donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mushtaq Ahmad
Title :
   Bihar Me Taleem Ke Agende Ka Jayeza Lene Ki Zaroorat


بہار میں تعلیم کے ایجنڈے کا جائزہ لینے کی ضرورت 

 

 ٭ڈاکٹر مشتاق احمد

 موبائل:0943141458

 ای میل: rm.meezan@gmail.com

 

 

    ماہِ رواں قومی سطح پر تعلیمی سرگرمیوں کا ہے کہ ریاستی اور مرکزی امتحان بورڈوں کا ریزلٹ منظرِ عام پر آبھی گیا ہے اور بقیہ اس ماہ کے آخر تک آجائے گا ۔ نتائج کے بعد دسویں اور بارہویں کے طلباء یونیورسٹیوں اور دیگر پروفیشنل وووکیشنل تعلیمی اداروں کا رخ کریں گے۔ بہار ملک کی ایک ایسی ریاست ہے جہاں سے ہر سال لاکھوں طلباء ہجرت کر دوسری ریاستوں کی یونیورسٹیوں اور دیگر تکنیکی اداروں میں داخلہ لیتے ہیں۔ کیوں کہ ریاست میں اعلیٰ اور تکنیکی تعلیم کا نہ تو معقول انتظام ہے اور نہ ہی سازگار ماحول ہے۔ اگرچہ طلباء کی ہجرت گذشتہ ایک دہائی میں کثرت سے بڑھی ہے لیکن تعلیمی نظام کا ڈھانچہ تو تقریباً تین دہائی سے متزلزل ہے اور اس کی فکر نہ ریاستی حکومت کو رہی ہے اور نہ یہاں کے دانشوروں نے اس مسئلہ کے حل کے لئے کبھی کوئی ٹھوس پہل کی۔ نتیجتاً دنوں دن ریاست سے دوسری ریاستوں کے تعلیمی ا داروں میں داخلہ لینے والے طلباء کی تعداد میں اضافہ ہی ہوتا جا رہا ہے ۔ ایک اندازے کے مطابق دہلی کی تمام یونیورسٹیوں میں 32فی صد طلباء بہار کے ہوتے ہیں۔ اسی طرح کرناٹک، مہاراشٹر،اڑیسہ، تامل ناڈو ، آندھرا پردیش،راجستھان، اتر پردیش اور ہریانہ کے پرائیوٹ میڈیکل وانجنیرنگ کالجوں میں 40سے45فی صد طلباء بہار کے ہوتے ہیں۔ واضح ہو کہ ان طلباء کی مہاجرت کی پہلی وجہ یہ ہے کہ یہاں آبادی کے لحاظ سے اب بھی میڈیکل اور انجنئیر نگ کالجوں کی تعداد کم ہے۔ سرکاری اداروں میں داخلے کا نظام بھی قدرے مختلف ہے اور پرائیوٹ تعلیمی اداروں کی تعداد بھی محض انگلیوں پر گنی جا سکتی ہے ۔ مجبوراً ایسے گارجین جن کی استعداد اتنی ہے کہ وہ اپنے بچوں کی موٹی فیس بھر سکیں وہ مذکورہ ریاستوں کے تعلیمی اداروں میں داخلہ دلواتے ہیں تاکہ بچوں کا مستقبل سنور سکے۔ مگر متوسط طبقے یا غریب طبقے کے ذہین بچے جن کا داخلہ سرکاری اداروں میں نہیں ہو پاتا وہ چاہ کر بھی ریاست سے باہر کے نجی اداروں میں داخلہ نہیں لے پاتے کیوں کہ ان کے گارجین حضرات اتنی موٹی فیس کی رقم برداشت نہیں کر سکتے۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ گذشتہ ایک دہائی میں بہار میں تعلیم حاصل کرنے کی طرف رجحان بڑھا ہے لیکن یہاں کی حکومت نے تعلیمی ایجنڈے کو سیاسی ہتھکنڈہ توضرور بنایا مگر کبھی بھی سنجیدہ فیصلہ نہیں لیا کہ بڑھتی آبادی اور شرح خواندگی میں اضافے کے ساتھ اعلیٰ تعلیم کی طرف بڑھتے رجحان کے مطابق اعلیٰ تعلیمی ادارے قائم کئے جائیں ۔ بالخصوص تکنیکی تعلیمی ادارے کھولے جائیں۔

     غرض کہ ریاست بہار میں تعلیمی ایجنڈا گذشتہ تین دہائیوں سے حاشیے پر ہے۔موجودہ نتیش حکومت نے بنیادی اور ثانوی تعلیمی ڈھانچے کو مستحکم بنانے کی کوشش ضرور کی ہے لیکن پرائمری سے لے کر ثانوی سطح تک کے اسکولوں میں معاہدے پر بحال اساتذہ پر ایک طرف تعلیمی معیار کے حوالے سے سوال اٹھتا رہا ہے تو دوسری طرف ان اساتذہ کی کم تنخواہ کو لے کر بھی تحریکیں چلتی رہی ہیں جس سے تعلیمی نظام بھی متاثر ہوتا رہا ہے  ۔ظاہر ہے ایک ہی اسکول میں ایک ہی کام کے لئے الگ الگ شخص کو الگ الگ رقم مل رہی ہو تو کم رقم پانے والے کے اندر بے چینی ہونا فطری عمل ہے۔ اگرچہ حکومت کا اشارہ ہے کہ وہ آئندہ مستقبل میں ان کی بھی تنخواہ پر نظر ثانی ہوگی مگر مستقل اساتذہ کی طرح انہیں تمام تر سرکاری سہولیات نہیں دی جائے گی۔جب کہ کنٹریکٹ اساتذہ مستقل اساتذہ کے مساوی تنخواہ کے ساتھ تمام سرکاری سہولیات چاہتے ہیں۔

 بہر کیف حکومت اور اساتذہ تنظیم کے درمیان جو رسّہ کشی چل رہی ہے اس کا خمیازہ ریاست کے اسکولی بچوں کو ہی بھگتنا پڑ رہا ہے۔ جہاں تک اعلیٰ تعلیمی اداروں کا سوال ہے تو اس کی صورتحال بھی دیگر گوں ہے کہ ریاست کے کالجوں میں 60فی صد اساتذہ کی جگہیں خالی پڑی ہیں۔ سینکڑوں کالج ایسے ہیں جہاں کئی مضامین میں لکچرار ندارد ہیں۔ واضح ہو کہ 1996 ء میں 1400کالج لکچرار کی بحالیاں ہوئی تھیں پھر اس کے بعد 2003ء میں تقریباً 800اساتذہ کی تقرری ہوئی تھی ۔ غرض کہ ایک دہائی میں جتنے اساتذہ سبکدوش ہوئے ہیں ان کی جگہوں پر نئی بحالیاں نہیں ہو پائی ہے۔ نتیجہ ہے کہ ریاست کے بیشتر کالجوں میں اساتذہ کا فقدان ہے اور اس کا خمیازہ طلباء کو اٹھانا پڑ رہا ہے ۔یہی وجہ ہے کہ حالیہ دنوں میں میٹرک اور انٹر میڈیٹ کے امتحانات میں نقل نویسی کا رجحان بڑھا ہے ۔ جس کی وجہ سے ریاست کی بدنامی بھی ہوئی ہے اور یہاں کے ذہین طلباء کو ذہنی اذیت بھی پہنچی ہے کہ نقل نویسی تو ریاست کے خاص علاقوں میں ہوتی ہے لیکن میڈیا میں جس طرح اس کی تشہیر کی جاتی ہے اس سے پوری ریاست کے تعلیمی نظام پر سوالیہ نشان لگتا ہے۔  ریاست کے وزیر تعلیم پی کے شاہی نے اس نتیجے پر اطمینا ن کا اظہار کیا ہے۔ لیکن سچائی یہ ہے کہ بہار میں بارہویں درجہ کی تعلیم اور پھر امتحان کے بعد کاپی جانچ کا جو طریقہ کار ہے وہ ناگفتہ بہ ہے کہ اس طریقۂ کار سے ذہین طلباء کو خسارہ ہوتا ہے۔اس کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ کاپیوں کی جانچ کے لئے ایسے اساتذہ کو مامور کیا جاتا ہے جنہیں کبھی سرکاری تنخواہ نہیں ملتی۔ یعنی ریاست بہار میں غیر سرکاری کالجوں کے اساتذہ سال بھرپیٹ پر پتھر باندھ کر کام کرتے ہیں ۔ ایسی صورت میں کاپیوں کی جانچ کے وقت جو افراتفری کا ماحول ہوتا ہے اس سے ایک طرف کمتر صلاحیت کے لڑکوں کی چاندی ہو جاتی ہے تو دوسری طرف با صلاحیت طلباء کو خسارہ عظیم پہنچتا ہے کیوں کہ کاپی جانچ میں ایوریج مارکنگ کا چلن عام ہوتا ہے۔ظاہر ہے کہ ممتحن حضرات ایک دن میں ۵۰؍ سے ۱۰۰ ؍ کاپیوں تک دیکھتے ہیں۔ اسی سے اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ طلباء کے ساتھ کس طرح انصاف کیا جاتا ہوگا؟مگر ان سب باتوں پر کبھی بھی حکومت کی توجہ نہیں ہوتی ۔ بہار اسکول اکزامنیشن بورڈ ہویا ہائر سکنڈری بورڈ ،بہار انٹر میڈیٹ کونسل محض امتحان لینے اور ریزلٹ شائع کرنے تک محدود ہے ۔ تعلیمی نظام ، امتحانات کے طریقۂ کار ، کاپیوں کی جانچ کی اصلاح ، باصلاحیت ممتحن کے انتخاب پر کبھی غور ہی نہیں کیا گیا ۔ بس برسوں سے جو روش چل رہی ہے وہ چل رہی ہے۔یہی وجہ ہے کہ آج 70فی صد میٹرک پاس طلباء ایک درخواست لکھنے کے قابل بھی نہیں ہیں اور 50فی صد انٹر میڈیٹ پاس طلباء گریجویٹ میں داخلہ لینے کے لئے فارم بھی خود سے پُر نہیں کر سکتے۔ یہ میں پوری ذمہ داری کے ساتھ اپنے ذاتی مشاہدے کی بنیاد پر کہہ رہا ہوں ۔یونیورسٹیوں اور کالجوں میں اساتذہ کا فقدان بھی ایک سنگین مسئلہ ہے ۔ ریاست کی یونیورسٹیوں میں اورکالجوں میں تقریباً 4000لکچرار کی پوسٹیں خالی ہیں۔ گذشتہ دس برسوںسے ان پوسٹوں کو بھرنے کی سیاست ہو رہی ہے ۔ لیکن اب تک بغیر اساتذہ کے ہزاروں طلباء ڈگری لے کر کالجوں سے نکل چکے ہیں ۔

    مختصریہ کہ ریاست میں پرائمری تعلیم سے لے کر اعلیٰ تعلیم کاڈھانچہ دنوں دن متزلزل ہوتا جا رہا ہے اور تعلیمی ایجنڈا دنوںدن حاشیے پر جا رہا ہے ۔ جب کہ سچائی یہ ہے کہ جس ریاست میں تعلیمی ایجنڈا مفید بخش اور مستحکم نہیں ہوتا اس ریاست کی تقدیر کبھی بھی سنور نہیں سکتی۔ یہ ایک لمحۂ فکریہ ہے جس پر نہ صرف اربابِ اقتدارکو غوروفکر کرنا ہوگا بلکہ ریاست کے ان طبقوں کوبھی متوجہ ہونا ہوگا جو ریاست کے تابناک مستقبل کے خواہاں ہیں۔

***************

Comments


Login

You are Visitor Number : 622