donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashfaqur Rahman Sharar
Title :
   Islami Tahzeeb Ko Badnam Karne Ke Zimmedar Ham Khud Hain


’اسلامی تہذیب کو بدنام کرنے کے ذمہ دار ہم خود ہیں‘    


 اشفاق الرحمن شررؔ  مئوناتھ بھنجن، یوپی۔  


موبائل: 9415842309  

(e-mail: sharar68@gmail.com)


    دنیا ہمیشہ سے ہی دو حصوں میں منقسم رہی ہے۔ ایک فرزندان توحید اور دوسرے منکر توحید یا دشمن اسلام۔ فرزندان توحید رب ذالجلال کو معبود مانتے ہیں اور شریعت کے پاسدار ہوتے ہیں لیکن مخالف ہمیشہ سے ہی اسلام کو زیر کرنے کی کوشش اور موقع کی تلاش میں رہتے ہیں یہاں تک ان کے شر سے انبیائے کرامؑ بھی محفوظ نہیں رہ سکے، ان پر بہتان باندھا گیا، زندہ آگ کے حوالے کیا گیا اور سرور کائنات محسن انسانیت رسول عربیؐ  کو کوڑے و پتھر مارے گئے، جسم اطہر پر اونٹ کی اوجھڑی ڈالی گئی، تھوکا گیا، کوڑا پھیکا گیااس طرح آپؐ  کو جتنی اذیتیں دی گئیں اتنی کسی نبیؑ کو نہیں دی گئیں۔ اصل میں اسلام توحید، خدمت خلق، مساوات، ایک دوسرے کے حقوق کی ادائیگی کا درس دیتا ہے اورغیر اسلام میں انسانوں میں اعلیٰ و ادنیٰ، بندہ و بندہ پرور، آقا و غلام، ظلم و زیادتی وغیرہ کا عام رواج ہے۔ اسلام کے دشمن صرف اس لئے دشمنی کرتے ہیں کہ ان کو انسان کے اندر مساوات پسند نہیں، ادنیٰ و اعلیٰ کے نام پر، آاقا و غلام کے نام پر معاشرہ کو بانٹ کر رکھنا چاہتے ہیں اور اپنی برتری قام رکھنے کے لئے شرک، مادہ پرستی، ظلم و زیادتی روا رکھتے ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ اگر پوری دنیا میں اسلام اور اسلامی تہذیب عام ہو جائے گے تو انکی جھوٹی خدائی کا بھرم ٹوٹ جائے گا اور وہ خوار ہونگے۔ اس لئے وہ ہر ممکن کوشش کرتے ہیں کہ اسلام بدنام ہو اور اس کی ترویج نہ ہونے پائے اور اپنے مقصد کے حصول کے لئے نت نئے نئے طریقے اختیار کرتے ہیں۔ کبھی مسلمانوکے ایمان کمزور کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو کبھی اسلام اور مسلمانوں کے خلاف لوگوں کو گمراہ کرتے ہیںتو کبھی اسلامی تہذیب کی غلط تشریح کر کے مسلمانوں کو نشانہ بناتے ہیں۔ تین طلاق کے نام پر اسلام اور مسلمانوں کو نشانہ بنانا اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے اور جانے انجانے میں ہم مسلمان خود ان کے حصول مقصد میں معاون بن رہے ہیں۔

    حقیقت میں طلاق زوجین کے لئے ایک نعمت ہے لیکن اسے زحمت بنا دیا گیا ہے۔ طلاق کا مقصد ہے کہ زوجین میں نباہ کی کوئی صورت نہ ہو، بیوی بدچلن یا نافرمان ہو اور بار بار سمجھانے یا سختی کرنے کے بعد بھی بعض نہ آتی ہو، زوجین میں کسی کو کوئی مہلک اور لاعلاج مرض لاحق ہو تو طلاق کے ذریعہ ایک دوسرے سے علیٰحدگی اختیار کر لیں۔ جہاں طلاق کی اجازت دی گئی ہے وہیں طریقہ بھی بتایا گیا ہے کہ اگر کوئی بیوی نافرمان ہو تو پہلے اسے سمجھانے کی کوشش کی جائے جب سمجھانے سے نہ سمجھے تو ہلکی سختی کی جائے، پھر بھی نہ سمجھے تو عارضی طور پر بستر الگ کرلیا جائے۔ اس کے باوجود بھی اگر کوئی اصلاح نہ ہو تو ایسے بڑے بزرگوں کے ذریعہ جن کا وہ احترام کرتی ہے کوشش کی جانی چاہئے۔ جب اصلاح کی کوئی صورت نظر نہ آئے تو ایک طلاق دیا جائے پھر اس کو سدھرنے کا موقعہ دیا جائے اگر راہِ راست پر آجاتی ہے تو رجوع کرلیں ورنہ دوسری طلاق دیں پھر بھی کوئی فرق نہ آئے تو تیسری طلاق دے کر علیٰہدگی اختیار کر لیں۔ لیکن افسوس صد افسوس کہ ہم نے طلاق کا غلط استعمال شروع کر دیا ہے جس کی وجہ سے اسلامی تہذیب اور شریعت بدنام ہو رہی ہے اور دشمنان اسلام کو موقع ملتا ہے۔ طلاق اس وقت کے لئے بنایا گیا کہ جب نباہ کی کوئی صورت نہ ہو لیکن ہمارے معاشرے میں طلاق کو اتنا عام کردیا گیا ہے گویا یہ ہماری تہذیب کا ایک حصہ ہو ۔ اس پر بھی طریقہ سے الگ ہٹ کر طلاق دیا جاتا ہے ذرا ذرا سی بات پر بندوق کے فائر جیسے تین طلاق دے دیتے ہیں اور بعد میں روتے پھرتے ہیں علمائے کرام اور مفتیان سے رجوع کرتے ہیںکہ کوئی صورت نکل آئے۔ اسی تابڑتوڑ طلاق کی وجہ سے ہی ہمارا معاشرہ اور زیادہ بدنام ہے۔ ایک بار میں تابڑ توڑ دی گئی تین طلاق واقع ہوئی یا نہیں اس کا فیصلہ مفتیان کریں گے لیکن لیکن یہ غیر فطری طریقہ ضرور ہے۔ دنیا کے کسی بھی معاشرہ میں کسی کے غلطی کرنے پر اسکو صفائی کا موقع دیا جاتا ہے یا سزا دینے سے پہلے اس بات پر غور کیاجاتا ہے کہ اس کی غلطی کتنی بڑی ہے ار سزا کیسی دی جائے لیکن ہمارے بھائی لوگ بیویوں کی چھوٹی سی غلطی پر بھی سب سے بڑی سزا کا مستحق قرار دے دیتے ہیں جبکہ علمائے کرام بتاتے ہیں ہیں کہ جائز کاموں میں سب سے گرا ہوا اور گھٹیا کام طلاق ہے۔ ایک وقت میں تین طلاق پر وقتاً فوقتاً مباحثے ہوتے رہتے ہیں۔ ایک وقت میں تین طلاق کے واقع ہونے یا نہ ہونے پر اختلاف برقرار ہے اب تک علمائے کرام اس موضوع پر متفق نہیں ہو پائے ہیں۔ اگریہ اختلاف صرف علمائے کرام تک رہتا تو کوئی حرج نہیں تھا بہت سارے اختلافی مسائل جیسے یہ بھی ایک مسئلہ ہوتا۔ برا تو اس وقت ہوا جب یہ مسئلہ ہمارے درمیان سے نکل کر ٹی وی اور اخبارات کا موضوع بن گیا اور اب ملک کی سب سے بڑی عدالت سپریم کورٹ تک جا پہونچا ہے۔ اخبارات اور ٹی وی پر تو ہماری تہذیب کا مذاق بنایا ہی جاتا ہے اور اس کو زیادہ دلچسپ بنانے کے لئے کچھ نام نہاد علماء یا شریعت کی باغی خواتین کو مباحثہ میں شریک کر لیا جاتا ہے۔ آج سپریم کورٹ میں عرضی بھی کسی غیرمسلم فرد یا تنظیم نے نہیں بلکہ سائرہ بانو نامی مسلم خاتون نے ہی دی ہے جو ایک وقت میں تین طلاق کو خواتین کے حقوق کی پامالی ثابت کرنا چاہتی ہے۔ اس حالت کے ذمہ دار ہم مرد ہی ہیں اگر ہم مردوں نے خواتین کے حقوق اور مقام کا لحاظ رکھا ہوتا جو ان کو شریعت مطہرہ نے دیا ہے تو نہ کوئی شاہ بانو پیدا ہوتی اور نہ ہی سائرہ بانو۔ ہم نے خواتین پر ظلم کیا، ان کے حقوق  مارے، ان کے مقام کو نہیں پہچاناتو خواتین کا باغی ہونا فطری بات ہے۔ اب وہ زمانہ گذر گیا جب خواتین صرف محکوم تھیں اور مردوں کے رحم و کرم کی محتاج تھیں آج خواتین تعلیم یافتہ ہیں، روزی کمارہی ہیں، مردوں کے شانہ بشانہ چل رہی ہیں تو ان کے اندر شعور بھی آنا لازمی ہے، وہ اپنے حقوق اور مقام کو بھی جان چکی ہیں ان سب کے علاوہ ہر معاشرہ میں بگاڑ آیا ہے تو اسکا اثر بھی خواتین پر پڑنا فطری بات ہے۔ ہر معاشرہ کی طرح خواتین میں بھی عدم برداشت میں اضافہ ہوا ہے۔ ہمارے پیدا کردہ حالات کے سبب ہمارے ہی گھروں سے شاہ بانو اور سائرہ بانو پیدا ہو رہی ہیں ایسی خواتین بھی ہیں جو ٹی وی چینل کے مباحثہ میں بیٹھ کر شریعت کو ہی چیلنج کرتی ہیں۔ اگر ہم نے اپنی ذمہ داری کو محسوس کرتے ہوئے اپنی اولاد کو اسلای تہذیب کے مطابق تربیت دی ہوتی، ایک دوسرے کے حقوق ادا کئے ہوتے، اسلامی اصولوں کی پابندی اور پاسداری کی ہوتی تو آج اسلام اور مسلمان اس قدر دنیا میں بدنام نہیں ہوتا۔ ہمارے لئے اس سے گری ہوئی بات کیا ہوگی کہ دنیا کے سب سے بڑے جمہوری ملک میں جہاں کے دستور میں ہر فرد کو اپنے مذہب پر عمل کرنے، اپنی تہذیب اختیار کرنے اور زبان سیکھنے سکھانے کی آزادی ہو وہاں شرعی مسائل عدلیہ طے کرے گی۔ابھی ہم نے 1985 میں شاہ بانو کیس میں سپریم کورٹ کا حکم دیکھا ہے جس کے خلاف پورے ملک میں مظاہرے ہوئے تھے مسلمانوں کے ساتھ کچھ سیکولر غیر مسلم بھی سڑکوں پر نکل گئے تھے۔ ان مظاہروں کو روکنا یا مظاہرین پر قابو پانا حکومت کے بس کا نہیں تھا آخر میں حکومت کو جھکنا پڑا اور پارلیمنٹ میں سپریم کورٹ کے حکم کے خلاف قانون پاس کر نا پڑا تھا۔ ہم نے اس کیس سے کوئی عبرت نہیں حاصل نہیں کی اور نتیجے سے بے پروا  اپنی مرضی چلاتے رہے اور سائرہ بانو کی شکل میں دوسری شاہ بانو کھڑی کر دیئے۔ اس وقت تو کانگریس کی حکومت تھی جسے مسلمانو کا ووٹ چاہئے تھا آج بی جے پی کی حکومت ہے جسے  یقین ہے کہ اسے مسلم ووٹ نہیں ملیں گے اور نہ ہی اسے ہمارے ووٹوں کی ضرورت ہے بی جے پی بھلا کیوں ہماری حمایت کریگی۔ بی جے پی کی مرکزی حکومت نے تو اعلان بھی کردیا ہے کہ وہ سپریم کورٹ میں خواتین کے حقوق کا لحاظ رکھتے ہوئے اپنا بیان درج کرائے گی یعنی مسلمانوں اور مسلم پرسنل لاء کے خلاف بیان دیگی۔ یہ بات تلخ ضرور ہے لیکن حقیقت ہے اور مجھے عرض کرنے میں کوئی تردد بھی نہیں کہ پورے حالات اور اسلامی تہذیب کو بدنام کرنے کے ذمہ دار ہم خود 
ہیں۔

***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 903