donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Moqeet Abdul Qadeer
Title :
   Saal 2014 Aur Ummate Musalma Ki Tareekh

سال 2014 اور امت مسلمہ کی تاریخ


عبدالمقیت عبدالقدیر ، بھوکر

سال 2013اب وداع ہو رہا ہے ۔ نئے سال کی آمد کی تقریباً تیاریاں ہوچکی ہونگی۔ خصوصاً جواں طبقہ 31 دسمبر کی تمام منصوبہ بندی کرچکا ہوگا۔ ایس ۔ایم ۔ایس ، ای میل او ر واٹس اپ پر تو ان کا طویل سلسلہ دسمبر کی ابتدا سے ہی شروع ہوچکا ہے۔ کچھ مسلم حضرات نے تو کرسمس کی مبارکبادیوں میں بھی کسی قسم کی کوئی کثر باقی نہیں رکھی۔بڑا ہی دکھ ہوتا ہے کہ امت مسلمہ کا نوجواں طبقہ بھی خاصے تناسب میں اس وبا میں ملوث ہے۔ نوجوانوں کا مغربی یا جدید تہذیب کی طرف راغب ہونا بھلے دردمند حضرات کو پریشان کرے مگر تہذیب اور سماج کا مطالعہ کرنے والوں کے لیے یہ کوئی تشویش کی بات نہیں۔ نوجوان خون ہمیشہ کچھ نیا پن چاہتاہے ۔ روایات 

او ر رسومات اسے روکے نہیں رکھ سکتے ۔ اس دور میں اگر کوئی ان اثرات سے خود کو بچا کر رکھنا چاہتا ہے یا رکھتا ہے تو اسے اپنے ہی احباب و ہمدردان سے مقابلہ آرائی کی نوبت پیش آجاتی ہے۔اسلام نے ان تمام چیزوں سے اپنے ماننے والوں کوبزور طاقت کبھی نہیں روکااگر بعض جگہ ان کی ممانعت کا حکم بھی ہے تب بھی ان احکام کو روبہ عمل لانے کے لیے پہلے ہی اس کا متبادل پیش کردیا۔ بنا صحیح متبادل پیش کیے کسی عمل سے عوام کو روکنا مخالفت کو جنم دیتا ہے۔


سال 2014 کی آمد پر جشن کے منتظر نوجوانوں کے لیے یہ بات کچھ اہمیت رکھتی ہے یا نہیں پتہ نہیں مگر تمام اہل علم اور دردمندحضرات کو یہ سال کوئی پیغام اور دعوت فکر اور عمل ضرور دے رہا ہوگا۔ اس علم وفہم کے مالک طبقہ کی دوڑ میٹنگ ہال، پریس کانفرنس اور اگر زیادہ کہوں تو مسجد کے منبر یا پھر کاغذ کے میدان سے آگے نہیں ہے ۔ کتنی عجیب بات ہے کہ امت مسلمہ اپنے اوپر بر پا ہونے والے ایک عظیم حادثے کو یکسر بھلابیٹھی ہے۔ 


آج ہر مسلم کی آنکھ عالم اسلام پر ہورہے مظالم سے نم نظر آتی ہے ۔ ہر کوئی امت کے غم سے پریشان ہے ۔ کہیں اسلام پر پابندی کی باتیں ہورہی ہیں تو کہیں شعائر اسلام کے ساتھ کلام اللہ پربھی اعتراضات کیے جارہے ہیں۔ایسے میں مسلم امت غم کے مارے چیختی نظر آتی ہے۔ ہرکوئی اپنے درد پر صرف چیخنا ، درد و آہ سے تڑپنا ہی جانتا ہے مگر اس غم کا چارہ کرنے سے کسی کو کوئی 
سروکا ر نظر نہیں آتا۔ان تمام مصائب کی جڑصرف ایک ہی نظر آتی ہے کہ ہم نے اپنے ہی ہاتھوں اپنی گردنیں دشمنوں کے ہاتھوں میں دے دی ۔ 


لگ بھگ ایک صدی پہلے تک یہ ایسا کچھ نہیں تھا۔ ہمارا ایک وزن تھا ۔ ہم بھی سوپر پاور سمجھے جاتے تھے۔ مگر صرف ایک صدی کے عرصے ہی ہم اس قدر محتاج و مجبور ہوگئے کہ اب ہمیں جینے کے لیے بھی دوسرے کا رحم و کرم درکا ہو گیاہے۔ اس کا مطلب یہ ہر گز نہیں کہ آج سے ایک صدی پہلے تک امت مسلمہ تمام برائیوں اور بے حیائیوں سے پاک تھی۔نہیں ایسا نہیں ہے ۔ مگر آج سے ایک صدی پہلے تک امت مسلمہ کا حال ایسا نہیں تھا جیسا کہ آج ہے۔ آج سے ایک صدی پہلے تک امت مسلمہ سے آنکھیں ملانے کی کسی میں جرأت نہیں تھی ۔ اس کی وجہ صر ف یہ تھی کہ امت آج کی طرح سو سال پہلے یتیم نہیں تھی۔اس کا بھی کوئی والی تھا ۔ بھلے ہی یہ والی امت خلافت راشدہ کے سا نقشہ پیش کرنے کے قابل نہیں تھا مگر امت کے لیے اس والی کی حیثیت اس باپ کی سی ضرور تھی جو کئی عرصے سے بیمار چلا آرہا ہے ، جو کچھ کام نہیں کرسکتا مگر اسکے بچے اس بیمار باپ ہوتے ہوئے کبھی یتیم نہیں کہلاتے، ان بچوں کو اپنے سرپر اپنے باپ کا ہاتھ ضرور نظر آتا۔وہ اپنے باپ کی شفقت سے خود کو محروم نہیں سمجھتے ۔وہ دنیا کی ہر للکار کو قبول کرنے او راسکا منہ توڑ جواب دینے کا جگر رکھتے ۔ ان کے باپ کا وجود ہی ان کے لیے روحانی سرپرستی اور جسمانی قوت بن جاتا۔ 


مگر مکار و عیار زمانے نے ان سے بنا کسی جرم کے ان کے باپ کو چھین لیا۔ چھینا بھی تو ایسی وجہ کہ جو آج تک کسی کی سمجھ نہ آسکی۔


آج سے ایک صدی پہلے تک تمام مسلمان ایک قوم کی مانند رہ رہے تھے۔ انکا خلیفہ کمزور ہی سہی مگر ان کا راہ نما، قائد، والی اور روحانی سرپرست بھی تھا۔ پھر اچانک فسطائیت جاگ اٹھتی ہے ۔ ہوس میں اندھی پوروپی اقوام طاقت کے نشے میں چور ایک دوسرے سے بر سر پیکار ہوجاتی ہیں۔ بلآخر جب ان کو ہوش آتا ہے امن قائم کرنے کی بات کرتے ہیں ۔ اپنی بدامنی اور درندگی کا ذمہ دار ایک تیسرے فریق کو قرار دے کر اسے سزاد ینے کھڑے ہوجاتے ہیں۔ جب کہ اسکی کوئی خطا نہیں۔ اس کاگناہ بتایا گیا تو بھی صرف یہ کہ وہ ان دو لڑنے والے دشمنوں میں سے ایک کا پڑوسی ہے۔ غرض بڑے سنگ دلی سے خلافت کی عبا کو چاک کردیا گیا اور اس سے امت کے اتحاد کاکفن سلا گیا جس میں اہل اسلام کی غیرت ، ہمت ،عزت کو لپیٹ کر دفن کردیا گیا۔


امت مسلمہ کا حال یہ ہے کہ وہ پچھلے سو سال سے فقط اپنے جسم پر مختلف جگہ پر ہروقت نکلتے رہنے والے پھوڑے ، پھونسیوں کا علاج نشتر سے کرتی چلی آرہی ہے ۔ جس سے وہ پھوڑے تو ختم ہوتے مگر نشتر کا استعمال انھیں پھر نیا زخم دے جاتا ہے جس پرمزید نشتر چلانے کی بات کی جاتی ہے۔کسی کا دھیان اس حفاظتی مرہم کی جانب نہیں جاتا جس کے لگاتے ہی تمام پھوڑے پھونسیاں یکسر ختم ہوکر جلد کو ان امراض سے لڑنے کی طاقت حاصل ہوجاتی ہے۔


آج سے سو سال پہلے عالمی جنگ کی شروعات ہوئی تھی ۔ جس میں دونوں جانب لڑنے والی اقوام تھی ۔امت مسلمہ اور مملکت مسلمہ کا اس فسطائی دوڑ کی جنگ میں کوئی کردار نہیں تھا۔ مگر برق انہی پر گری۔ بنا کسی وجہ 1918میں خلیفہ کو عہدے سے بے دخل کردیا گیا اس کے بعد اس عہدے کو ختم کرکے ہمیں یتیم بنادیا گیا اور ہم اپنے ولی کو اسکا عہدہ دلانے کے بجائے تومٹی اور میں آگ والے شیطانی نعرے کے جال میں پھنس چکے ہیں جب کہ ہم تو خالق کائنات کی اشرف التخلیق ہیں۔


اللہ سے دعا ہے وہ ہماری اس غفلت کا خاتمہ فرمائے اور ہماری ان گنہ گار آنکھوں کو وہ خلافت کے قیام کا منظر دکھائے ۔ جس کی امت مسلمہ کو آج ضرورت ہے۔آمین


----------------------------
عبدالمقیت عبدالقدیر ، بھوکر
سخن فروش ہوں داد ہنر کمانی ہے
*****************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 757