donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Islamic Articles -->> Mohammad S.A.W. Ki Baten
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Sarapaye Rasool Jiske Aage Chand Bhi Sharminda Tha


سراپائے رسولﷺ


 جس کے آگے چاند بھی شرمندہ تھا


تحریر:غوث سیوانی،نئی دہلی


    ’’رسول اللہ کا نور پست وبالا کومنور کرتاتھا۔‘‘ یہ حضرت حسان بن ثابت رضی اللہ عنہ کے ایک مصرعہ کاترجمہ ہے‘ جسے سیرت النبی (ابن ہشام) کے اخیرمیں درج کیا گیا ہے‘ لیکن یہ صرف ایک شاعر کا پرواز تخیل نہیں‘ بلکہ حقیقت ہے‘ کیونکہ نبی رحمت ﷺ کاتربیت یافتہ ایک صحابی شاعری کے شوق میں حقیقت کو فراموش نہیں کرسکتا۔ آپ کا مقدس سراپا ایساحسین وجمیل تھا کہ اس سے بڑھ کر حسین وخوبرو اس دنیا میں نہیں آیا۔ اس حسن کا کیا کہناکہ جس کے صدقے بہاروں کودلکشی ملی ‘پھولوں کو تازگی ملی‘ سبزہ زاروں کو رعنائی ملی اور ہوائوں کو خرام ناز سے چلنے کا انداز ملا۔

خرام ناز سے چلنے کا دلنشیں انداز
نسیمِ صبح کو رفتارِ مصطفیٰ سے ملا

بہ الفاظِ دگر

حسن یوسف پہ کٹیں مصر میں انگشت زناں
سر کٹاتے ہیں ترے نام پہ مردانِ عرب

    سراپائے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیان احادیث اور سیرت کی کتابوں میں بہت تفصیل سے ملتا ہے۔ ایک محتاط مصنف ومؤرخ نے یوں بیان کیا ہے:

 ’’آپ نہ بہت طویل القامت تھے‘ نہ پستہ قد‘ مگر دوسرے لوگوں کے مجمع میں سب سے بالا معلوم ہوتے تھے۔ رنگ گندمی‘ پرملاحت‘ سرخی مائل تھا۔ سرمبارک بڑا‘ داڑھی خوب بھری ہوئی‘ بال سیاہ اور قدرے پیچیدہ‘ آنکھیں گول‘ بڑی، سیاہ ،پر رونق۔ سر کے بال سیدھے، اکثرکان کی لو تک اور کبھی کندھوں تک اور کبھی کان کی لو سے اوپر رہتے تھے۔ بھویں باہم پیوستہ ایک باریک سی رگ درمیان میں فاصل تھی کہ غصہ کے وقت ظاہر ہوتی تھی۔ آنکھوں کی سفیدی میںسرخ ڈورے بھی تھے۔ رخسار نرم اور پرگوشت تھے۔ سرمیں تیل ڈالتے تھے اورآنکھوں میں سرمہ لگاتے تھے۔ دانت مثل مروارید سفید وچمکدار تھے۔ تبسم کے سوا کبھی کھلکھلا کرنہ ہنستے تھے۔ آپ نہایت خندہ رو‘ شیریںکلام‘ فصیح شجاع اور جامع جمیع کمالات انسانیہ تھے۔ آپ کے دونوں شانوںکے درمیان مہر نبوت تھی۔ ‘‘             

 (تاریخ اسلام (مرتبہ مولانا اکبر شاہ خاںنجیب آبادی)

جلد اول‘ صفحہ:229)

دیکھ کر حیران ہے دنیا جمالِ مصطفیٰ
وہ مصور کیسا ہوگا جس کی یہ تصویر ہے

    دنیا میں جتنے بھی انبیاء کرام تشریف لائے‘ وہ جسمانی اور اخلاقی حسن کی دولت سے مالا مال تھے‘ کیونکہ وہ کائنات کے لئے ’’ماڈل‘‘تھے اور ان کی باتوں کو سننا‘ اس پر عمل کرنا لازم تھا۔ اس میں اللہ کی حکمت یہ بھی تھی کہ ان کی پرکشش شخصیت دنیا والوں کو ان کی طرف کھینچ لائے اور وہ نبیوں کی زبان سے پیغام الٰہی سنیں‘ مگر جب سیدالانبیاء صلی اللہ علیہ وسلم کو دنیا میں بھیجا‘ توان کے اندر تمام انبیاء کرام کی خصوصیات کواللہ نے جمع فرمادیا۔قرآن کریم کے تیسرے پارے کی ابتدائی آیت میںفرمایا گیا ’’یہ رسول ہیں‘ جنہیں ہم نے ایک دوسرے پر فضیلت وبرتری بخشی۔ ان میں سے کسی سے اللہ نے کلام فرمایا اور کسی کو درجوں بلند فرمایا۔‘‘ مفسرین کے مطابق جسے درجوں  بلند فرمایا‘ وہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات بابرکات ہے۔

وہی لا مکاں کے مکیں ہوئے ، سرِ عرش تخت نشیں ہوئے
وہ نبی ہیں جس کے ہیں یہ مکاں، وہ خدا ہے جس کا مکاں نہیں

    رسول رحمت صلی اللہ علیہ وسلم کے سراپائے نور کا مشاہدہ صحابہ کرام نے کیا اور اسی شرف نے انہیں مقام صحابیت پر بلند کیا۔ نبی کے سراپے کی جو تصویر انہوں نے پیش کی ہے‘ وہ بے مثل وبے مثال ہے۔ بارگاہ رسالت مآب کے خادم خاص حضرت انس  کی بیان کردہ روایت صحیح البخاری ومسلم میں یوں ہے:

     ’’آنحضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم انتہائی خوبرو‘خوش وضع اور خوش رنگ تھے۔ پسینہ کی بو ندیں موتیوں جیسی آبدار تھیں۔ میں نے کبھی کوئی ریشمی کپڑا آپ کی ہتھیلی مبارک سے زیادہ نرم نہ پایا اور کسی قسم کا مشک وعنبر آپ کے پسینے سے زیادہ دل پذیر خوشبو والا میںنے کبھی نہ سونگھا۔‘‘

عنبرزمین، عبیر ہوا، مشک تر غبار
ادنیٰ سی یہ شناخت تری رہ گذر کی ہے

    اسی طرح ترمذی میں حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی روایت موجود ہے کہ میں نے حسن ورعنائی کے ہزارہا جلوے دیکھے ہیں‘ پر رسول گرامی وقار صلی اللہ علیہ وسلم کے زلف ورخسار کی جلوہ سامانی کسی دوسرے مقام پر نظرنہ آئی‘ ایسا محسوس ہوتاتھا‘ گویا رخ انور پر آفتاب چمک رہا ہو۔

چمک تجھ سے پاتے ہیں سب پانے والے
مرا دل بھی چمکادے چمکانے والے

    حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے تن نورانی اور چہرۂ مبارک کی جلوہ سامانی کے تذکرے متعدد احادیث میں ملتے ہیں۔ دیکھنے والوں نے بار بار گواہی دی کہ ایسا حسین نہ عالم نے دیکھا اور نہ خالق نے دوسرا بنایا۔ اس حسن بے نقص کا دیدار ایک مرتبہ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ نے پونم کی رات میں کیا اور بے خود ہوکر دیکھتے رہے۔ اس وقت چودہویں رات کا چاند اپنے جوبن پر تھا۔ ہر طرف چاندنی کی برسات ہورہی تھی۔ پیڑوں کی پتیاں اورریت کے ذرات سفید روشنی میں نہائے ہوئے تھے۔ حیرت کی لہروں میں ڈوبتے‘ نکلتے ہوئے مدہوشی کے عالم میں حسن جہاں آراء کو دیکھتے رہے۔ کبھی چاند پرنظر ڈالتے‘ تو کبھی چہرۂ رسول کا نظارہ کرتے‘ آخر کار دل نے فیصلہ کیا کہ آپ کے انوار رخ کے سامنے چاند کی چمک بھی شرمندہ ہے۔

(دارمی)

ضو سے اس خورشید کے اختر مرا تابندہ ہے
چاندنی جس کے غبارِ راہ سے شرمندہ ہے

    رسول محترم صلی اللہ علیہ وسلم کی مقدس شخصیت میں ایسی جذب وکشش تھی کہ جو ایک بار آپ سے وابستہ ہوجاتا‘ کبھی جدا ہونا پسندنہ کرتاتھا۔ وہ حضرات ابو بکروعمر ہوںیا عثمان وعلی‘ وہ صہیب وبلال ہوں یا زید واسامہ‘ وہ ابوہریرہ ہوںیا حسان بن ثابت۔ وہ مہاجرین مکہ ہوں یا انصار مدینہ ‘سبھی آپ کے جمال جہاں آراء کے متوالے تھے۔ مشہور صحابی رسول حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کی آپ کے دربار سے وابستگی کا یہ عالم تھا کہ ایک لمحے کے لئے بھی آپ سے دوری پسند نہ کرتے تھے ‘ ہر وقت ادب واحترام کے ساتھ ہمہ تن گوش ہوکر بیٹھتے اورآپ کے روئے تاباں وجمال جاناں کو ٹکٹکی باندھے دیکھتے رہتے۔ ایک بار عقیدت سے سرشار ہوکر عرض کرنے لگے یا رسول اللہ آپ کا دیدار پرانوار روح کے لئے سرمایۂ حیات ہے اور آنکھوں کی ٹھنڈک ہے۔ بارگاہ رسالت میں حاضر باشوںکا یہ طریقہ تھا کہ بالکل خاموشی کے ساتھ بغیر جسم کو جنبش دئیے بیٹھے رہتے تھے۔ ایسا محسوس ہوتا گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اور جنبش سے اڑ جائیں گے۔ عقیدت ومحبت کا یہ عالم تھا کہ آپ سے منسوب چیزوں کا بھی احترام کیا جاتا۔ وضو فرماتے‘ تو پانی کے قطرے زمین پر گرنے سے پہلے ہی صحابہ کرام اپنے ہاتھوں میں اٹھالیتے‘ کلی کرتے ‘تو قطرہ ٔ آب نیچے گرنے سے قبل صحابہ بطور تبرک اچک لیتے اور اپنے سروں اور چہروں پر مل لیتے تھے۔ حج کے موقع پر سرمبارک کے بال منڈوایا‘ تو صحابہ نے ان مقدس بالوں کو اپنے درمیان تقسیم کرلیا‘ جو آج تک مختلف گھرانوں میں بطور تبرک چلے آرہے ہیں۔ جس بات نے ایک دنیا کو آپ کا والہ وشیدا بنا یا‘ وہ آپ کے ظاہری حسن وباطنی جمال کے ساتھ ساتھ اخلاق وکردار کی بلندی تھی۔ سچ کہا ہے کہنے والے نے کہ:

وہ کمالِ حسنِ حضور ہے کہ گمان نقص جہاں نہیں
یہی پھول خار سے دور ہے یہی شمع ہے کہ دھواں نہیں

آپ کے حسن کی محبوبیت کو دوسرے الفاظ میں یوں بیان کرسکتے ہیں:

حسینوں میں حسیں ایسے کہ محبوب خدا ٹھہرے
رسولوں میں رسول ایسے کہ ختم الانبیاء ٹھہرے

٭٭٭

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 705