donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Aziz
Title :
   Tahreek Babri Masjid Aur Javed Habib


تحریک بابری مسجد اور جاوید حبیب 
 
 عبدالعزیز 
 
بابری مسجد کی داستان لمبی ہے۔ اس پر کئی زبانوں میں کتابیں لکھی جاچکی ہیں۔ راقم نے بھی ایک کتاب لکھی ہے ۔ اس وقت اس داستان کو لکھنا نہیں ہے بلکہ بابری مسجد کی بازیابی کیلئے جو تحریک شروع ہوئی اس کے متعلق چند ضروری باتیں رقم کرنا یا پیش کرنا ہے۔ ساتھ ہی مسجد کی بازیابی کیلئے جو تحریک چلائی گئی اس کے ایک ایسے کردار کا ذکر کرتا ہے جس کی صفت قلندرانہ اور مومنانہ تھی، جس کو دنیا جاوید حبیب کے نام سے جانتی ہے۔ اس وقت میری  میز پر ایک کتاب ہے جو اردو کے ممتاز اور معروف صحافی معصوم مراد آبادی کی مرتب کردہ ہے۔ کتاب کا نام ’’جاوید حبیب : ہجوم سے تنہائی تک‘‘۔ اس کتاب میں جاوید حبیب پر ان کے دوستوں اور آشناؤں کے قلم سے 25مضامین شامل ہیں۔ ہر مضمون دل سے لکھا گیا ہے ہر مضمون میں جہاں جاوید حبیب کی زندگی کے نقوش اجاگر کئے گئے ہیں اور ان کی غیر معمولی اور دلآویز شخصیت کا ملی، صحافتی، ادبی ، سیاسی اور انسانی پہلو سامنے آتا ہے۔وہیں دو تحریکوں’’بابری مسجد اور علی گڑھ مسلم یونیورسی کے اقلیتی کردار‘‘ کی تاریخ کے وہ اوراق پڑھنے کو ملتے ہیں جو شاید ہی کسی کتاب کا جز یا حصہ ہوں۔ ساتھ ہی بہت سی ایسی شخصیتوں کا ذکر بھی ملتا ہے جو آج دنیا میں نہیں رہیں مگر ان کے قدموں کے نشان آج بھی ہندستان کی زمین پر دکھائی دیتے ہیں۔ جاوید حبیب کے چند ممتاز ساتھیوں کا بھی حال و احوال ملتا ہے جو آج بھی ہندستان کی سیاست کے پردہ پر نظر آتے ہیں۔ میں معصوم مراد آبادی کا بیحد شکر گزار ہوں کہ انھوںنے مجھے یہ کتاب چند دنوں پہلے جب کلکتہ کے ایک صحافتی سیمینار میں تشریف لائے تو مجھے پڑھنے کیلئے دی۔ جاوید حبیب کی شخصیت اور کارناموں سے میں بھی واقف تھا۔میری دو بار ان سے ملاقاتیں بھی ہوئی تھیں۔ ایک بار کلکتہ میں اور آخری بار ان کی موت سے غالباً چند ماہ پہلے دہلی میں مگر کتاب پڑھ کر افسوس ہوا کہ مجھے جاوید حبیب صاحب جیسی نابغہ روزگار شخصیت کے ساتھ کام کرنے کا موقع نہیں ملا۔ اس سے پہلے کہ جاوید حبیب صاحب بابری مسجد کے مسئلہ کے بارے میں کیا سوچتے تھے اور کیا رائے رکھتے تھے یہ سنئے ان کا اس مسئلہ سے کتنا گہرا لگاؤ تھا ان کے ایک عزیز دوست شاہد جمال عباسی صاحب کے ایک مضمون کے ایک اقتباس سے اندازہ کیجئے۔ وہ لکھتے ہیں : 
’’ظاہری طور پر جاید حبیب کی موت گیارہ اکتوبر 2012ء کو ہوئی، لیکن سچ پوچھئے تو یہ جاوید حبیب کی جسمانی موت تھی۔ ان کی روحانی موت تو بابری مسجد کی شہادت کے دن یعنی 6دسمبر1992ء کو ہی ہوگئی تھی کیونکہ اس کے بعد میںنے جاوید حبیب کو ہنسنا تو دور رہا کبھی پورے ہونٹوں سے مسکراتے ہوئے بھی نہیں دیکھا۔ ہاں بابری مسجد کی شہادت کے بعد بچوں کی طرح بلک بلک کر روتے ہوئے تو دیکھا ہے، پاگلوں کی طرح چلاتے ہوئے بھی دیکھا ہے، فاقہ کرتے ہوئے بھی دیکھا ہے، مہینوں گم صم رہتے ہوئے بھی دیکھا ہے۔ غرض یہ کہ ان کو ہر شکل اور ہر روپ میں دیکھا ہے لیکن جب بھی دیکھا ہے زندگی سے دور ہی دیکھا ہے۔ موت اگر اپنے اختیار میں ہوتی تو شاید جاوید حبیب بھی 6دسمبر 1992ء کو ہی لبیک کہہ کر موت کو گلے لگ جاتے کیونکہ وہ بابری مسجد کی شہادت کا ذمہ دار صرف اپنے آپ کو مانتے تھے اور اپنے پاس آنے جانے والوں سے کہتے تھے کہ میں مجرم ہوں، میں مسجد کو بچا نہیں سکا۔ آپ لوگ مجھے سزا دیجئے۔ مجھے اب ایک پل بھی جینے کا اختیار نہیں ہے لیکن موت ان کے بس میں نہیں تھی اس لئے اس کو پانے کیلئے انھیں تقریباً بیس سال تک انتظار کرنا پڑا، یہ تنا ان کا کردار۔ انہی کے ساتھ کے کچھ ایسے لوگ بھی ہیں جو گری ہوئی مسجد کے ملبے کے سہارے اقتدار کے گلیارے تک پہنچ گئے‘‘۔
(دریا کو دیکھتا ہوا پیاسا گزر گیا۔ راشٹریہ سہارا، گورکھپور ایڈیشن، 18نومبر 2012ئ) 
جاوید حبیب نے بابری مسجد کے مسئلہ پر ایک انٹرویو میں کہا:
’’ممکن ہے کہ کچھ لوگ میری رائے سے اتفاق کرنے میں پس و پیش کریں لیکن میری مستحکم رائے یہ ہے کہ مسجد اقصیٰ پر استعماری اور صیہونی طاقتوں کا غاصبانہ قبضہ اور بابری مسجد کو رام جنم بھومی بنانے کی کوشش اگر براہ راست نہیں تو بالواسطہ ایک ہی سازش کی کڑیاں ہیں۔ مسلمانوں کے قبلۂ اوّل پر قبضے کے بعد یہودی درندے ارض مقدس خانہ کعبہ اور مدینہ منورہ پر قبضے کے ناپاک خواب دیکھ رہے ہیں تاکہ قلب اسلام اور مراکز مسلمانانِ عالم پر ان کی دسترس ہوجائے اور ٹھیک وہی ذہنیت ہندستان میں کام کر رہی ہے کہ بابری مسجد کے قبضے کو ہندو راشٹر بنانے کے عزائم کی تکمیل کا ذریعہ بنایا جارہا ہے۔ صیہونیت عالمی پیمانے پر اور برہمنیت ہندستانی تناظر میں کم و بیش ایک ہی ذہنیت کے دو رخ ہیں۔ صیہونیت اور استعماریت نے مل کر جس طرح عالم اسلام پر جدید صلیبی یلغار کی ہے۔ ٹھیک اسی طرح ہندستان میں برہمنیت کا فسطائی ٹولہ ایک نئے سامراجی دھرم یدھ کی بھر پور تیاری میںمصروف ہے۔ مسجد اقصیٰ پر ناپاک یہودی قبضے سے جس طرح بیشتر عرب ممالک کے سربراہوں نے کوئی سبق نہیں لیا، اسی طرح کا ڈر ہندستان میں مسلم علماء اور سیاسی قیادت کی موجودہ روش سے پیدا ہوتا ہے‘‘۔ 
 
صاحب کتاب روزنامہ ’’جدید خبر‘‘ کے ایڈیٹر جناب معصوم مراد آبادی بابری مسجد اور جاوید حبیب کے تعلق سے اپنی کتاب میں قمطراز ہیں: 
’’بابری مسجد بازیابی تحریک: یکم فروری 1986ء کو بابری مسجد کا تالا کھلنے کے بعد پورے ملک کے مسلمانوں میں غم و غصہ پھیل گیا اور 6فروری 1986ء کو لکھنؤ میں ’بابری مسجد ایکشن کمیٹی‘ کی تشکیل عمل میں آئی۔ اسی کے ساتھ دہلی میں جاوید حبیب نے بابری مسجد ایکشن کمیٹی کی تشکیل دی، جس میں مولانا سید احمد ہاشمی، نواب الدین نقشبندی اور چودھری راحت محمود سرگرم تھے۔ شاہی امام سید عبداللہ بخاری کو اس کمیٹی کا سرپرست بنایا گیا تھا۔ 22دسمبر 1986ء کو احاطہ مہندیان دہلی میں کل ہند بابری مسجد کانفرنس منعقد ہوئی جس میں اندر کمار گجرال، چندر جیت یادو اور کلدیپ نیئر جیسے سیکولر لیڈروں کو شریک کرانے میں جاوید حبیب نے اہم کردار ادا کیا۔ بابری مسجد بازیابی تحریک کو سیکولر رخ دینے میں جاوید حبیب کی کوششوں کا بڑا دخل تھا۔ ان کا خیال تھا کہ بابری مسجد کا مسئلہ قانونی اور آئینی بنیادوں پر حل ہونا چاہئے اور اس تحریک کا رخ فرقہ واریت کے مقابلے میں سیکولر خطوط پر استوار ہونا چاہئے۔ ہر چند کہ ان کی اس کوشش کو جزوی کامیابی ملی لیکن وہ آخری وقت تک اس تنازعے کا ایک باوقار اور باعزت حل تلاش کرنے کی جدوجہد میں دیواروں سے سر ٹکراتے رہے۔ دہلی میں منعقدہ کل ہند بابری مسجد کانفرنس میں بابری مسجد تحریک رابطہ کمیٹی تشکیل پائی، جس میں سید شہاب الدین کے ساتھ جاوید حبیب بھی شامل ہوئے۔ بعد کو جب سید شہاب الدین صاحب نے 26جنوری 1987ء کو یوم جمہوریہ کے بائیکاٹ کی کال دی تو دونوں میں اختلافات ہوگئے۔ بعد کو ایکشن کمیٹی کے کئی لیڈران نے فیصلہ کیا کہ دہلی میں دوسری آل انڈیا بابری مسجد کانفرنس منعقد کی جائے اور اس میں آل انڈیا بابری مسجد ایکشن کمیٹی تشکیل دی جائے۔ لہٰذا جاوید حبیب کے تعاون سے شاہی امام عبداللہ بخاری کی سرپرستی میں جامع مسجد کے احاطہ میں دوسری کل ہند بابری مسجد کانفرنس کا انعقاد عمل میں آیا۔ جاوید حبیب بابری مسجد ایکشن کمیتی کے ترجمان کے طور پر ایک بار پھر پورے ملک میں متعارف ہوئے اور انھوں نے میڈیا کے ذریعہ اپنا کیس پوری مضبوطی کے ساتھ ملک کے سامنے پیش کیا۔ 
 
1990-92ء میں بابری مسجد کے مسئلے پر نرسمہا راؤ اور چندر شیکھر کے ذریعہ وشو ہندو پریشد کے لیڈروں کے ساتھ بابری مسجد ایکشن کمیٹی کے لیڈران کی گفتگو میں جاوید حبیب کا بہت اہم کردار رہا۔ انہی کی کوششوں کے نتیجے میں پروفیسر عرفان حبیب اور پروفیسر آر ایس شرما جیسے مورخین سے آئی ایس ایچ آر کے دفتر میں ایکشن کمیٹی کے لیڈروں کی ملاقات ہوئی۔ ان سیکولر مورخین کے تعاون سے وشو ہندو پریشد سے گفتگو اور بابری مسجد مقدمے میں گواہی کے علاوہ کثیر تعداد میں آثار قدیمہ کے ماہرین کی فراہمی بھی ہوسکی؛ لیکن 6دسمبر 1992ء کو بابری مسجد کی شہادت کے بعد جاوید حبیب کی شخصیت کے انہدام کا ایک انتہائی تکلیف دہ دور شروع ہوا۔ انھوںنے بابری مسجد کی شہادت کے خلاف قومی یکجہتی کونسل کی رکنیت سے مستعفی ہونے کا اعلان کیا‘‘۔
 
بابری مسجد کی شہادت کے ساتھ ہی جاوید حبیب کی زندگی کا ایک انتہائی تکلیف دہ اور المیاتی دور شروع ہوا۔ بلند حوصلوں اور عزائم کے ساتھ زندگی شروع کرنے والا ایک عظیم انسان بابری مسجد کی شہادت کا غم برداشت نہیں کرسکا اور اس کا منفی اثر ان کی شخصیت پر نمایاں ہوگیا۔ جاوید حبیب پر نفسیاتی اور جذباتی تشنج کی کیفیت طاری ہوگئی اور وہ آہستہ آہستہ ہری بھری دنیا سے دور ہوتے چلے گئے۔ بابری مسجد کی شہادت کے بعد 20سال کا عرصہ انھوں نے سخت اذیت، بیماری اور پریشانی میں گزارا۔ اس کے ساتھ ہی دو معذور بچوں کی پرورش اور نگہداشت کی ذمہ داریوں ے انھیں گھر میں قید کرکے رکھ دیا۔ فرحت احساس کے لفظوں میں: 
 
’’بابری مسجد کے انہدام کے ساتھ جاوید حبیب کا وجودی انہدام ان کا ذاتی المیہ نہیں تھا مگر اسے ان کا ذاتی المیہ ہوجانا پڑا یا بنا دیا گیا، بالکل اسی طرح جیسے ملک کی تقسیم مولانا آزادی کا ذاتی المیہ نہیں تھی مگر ہوگئی یا بنا دی گئی کیونکہ اس المیے کو مہاتما گاندھی یا پنڈت نہرو یا سردار پٹیل سے کہیں زیادہ مولانا آزاد نے اپنی روح پر جھیلا۔ تقسیم مولانا کو اپنی اخلاقی، علمی اور روحانی شکست محسوس ہوئی جبکہ دیگر رہنماؤں کیلئے یہ محض ایک ایک سیاسی شکست تھی یا تاریخی طاقتوں کی ناگزیر کشاکش کی لازمی بے رحمانہ منطق کا نتیجہ۔ ملک کی تقسیم کے بعد مولانا آزاد کے پاس بھی کرنے کو کچھ نہیں رہا تھا، سوائے اس کے کہ اپنے وجود کو سنبھالتے رہیں۔ مسجد انہدام کے بعد جاوید حبیب کے وجود کا دس فی صد بھی باقی نہ رہا تھا، نہ اندر نہ باہر کہ وہ کچھ کر پاتے۔ اسلامیت اور ہندستانیت کی یکجائی کے ہاتھوں سے ہندستانی مسلمانوں کیلئے ایک حقیقی جمہوری قیادت تشکیل دینے کا جو خواب انھوں نے دیکھا تھا، اب اسے تصور کے آسمان سے اتارنے کیلئے زمین ہی فراہم نہیں تھی۔ اب نہ وقت کا وہ چاک تھا نہ ممکنات کی وہ مٹی اور نہ فکر و عمل کے وہ ہاتھ جو اس خواب کو مرئی پیکروں میں ڈھالتے‘‘۔
 
 موبائل: 9831439068
azizabdul03@gmail.com      

**********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 782