donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   Muslim Samaj Islami Tahzeeb Ka Numaind Kiyon Nahi Banta


مسلم سماج ،اسلامی تہذیب کا نمائندہ کیوں نہیں بنتا؟


سماجی برائیوں کے خلاف علماء سامنے آئیں


تحریر: غوث سیوانی، نئی دہلی

 

    اسلام دنیا کا سب سے اچھا مذہب ہے مگر مسلمان دنیا کی بدترین قوم کیوں بن گئی ہے؟ مسلم سماج برائیوں کا گہوارہ کیوں بن گیا ہے اور اسے ٹھیک کرنے کے لئے سنجیدہ کوششیں کیوں نہیں ہوتیں؟ عام مسلمان علماء کی باتوں پر دھیان کیوں نہیں دیتے اور سماجی خرابیوں کو اصلاح کے لئے کوشاں کیوں نہیں ہوتے؟کیا ان کی اصلاح کے لئے کوئی فرشتہ آسمان سے اترے گا؟ اسلام کے احکام کے خلاف مسلمان شادیوں میں فضول خرچی کیوں کرتے ہیں؟ کیا اسلام میں اس قسم کی شادیوں کا کوئی تصور ہے جیسی کہ آج بھارت میں رواج پاچکی ہیں؟ کیا ایسی شادیوں پر لگام لگ سکتی ہے؟ کیا علماء دین مسلمانوں کو اسلامی طریقے سے شادی پر راضی کرسکتے ہیں؟ اگر علماء اس معاملے میں سختی کریں تو مسلمان سیدھے راستے پر آجائینگے؟ کیا جہیز اور شادیوں میں نمود ونمائش اسلام کے خلاف نہیں ہے اور اس کے مضر اثرات سے سماج کو نقصان نہیں پہنچ رہا ہے؟ اگر یہ درست ہے تو علماء دین، مفتیان کرام، ائمۂ مساجد اور رہبران قوم اس کی مخالفت کیوں نہیں کرتے؟ حال ہی میں بریلی کے مولانا توقیر رضا خان نے ایک قابل تقلید اعلان کیا ہے کہ مسلمان اسلامی طریقے سے شادی بیاہ کریں اور جو غیر اسلامی طریقے سے شادی کی تقریب کرے، ایسی تقریب میں علماء جانے اور نکاح پڑھانے سے انکار کردیں۔ انھوں نے کئی سماجی برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی اور اسی کے ساتھ ساتھ انھوں نے ماحولیاتی مسائل کی طرف بھی لوگوں کی توجہ مبذول کرانے کی کوشش کرتے ہوئے پولوتھین بیگس کے بائیکاٹ کی بھی اپیل کی۔ ظاہر ہے علماء کی طرف سے اگر سماجی اور ماحولیاتی مسائل پہ آواز اٹھائی جائے تو یہ قابل تحسین ہے اور مولانا توقیر رضا کی طرف سے آواز اٹھنا اور بھی اچھی بات ہے کیونکہ وہ اعلیٰ حضرت مولانا احمد رضا خان فاضل بریلوی رحمۃ اللہ علیہ کے پوتے ہیں۔ اس لحاظ سے ساری دنیا میں ان کے عقیدت مند موجود ہیں اور اہل سنت والجماعت کے اندر ان کے چاہنے والوں کی کوئی کمی نہیں ہے۔ ان کے ذریعے اٹھنے والی اس آوازکی بازگشت دور تک سنی جائیگی اور صرف بھارت ہی نہیں بلکہ بیرون ملک میں بھی اس آواز پہ لوگ کان دھرینگے۔ وہ اتحاد ملت کونسل کے چیرمین ہیں اور عموماً سخت گیر علماء کے بر خلاف مسلمانوں میں مسلکی تفریق سے اوپر اٹھ کر اتحاد کی بات کرتے رہتے ہیں۔ اب انھوں نے سماجی برائیوں کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور ضرورت اس بات کی ہے کہ دیگر طبقات کے لوگ بھی اس جانب توجہ دیں اور انھیں ختم کرنے کی کوشش کریں۔

نکاح سنت یا سنت سے بغاوت؟

    دنیا کے کسی بھی ملک میں جہیز کی ویسی روایت نہیں ملتی جیسی کہ برصغیرہندوپاکستان میں ملتی ہے۔ یہاں مسلمانوں نے غیر مسلموں کی وہ تمام خرابیاں اپنالی ہیں جو مہلک ہیں۔یہاں ہندووں کی طرح مسلمانوں کی شادیوں میں بھی جہیز کا رواج بہت عام ہوگیا ہے، حالانکہ اسلام کے اندر جہیز کا تصور ہی نہیں تھا۔ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خود کبھی کسی قسم کا جہیز نہیں لیا اور نہ ہی کسی شادی میں دھوم تھام کی۔ آپ نے اپنی بیٹیوں کی شادی میں بھی کسی قسم کا دکھاوا نہیں کیا اور نہ ہی جہیز کا لین دین کیا۔ اپنی سب سے چہیتی بیٹی حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا کو رخصت کرتے وقت آپ نے جو جہیز دیئے وہ ہے پانی کا مشکیزہ، آٹا پیسنے کی چکی اور اسی قسم کی ایک دو معمولی چیزیں۔ اُس عہد میں عموماً مسلمانوں کے نکاح مسجد میں ہوا کرتے تھے اور نکاح سے قبل اعلان کردیا جاتا تھا۔ کوئی بارات نہیں ہوتی تھی اور نہ ہی باراتیوں کیلئے کھانے پینے کا انتظام کیا جاتا ہے۔ ولیمہ کی دعوت ضرور ہوتی تھی جس میں عام طور پر گھر میں موجود کھانے پینے کی چیزیں پیش کردی جاتی تھیں۔ کوئی پرتکلف انتظام نہیں کیا جاتا تھا۔ یہ سادہ طریقہ اگر اپنا لیا جائے تو سب کے لئے آسانی پیدا ہوجائے اور سب لوگ زحمت سے بچ جائیں۔ کوئی لڑکی کنواری نہ بیٹھی رہے اور نہ اس کے والدین کو جہیز اور شادی کے خرچ کے لئے اپنی جائیداد فروخت کرنی پڑے۔ بعض اوقات تو یہ بھی دیکھا جاتا ہے کہ غریب افراد اپنی بیٹیوں کی شادیوں کے لئے چندہ مانگتے پھرتے ہیں، جو یقینا ہمارے معاشرے کے لئے ایک بڑا مسئلہ ہے اور انتہائی شرم کی بات ہے۔ علماء کرام اپنی تقریروں میں سادگی کی تلقین ضرور کرتے ہیں مگر اب حالات ایسے ہیں کہ صرف تلقین سے کام نہیں چلتا بلکہ اس سے آگے بڑھ کر کچھ کرنے کی ضرورت ہے۔ مولانا توقیر رضا خان نے جو پہل کی ہے وہ قابل تقلید ہے اور بعض علما بھی ان کی حمایت میں آئے ہیں مگر ضرورت اس بات کی ہے کہ اس تحریک کو پورے ملک میں پھیلایا جائے۔ مولانا توقیر رضا خان کی آواز میں آواز ملاتے ہوئے مفتی فرقان صاحب کا کہنا ہے کہ جہیز تو غیر قانونی چیز ہے اور ملک کے آئین میں اسے جرم قرار دیا گیا ہے مگر اس کے باوجود جاری ہے۔ اس سے سختی سے نمٹنا ہوگا اور اس کے لئے علما ء کو آگے آنا پڑے گا۔ وہ کہتے ہیں کہ آج کل مسئلہ صرف جہیز کا ہی نہیں ہے بلکہ ایک بڑا مسئلہ شادی کے انتظام کا بھی ہے۔ جس ہوٹل یاہال میں شادی کا انتظام کیا جاتا ہے اس کا ایک دن کا کرایہ ڈیڑھ لاکھ روپئے تک ہوتا ہے۔مالدار افراد اس سے بھی مہنگی جگہیں کرائے پر حاصل کرتے ہیں۔ یہ کم نہیں ہے اور اتنی رقم جمع کرنا آسان کام نہیں ہے۔ ایک عام مڈل کلاس کا آدمی یہ خرچ نہیں اٹھاسکتا اور اسے اس کے لئے اپنی پوری زندگی کی کمائی گنوانی پڑتی ہے۔ یہ سب کچھ نام و نمود کے لئے کیا جاتا ہے۔ اس قسم کی شادیاں سنت کے مطابق نہیں ہیں اور سماج کے لئے زحمت بن گئی ہیں۔ مولانا توقیررضا خان کے ساتھ کچھ اور بھی علماء آئے ہیں مگر سوال یہ ہے کہ یہ مسئلہ کسی ایک مسلک یا مکتب فکر کا نہیں ہے۔ اس کے لئے سب کو آگے آنا ہوگا اور سبھی مسلک کے علماء کو اس کی مخالفت کرنی ہوگی۔انھوں نے کہا ہے کہ جن شادیوں میں فضول خرچی ہو، جہاں ڈی جے بجائے جائیں اور دکھاوا کیا جائے وہاں علماء نکاح پڑھانے کے لئے نہ جائیں۔ ظاہر ہے کہ یہ نکتہ قابل غور ہے اور یہ تب ہی کارآمد ہوگا جب سبھی علماء اتحاد کا مظاہرہ کریں۔ اگر ایک عالم نے نکاح پڑھانے سے انکار کردیا اور دوسرے نے نکاح پڑھا دیا تو اس سے مسئلہ کا حل نہیں نکلے گا۔ مسلمانوں کو آج سکھوں سے سبق لینے کی ضرورت ہے جو دولت مند ہونے کے باوجود اپنی شادیاں گردواروں میں کرتے ہیں اور فضول خرچیوں سے بچتے ہیں مگر اسلامی احکام کے باوجود مسلمان ان فضول خرچیوں سے اجتناب نہیں کرتے۔  

سماجی مسائل اور ہمارا معاشرہ

    اس وقت مسلم معاشرہ کئی سماجی برائیوں سے دوچار ہے جن میں سے ایک تو یہی ہے کہ شادیاں غیر اسلامی طریقے سے ہورہی ہیں مگر خرابی صرف یہیں تک محدود نہیں ہے۔ مسلم محلے جنہیں کم از کم اسلامی تہذیب کا نمائندہ ہونا چاہئے وہ اس قدر بدتہذیب نظر آتے ہیں جنھیں دیکھ کر کوئی بھی ہمارے مذہب کے بارے میںغلط فہمی کا شکار ہوسکتا ہے۔ جس قدر گندگی مسلم محلوں میں ہوتی ہے کہیں اور نہیں ہوتی۔ جس قدر گالی گلوج کی آواز مسلم محلوں میں سنائی پڑتی ہے کہیں اور سنائی نہیں پڑتی۔ ہمارے محلوں میں ایسے لوگوں کی بھی کمی ہے جو مقامی مسائل کو مل بیٹھ کر حل کرلیں اور انھیں پولس و کورٹ تک نہ جانے دیں۔ ظاہر ہے کہ اس قسم کے مسائل میں بھی علماء دین کی رہنمائی کیضرورت ہے۔ مسجدوں کے ائمہ اپنی جمعہ کی تقریروں کے ذریعے عوام میں بیداری پیدا کرسکتے ہیں۔ مولانا توقیر رضا خان نے جو بات کہی ہے وہ اور اس جیسے دیگر مسلم مسائل کو اگر مسلم پرسنل لاء بورڈ اور دیگر مسلم جماعتیں آگے لے کر بڑھیں تو کیا ہی خوب ہو،کیونکہ ان کا دائرۂ اثر وسیع ہے اور یہ ان کے کرنے کا کام بھی ہے۔ ہم اگرہر معاملے میں حکومت کی طرف دیکھیں گے تو ہمارا کوئی کام نہیں ہوگا، جو ہمارے کرنے کا کام ہے وہ تو کرنا ہی چاہئے۔ مثلاً ابھی عیدالضحیٰ کا اسلامی تیوہار گزرا اور عموماً بقرعید کے بعد مسلم محلوں کا حال قابل دید ہوتا ہے۔ جہاں تہاں جانوروں کی باقیات اور اوچھڑیاں پڑی ہوئی نظر آتی ہیں جو بدبو پھیلانے کے ساتھ ساتھ بیماریوں کا سبب بھی بنتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جو مسلمان پچاس پچاس ہزار تک کے جانور خریدنے کی طاقت رکھتے ہیں وہ چند روپئے خرچ کرکے صفائی کیوںنہیں کراسکتے؟ اسلام نے تو پاکیزگی کو آدھا ایمان قرار دیا ہے اور ہمارے ہاں پاکیزگی کا جو عالم ہے اس سے توبہ بھلی۔ ان دنوں نریندر مودی پورے ملک کو صفائی کا مطلب سمجھا رہے ہیں،حالانکہ یہ کام تو ہمیں کرنا چاہئے تھا کیونکہ ہمارے مذہب نے تو چودہ سو سال قبل ہی صفائی اور پاکیزگی کا سبق دیا تھا مگر جب ہم آج تک خود کو صاف نہیں کرپائے تو دنیا کو کیا صفائی سکھائینگے۔

یہ عبادت ہے یا ریاکاری؟

    آج کل یہ بھی دیکھا جارہا ہے کہ فیس بک اور دیگر نیٹ ورکنگ سائٹس پر مسلمانوں نے قربانی کا ویڈیو اپ لوڈ کر رکھا ہے اور اسے وہ بہت بڑا اسلامی کارنامہ سمجھتے ہیں۔ حالانکہ اس قسم کی حرکتیں جو دوسروں کے لئے اذیت کا سبب بنیں کسی بھی طرح اسلامی نہیں ہوسکتیں۔ قربانی کا حکم تو تقرب الٰہی کے لئے ہے اور یہ عبادت ہے مگر اس کا ویڈیو یا اسٹل فوٹو گراف کسی ویب سائٹ پہ ڈالنا ریاکاری کے سوا کیا ہوگا؟ عبادت تو اسی وقت تک عبادت ہے جب تک اس میں خلوص ہو مگر ہمارے مسلمان بھائیوں کی اس قسم کی حرکتوں سے ایک تو غیر مسلم برادران وطن کی دل شکنی ہوتی ہے ،دوسرے ان کے اندر یہ پیغام جاتا ہے کہ مسلمان انتہائی ظالم اور خونخوارہوتے ہیں، جو بے دردی کے ساتھ جانوروں کو ذبح کرتے ہیں اور ان کی اس حرکت کو مذہب کی پشت پناہی حاصل ہے۔ ظاہر ہے کہ آج جو کچھ دنیا میں اسلام کے بارے میں غلط فہمیاں ہیں وہ ہماری ایسی ہی حرکتوں کا نتیجہ ہیں اور اس کے باوجود ہم اپنی روش کو بدلنے کے لئے تیار نہیں ہیں۔  

ماحولیات کی حفاظت کریں

    ہم جس دنیا میں رہتے سہتے ہیں اور جس سماج میں جیتے ہیں اس کے تئیں ہماری کچھ ذمہ داریاں بنتی ہیں۔ کیا آدمی اس مکان کو اپنے ہاتھوں سے تباہ وبرباد کرتا ہے جس میں وہ رہتا سہتا ہے؟ ہرگز نہیں! مگر ہم اس دنیا کو تباہ و برباد کرنے میں کوئی کور کسر نہیں چھوڑتے جس میں رہتے سہتے ہیں۔ ماحولیاتی کثافت اس دھرتی کے لئے قاتل ثابت ہورہا ہے۔ پلاسٹک اور پولوتھن بیگس سے ماحولیات کو نقصان پہنچ رہا ہے اور زمین کے نیچے موجود پانی تک پینے کے لائق نہیں بچا ہے۔ پلاسٹک، ربر اور اس قسم کے کچروں کے سبب بارش کا پانی زیر  زمین نہیں پہنچ پارہا ہے جو اس دھرتی کے مستقبل کے لئے ایک بڑے خطرے کی علامت ہے۔ کبھی ایسا نہیں ہوا تھا کہ علماء کی طرف سے ان خطرات کے خلاف آواز اٹھانے کی کوشش ہوئی ہو۔ خیر سے مولانا توقیر رضا خاں نے اس اہم مسئلے پر بھی آواز اٹھائی ہے اور ان کی حمایت میں خانقاہ نیازیہ کے مولانا شبو میاں نے بھی بیان دیا ہے۔ انھوں نے مسلمانوں سے کہا ہے کہ وہ پولوتھن بیگس کا بائیکاٹ کریں، اس سے ماحولیات کونقصان پہنچ رہا ہے۔ اس پر سپریم کورٹ نے پہلے ہی پابندی عائد کررکھی ہے۔ علماء کی طرف سے اس قسم کی آواز کا اٹھنا خوش آئند ہے کیونکہ آج کے زمانے میں بھی مسلمانوں کا ایک بڑا طبقہ علماء کی باتیں سنتا ہے اور دیندار لوگوں سے رغبت رکھتا ہے۔ کیا ہی اچھا ہو کہ تبلیغی جماعت جس کی پہنچ دنیا کے ۲۱۳ ملکوں تک ہے ، اس قسم کے ایشوز کو اپنے اجتماعات میں اٹھائے اور عام مسلمانوں کو ان مسائل کے تئیں بیدار کرنے کی کوشش کرے۔ (یو این این

نوٹ :مضمون نگار ٹی وی پروڈیوسر اور اسکرپٹ رائٹر ہیں


^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^^

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1474