donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Mahboob Ali Aajiz
Title :
   Ghairat Ki Neelami Ka Din

 

غیرت کی نیلامی کا دن

 

محبوب الحق عاجز


 
تہذیب قوموں کی شناخت اور بقا کا سامان ہوتی ہے۔جو قومیں اپنی تہذیبی قدروں سے عاری اور اپنی روایات سے تہی ہو جائیں ان کی حیثیت کٹی ہوئی پتنگ کی سی ہوتی ہے،کہ ہوائے زمانہ انہیں جدھر چاہے اڑا کر لے جائے۔آج مسلم دنیا اسی المیے سے دوچار ہے۔ مغربی تہذیب کی ظاہری چکاچوند سے مسلمانوں کی نگاہیںخیرہ ہیں۔مغربی تہذیب تمام عالم انسانی بالخصوص عالم اسلام پرحملہ آور ہے۔اس جنگ میں مغربیت کے علمبردارں کو عالمی میڈیا کی قوت اور خود مغرب کے خوشہ چیں مسلم حکمرانوںکا تعاون حاصل ہے۔ عالمی ادارہ اقوام متحد ہ بھی ایک مربوط پروگرام اور ایجنڈے کے تحت خدا بیزار اور شرم و حیا سے عاری تہذیب کے فروغ کے لیے کوشاں ہے۔ گزشتہ دو عشروں کے دوران بیجنگ اورقاہرہ کانفرسوںکا انعقاد اور شرمناک سفارشات (جن کا حاصل آزادی نسواں کے عنوان کے تحت مسلم معاشروں میںجنسی آوارگی کا فروغ اور مستحکم خاندانی نظام کا خاتمہ ہے)اسی سلسلہ کی کڑی ہے۔ اب ان سفارشات کو مسلم دنیا میں بتدریج نافذ کیا جا رہا ہے۔ نتیجہ یہ ہے کہ مسلم معاشرے عظیم الشان اسلامی تہذیبی قدروں سے محروم ہو کر اس بد تہذیبی اور جاہلیت جدیدہ کی دلدل میں غرق ہو رہے ہیں جس نے خود مغرب کا خاندانی نظام درہم برہم کر دیا ہے،اور جس سے مغرب کے فہمیدہ عناصر نجات کے آرزومند (بلکہ تدبیریں کررہے) ہیں۔ 
جب سے عالم اسلام کے ایک بڑے حصے سے خلافت عثمانیہ کا خاتمہ ہوا ہے، مسلمان اپنے رہے سہے اسلامی نظام سے محروم ہو گئے ۔اب شرق تا غرب پھیلی مسلم دنیا کے تمام خطوں میں یا تو استبدادی بادشاہتیں قائم ہیں یاپھر خدائی حاکمیت اعلیٰ کے تصور کی نفی پر مشتمل جمہوریت راج کر رہی ہے۔ اسلام کے معاشی نظام کی جگہ عملی طور پر یہودیوں کا سودی نظام نافذ وقائم ہے۔ اسلام کے فوری، سستے عادلانہ نظام کی جگہ انتہائی مہنگا، طویل اور ظلم پر مبنی عدالتی نظام رائج ہے۔ تعلیمی نظام میں بھی سیکولر ازم اور مادہ پرستی کے جراثیم داخل کر دیے گئے ہیں۔ ہمارے پاس صرف اسلام کے معاشرتی نظام کی کچھ اقدار بچی ہوئی ہیں۔ فقط خاندانی و معاشرتی نظام باقی رہ گیا ہے۔ نیو ورلڈ آرڈر اور گلوبلائزیشن کے ایجنڈے کے تحت یورپ اور امریکا کی یہ ناپاک سوچ اور عملی کوشش ہے کہ مسلمانوں کا رہا سہا یہ نظام بھی بہرصورت ختم ہو جائے اور مغربی تہذیب پوری قوت سے ان پر مسلط کر دی جائے ۔


باقی مسلم دنیا سے قطع نظر، صرف وطن عزیز کا جائزہ لیا جائے تو اس حوالے سے نہایت مہیب اورکریہہ منظر دکھائی دیتا ہے۔ پرویز مشرف کے عہد نامسعودمیںروشن خیالی اور اعتدال پسندی کے عنوان کے تحت نہایت جارحانہ انداز سے اسلامی اقدار کی بیخ کنی اور مغربی تہذیبی ایجنڈے کو مسلط کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ ہیپی نیو ایئر اور بسنت کی سرکاری سرپرستی کے ساتھ ساتھ میرا تھن ریس کو طاقت کے زور پر جاری کرنے کی کوششیں ہوئیں۔ سب سے بڑھ کر ویلنٹائن ڈے منانے کاآغاز کیا گیا،اور الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا کے ذریعے اس کی بھر پور تشہیر کی گئی ،جس کا سلسلہ اب روز افزوں ہے۔ ہر سال 14 فروری کو اپنی تہذیب سے غافل نوجوان لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے سے اظہار عشق کرتے ہوئے ایک دوسرے کو سرخ گلاب پیش کرتے ہیں۔ شہروں میں تو اس سلسلہ میں تقریبات بھی ہوتی ہیں۔ اس طوفان میں غرق لوگوں کو احساس ہی نہیں کہ یہ خالصتا مغربی تہوار ہے ، جو اسلامی معاشرتی اقدار کے لیے زہر قاتل کی حیثیت رکھتا ہے ۔
’’ویلنٹائن ڈے‘‘ کے پس منظر کے بارے میں مختلف روایتیں ہیں ۔ایک روایت کے مطابق جو زیادہ مشہور ہے ،ا س دن کی نسبت ایک بدکردار پادری کی بدکاری کے ارتکاب سے وابستہ ہے۔ مؤرخین نے لکھا ہے کہ جب رومی بت پرستوں نے عیسائی مذہب قبول کر لیا تو تیسری صدی(270 ئ) میں روم کے حکمران کلائوڈیس (دوم) نے اپنی فوج کی قوت و استحکام کی غرض سے اپنی سلطنت کے نوجوانوں کی شادی پر سختی سے پابندی عائد کر دی۔ اُس نے حکم جاری کیا کہ روم کے نوجوان شادی نہ کریں، بلکہ فوج میں بھرتی ہوں تاکہ رومی فوج اسلحہ کے ساتھ ساتھ افرادی قوت سے بھی لیس ہو اور اردگرد کے ممالک اور دشمن فوج رومی افواج کی کثرت سے نفسیاتی طور پر بھی خوب مرعوب ہوں۔ اُن دنوں ایک پادری جس کا نام "Valentine" تھا، اُس نے چوری چھپے نوجوانوں کی شادی کرانے کا انتظام کیا۔ وہ نوجوانوں کی شادیاں کراتا رہا۔ آخر یہ خبر کسی طرح حکمران کلاڈیس تک پہنچ گئی۔ اُس نے فوری طور پر تحقیق کروائی اور الزام درست ثابت ہونے پر ’’ویلنٹائن‘‘ کو گرفتار کروا کر جیل بھجوا دیا۔ جیل حکام نے اُسے ایک مقدس پادری سمجھتے ہوئے ہر اتوار کو جیل کے قیدیوں اور عملہ کو مذہبی تعلیم دینے اور پادری کی حیثیت سے عبادت کروانے کی ذمہ داری سونپ دی۔ لیکن دورانِ عبادت پادری نے جیل کے انتظامی سربراہ کی نوجوان بیٹی سے ناجائز تعلقات قائم کرلیے، یہاں تک کہ اُسے بہلا پھسلا کر اُس سے بدکاری کا ارتکاب کربیٹھا۔ جب جیلر کو ’’ویلنٹائن‘‘ کی اس ذلیل حرکت کا پتا چلا تو اُسے بہت دکھ ہوا۔ اُس نے عدالت میں اس پادری پر بدکاری کا مقدمہ درج کروا دیا۔ جرم ثابت ہونے پر عدالت نے ’’ویلنٹائن‘‘ کو سزائے موت سنائی۔ سزائے موت سے قبل ویلنٹائن نے کسی طرح رشوت دے کر جیلر کی بیٹی کو ایک کاغذ کی پرچی بھیجی جس پر لکھا تھا: "from your Valentine..."ــ۔  بالآخر اُسے سزائے موت دے دی گئی۔ اُس دن فروری کی 14تاریخ تھی۔ اگلے سال روم کے کچھ لوگوں نے اُس بدکار پادری کو مظلوم گردانتے ہوئے 14 فروری کو اُس کے نام سے ’’ویلنٹائن ڈے‘‘ منانے کا اعلان کیا۔ تب سے یہ دن ہر سال یورپی ثقافت کے طور پر منایا جاتا رہا۔ 1415ء میں ’’ڈیوک‘‘ نامی عیسائی نے اس پادری "Valentine" کی یاد مزید تازہ کرنے کے لیے ’’ویلنٹائن کارڈ‘‘ جاری کیے جس پر دل کی تصویر بنی ہوئی تھی اور ایک نوجوان لڑکا جھک کر ایک نوجوان لڑکی کو محبت کا اظہار کرتے ہوئے پھول پیش کررہا ہے۔


کتنے افسوس کی بات ہے کہ اسلام کے نام پر اور مسلم تشخص کو ہندو مت کے خطرے سے بچانے کی غرض سے حاصل کیے گئے ملک اسلامی جمہوریہ پاکستان کے گلی محلوں اور تعلیمی اداروں میں آج یہ حیا باختہ تہوار دھڑلے سے منایا جارہا ہے،اور ارباب اقتدار اور رہبران قوم نہ صرف اس پر مجرمانہ خاموشی اختیار کیے ہوئے ہیں بلکہ اس کی سرپر ستی بھی کر رہے ہیں۔تحریک طالبان پاکستان سے مذاکرات کے حوالے سے بار بار آئین کو ماننے اور اس کی پاسداری کا حوالہ دیا جاتا ہے،مگرسوال یہ ہے کہ کیا ہمارا آئین (آرٹیکل 2 اور37 )حکمرانوں پر یہ ذمہ داری عائد نہیں کرتا کہ وہ عوام کو ایسا پاکیزہ ماحول فراہم کریں جہاں وہ اپنی زندگیاں اسلام کے تابناک اصولوں کے مطابق گزار سکیں۔ آرٹیکل 37 تو صاف لفظوں میں ریاست کو اسلامی اقدار کے تحفظ کے لیے فحاشی و عریانی، جنسی آوارگی اور اُس کے ذرائع کی روک تھام کا پابند بناتا ہے کہ وہ عصمت فروشی ،قمار بازی، فحش ادب اور فحش اشتہارات کی طباعت واشاعت کی روک تھام کرے۔ آج ہمارا میڈیا ویلنٹائن ڈے کے نام پر اس بے غیرتی اور بے حیائی کو فروغ دے رہا ہے۔ حیا سے عاری مغرب کی دجالی تہذیب کے اندھے مقلداخبارات اور ٹی وی پر بے غیرتی کے اڈے سجائے روشن خیالی کے واعظ بنے بیٹھے ہیں۔ نوجوان لڑکے لڑکیوں کو بغلگیر ہوتے دکھایا جاتا ہے اور نسل نو کو اخلاق باختگی اور بے راہ روی کی طرف مائل کیا جاتا ہے۔یہ سب سے بڑی دہشت گردی ہے ،جس سے اس ستم رسیدہ قوم کو پالا پڑا ہے،مگر ان دہشت گردوں کے لیے میدان کھلا ہے ،انہیں کوئی روکنے ٹوکنے والا نہیں۔سوچنے کی بات یہ ہے کہ کیا آئین کے رکھوالے حکمران، ہماری وزارت اطلاعات ونشریات او رپیمراآئینی طور پر پابند نہیں ہیں کہ وہ اس بے ہودگی،بدتمیزی اور ڈاکا زنی کی راہ روکیں اور میڈیا کو اسلامی قدروں کے عین مطابق صاف ستھری تفریح اور اطلاعات فراہم کرنے کا پابند بنائیں۔کیا جناب پرویز رشید اس کاجواب دیں گے؟


یہ صورتحال مسلمان عوام کے لیے بھی لمحہء فکر ہے کہ وہ دین جس نے حیا کو جزو ایمان اور اسلام کا اخلاق قراردیا ہے، جو مسلمان مردو زن کوغیر محرم پر نگاہ ڈالنے کی ممانعت کرتا ہے، اپنے محارم کے علاوہ دوسروںسے میل جول کا روادار نہیں، جو خواتین کو نامحرم مردوں سے بوقت ضرورت بات کرنے میں بھی سخت لہجہ اپنانے کی ہدایت کرتا ہے، وہ ایسے غلیظ تہوار کوکیسے گوارا کر سکتا ہے جس میں بات ملنے ملانے، گلاب ، چاکلیٹ پیش کرنے، اظہار محبت کرنے اور بغلگیر ہونے سے بڑھ کر زنا اور بدکاری تک پہنچ جاتی ہے۔ غیرت و حمیت سے سرشار مسلمانوں کو اس امرکا بر وقت ادراک کرنا چاہیے کہ ایسے تہوار اور ان کی سرپرستی ہمارے ایمان پر حملہ اور ہماری تہذیب پر ڈاکا اور ہماری درخشندہ روشن تہذیب کے منہ پر طمانچہ مارنے کے مترادف ہے۔ اصل بات یہ ہے کہ بھانڈ، گوئیے اور نام نہاد روشن خیال، جن کی لغت شرم و حیا کے تصورات سے خالی ہو چکی ہے، پاک دھرتی پر ایسی فضا قائم کرنا چاہتے ہیں، جس میں ان کی گندگیاں نمایاں نہ ہوں، بلکہ اس حمام میں سب ننگے ہو جائیں تاکہ کوئی ان پر انگلی نہ اٹھا سکے۔ ان لوگوں کے حیاسوز اقدامات اور سعی مذموم کے اثرات بد اب گلی محلوں میں پھیل رہے ہیں۔ اسلامی تعلیمات سے ناواقف شریف گھرانے بھی اس غلاظت میں لتھڑنے لگے ہیں۔ یاد رکھیے، اگر ہم نے اغیار کی نقالی ترک نہ کی اور برائی کے اس سیلاب کے آگے بند نہ باندھا تو انتظار کیجیے اس دن کا جب عزتوں کی نیلامی عام اور بے غیرتی کا بیوپار سر عام ہو گا او ر ہمارے پاس کف افسوس ملنے کے سوا کوئی چارہ کار نہ ہو گا۔

فیصلہ لمحوں کا ہو جاتا ہے صدیوں کو محیط
ایک لغزش کئی نسلوں کو سزا دیتی ہے

 

 
 

محبوب الحق عاجز
*******************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 776