donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Rahat Ali Siddiqui Qasmi
Title :
   Dafa Aakhir Ka Tak Iqdaam Kiyon Nahi

دفاع آخر کب تک۔۔۔۔ اقدام کیوں نہیں؟


راحت علی صدیقی قـاسمی

رابطہ  09557942062


    ہندوستان کی آزادی کے بعد مسلمان کی سوچ و فکر میں اور اس کے طرزِ زندگی میں بڑی تبدیلی ہوئی، جہاں آزادی سے قبل یہ قوم جذبہ شہادت سے سرشار، بڑی بڑی تکلیفوں کو برداشت کر لیا کرتی تھی، مشکلوں اور صعوبتوں کو جھیل لیا کرتی تھی، تاریخ کو مدنظر رکھتے ہوئے بلامبالغہ کہا جاسکتا ہے کہ وہ ایام مسلمانوں کو ذہنی اور فکری طور پر غلام کرنے میں قطعی طور پر کامیاب نہیں ہوئے تھے، انگریزوں کے خلاف مسلمانوں کا عمل قربانیوں کی طویل داستان اس کی بین دلیل ہے۔

    مسلمانوں نے جو تحریکیں چلائیں، ان کا مطالعہ اسلامی قوم کی شجاعت، بہادری اور باریک بینی کا بھی گواہ ہے، یہی وہ قوم ہے جس نے تحریک ریشمی رومال، تحریک خلافت کے ذریعہ اپنی جرأت دانش مندی کا لوہا منوایا اور جلیاںوالا باغ میں اپنے سینوں کو بارود کے سامنے بلا خوف و خطر پیش کرکے اپنی بہادری کے لازوال نقوش قائم کردئیے، یہ سنگین حالات، دل دوز قصے اور درد کے فسانے اس دھرتی کے دینے پر مگر اس سب کے باوجود مسلمان کا ذہن آزاد تھا، وہ فکر مند اپنے مستقبل کے لئے اپنی آنے والی نسلوں کے لئے ایسی چپقلش نہیں تھی، رنجشیں نہیں تھیں، پیار ومحبت کے چشمہ بہتے تھے۔

    ہمدردی اور رواداری کے جذبات کا ہر فرد مظاہرہ کیا کرتا تھا، صرف اپنی نہیں بلکہ قوم کی فکر تھی، جس کی طرف کئے گئے اقدامات بے مثال اور لازوال ہیں جو آج تاریخ کا عظیم باب اور ملت کا عظیم سرمایہ ہیں، اس مشکل تر وقت میں جہاں مسلمانوں نے آزادی میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا وہیں مسلم قوم کے لئے کچھ قیمتی اثاثہ چھوڑے جو ملت کا سرمایہ اور مسلمانوں کا آج اور کل ٹھہرے، تعلیم کی اہمیت و افادیت کا انکار کون کرسکتا ہے؟ ظاہری دنیا کا کوئی خوش مند فرد تعلیم کی افادیت سے انکار نہیںکرسکتا، یہ وہ عظیم جوہر ہے جس سے قوم ترقی کی راہ پر گامزن ہوتی ہے، دنیا میں اپنا اور اپنی حیثیت ثابت کرتی ہے اور ذہنی آزادی کااحساس کرتی تعلیم ایک نعمت ہے جو زیور انسانیت اور حسنِ آدمیت ہے، بغیر تعلیم انسان کی ہیئت اور شکل تو آدمیوں جیسی مگر اس کی فکر اس کا عمل اس کا کردار شیطانوں سے بھی بدتر ہوجاتا ہے۔ اگر یقین نہ آئے تو دور جہالت کے قصے بطور دلائل مطالعہ کئے جاسکتے ہیں، آزادی کے سنگین دور میں بھی یہ شہسوار اس حقیقت سے بھی بے فکر نہیں وہ کھانے دانے کو تو ترس رہے مگر مستقبل سے بے بہرہ اور بے فکر نہیں تھے۔ انہوں نے مسلم قوم کے لئے تعلیم کے وہ نظم کیا جس سے قوم زندہ رہے اپنے زندہ ہونے کا ثبوت پیش کرتی رہے،آگے بڑھتی رہے، ترقیاں کرتی رہے، اس حقیقت سے کوئی انکار نہیں کرسکتا۔ اگر انہیں یہ فکر دامن گیر نہ ہوتی تو سر زمین ہندوستان پر مسلم یونیورسٹی علی گڑھ کا قیام نہ ہوتا جہاں آج تیس ہزار افراد تعلیم پارہے ہیں اور ان مشکل حالات میں بھی قوم کو ایک ایسا سرمایہ فراہم ہورہا ہے جو اس کی زندگی کا ثبوت پیش کرکے جامعہ ملیہ کا قیام جہاںآج پندرہ ہزار طلبہ تعلیمی سرگرمیوںمیں ہیں اور قوم و ملت کا ایک عظیم اثاثہ گوہر علم سے آراستہ و پیراستہ ہورہا ہے، جو ملت اسلامیہ ہند کے لئے قیمتی اثاثہ سے کم نہیں ہے۔ دارالعلوم دیوبند کا قیام جس نے مجاہدین آزادی کو جنم دیا اور آج بھی ہزاروں افراد تعلیم پاکر قوم و ملت کی دینی و دنیاوی تشنگی کی سیرابی کا باعث بن رہے ہیں۔ ان اداروں سے نکلنے والے افراد قوم پر آنے والی دینی و دنیاوی پریشانیوں کا علاج ہیں۔ ان اداروں کے قیام آپ کو وقت اور حالات کی ترجمانی کردے گا۔ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کا قیام 1920ء میں ہوا جب کہ سرسید احمد خاں نے 1875ء میں ’’محمڈن انگلو اورینٹل کالج‘‘ کی شروعات کردی تھی۔ حالات کا اندازہ سن قیام سے لگایا جاسکتا ہے۔ جامعہ ملیہ کا قیام 1920ء اور دارالعلوم دیوبند کا قیام 1866ء ہے۔ 1857ء کی جنگ آزادی کی شکست کے بعد جب ہندوستانیوں کا گھر سے نکلنا بھی دوبھر تھا اور معاشی، دینی، اخلاقی ہر طرح کے بکھرائو کا خطرہ پوری طرح منڈلا رہا تھا۔ ایسے ادارے کے قیام کا کون تصور کر سکتا ہے، ہر ادارے کے قیام کی تاریخ حالات کی ترجمانی کر رہی ہے اور مسلمانوں کی دور اندیشی کو ثابت کر رہی ہے، ان کی اقدامی سوچ کو اجاگر کر رہی ہے، اتنے سنگین حالات میں انہیں دفاعی ہوجانا چاہئے تھا، کیا ضرورت تھی ان کے قیام کی جدوجہداور مشقت کی مگر حقیقت یہ ہے کہ اگر یہ ادارے نہ ہوتے تو نہ ہمارا دین محفوظ ہوتا اور نہ ہم دنیامیں کہیں کھڑے نظر آتے۔

    ان مشکلوں اور اندھیروں کے وقت میں تو ہم چراغاں کرتے رہے اور آندھیوں سے ہماری مقابلہ آرائی رہی مگر قیام جمہوریت کے بعد ہماری رفتار ماند پڑنے لگی اور جذبات سرد ہوتے چلے گئے، ہماری سوچ دفاعی انداز اختیار کرنے لگی کہ بارش ہوگئی تو دیکھیں گے ابھی تو سورج چمک رہا ہے، ہماری دور اندیشی جیسے خوش فہمیوں کی بھینٹ چڑھ گئی حالاںکہ آزادی کے بعد بھی مسلمان بہت سے موقعوں پر عصبیت کا شکار ہوئے، ان کو دوسری نظر سے دیکھا، ان کی قربانیوں پر پردہ ڈالنے کی کوشش کی گئی، سیاسی مفاد کی خاطر بے جا قوانین کا شکار کئے گئے، کرسی کے طلب گاروں کے ظلم کا شکار ہوئے۔

    ہر جماعت اور ہر پارٹی نے انہیں ہراساں کرنے میں کوئی کسر باقی نہیں چھوڑی، روز نیا حربہ ، نیا شوشہ جو ان کی سیاسی تدبیر اور مسلمانوں کے جذباتی استحصال کی بدترین مثال ہوتا تھا۔ اسی کی ایک کڑی علی گڑھ مسلم نیورسٹی کے اقلیتی کردار پر انگلی اٹھانا اور مسلمانوں کو ہراساں کرنا ہے۔ ہندوستان میں 700 یونیورسٹیز ہیںجہاں تقریباً 95 فیصد طلبہ غیر مسلم ہیں اور صرف دو ادارے اقلیتی ہیں وہ بھی فرقہ پرستوں کو ہضم نہیں ہورہے ہیں اور ان کے اقلیتی کردار کو نشانہ بنایا جارہا ہے۔، مقصد وہی ہے عنوان الگ ہے جب کہ ان دونوں اداروں میں بھی مسلم طلبہ کی تعداد چالیس فیصد ہے، اس مسلم قوم کی تعلیمی پسماندگی کا اندازہ لگانا مشکل امر نہیں 47فیصد نوجوانوں کو اپنے دامن میں رکھنے والی 18 کروڑ افراد پر مشتمل ایک قوم کتنے افراد کو تعلیم سے لیس ہورہی ہے جہاں یہ واضح اقلیتی کردار پر حملہ ہونا بی جے پی کی عصبیت ہے اور اس کا سنجیدگی کے ساتھ دفاع کیا جائے اور آنے والے انتخابات میں اسے اس حرکت کا انعام دیا جائے۔ وہیں دوسری طرف اب حالات ہمیں جھنجھوڑ رہے ہیں کہ آخر کب تک ہم دفاعی سوچ کے ساتھ زندگی گذارتے رہیںگے؟َ کب تک ہم دوسروں کو اپنے اوپر حاوی رکھیںگے؟ اور مسلم قوم پر اس طرح کی یلغار ہوتی رہے گی؟ یہ سوال قلب کو بے چین کر رہا ہے اور جواب کے لئے بے چین ہے۔ہمارے اکابر نے سنگین حالات میں اتنے عظیم ادارے قائم کئے جو آج تک دوسروں کی نگاہ میں کانٹا بنے ہوئے ہیں۔ ہم نے آخر آزادی کے بعد سے اب تک کیا کیا؟ کتنے ادارے ہیں جو ہم نے قائم کئے؟ کتنے افراد ہیںجن کو ہم تعلیم دے پائے؟ کتنے نوجوان ہیں جو صلاحیتوں کے باوجود تعلیم حاصل نہیں کر پائے؟ کیوںکہ ہماری سوچ دفاعی تھی، اقدام ہم بھول گئے، اقدام کے معنی ہمیں یاد نہیں۔ جب کوئی ہمارے اوپر مسلط ہوجاتا ہے تو ہم اٹھتے ہیں ہم نے موقع ہی کیوں فراہم کیا اور ہم سوئے کیوں؟ کوتاہی کا شکار کیوںہوئے؟ کیوں کمزور پہلواجاگر ہونے دئیے؟ اگر آزادی کے بعد ہم مسلسل ہم تعلیمی فکر کو لے کر چلتے عظیم اداروں کا قیام عمل میںآتا؟ کسے جرأت ہوتی، ہماری تعلیم گاہوں پر نگاہ کون اپنے سیاسی مفاد کی خاطر ان کے استعمال کا خیال ذہن میں لاتا مگر جب چمکتے سورج کی طرح لوگوں کو نظر آرہا ہے کہ ہم سورہے ہیں تو کوئی بھی ٹھوکر مار کر چل دیتا ہے، پھر ہم حواس باختہ ہوجاتے ہیں اور دفاع کرنے میں مصروف ہوتے ہیں۔ اگر ہم جاگتے رہیں کیا ہم ٹھکرائے جائیں گے؟ کیا سچ مچ ہم کزور ہیں؟ اگر ہم کمزور ہوتے تو دفاع کرتے ہوئے بھی سہمے رہتے؟ ہمارا دفاع اس بات کا ترجمان ہے ہم کمزور نہیں ہیں، غلط فہمی کا شکار ہیں۔ خدارا اب اپنے آپ کو بتائیں اور اپنی قوت و طاقت کا احساس کیجئے اور تعلیم کا تعلیمی اداروں کا قیام کیجئے، اپنے اداروں کا خوبی سے دفاع کیجئے اور تاریخ کو نیا موڑ دیجئے، جس سے مسلمان اقدام کرتا ہوا نظر آئے، سمندروں کو پاٹنا،چٹانوں کو چور کرتاخاردار وادیوں کو طے کرتا تاکہ آنے والی نسل تعلیم یافتہ اور اس طرح کے حالات کا سامنا کرنے سے بچ جائے۔


********************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 555