش میں چلے گئے۔      

    ***********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 887