donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Eucational Article -->> Muslim Moashra
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Syed Fazil Hussain Perwez
Title :
   Naujawano Millat Ka Asasa Ho Daagh Na Bano

 

نوجوانو! ملت کا اثاثہ ہو‘ داغ نہ بنو


سید فاضل حسین پرویز

 ایڈیٹر گواہ اردو ویکلی‘ حیدرآباد

 

جمعہ عیدالمومنین ہے۔ مبارک و مقدس دن جس کی فضیلت قرآن مجید میں ہے۔عام مسلمانوں کے لئے ہمیشہ سے جمعہ کی زبردست اہمیت رہی ہے۔ کیوں کہ کم از کم اس ایک دن تو وہ واقعی مسلمان نظر آتا ہے۔ مساجد نمازیوں سے تنگ دامنی کاشکوہ کرتی ہیں۔اتنی تعداد میں مسلمانوں کو دیکھ کر دیگر ابنائے وطن پر ایک عجیب سا رعب دبدبہ طاری ہوجاتا‘ اور وہ اکثر یہ سوچنے کے لئے مجبور ہوجاتے کہ اگر پانچوں وقت مسلمان اتنی تعداد میں مساجد میں آنے لگیں تو کیا ہوگا‘ دوسری اقوام کو ہمیشہ نفسیاتی طور پر احساس کمتری کا شکار رہنا ہوگا۔ عام مسلمان اِس دن کا خاص طور پر اہتمام کرتے ہیں۔

اچھا‘ صاف ستھرا لباس پہنا جاتا ہے، خوشبو بھی لگائی جاتی ہے، سرمہ کا رواج اب کم ہونے لگا ورنہ سرمگیں مسلمان نظر آتے، کسی وقت پانی کی قلت ہوا کرتی تب بیشتر حضرات جمعہ ہی کو غسل کا اہتمام کرتے تھے۔ اب بھی اگر کوئی نہایا دھویا صاف ستھرا نظر آتا ہے تو معنی خیز لہجہ میں پوچھ ہی لیا جاتا ہے کہ جناب آج جمعہ ہے۔ جواب میں اکثر معنی خیز مسکراہٹ بھی ملتی۔


(جمعہ کا انتظار پہلے نئی فلموں کی ریلیز کے لئے بھی کیا جاتا۔ نماز جمعہ ادا کی.... سیدھے ٹوپیوں اور سیاہ برقعوں کے ساتھ سنیما گھروں کی لائن میں کھڑے ہوگئے۔ اب چوں کہ ہر گھر ایک سنیما گھر بن چکا ہے‘ اس لئے سنیما گھروں میں مسلمانوں کی تعداد کم ہی نظر آنے لگی ہے۔ وہاں اسکولس اور کالجس کی مسلم طالبات اپنے بوائے فرینڈس کے ساتھ زیادہ نظر آنے لگی ہیں)۔


حیدرآباد ہو کہ دوسرے مسلم علاقے گذشتہ پچاس برس کے دوران جمعہ کی آمد کے ساتھ دل کی دھڑکنیں، ایک انجان خوف سے بڑھ جاتی ہیں اور خوف و دہشت کا محور چارمینار کا علاقہ ہوتا ہے۔ جہاں ایک عرصہ بعد جمعہ کے دن ناخوشگوار واقعات دوبارہ ہونے لگے ہیں۔ جانے کیوں کسی انہونی کا اندیشہ لگا رہتا ہے۔ یہ خوف ہم پر مسلط کیا گیا یا اس کے لئے خود ہم ذمہ دار ہیں۔ اِس پر ابھی غور نہیں کیا۔ جہاں تک میری یادداشت کا تعلق ہے‘ پرانے شہر میں بونال کے جلوس کے دوران شاہ علی بنڈہ کے قریب پتھراؤ کے الزام کے ساتھ گڑبڑ ہوئی اور اشرار مکہ مسجد کو نشانہ بناتے۔ گنیش جلوس کے دوران بھی خواہ وہ کسی بھی دن کیوں نہ نکالا گیا ہو۔ ایک طویل عرصہ تک مکہ مسجد پر پتھراؤ کیا جاتا رہا۔ احتجاج کرنے والے مسلم نوجوانوں کو لاٹھیوں کی مار سہنی پڑتی۔ گرفتاریاں بھی کی جاتیں۔ کچھ عرصہ تک یہ سلسلہ بند ہوچکا تھا۔ اب چارمینارکے دامن میں غیر قانونی ڈھانچہ کی تعمیر نو اور توسیع کے بعد یہ سلسلہ دوبارہ شروع ہوگیا۔ گذشتہ چار پانچ جمعہ سے پولیس مصلیوں کو چارمینار کی سمت آنے سے روک رہی ہے‘ جس پر مبینہ طور پر احتجاج کرتے ہوئے نوجوان سنگباری کررہے ہیں۔ الکٹرانک میڈیا کو اس قسم کے واقعات کاانتظار رہتا ہے‘ وہ نیوز کے لئے واقعات کی فلمبندی کے نام پر نوجوانوں کے خلاف ’’فلم‘‘ کو ثبوت کے طور پر پولیس کے حوالے بھی کرتے ہیں۔ اور یہ نوجوان برسوں تک عدالتوں کے چکر کاٹنے کیلئے مجبور ہوجاتے ہیں۔


احتجاج ہمارا دستوری حق ہے۔ اس حق کا صحیح استعمال کیا جائے تو ہم خود اپنی اور قوم کی تاریخ بدل سکتے ہیں۔کسی مقصد کے بغیر جوش اور جذبات میں کوئی غلط حرکت کر بیٹھتے ہیں تو اس کا خمیازہ خود اور پورے خاندان کو بھگتنا پڑتا ہے۔ 

جب ہم کالج کے طالب علم تھے‘ اسٹوڈنٹس یونین کی سرگرمیوں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے تھے‘ تب ہر قسم کا احتجاج کیا۔ کالج کے طلبہ کے لئے کی صعوبتیں بھی برداشت کیں۔ ساڑھے تین برس تک عدالت کے چکر بھی کاٹے۔ کسی پیشی کو عدالت میں حاضر نہ ہوسکے تو وارنٹ بھی نکلا....... بہرحال! عدالت کا چکر کاٹتے ہوئے اکثر یہ خواہش دل میں پیدا ہوئی کہ کاش عدالتوں کے چکر لگانے کے بجائے ایک مہینہ مسلسل جیل میں گزار دیں۔ عدالت کے چکر سب سے بڑی سزا ہے جس میں آپ کو اپنی حیثیت، رتبہ، سماجی مقام کو بھول کر ایک مجرم کی طرح کٹہرے میں سرجھکائے کھڑا ہونا ہوتا ہے۔ فلمی دنیا کی عدالتیں مختلف ہوتی ہیں جس میں کٹہرے میں کھڑا ملزم جج کو جو چاہے کہہ سکتا ہے‘ حقیقی عدالت کے کٹہرے میں کھڑے ہوئے ملزم کی آواز بھی اونچی ہوجائے تو اس کے ریمانڈ کی مدت میں توسیع ہوجاتی ہے۔ جرمانہ بڑھ جاتا ہے۔ اس دور سے گزرنے کے بعد اب اسکول اور کالج کے طلباء کو ا حتجاجی مظاہروں میں دیکھتے ہیں تو یہی احسا س ہوتا ہے۔۔۔ والدین مصیبتیں اٹھاکر، آرزوؤں ارمانوں کے ساتھ اپنے بچوں کے مستقبل سنوارنے کی جدوجہد کرتے ہیں اور بچے جوش ولولہ میں اپنے ہاتھوں سے اپنا مستقبل برباد کرلیتے ہیں۔ ان نوجوانوں کو اکسانے والے‘ ان کا استحصال کرنے والوں کو کوئی نقصان پہنچنے والا نہیں کیوں کہ وہ اپنی اولاد کو اس قسم کے واقعات سے بہت دور رکھتے ہیں۔


نوجوانوں کا جذبہ، ہمارا جوش اور ولولہ اپنی جگہ قابل قدر اور لائق ستائش ہے۔ یہ ان کی توانائی ہے جس کا غلط استعمال ہورہا ہے یہی توانائیاں، صلاحیتیں، جوش، ولولے اور جذبے کا صحیح استعمال کیا جائے تو اس کے مثبت نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔

حیدرآباد کے مسلمان تباہی و بربادی کے بعد بڑی مشکل سے دوبارہ اپنے پیروں پر آپ کھڑا ہونے کے قابل بن سکے۔ سب کچھ چھن جانے کے باوجود پیش رو نسلوں کی قربانیوں کی بدولت آج ہمارے گھروں میں قدرے خوشحالی ہے۔ تعلیم کی روشنی ہے۔۔۔ پورے ملک میں فخر سے حیدرآبادی مسلمانوں کی مثال دی جارہی ہے کہ تعلیمی میدان میں یہ آگے ہیں۔ تعلیم یافتہ نوجوان خواہ وہ دینی مدارس کے ہوں کہ عصری تعلیمی اداروں کے‘ فرقہ پرستوں کی نگاہوں میں ہمیشہ کھٹکتے رہے۔ وہ تو ثابت کرنا چاہتے ہیں کہ مسلم نوجوان دہشت گرد ہیں‘ اب ہم اپنے عمل سے اِن کی خواہشات کی تکمیل کررہے ہیں۔ چارمینار کے قریب پیش آئے واقعات میں پندرہ تا بیس سال کے عمر کے نوجوانوں کی تعداد زیادہ ہے۔ اگر اِس مرحلہ پر ہمارے ہاتھ میں پتھر آجائیں تو پھر اِن پتھروں سے ہم اپنی تقدیر کے آئینہ کو ہی چور چور کرسکتے ہیں۔ اگر اس وقت غلط راستہ پر قدم پڑنے لگیں تو جس منزل کی تلاش میں اتنی عمر گذاری وہ کبھی نہیں مل سکتی۔


جب کبھی کمسن طلباء اور نوجوان اس قسم کی واقعات میں ملوث نظر آتے ہیں‘ دلی تکلیف ہوتی ہے کیونکہ ان میں ہمیں اپنی اولاد کا عکس نظر آتا ہے۔ بچوں کو ارمانوں آرزؤوں کے ساتھ پروان چڑھاتے ہیں گھر سے نکلتے ہیں تو دس بار تاکید کرتے ہیں کہ راستہ دیکھ کر چلو، چلتی بس سے نہ اترو نہ چڑھو۔ بائیک کی رفتار کم رکھو، کسی دن ان کی واپسی میں چند منٹ کی بھی تاخیر ہو جاتی ہے تو پریشان ہوجاتے ہیں۔ انجانے اندیشوں اور وسوسوں سے دل کی دھڑکنیں تیز ہوجاتی ہیں۔ ان کی سلامتی کے ساتھ گھر واپسی کے لئے دعائیں کی جاتی ہیں۔ منتیں مانگ لی جاتی ہیں۔ جب تک وہ گھر میں داخل نہیں ہوتے کھانا پینا حرام سا لگتا ہے۔ بچے ذرا سا بیمار ہوجائیں تو اِن کی تکلیف خود محسوس کرتے ہیں‘ ان کی دیکھ بھال کے لئے رات رات بھر جاگتے ہیں‘ انہیں تکلیف ہو تو آنسو ہماری آنکھ سے نکلتے ہیں۔ جب اِن ہی بچوں کو پولیس کی لاٹھیاں کھاتے یا گرفتار ہوکر جیل جاتے ہوئے ہم کیسے برداشت کرسکتے ہیں۔ ان کے اچھے روشن مستقبل کے لئے تو والدین ہر قسم کی قربانیاں دیتے ہیں‘ وہ بھلا اپنے بچوں کے مستقبل کو تاریک ہوتا ہوا کیسے دیکھ سکتے ہیں۔ اب ان بچوں کو یہ احساس کون دلائے‘ اساتذہ کی بھی ذمہ داری ہے اور خود والدین کی بھی کہ وہ انہیں ہر بات سمجھائیں۔


ہندوستان ہمارا ملک ہے۔ ہم اس کے شہری ہیں‘ ہم یہاں باوقار زندگی گذارنا چاہتے ہیں تو پتھر پھینک کر نعرے لگاکر نہیں بلکہ اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے ایک مقام حاصل کرکے ایسا کرسکتے ہیں۔ آپ کے پتھراؤ سے کیا ہوگا؟ دشمن کی خواہش پوری ہوگی‘ وہ چاہتا ہے کہ متنازعہ ڈھانچہ کو نقصان پہنچے تاکہ اسے مستقل اور پکا بنانے کا بہانہ مل سکے۔ وہ چاہتے ہیں کہ آپ کے ہاتھ میں پتھر رہیں‘ قلم، کمپیوٹر، کتابوں سے آپ دور رہیں تاکہ جہالت کی وجہ سے آپ ہمیشہ ان کے ماتحت رہیں۔ اب تک اعلیٰ تعلیم حاصل کرتے ہوئے آپ نے ان کے منصوبوں کو خاک میں ملادیا تھا اب کتابوں کا بستہ پھینک کر آپ نے پتھر اٹھالیا ہے تو وہ مسرور ہیں۔ اگر آپ چاہتے ہیں کہ آپ عزت دار شہری بن کر رہیں‘ آپ کی مذہبی شناخت برقر ار ہے‘ آپ کو امن پسند اور اسلام کو سلامتی کا ضامن تسلیم کیا جائے تو آپ اپنے آپ کو ہر اعتبار سے مضبوط بنائیں۔ اخلاق، کردار، تعلیم، حسن سلوک، رواداری کی مثال بن جائیں۔ اپنے آپ کو اس قابل بنائیں کہ ہندوستانی اڈمنسٹریشن میں آپ کا عمل دخل ہو‘ پولیس، فوج، قانون ہر شعبہ حیات میں آپ کا وجود ہو۔ سیاست میں بھی تعلیم یافتہ بے غرض بے لوث مسلمانوں کی ضرورت ہے۔ اس کے لئے آپ ہی کو آگے بڑھنا ہے۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ نعرے لگانے سے ہمارے تمام مسائل کا حل نکل سکے گا تو یہ ہماری خام خیالی ہے‘ کیوں کہ دوسرے ہم سے زیادہ بلند نعرے لگاسکتے ہیں۔ چوں کہ ایک منصوبہ بند اور منظم طریقہ سے وہ ہر شعبہ حیات میں غالب ہیں۔ اس لئے آج بہت سارے فیصلے اِن کی مرضی کے مطابق ہورہے ہیں۔ جب ہم بھی ہر شعبہ حیات میں اپنے وجود کا احساس دلائیں گے تب اپنا حق واپس لے سکیں گے۔

نوجوانو! آپ قوم کا اثاثہ ہیں‘ خدارا اپنے غلط عمل سے ملت کے ماتھے کا کلنک نہ بنیں۔ آپ سے آپ کے والدین کو اور پوری قوم کو توقعات ہیں‘ انہیں پورا کیجئے۔۔۔اپنی توانائیوں کو مثبت اور تعمیری اقدامات کیلئے بچاکر رکھیں‘ اسے ضائع کرکے اپنا، اپنے والدین اور قوم کا نقصان نہ کیجئے۔ یاد رکھئے کہ زندگی میں کوئی کسی کے کام نہیں آتا۔ صرف آپ کی تعلیم، آپ کی صلاحیتیں اور نیک نامی آپ کے کام آتی ہے۔


نوجوانوں کو سمجھانا آسان نہیں ہے‘ کیوں کہ اس عمر میں جوش اور ولولہ سوچنے سمجھنے کی صلاحیتوں پر اثر انداز رہتا ہے۔ یہ ذمہ داری ہماری سیاسی اور مذہبی قیادت کی بھی ہے۔ وہ مساجد کے منبر سے عوامی جلسوں میں نوجوانوں کو ہر قسم کی تخریبی سرگرمیوں سے باز رہنے کی تاکید کریں انہیں نصیحت کرتے وقت ایک لمحہ کے لئے اپنی اولاد کا تصور کرلیں۔ انشاء اللہ آپ کے الفاظ میں تاثیر آجائے گی۔

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 927