donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Gholam Ghaus
Title :
   Kya Arbi Madaris Aur Math Convento Ka Muqabla Kar Sakte Hain


کیا  عربی مدارس  اور  مٹھ  کانونٹوں  کا مقابلہ کر سکتے ہیں  ؟   


 از : غلام غوث ،  کورمنگلا  ، بنگلور ۔ 

فون :9980827221


        دنیا بھر کے تمام ماں باپ یہی چاہتے ہیں کہ انکی اولاد علم  ( دین اور دنیا  دونوں ) حاصل کرے اور روزی روٹی کما کر اپنی زندگی گزارنے کے قابل بنے   ۔ کوئی بھی یہ نہیں چاہتا کہ اسکی اولاد علم تو حاصل کرے مگر خود کی روزی روٹی کمانے کے قابل نہ رہے چاہے  وہ  بچپن میں کسی اسکول میں پڑھے یا کانونٹ میں یا کسی عربی مدرسہ میں ۔  بچپن کھیلنے اور علم حاصل کر نے کے لئے ہو تا ہے اور جوانی علم کے ساتھ ساتھ روزی روٹی کمانے کے لئے ہو تی ہے ۔  اگر کوئی علم تو حاصل کر لے مگر روزی روٹی کمانے کے قابل نہ رہے یا علم حاصل کئے بغیر صرف روزی روٹی کمانے کے قابل بن جائے  تو دونوں صورتیں قابل قبول نہیں ہیں ۔  اس کے لئے ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے اسکول  ،  کانونٹ،  عربی مدرسے اور  مٹھ سب کے سب علم بھی سکھائیں اور روزی روٹی کمانے کا  ہنر بھی ۔  ایک زمانہ تھا جب اسکولوں اور کانونٹوں دونوں جگہ تمام مذاہب کی بنیادی تعلیمات اور اخلاقیات کا نچوڑ پڑھایا جا تا تھا ۔  مگر آج حالات ویسے نہیںہیں  ۔  اخلاقیات پر زور کم ہے مگر دوسری دنیاوی معاملات پر زور زیادہ ہے ۔  مذہبی مدرسوں اور مٹھوں کی حالت یہ ہے کہ مذہب کے رسم و رواج پر زور زیادہ ہے مگر دنیاوی معاملات پر بلکل خاموشی ہے ۔  چناچہ دونوں جگہ سے جو بچے باہر نکلتے ہیں وہ علم کے ایک میدان سے بہت کم واقفیت رکھتے ہیں ۔  انکی اس حالت کے لئے صحی لفظ ـ ـ نیم تعلیم یافتہ  ہی ہو سکتا ہے ۔  اسکولوں اور کانونٹوں سے باہر نکلنے والے بچے تو ملازمت میں ،  ہنر میں اور بزنس میں بہت کامیاب ہو جا تے ہیں مگر جو بچے مدرسوں اور مٹھوں سے باہر نکلتے ہیں وہ بیکار  ہو جا تے ہیں ۔  وہ نہ ملازمت کے قابل رہتے ہیں ،  نہ کوئی ہنر جانتے ہیں اور نہ ہی اچھے بزنس مین بن سکتے ہیں ۔  ایسے بچے صرف عقیدے کی بنیاد پر یہ کہکر اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں کہ رزق کا دینے والا اللہ ہے اور جو ہمارے مقدر میں ہے وہ ہمیں ضرور ملے گا ۔  ایسے بچے جب دیکھتے ہیں کہ وہ اپنی روزی روٹی کمانے کی قابلیت نہیں رکھتے تو وہ یا تو کسی مسجد  مندر میں امام موذن یا پجاری بن جا تے ہیں یا خود کا ایک مدرسہ یا مٹھ کھول کر دوسرے معصوم بچوں کو بھی اپنے جیسے بنا دیتے ہیں ۔  آج حالت یہ ہے کہ ایسے مدرسوں اور مٹھوں سے نکلنے والے بچے کہیں بھی ملازمت کے قابل نہیں ہیں سوائے ان مدرسوں اور مٹھوں کے جہاں مذہبی علم کے ساتھ ساتھ دنیاوی علم و ہنر بھی سکھائے جا تے ہیں ۔  اسکولوں اور کانونٹوں کے بچوں کو چھوڑئیے کیونکہ وہ روزی روٹی کما تو ضرور لیتے ہیں اور ساتھ ہی ساتھ اگر کوشش کریں تو خود کتابیں پڑھ کر مذہبی معلومات حاصل کر لیتے ہیں ۔  مشکل تو انکی ہے جو مذہبی علم تو رکھتے ہیں مگر بڑے لیول پر روزی روٹی کما نہیں سکتے ۔  دو وقت کا کھانا تو اٹھا پٹک کر کے ہر کوئی کما سکتا ہے مگر ایسے افراد ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مجبور اور لاچار رہ جا تے ہیں ۔  عقیدہ اپنی جگہ اور اللہ پر بھروسہ اپنی جگہ مگر کوشش اور جد و جہد تو ہر کسی کو کرنا ہے ۔  مگر جب بنیاد ہی کمزوری  پر رکھدی جائے  تو عقیدہ اور اللہ بھی اسے اتنا ہی دے گا جتنی اسکی صلاحیت ہے  ۔ ہر بے علم اور بے ہنر آدمی خود کفیل اور مالدار نہیں ہو سکتا ۔  ایک دو افراد کی مثال پیش کر کے ہم ہر کسی کو اس راستے پر نہیں ڈال سکتے ۔  اب ذرا اپنے عربی مدارس پر نظر ڈالئے اور انکی تاریخ کا مطالعہ کیجیے تو آپکو معلوم ہو جائے گا کہ اب سے تین سو سال پہلے ہمارے مدرسے ایسے نہیں تھے جیسے آج ہیں ۔  اْس وقت نہ  آج کے  جیسے اسکول تھے  نہ کانونٹ  اور کالج ۔  جو بھی تھا وہ خانقاہ اور مٹھ تھے اور انمیں دینی اور دنیاوی فرق نہیں تھا ۔  خانقاہ تمام علوم کا مرکز ہوا کرتے تھے ۔  آج جس طریقے پر مدرسے چلائے جا رہے ہیں پہلے وہ طرز و طریقہ نہیں تھا ۔  آج جس طرح سرکار اسکول اور کالج چلا رہے ہیں اور کچھ پرائیویٹ حضرات بھی چلا رہے ہیں وہ اپنے صرفے سے چلا رہے ہیں  ویسے ہی جیسے پہلے راجے مہاراجے اور بادشاہ اپنے صرف خاص سے خانقاہ اور مٹھ چلایا کر تے تھے جہاں بچوں کے کھانے پینے اور رہنے کا بندوبست ہو تا تھا  اور ہر طرح کا علم اور ہر قسم کا ہنر ان بچوں کی صلاحیت کے مطابق انہیں دیا جا تا تھا ۔  چناچہ وہیں سے عالم و فاضل بھی نکلتے تھے ۔ سپاہی بھی ، بزبس مین بھی ،  ٹیچرس بھی ،  منشی بھی ،  سنار بھی ،  لوہار بھی ،  کارپنٹر بھی  ،  فلسفی بھی  ،  سائنس دان بھی  اور دیگر ماہرین بھی  ۔  آج جس طرح عوامی چندے سے مدرسے چل رہے ہیں ویسے پہلے بہٹ ہی کم مدرسے چلتے تھے اور مدرسوں کے مہتمم خود اپنا بزنس کر تے تھے یا محنت مزدوری کر تے تھے اور خانقاہ بھی چلایا کر تے تھے ۔  آج اکثر مدارس ان بے ہنر لوگوں کے لئے خود کی ملازمت کا ذریعہ بنا لیے گئے ہیں ( Self employment schemes )  ۔ کچھ مسجدوں میں نماز کے  فورا بعد کوئی مذہبی حلیے والا شخص کھڑا ہو جا تا ہے اور اعلان کر تا ہے کہ  فلاں دور دراز غربت زدہ علاقے میں ہم ایک مدرسہ چلا رہے ہیں جہاں ساٹھ غریب بچے پڑھ رہے ہیں جنکا سالانا خرچ بیس لاکھ روپیے ہے جو صرف آپ جیسے مخیر حضرات کے چندے سے چلایا جا رہا ہے ۔  اسلئے آپ دل کھول کر چندہ دیجیے اور اپنے اور اپنے خاندان والوں کے لیے جنت فردوس حاصل کیجیے۔  یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ جب یہ صاحب خود مالی حیثیت سے کمزور تھے تو کس نے ان صاحب سے کہا کہ وہ ان غریب بچوں کو جمع کریں اور انکے نام پر چندہ کر کے انکا اور خود کا پیٹ بھرے ۔  کچھ لوگ بھی ایسے معصوم ہیں کہ جنت کو آسانی سے خرید لینے والی چیز سمجھ کر ایسے لوگوں کی مدد کر دیتے ہیں ۔   اسکے چلتے ہر بیکار شخص اسے کمانے کا آسان راستہ سمجھ کر مدرسے کے نام پر مکتب کھولنے شروع کر دیتے ہیں جہاں نہ کوئی مخصوس کورس ہو تا ہے اور نہ ہی کوئی ہنر سکھایا جا تا ہے ۔  کچھ مذہبی حضرات کو ضرور برا لگے گا مگر ان ساٹھ بچوں کا کیا جو تھوڑی تعلیم حاصل کر کے نکل جاتے ہیں اور بیکاری کا شکار ہو جا تے ہیں ۔  جگہ چندے کی ،   عمارت چندے کی ،  روزانہ خرچ اور تنخواہ چندے کے مگر سب کا سب ٹرسٹ کہہ کر  مہتمم کے نام اور اسکے خاندان کے نام ۔  اسے کہیں تو کیا کہیں ؟ ۔  آج سے بیس سال پہلے تک ہمارے عربی مدارس میں کمپیوٹر اور دیگر ہنر سکھا نے پر پابندی تھی اور آج بھی کچھ مدارس میں یہ پابندی ہے ۔   آج کچھ  مدارس ایسے  بھی ہیں  جہاں نہ تو  اساتذہ اخبارات پڑھتے ہیں اور نہ ہی طالب العلم بچے ۔  اب ایسے بچے جب ان مدارس سے باہر نکلیں گے تو انکی حالت بلکل ایسی ہو گی جیسے کوئی گہرے پانی کے اندر اپنی آنکھیں کھول رہا ہے ۔  اللہ کا فضل ہے کہ آج کئی مدارس نے اس کمزوری کو محصوس کر تے ہوے  بچوں کو ہنر بھی سکھانے کا کام شروع کر دیا ہے  جسکے سبب وہ مدرسوں سے نکل کر خود کا کاروبا ر کر سکتے ہیں ۔  یہ جو موجودہ اسکول  اور کانونٹ ہیں وہ سب 1858کے بعد انگریزوں کی دین ہے ورنہ پہلے ایسا کچھ بھی نہیں تھا بلکہ صرف خانقاہ اور مٹھ ہوا کر تے تھے ۔  دینی تعلیم اور عصری تعلیم کا فرق بھی وہیں سے شروع ہوا ۔  ہمیں ہر بچے کو عالم ،  فاضل اور حافظ و قاری بنا نا نہیں ہے بلکہ جس طرح ہر سبجکٹ کے پروفیسر اور ماہر کچھ خاص  اور کم لوگ ہو تے ہیں ویسے ہی انکی تعداد بھی محدود ہو نا چاہیے جبکہ ضروری دینی معلومات  ( یعنی پی یو سی لیول کی ) ہر کسی میں ہونی چاہیے ۔  کوئی شخص چاہے وہ کتنی ہی ڈگریاں اور سند کیوں نہ لے لے وہ اگر حالات حاضرہ سے واقف نہیں رہتا اور ریسرچ کے ذریعہ پیش ہو نے والے نئے نئے نظریات سے واقف نہیں جسکا مطالعہ اور غور و فکر زیادہ نہیں  رہتا تو وہ نیم تعلیم یافتہ ہی کہلائے گا ۔  آج ہمارے ملک ہندستان کو ماہر ورک فورس کی اشد ضرورت ہے ۔  ہمیں ڈاکٹر ،  انجنیر ، حکیم ،   میکانک ،  کارپنٹر ،  سنار ،  لوہار ،  پلمبر ،  یلیکٹریشین ،  پینٹرس ،  اور دیگر کاریگروں کی بیحد ضرورت ہے ۔  اگر یہ تمام علوم ہمارے عربی مدرسوں میں  بچوں کی قابلیت کی بنیاد پر سکھائے جائیں تو آج بھی ہم سرکاری اسکولوں اور کانونٹوں کو پیچھے چھوڑ کر آگے نکل سکتے ہیں آج ہمارے دینی مدارس کو دین اور دنیا دونوں علوم کی ضرورت ہے  ۔  اسلئے آج ہمیں ایسے مہتمم حضرات کی ضرورت ہے جو ان دونوں علوم کے ماہر ہیں ۔  خوشی کی بات یہ بھی ہے کہ جس طرح پہلے راجے مہاراجے اور بادشاہ اپنے خزانوں سے خانقاہ اور مٹھوں کا خرچ چلاتے تھے بلکل اسی انداز سے آجکی حکومتیں بھی مالی امداد دے رہے ہیں ۔  اگر ہم تھوڑی عقلمندی سے کام لیں تو انشاء اللہ ہمارے اقامتی مدارس اور مٹھ سرکاری اسکولوں اور کانونٹوں کا مقام لے لیں گے اور پھر سے عالم و فاضل ،  سپاہی ،  بزنس مین ۔  منشی ،  ٹیچرس ،  لوہار ،  سنار ،  میکانکس ،  کارپنٹر اور دیگر ماہرین ہمارے  عربی مدرسوں سے نکلنے لگیں گے جو خود کفیل بھی ہونگے اور دوسروں کا سہارا بھی بنیں گے ۔  انشا اللہ اگر ایسا ہو گیا تو ہم تعلیمی اور معاشی میدان میں نہایت ہی تیزی کے ساتھ آگے بڑھنے لگیں گے اور معاشی طور پر بھی ہم دیگر اقوام سے آگے نکل جائیں گے ۔  سب سے پہلے ہم مسلمانوں کو سوچنا اور ڈبیٹ کر نا ہے کہ کیا ملت مسلمہ کو اس دنیامیں کامیاب بنا نے کے  لئے مسجد پر مسجد تعمیر کر نا ہے  یا  ہر جگہ عربی مدرسے قائم کر نا ہے  یا  ہر غریب اور محتاج کو حاجی بنا نا ہے یا  میرا مسلک تیرا مسلک کو لیکر لڑتے رہنا ہے یا   ملت میں موجود عصری اداروں  ( تعلیمی ،  فلاحی ،  سیاسی ،  ہیلتھ  ، ہوزنگ ،  کونسلنگ )  کو مالی امداد دے کر مضبوط بنا نا ہے  وغیرہ ۔  جب تک ہم یہ طئے نہیں کریں گے اور اولیت (priorities )  قائم نہیں کریں گے ہماری ترقی اور کامیابی ممکن نہیں   ۔  دانشور حضرات ،  مالدار حضرات اور مذہبی حضرات سب نوٹ کر لیں تو اچھا ہو گا ۔  کسی نے سچ ہی کہا ہے کہ مسلمان اپنی فضول  خرچی میں دولت لٹا کر  ملت کے لئے زوال خرید رہے  ہیں  ۔  اب ہماری قسمت ہماری مٹھی میں ہے صرف عقلمندی اور حکمت کی ضرورت ہے ۔  اگر ہم نے انا اور ضد کو چھوڑ دیا اور کھلے ذہین کے ساتھ سوچنے لگے تو کامیابی ہمارے دامن میں آ جائے گی ۔  آج  ملت میں ہر موضوع پر ڈبیٹ کر نے کی ضرورت ہے جس سے ہم کترا رہے ہیں ۔  اگر میرے یہ خیالات اور مشورے غلط ہیں تو ملت کے اندر ڈبیٹ کرا دیجیے اور جو سب طئے کریں وہ مان لیجیے ۔

(یو این این)

***************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 535