donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Md. Najeeb Qasmi Sambhali
Title :
   Ulmaye Deen Ko Maulana Kah Kar Pukarna Kaisa Hai


اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبّ الْعَالَمِیْن،  وَالصَّلَاۃُ وَالسَّلَامُ عَلَی النَّبِیِّ الْکَرِیمِ وَعَلٰی اٰلِہِ وَاَصْحَابِہِ اَجْمَعِین۔


علماء دین کو مولانا کہہ کر پکارنا کیسا ہے؟

 

ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی


خلیجی ممالک میں مقیم ہندوپاک کے بعض حضرات دین اسلام کے داعی بن کر اپنی اور بھائیوں کی اصلاح کی کوشش کرنے کے بجائے، مسلمانوں کے درمیان تفرقہ ڈالنے کی وقتاً فوقتاً کوشش کرتے رہتے ہیں۔ برصغیر میں علماء کرام کو عموماً ’’مولانا‘‘ یا ’’مولوی‘‘ کہہ کر پکارا جاتا ہے۔ ان حضرات نے لفظ ’’مولانا‘‘ کے متعلق یہ کہنا شروع کردیا ہے کہ مولانا اللہ تعالیٰ کی صفت ہے، لہٰذا کسی انسان کے لئے مولانا کا لفظ استعمال کرنا جائز نہیں ہے، حالانکہ ساری کائنات میں سب سے افضل واعلیٰ اور سارے نبیوں کے سردار حضرت محمد مصطفیﷺ نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کو مولانا کہہ کر پکارا۔ آپ ﷺکا یہ فرمان حدیث کی معروف کتابوں حتی کہ صحیح بخاری میں بھی موجود ہے۔ نعوذ باللہ! ان میں سے بعض متشددین نے کسی انسان کو مولانا کہہ کر پکارنے کو شرک تک کہہ دیا ہے۔ غرضیکہ ہر وہ عمل جو اس چھوٹی سی جماعت کے مزاج کے خلاف ہو، وہ ان کے نقطہ نظر میں کفر یا شرک بن جاتا ہے، یعنی ان کے وہم وگمان میں اسلام کا مقصد مسلمانوں کو دائرہ اسلام سے نکال کر انہیں جہنم کی وادی میں پہنچانا ہے،حالانکہ قرآن وحدیث کی روشنی میں پوری امت مسلمہ کا اتفاق ہے کہ اسلام کا اصل مقصد یہ ہے کہ اللہ کے بندے اللہ کو مان کر اور اللہ کی مان کر ہمیشہ ہمیشہ کی جنت میں داخل ہوجائیں۔ حضور اکرم ﷺ باوجودیکہ جانتے تھے کہ عبداللہ بن ابی منافقوں کا سردار ہے، لیکن آپ ﷺ اس کے مسلمان بیٹے کی دلجوئی کے لئے اور عفو ودرگزر سے کام لیتے ہوئے اس کی نماز جنازہ میں شرکت کے لئے تشریف لے گئے اور اس کے کفن کے لئے اپنی قمیص بھی عطا کی۔ (اگرچہ عین وقت پر اللہ تعالیٰ نے بذریعہ وحی نماز جنازہ پڑھنے سے روک دیا تھا)۔ یہ چھوٹی سی جماعت عموماً سعودی علماء کی رائے کو خصوصی اہمیت دیتی ہے، مگر اس مسئلہ میں اپنی ہوس کی تکمیل کے لئے ان کی رائے کو بھی نظر انداز کردیا۔ سعودی عرب کے سابق مفتی اعظم شیخ عبد العزیز بن باز ؒنے ایک سوال کے جواب میں عرض کیا کہ نبی اکرم ﷺ، قبیلہ کے سردار، اپنے والد اور بادشاہ وغیرہ یعنی کسی انسان کے لئے مولانا کا لفظ استعمال کیا جاسکتا ہے، جو ان کی ویب سائٹ پر سنا اور پڑھا جاسکتاہے۔

سب سے پہلے ’’مولانا‘‘ لفظ کے معنی سمجھیں۔ ’’مولانا‘‘ دو لفظوں سے مرکب عربی زبان کا لفظ ہے، ایک ’’مولیٰ‘‘ اور دوسرے ’’نا‘‘۔ یعنی مولانا ایک لفظ نہیں ہے جیساکہ بعض حضرات سمجھتے ہیں۔ مولیٰ ایک مستقل لفظ ہے جس کی جمع ’’موالی‘‘ ہے، جس کے تقریباً ۲۰ معانی ہیں، جن میں سے چند معانی حسب ذیل ہیں: آقا، مالک، پرورش کرنے والا، دوست، آزاد کرنے والا، آزاد کیا ہوا غلام اور مہربان۔ لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے معانی کے لئے دنیا کی مشہور ومعروف ڈکشنریاں دیکھی جاسکتی ہیں۔ ’’نا‘‘ عربی زبان میں ضمیر (Pronoun) ہے جس کے معنی ہمارے (Our) ہیں۔ ’’مولای‘‘ میں ’’ی‘‘ ضمیر (Pronoun) ہے جس کے معنی میرے (My leader) ہیں۔ ’’مولاکم‘‘ میں ’’کُمْ‘‘ ضمیر (Pronoun) ہے جس کے معنی تمہارے (Your leader) ہیں۔ ’’مولاہ‘‘ میں ’’ہ‘‘ ضمیر (Pronoun) ہے جس کے معنی اس کے (His leader) ہیں۔ غرضیکہ مولانا کے معنی ہیں: ہمارے آقا، ہمارے مالک، ہمارے قائد اور ہمارے دوست وغیرہ  ۔جس طرح غلام اپنے مالک کو مولای یا مولانا کہہ سکتا ہے، اسی طرح ایک شخص اپنے دینی رہنما کو مولانا کہہ کر پکار سکتا ہے۔ احادیث کی سند (Chain of Narrators) کا ذکر کرتے ہوئے بڑے بڑے محدثین (مثلاً امام بخاری ؒاور امام مسلمؒ)بعض راویوں کا تعارف اس طرح کراتے ہیں کہ یہ فلاں شخص کا مولیٰ ہے، مثلاً امام بخاریؒ راوی ’’کریب‘‘ کاتعارف ابن عباس ؓکے مولیٰ اور راوی ’’نافع‘‘ کا تعارف ابن عمر ؓکے مولیٰ سے کراتے ہیں۔ کتب حدیث میں اس طرح کی سینکڑوں مثالیں موجود ہیں۔ فقہ اور اصول فقہ کی مشہور ومعروف کتابوں میں مولیٰ کا لفظ مختلف معانی میں استعمال کیا گیا ہے۔ یقینا ہمارا حقیقی مولیٰ صرف اور صرف اللہ کی ذات ہی ہے ، جس کا کوئی شریک نہیں۔ لیکن مولیٰ دوسرے معنی میں انسان کے لئے بھی استعمال ہوتا ہے۔

قرآن کریم میں بھی مولیٰ کا لفظ مختلف معانی میں استعمال ہوا ہے۔ صرف مولیٰ کا لفظ تنہا بھی استعمال ہوا ہے، اور متعدد ضمیروں کے ساتھ بھی یہ لفظ استعمال ہوا ہے۔ سورۃ الحج آیت ۷۸ (وَاعْتَصِمُوا بِاللّٰہِ ہُوَ مَوْلَاکُمْ فَنِعْمَ الْمَوْلٰی وَنِعْمَ النَّصِیْر) میں دو جگہ مولیٰ کا لفظ استعمال ہوا ہے، ایک جگہ ’’کُمْ‘‘ (Your) ضمیر (Pronoun) کے ساتھ، جبکہ دوسری مرتبہ بغیر ضمیر کے اور دونوں جگہوں پر اللہ کی ذات مراد ہے۔ قرآن کریم میں مولیٰ کا لفظ دوسرے معانی میں بھی استعمال ہوا ہے۔سورۃ الدخان آیت ۴۱ (یَوْمَ لَا یُغْنِیْ مَولًی عَنْ مَّوْلًی شَیْئاً وَلَاہُمْ یُنْصَرُوْنترجمہ: جس دن کوئی حمایتی کسی حمایتی کے ذرا بھی کام نہیں آئے گا۔ اور ان میں سے کسی کی کوئی مدد نہیں کی جائے گی) میں مولیٰ اللہ کے لئے نہیں بلکہ دوست کے معنی میں یعنی انسان کے لئے استعمال ہوا ہے۔ اسی طرح سورۃ الحدید آیت ۱۵ (فَالْیَوْمَ لَا یُوْخَذُ مِنْکُمْ فِدْیَۃٌ وَلَا مِنَ الَّذِیْنَ کَفَروْا مَاْوَاکُمُ النَّارُ ہِیَ مَوْلَاکُمْ وَبِئَسَ الْمَصِیْر ترجمہ: چنانچہ آج نہ تم سے کوئی فدیہ قبول کیا جائے گا، اور نہ اُن لوگوں سے جنہوں نے کفر اختیار کیا تھا، تمہارا ٹھکانا دوزخ ہے، وہی تمہاری رکھوالی ہے اور یہ بہت برا انجام ہے) میں لفظ مولیٰ ’’کُمْ‘‘ ضمیر کے ساتھ جگہ یا ٹھکانے کے لئے استعمال ہوا ہے۔ غرضیکہ اللہ تعالیٰ نے خود قرآن کریم میں یہ واضح کردیا کہ مولیٰ کے متعدد معانی ہیں۔ قرآن کریم میں لفظ مولیٰ ’’نا‘‘ ضمیر کے ساتھ دو جگہ (سورۃا لبقرۃ آیت ۲۸۶ اور سورۃ التوبۃ آیت ۵۱)استعمال ہوا ہے، اور دونوں جگہ پر اللہ کی ذات مراد ہے یعنی (Our Creater)، لیکن اس کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ مولانا ایک لفظ ہے اور وہ صرف اللہ کے ساتھ خاص ہے۔ مولیٰ ایک مستقل لفظ ہے اور اس کے ساتھ مختلف ضمیریں استعمال کی جاسکتی ہیں: مولای، مولانا، مولاکم، مولاہ وغیرہ۔

سورۃ التحریم آیت ۴ (وَاِنْ تَظَاہَرَا عَلَیْہ فَاِنَّ اللّٰہَ ہُوَ مَوْلَاہُ وَجِبْرِیْلُ وَصَالِحُ الْمُؤْمِنِیْنَ ترجمہ: اگر نبی کے مقابلے میں تم نے ایک دوسرے کی مدد کی، تو یاد رکھوکہ اُن کا ساتھی اللہ ہے اور جبرئیل ہیں، اور نیک مسلمان ہیں ) میں واضح طور پر لفظ مولیٰ ’’ہ‘‘ ضمیر (Pronoun) کے ساتھ اللہ، حضرت جبرئیل اور نیک لوگوں کے لئے استعمال ہوا ہے۔ غرضیکہ اللہ بھی مولیٰ، جبرئیل بھی مولیٰ اور تمام نیک بندے بھی مولیٰ ہیں۔ جب اللہ تعالیٰ نے عام مومنین کو مولیٰ کہا ہے تو ہم ’’نا‘‘ ضمیر لگاکر علماء دین کو مولانا یعنی Our leader کیوں نہیں کہہ سکتے ہیں۔ خلاصہ کلام یہ ہے کہ مولانا عربی زبان کا لفظ ہے اور یہ دو لفظوں سے مرکب ہے، ایک مولیٰ اور دوسرے ضمیر ’’نا‘‘۔ مولیٰ کے متعدد معانی ڈکٹشنریوں میں موجود ہیں۔ قرآن کریم میں بھی یہ لفظ متعدد معانی کے لئے استعمال ہوا ہے۔ صرف لفظ مولیٰ بھی استعمال ہوا ہے اور اس کے ساتھ متعدد ضمیر (Pronoun) لگاکر بھی استعمال ہوا ہے۔ لہٰذا علماء دین کو مولانا کہنا بالکل صحیح ہے۔ 

مشہور ومعروف صحیح حدیث: (مَنْ کُنْتُ مَوْلَاہُ فَعَلِیٌّ مَوْلَاہُ  ترجمہ:جس کا میں دوست ہوں، علی ؓ اس کے دوست ہیں)میں حضور اکرم ﷺ نے لفظ مولیٰ کو ’’ہ‘‘ ضمیر (Pronoun) کے ساتھ استعمال فرماکر کل قیامت تک کے لئے یہ ثابت کردیا کہ انسان بھی مولیٰ ہوسکتا ہے۔یہ صحیح حدیث حدیث کی مختلف کتابوں میں موجود ہے۔ صحیح بخاری (کتاب المغازی ۔ باب عمرۃ القضاء ذکرہ انس عن النبی ﷺ) کی حدیث میں ہے کہ تمام نبیوں کے سردار محمد العربی ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا: (اَنْتَ اَخُوْنَا وَمَوْلَانَا) تم ہمارے بھائی اور ہمارے معین ومددگار ہو۔ صحیح بخاری میں مذکور اس حدیث میں فصاحت وبلاغت کے پیکر اور ادیب اسلام محمد ﷺ نے حضرت زید بن حارثہ کے لئے مولانا کا لفظ استعمال کیا ہے ۔ اگر مولانا کا لفظ اللہ کے علاوہ کسی دوسری ذات کے لئے استعمال کرنا ناجائز ہوتا تو کیا محمد العربی کسی انسان کے لئے یہ لفظ استعمال کرتے۔ اللہ تعالیٰ اُن لوگوں کو ہدایت عطا فرمائے جو یہ کہتے ہیں کہ مولانا کا لفظ کسی انسان کے لئے استعمال کرنا ناجائز یا شرک ہے، حالانکہ سارے نبیوں کے سردار اور تمام انس وجن میں سب سے افضل نے مولانا کا لفظ حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ کے لئے استعمال فرمایا ہے۔ اسی طرح بخاری ومسلم ودیگر کتب حدیث میں وارد ہے کہ حضورا کرم ﷺ نے ارشاد فرمایا کہ کوئی شخص (کسی غلام سے) یہ نہ کہے کہ اپنے رب کو کھانا کھلاؤ۔ اپنے رب کو وضو کراؤ۔ اپنے رب کو پانی پلاؤ۔ بلکہ صرف سیدی ومولای (میرے سردار، میرے آقا) کہنا چاہئے۔ اسی طرح کوئی شخص یہ نہ کہے: ’’میرا بندہ، میری بندی‘‘، بلکہ یوں کہنا چاہئے: ’’میرا غلام، میرا لونڈی‘‘۔ جب نبی اکرم ﷺ نے کسی انسان کے لئے ضمیر کے ساتھ لفظ مولیٰ کااستعمال کرنے کی اجازت مرحمت فرمائی ہے، اور آپ ﷺنے خود استعمال بھی کیا ہے، تو اکیسویں صدی میں کسی شخص کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ کہے کہ لفظ مولیٰ کی نسبت ’’نا‘‘ ضمیر کے ساتھ کرکے کسی انسان کو مولانا کہنا جائز نہیں ہے۔ 

بخاری ومسلم سے پہلے لکھی گئی حدیث کی مشہور کتاب (مصنف ابن ابی شیبہ) میں مذکور ہے کہ حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے کسی مسئلہ کے متعلق سوال کیا گیا تو حضرت انس ؓ نے کہا کہ تم ہمارے مولانا حسن سے مسئلہ پوچھو۔ صحیح مسلم کی سب سے مشہور شرح لکھنے والے امام نووی ؒنے تحریر کیا ہے کہ لفظ ’’مولیٰ‘‘ کے تقریباً ۱۶ معانی ہیں، بعض علماء کرام نے لفظ ’’سیدنا‘‘ کو استعمال کرنے سے احتراز کیا ہے کیونکہ اس لفظ میں اپنی طاقت دکھانے کا شائبہ پیدا ہوتا ہے۔ اسی لئے وہ مولانا کا لفظ استعمال کرتے ہیں جو مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔ غرضیکہ علماء کرام کو مولانا کے لقب سے پکارنا زمانہ قدیم سے چلا آرہا ہے۔ 

خلاصہ کلام یہ ہے کہ ہمارا حقیقی آقا ومولیٰ صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، اس کا کوئی شریک نہیں ہے۔ لیکن دوسرے معانی کے اعتبار سے مولیٰ کا لفظ کسی دوسرے انسان کے لئے استعمال کیا جاسکتا ہے۔ مثلاً اعظم (سب سے عظیم) اور اکبر (سب سے بڑا) صرف اللہ تعالیٰ کی ذات ہے، لیکن دوسری نسبت سے یہ نام کسی انسان کا بھی رکھا جاسکتا ہے۔’’ العلی‘‘ اللہ کا نام ہے، لیکن ’’علی‘‘ آپ کے چچازاد بھائی اور داماد کا نام بھی ہے۔ غرضیکہ عالم دین کو مولانا کہہ کر پکارا جاسکتا ہے جیسا کہ قرآن وحدیث کی روشنی میں تحریر کیا گیا ہے۔ محدث، مفسر، مؤرخ، فقیہ، شیخ، فضیلۃ الشیخ، علامہ ، مفتی، مولوی، عالم، ملا، پروفیسر اور ڈاکٹر جیسے القاب نبی اکرم ﷺ کے زمانہ میں موجود نہیں تھے۔ جب ان القاب کا استعمال کرنا صحیح ہے تو عالم دین کے لئے مولانا کا استعمال کرنا کیوں غلط ہوگا، جبکہ بتایا گیا کہ لفظ مولانا ایک لفظ نہیں ہے، بلکہ یہ دو الفاظ سے مرکب ہے۔ اور مولیٰ کے متعدد معانی ہیں، ’’نا‘‘ ضمیر (Pronoun)ہے، جس کے معنی ہمارے (Our) ہیں، غرضیکہ مولانا کے معنی ہوئے: Our Leader۔ نبی اکرم ﷺ نے خود اپنے صحابی کے لئے مولانا کا لفظ استعمال فرمایا ہے تو کسی کو کیا حق پہنچتا ہے کہ وہ کہے کہ عالم دین کو مولانا کہہ کر پکارنا جائز نہیں ہے۔ اللہ تعالیٰ ہمیں قرآن وحدیث کو مضبوطی کے ساتھ پکڑنے والا بنائے۔ جب اللہ اور اس کے رسول کا واضح حکم آجائے تو پھر ہمیں اپنی رائے کو ترک کردینا چاہئے، لہٰذا میں ان حضرات سے درخواست کرتا ہوں جنہوں نے کسی انسان کو مولانا کہنے کو غلط یا شرک قرار دیا ہے، وہ فوراً اللہ تعالیٰ سے توبہ کریں کیونکہ جب ساری کائنات میں توحید کی دعوت دینے والے نبی ورسول نے اپنے صحابی (حضرت زید بن حارثہ رضی اللہ عنہ )کے لئے مولانا کا لفظ استعمال کیا ہے تو کسی شخص کو کیا حق حاصل ہے کہ وہ کہے کہ عالم دین کو مولانا کہنا غلط یا شرک ہے۔ جب واضح حکم آجائے تو تاویل یا توجیہ نہیں کرنی چاہئے بلکہ حق کو تسلیم کرنا چاہئے۔


 ڈاکٹر محمد نجیب قاسمی سنبھلی

 (www.najeebqasmi.com)

******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 607