donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Aleem Khan Falki
Title :
   Sharyi Nezam Nafiz Karne Ke Tamam Khwahishmando Ke Naam Aik Khula Khat


پاکستان ۔  تیرا کیا بنے گا؛


دہشت گردی ضروری ہے ۔۔۔۔۔ لیکن کس کے خلاف؟؟


 

شرعی نظام نافذ کرنے کے تمام خواہشمندوں کے نام

ایک کھلا خط

 

مذہب و مسلک کے نام پر آج جتنی دہشت گردی ہورہی ہے وہ قابلِ مذمّت تو ہے لیکن دوسری طرف ہر فریق کا یہ جذبہ قابلِ قدر ہے کہ وہ یہ سب اللہ اور اس کے رسول ﷺ کی محبت میں کررہا ہے۔ ہم اس جذبے کو سلام کرتے ہیں۔ محلّے کی مسجدوں کے مسلکی اختلافات سے لے کر افغانستان، ایران، عراق اور شام  تک ہر فریق بنامِ کلمہ توحید ایک دوسرے کی تحقیر، تکفیر اور قتال کررہا ہے۔ شریعت کے مطابق نہ چلنے والے کے خلاف جنگ کرنے اور جان دے دینے یا جان لے لینے کا مجاہدانہ جذبہ سوائے مسلمانوں کے دنیا کے کسی مذہب کے پیروکاروں میں نہیں پایا جاتا۔ کاش ان مجاہدوں شہیدوں اور غازیوں کو یہ حقیقی علم ہوتا کہ شریعت کیا چیز ہے اور شریعت کا منشا کیا ہے۔ قصور ان معصوم مجاہدوں کا نہیں بلکہ ان کے ان پیشواؤں کا ہے جنہوں نے ان نوجوانوں کے ذہنوں میں اُس شریعت کیلئے جان دے دینے کا جنون بھردیا جو حقیقت میں شریعت تھی ہی نہیں۔ اور یہ کوئی آج کا نیا مسئلہ بھی نہیں۔ تاریخ شیعانِ عثمانؓ و شیعانِ علیؓ ،خوارِج ومعتزلہ، رافضی و سنت الجماعت، حنفی و شافعی، مقلّدین و غیر مقلّدین کی خون آشام جنگوں اور بربریت سے اسی طرح بھری پڑی ہے جس طرح آج بریلوی، دیوبندی، سلفی اور شیعہ سنّی وغیرہ کی خونریزیوں سے نئی تاریخ لکھی جارہی ہے۔ جتنے متصادم گروہ ہیں ان کے تانے بانے جاکر انہی مسلکوں کے بنیادی عقائد سے ملتے ہیں۔ ہر مسلک اپنے آپ کو وہ ۷۳واں فرقہ سمجھتا ہے جو حق پر ہے اسلئے اپنے آپ کو باقی ۷۲ فرقوں کی بیخ کنی کرنے کے منصب پر فائز سمجھتا ہے۔ اگرچہ کہ رسول اللہ  نے ۷۳ فرقوں کی پیشن گوئی فرمائی تھی لیکن یہ کبھی نہیں فرمایا کہ باقی ۷۲ فرقوں کو ختم کرنے کا ۷۳ویں فرقے سے مواخذہ ہوگا۔ حتیٰ کہ آپ کو منافقین کے نام بھی بتادیئے گئے تھے لیکن آپ نے وہ بھی کسی کو نہیں بتائے سوائے ایک صحابیؓ کے، جن سے عمرؓ نے بہت گڑگڑا کر پوچھا کہ نام بتائیں لیکن انہوں نے عمرؓ کو بھی نہیں بتائے۔ پھر آج کے ان نام نہاد ۷۳ویں فرقوں نے قرآن و حدیث سے وہ کونسا جواز حاصل کرلیا ہے کہ وہ دوسروں کو اتنی آسانی سے کافر، مشرک، بدعتی، منافق، فاسق، امریکی یا یہودی ایجنٹ وغیرہ قرار دے سکتے ہیں اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ وہ  کلمہ گو ہے اس کا قتل نہ صرف جائز بلکہ کارِ عظیم سمجھتے ہیں۔


          ہم نہیں جانتے کہ وہ ۷۳واں فرقہ کونسا ہے جو حق پر ہے اور جنّت کا اصلی وارث ہے۔ وہ جو بھی ہو ہم اُس سے یہ عرض کرنا چاہتے ہیں کہ اگر آپ واقعی اِس سرزمین پر شریعت کی بالا دستی قائم کرنا چاہتے ہیں تو دورِ حاضر کا سب سے بڑا مسئلہ کون سا ہے پہچانیں۔ امریکہ یا یہودیوں سے زیادہ نقصان دہ اور ہندوفرقہ پرست آریس یس سے زیادہ خطرناک خود مسلمانوں کا اپنا پیدا کیا ہوا ایک ایسا مسئلہ ہے جس سے مسلمان قوم کسی بیرونی دشمن کے ہاتھوں اس قدر مالی اور اخلاقی نقصان نہیں اٹھارہی ہے جتنا خود اپنے ہاتھوں۔ اگر آپ کو واقعی ۷۳واں فرقہ بننا ہے تو اس مسئلے کو سجمھئے اور اس کے خلاف جہاد کیجئے۔ لیکن اس کے خلاف جہاد کرنا اتنا آسان نہیں۔ کیونکہ دشمن نہ یہودی ہے نہ نصرانی، نہ ہندو ہے نہ کمیونسٹ، یہ پیدائشی مسلمان ہیں۔ ان میں اتنے ہی بریلوی ملوّث ہیں جتنے دیوبندی، شیعہ بھی اس میں اسی طرح شامل ہیں جسطرح سلفی۔ یوں سمجھ لیجئے کہ دو چار فیصد کو چھوڑ کر باقی پچانوے چھیانوے فیصد عوام بلا لحاظِ مذہب و مسلک سب اس جرم میں شامل ہیں جن کے خلاف آپ جب تک جہاد نہیں کرینگے یہ مسئلہ ختم ہونے والا نہیں۔ بلکہ آئندہ دس بیس سال میں آپ دیکھیں گے کہ ہندوپاک و بنگلہ دیش کے مسلمان مالی طور پرنہ صرف  افلاس کا شکار ہوجائینگے بلکہ اخلاقی گراوٹ کی ہر انتہا کو چھونے لگیں گے۔ یہ سازش کسی دشمن کی نہیں بلکہ خود آپ کی پیدا کردہ ہے کہ اصل مسئلہ کو چھوڑ کر ثانوی درجے کے مسائل پرآپ لوگ ایک دوسرے کا خون بہارہے ہیں۔ اصل مسئلے کا نہ آپ کو شعور ہے نہ اس کے خلاف لڑنے کی منصوبہ بندی۔ آپ دہشت گردی کے ذریعے معصوم بچوں کا خون تو بہا سکتے ہیں، مسجد میں نہتّے نمازیوں کو شہید تو کرسکتے ہیں، دشمن گروہ کے گرفتار شدہ افراد کو جنگلی جانوروں کی طرح مارتو سکتے ہیں لیکن ایک جرم جسکا سب ایک مہذب عمل سمجھ کر ارتکاب کررہے ہیں آپ اس جرم کے خلاف نہیں لڑسکتے۔ اب اگر آپ حکومت بھی حاصل کرلیں تو ایک بیمار معاشرے کو درست نہیں کرسکتے کیونکہ قانون کے ذریعے اس جرم کو ختم نہیں کیا جاسکتا۔ اس جرم کو ختم کرنے کیلئے علما نے اپنی کوششیں کرلیں، دانشور اور مصلحین بھی کوشش کرکے تھک چکے۔ اب آپ ہی سے امید ہے کہ شائد آپ یہ کام کرجائیں۔ آپ اپنی بندوقوں کی نال بجائے معصوم لوگوں پر اٹھانے کے ایک بار معاشرے کے ان پچانوے فیصد نام نہاد مہذّب لوگوں کی طرف اٹھائیں تو یہ لوگ جو غم اور پریشانی میں تو اللہ کو رو رو کر یاد کرتے ہیں لیکن خوشی کے موقع پر آپے سے باہر ہوجاتے ہیں پھر نہ انہیں اللہ یاد رہتا ہے نہ اللہ کے رسولﷺ کا طریقہ، ایک ہی دن میں راستے پر آجائیں گے۔ کیونکہ یہ لوگ اللہ کے اُس عذاب کا انتظار کررہے ہیں جو مختلف قوموں پر نازل کیا گیا۔ ہو سکتا ہے اللہ تعالیٰ نے آپ ہی کو ان کی سرکشی کو کچلنے کیلئے اس عذاب کا ذریعہ بنایا ہو۔ آپ داڑھی نہ چھوڑنے پر یا سر سے پاؤں تک مکمل برقع نہ پہننے پر تو سخت سے سخت ملامت بلکہ سزا دینے سے بھی نہیں چوکتے۔ اگرچہ کہ داڑھی نہ چھوڑنے سے یا چہرہ اور ہاتھ کھلا رکھنے سے ایسی کوئی برائی جنم نہیں لیتی جس سے پورامعاشرہ اُتنا تباہ ہو جتنا کہ اِس جرم سے ہورہا ہے جسے میں آپ کے گوش گزار کرنا چاہتا ہوں۔ آپ زناکاروں کوتو سرِعام سنگسار کرتے ہیں جبکہ زنا کے مرتکب تو صرف دو افراد ہوتے ہیں۔ آپ اُس برائی کی طرف آنکھ اٹھا کر دیکھنا نہیں چاہتے جس سے ہزاروں بلکہ لاکھوں زنا عام ہورہے ہیں۔ کُھلے عام ہورہے ہیں۔ ہمارے شیعہ مجاہدین اہلِ بیت کی تعظیم میں کہیں سینے پیٹتے ہیں کہیں لہولہان ہوتے ہیں اور کہیں گولیاں چلاتے ہیں۔ آپ معاشرے میں اُس ظلم کو نہیں دیکھتے جو ہزاروں سیّد زادیوں پر ٹوٹ رہا ہے۔ آپ کے دماغوں میں یہ بٹھا دیاگیا ہے کہ حکومت اپنے ہاتھ میں لے لینے کے بعد توحید کا پرچم بلند ہوجائیگا۔ خودبخود اسلامی نظام نافذ ہوجائیگا اور راتوں رات آپ قانون بدل دینگے اور سارے جرائم کا خاتمہ کردینگے۔ یہ وسوسہ آپ کے شعلہ بیان قائدین نے آپ کے دماغ میں بھر دیا ہے۔ یہ ان پڑھ مولوی چالاک مقرِّ ر ہوتے ہیں انہیں آپ کے معصوم ذہنوں کو بدلنا آتا ہے۔ وہ جس طرف گھمائیں آپ گھوم جاتے ہیں۔ آپ کو شہادت اور جنّت کے فلسفے ذہن نشین کرواکر معصوم انسانوں کا قتل کرواتے ہیں جبکہ یہ شہادت نہیں بلکہ ہلاکت اور انسانیت کے خلاف ایک ایسا جرم ہے جس کی اللہ کے ہاں ہرگز معافی نہیں ہوسکتی۔ اگر حکومت ہاتھ میں آجانے سے اسلام آجاتا تو سب سے پہلے تو اللہ کے رسول ﷺ خود اُسی وقت کفّارِ مکہ کے اُس آفر کو قبول کرلیتے جب مشرکینِ مکہ نے ولید بن مغیرہ کو سفیر بنا کر بھیجا اور چار چیزیں آفر کیں جن میں ایک عرب کی بادشاہت بھی تھی۔ آپ بادشاہت قبول کرلیتے اور اُس کے بعد اسلام کو نافذ کرنا آسان ہوجاتا نہ بدر و احد میں صحابہؓ کو شہید ہونا پڑتا نہ خندق و حنین پیش آتے۔ اسلام نافذ کرنے کیلئے سب سے پہلے معاشرے کو درست کرنے کی ضرورت ہوتی ہے۔ کبھی یتیموں مسکینوں کی فریاد رسی تو کبھی حلف الفضول اورکبھی میثاقِ مدینہ کے ذریعے انسانی حقوق کی جنگ لڑنی پڑتی ہے۔ یاد رکھئے نبیﷺ نے اُن سوشیل مسائل پر پہلے کام کیا جن مسائل سے اُس وقت کا معاشرہ دوچار تھا۔ ہر دور کے مسائل الگ ہوتے ہیں۔ ابوبکرؓ و عمرؓ وغیرہ کے دور کے آتے آتے مسائل تبدیل ہوگئے اور ان خلفا نے اجتہاد کیا اور ان مسائل کا پہلے حل نکالا۔ تابعین، تبع تابعین، ائمہ و صوفیا کے اپنے اپنے دور کے مسائل الگ الگ تھے اور ان اسلاف نے بھی اجتہاد کیا۔ صحیح کہا تھا ڈپٹی نذیر احمد نے کہ ‘‘جتنے نبی آئے وہ اپنے وقت کے سوشیل ریفارمر پہلے تھے۔ جو بھی اپنے وقت کے سماجی مسائل پر کام کرے گا وہ نبیوں کے مشن پر کام کرے گا’’۔ آیئے دیکھتے ہیں آج کا سب سے بڑا مسئلہ کیا ہے جو پہلے کبھی نہیں تھا، جس کی وجہ سے پوری امّتِ مسلمہ تباہی کے راستے پر بلکہ آتش فشاں کے دہانے پر پہنچ رہی ہے۔ ایک طرف غریب اور متوسط طبقے کے مسلمان معاشی بدحالی اور اسکے نتیجے میں جھوٹ، رشوت ستانی، دھوکہ، فحش، قتل و غارتگری میں مبتلا ہورہے ہیں تو دوسری طرف امیر زادے چاہے وہ  ہمارے والے ہوں کہ عرب، عیاشیوں کے عادی ہورہے ہیں اور دوسروں میں یہی لالچ پیدا ہورہی ہے جس کی وجہ سے ہزاروں لاکھوں نوجوان تباہ ہورہے ہیں۔ گرل فرینڈ بوائے فرینڈزکا کلچر پورے پاکستان میں عام ہورہا ہے۔ دس بیس سال کے بعد وہی کلچر عام ہوجائیگا جو کہ امریکہ و یورپ میں ہے کہ شادی سے پہلے یا بعد کسی مرد یا عورت سے یہ پوچھنا غیر مہذب کہلائیگا کہ کیا اس کا کسی اور مرد یا عورت سے کبھی کوئی افیر رہا ہے؟


آیئے ہم بتاتے ہیں آپ کو وہ جرم کیا ہے جو آپ کی ناک کے نیچے پھل پھول رہا ہے۔ "الدینُ معاملۃ" یعنی دین معاملہ ہے۔ معاملات میں سب سے اہم ترین معاملہ جو اس روئے زمین پر ہے وہ میاں بیوی کا معاملہ ہے جو نکاح سے شروع ہوتا ہے۔ نکاح کیونکر ہو کس طریقے پر ہو،کہاں ہو یہ تمام امور رسول اللہ اور صحابہ کی زندگیوں میں عملی نمونے کے طور پر پیش کردیئے گئے۔ رسول اللہﷺ نے حکم فرمادیا کہ "نکاح کو اتنا آسان کرو کہ زنا مشکل ہوجائے"۔ بالفاظِ دیگر اگر نکاح کو مشکل بنادیا گیا تو زنا آسان ہوجائیگا۔ کیا آپ دیکھ نہیں رہے ہیں کہ آج کراچی، حیدرآباد یا لاہور میں ایک شادی ہوتی ہے تو اُس خرچ میں کتنے زنا آسان ہوجاتے ہیں؟ اگر لوگوں کو حدیث سمجھائیں تو کہتے ہیں "بھائی، پیغمبر کا زمانہ الگ تھا، اُن کا کلچر الگ تھا"۔ علی الاعلان آپ کے سامنے اقرار کررہے ہیں کہ ہمارا کلچر الگ ہے پیغمبر کا کلچر الگ ہے ہم پیغمبر کے طریقے پر چل کر اپنی خوشیوں کو کم نہیں کرسکتے۔ گویا پیغمبر کاکلچر مہذب نہیں تھا اب ہمارا کلچر زیادہ مہذب ہے۔ نعوذباللہ۔ پنجاب کے کسی گاوں میں کام کرنے والی ایک بوڑھی عیسائی مزدور عورت جب رسول ﷺ کی شان میں نادانستہ اور نادانی میں گستاخی کرتی ہے تو آپ کلیشنکوف لے کر سڑکوں پر آجاتے ہیں اور اس عورت کو سزائے موت دینے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ لیکن آپ کی آنکھوں کے سامنے پوری دانستگی کے ساتھ اکثریت رسول اللہ ﷺ کی شان میں گستاخی کرتی ہے، اسراف اور تبذیر جیسے حرام امور کا ارتکاب کرتی ہے، آتش بازی، ناچ گانے، مردوزن کی مخلوط پارٹیاں ہوتی ہیں۔ حیا کے تقاضے شرمسار ہوتے ہیں۔ اور آپ خود ان دعوتوں میں شریک ہوتے ہیں۔ اگر شریک نہیں بھی ہوتے تو اُس حدیث کو فراموش کردیتے ہیں کہ "پس جو کوئی تم میں سے منکر کو دیکھے تو ہاتھ سے روکے ۔۔۔۔" کیا یہ ہاتھ صرف فاتحہ، میلاد، ماتم پڑھنے والے کے خلاف اٹھتے ہیں؟ کیا یہ ہاتھ صرف فوجیوں کے معصوم بچوں کے خلاف اٹھتے ہیں؟ کیا یہ ہاتھ صرف بے چارے ٹرین یا بسوں کے مسافروں کے خلاف اٹھتے ہیں جنہوں نے نہ آپ کا کچھ بگاڑا نہ دین کا۔ کوئی سنّی مُلّا امام باڑوں میں بم رکھواتا ہے تو کوئی شیعہ ملّا مسجدوں میں بم رکھواتا ہے۔ کوئی میلاد کے جلوس پر گولی چلادیتا ہے تو کوئی سلفیوں دیوبندیوں کو مسجدوں میں آنے سے روک دیتا ہے۔ آپ لوگ ان شادی خانوں میں بم کیوں نہیں رکھتے جہاں سنّتوں کو علی الاعلان پامال کیا جارہا ہے۔ ان لوگوں کو ایسی تقریبات میں جانے سے کیوں نہیں روکتے جہاں خرافات اور غیر اسلامی رسمیں انجام دی جارہی ہیں؟


شائد آپ بھی عام لوگوں کی طرح اس مغالطےمیں مبتلا ہیں کہ یہ ایک سماجی مسئلہ ہے۔ جی نہیں؛ یہ حلال و حرام کا مسئلہ ہے۔ آیئے ہم آپ کو بتاتے ہیں کہ اِس حرام کی وجہ سے پوری قوم کس طرح برباد ہورہی ہے۔ پھر خود ہی فیصلہ کیجئے کہ قوم کو برباد کرنے والے یہودی یا نصرانی ہیں، یا عوام یا آپ جو اتنے بڑے پیمانے پر حرامکاریوں کو دیکھتے ہوئے بھی انجان ہیں۔

۱۔ اسراف اور تبذیر حرام ہیں لیکن ایک معمولی سے معمولی شادی میں بھی منگنی ، ڈھولکی، مہندی، مایوں، سانچق، رخصتی کے دن کا کھانا، جہیز،  بیوٹی پارلر، ٹرانشپورٹیشن، تحفے تحائف ، پارٹی ہال، شادی خانے وغیرہ پر کم سے کم دس لاکھ روپئے کا خرچ آنا لازمی ہے۔ ایک عام پاکستانی جس کی تنخواہ بمشکل پندرہ تا بیس ہزار روپئے ہوتی ہے آپ ایمانداری سے بتایئے وہ یہ رقم کہاں سے لاتا ہوگا؟ یا تو سود پر، یا خیرات زکٰوۃ یا چندے پر یا پھر غیر اخلاقی کمائی کے ذریعے۔ ابھی ایک بیٹی یا بہن کے ہاتھ پیلے نہیں کرپاتا کہ دوسری بہن یا بیٹی کی شادی سر پر آجاتی ہے۔ خود ہی سوچئے اب وہ چوری یا قتل نہیں کرے گا تو اور کیا کرے گا؟

۲۔ دلہن کی رخصتی کے دن لڑکی والوں کی طرف کھلایا جانے والا کھانا اور جہیز یعنی لڑکی کے ساتھ کچھ نہ کچھ سامانِ ضرورت دینا ایک مہمان نوازی، ضیافت، تحفہ یا ہدیہ تو ضرور ہے لیکن فی زمانہ نہ یہ مہمان نوازی ہے اور نہ ہدیہ، یہ ایک رشوت اور بھیک ہے جو گھر گھر عام ہوچکی ہے۔ لوگ اب لڑکوں کا رشتہ بھیجتے وہیں ہیں جہاں سے ان کوشاندار ضیافتِ طعام اور اچھے تحفے یا ہدیئے ملنے کی امید ہو۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر خاندان اس وقت یا تو راشی ہے یا مرتشی۔ کوئی ماں باپ یہ تصور بھی نہیں کرسکتے کہ بغیردعوت یا ہدیئے کے لڑکی کی شادی کرسکیں۔ یہ ایک ایسا سوشیل بلیک میل ہے کہ اگر لڑکے والے انکار بھی کریں تو لڑکی والے  لڑکی کو ستائے جانے کے خوف سے گھبرا کر دینے پر مجبور ہے۔ اِس کیلئے باپ یا بھائی کو چاہے جو بھی کرنا پڑے وہ کریں گے۔  تاکہ شادی دھوم دھام سے ہو۔

۳۔  خدا کیلئے یہ بکواس نہ کیجئے کہ "ہم تو ایسا نہیں کرتے"۔  یا "ہمارے پاکستان میں تو جہیز وہیز نہیں ہوتا یہ تو صرف انڈیامیں ہے " ۔ اپنی بات چھوڑیئے اورپاکستان کے اندر جھانک کر دیکھئے کہ پاکستانی اکثریت کس طرح تباہ ہورہی ہے۔ معاشرہ میں بمشکل دس فیصد ہی وہ لوگ ہیں جن کے پاس خوب خرچ کرنے کی استطاعت ہے۔ان میں سے بھی دو چار ہی ایسے ہیں جن کی کمائی حلال ہے ورنہ باقی سارے جھوٹ، ملاوٹ اور اِسکی ٹوپی اُسکے سر اور اُسکی ٹوپی اِسکے سر کے ذریعے کمائی کررہے ہیں اور فضول خرچیوں میں لٹا رہے ہیں۔ ضمیر کی تسلی کیلئے عمرے بھی کررہے ہیں۔ میلاد کے جلوس اور درگاہوں کے عروس بھی کررہے ہیں۔ وہ عالیشان شادیاں کرکے باقی نوے فیصد لوگوں کو لالچ، حِرص، نقّالی، فخرومباہات، پر مجبور کرتے ہیں۔ ہر لڑکےاور لڑکی کے دل میں یہ آرزوئیں پیدا کرتے ہیں کہ اُن کی شادی بھی اسی طرح ہو۔ پھر باپ اور بھائی کے پاس سوائے بے ایمانی کے ذریعے کمائی کرنے کے اور کوئی راستہ نہیں رہ جاتا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا میں کہیں بھی کسی پاکستانی کی عزت نہیں۔ سوائے دوتین فیصد کے، کوئی ایسا پاکستانی نہیں جس پر اعتبار کیا جاسکے۔ پاکستانی پیسے کیلئے کچھ بھی کرسکتے ہیں۔ کیوں؟ کیونکہ انہیں بہنوں اور بیٹیوں کی شادی پر خرچ کرنا ہے۔ مسلمان کی زندگی کا ایک ہی مقصد رہ گیا ہے۔ جانوروں کی طرح بچے پیدا کرتے رہو، بڑا کرو شادیاں کرتے رہو۔ مریں گے تو ایک پیسہ قوم کیلئے نہیں چھوڑیں گے۔ یہی تمنّا میں مرجائیں گے کہ جو بھی ہے میرے بچوں، دامادوں کے کام آجائے۔ جانتے ہو وہ کون سی چیز ہے جس نے انہیں اتنا خودغرض بنادیا ہے کہ یہ دین کی اقامت سے زیادہ اپنی بیٹی کے سسرال میں اس کی عزت چاہتے ہیں؟

۳۔ جن کے باپ یا بھائی نہیں یا غریب ہیں ان بہنوں کا کیا ہورہا ہے کیا آپ جانتے ہیں؟ فحاشی، طلاق اور کشیدہ تعلقات کا تناسب کس تیزی سے بڑھ رہا ہے کیا آپ کو علم ہے؟ طلاق یا کشیدہ تعلقات کے نتیجے میں کتنی اولادیں بے سہارا اور آوارہ ہورہی ہیں کیا آپ اس سے واقف ہیں؟ کتنی عورتیں متعہ یا مسیار (عارضی شادی) پر مجبور ہیں کیا آپ واقف ہیں؟   

۴۔ ماں باپ پوری کمائی بیٹی کی شادیوں پر لٹا رہے ہیں داماد ڈاکو بنے ہوئے ہیں اور بیٹیاں جب سب کچھ لے جارہی ہیں تو بے چارے بیٹے حق سے محروم ہورہے ہیں۔ وراثت کے احکام اُلٹ رہے ہیں۔ بجائے کاروبار کرکے چار لوگوں کا روزگار پیدا کرنے کے خود کسی کی غلامی کررہے ہیں اور مہینہ بھر کام کرکے ہاتھ پھیلا کر تنخواہ لے رہے ہیں۔ قابلیت رکھتے ہوئے بھی نوکریوں سے محروم ہیں اور معمولی نوکریاں کرنے پر مجبور ہیں۔ جو نوجوان نوکریاں کرنا پسند نہیں کرتے وہ غیر اخلاقی طریقے سے کمائی کو ترجیح دیتے ہیں اور یہ سوچتے ہیں کہ بس یہ مجبوری نکل جائے پھر توبہ کرلیں گے۔ صرف ایک شادی میں پورا گھر کئی سال پیچھے ہوجاتا ہے۔ لوگ قرضےاور سود  ادا کرتے ہیں لیکن بچوں کو اچھے اسکول نہیں بھیج سکتے۔ اسی لئے پاکستان کی اکثریت جاہلوں کی ہے۔ کسی شعبۂِ زندگی میں ڈسپلن نہیں۔ بے شمار ہیں جو ماں باپ کو بڑھاپے اور ضعیفی کی عمر میں تنہا چھوڑدیتے ہیں۔ خود ماں باپ بیٹیوں کی شادیوں پر بے تحاشہ خرچ کرکے آخری عمر میں بیٹوں اور بہووں کے ہاتھوں ذلیل ہوتے ہیں۔  

۵۔ عورتیں قوّام بن چکی ہیں کیونکہ مرد کو جس بنیاد پر قوّام بنایا گیا تھا یعنی کہ عورت پر مال خرچ کرنا، وہ اپنی ذمہ داری پوری نہیں کررہا ہے۔ جہیز میں پلنگ ، فرنیچر، پہلے دن کی ضیافت، نقد رقم عورت کو لانا پڑرہا ہے۔ اس سے قرآن کا حکم {سورہ النسا آیت ۳۴} الٹ رہا ہے۔ اس کے نتیجے میں پورے معاشرے پر عورت غالب ہے۔ پاکستانی مردوں کی اکثریت  بیویوں کی غلام ہے۔ علما ہوں کہ عوام، لیڈر ہوں کہ دانشور، تعلیم یافتہ ہوں کے ان پڑھ ، چاہتے ہوئے بھی عورتوں کی  نہ فضول خرچیوں کو روک سکتے ہیں نہ رسموں کو اورنہ بیوٹی پارلر جانے کو۔ مردوں کو عورتوں نے اتنا کنگال بنادیا ہے کہ ایک عام مرد کی زندگی ایک گدھے کی طرح محنت کرنے اور عورت کے بناٗئے ہوئے ان شادیوں کی تقریبات کے سسٹم کو پورا کرنے میں گزررہی ہے۔

اس جہیز اور دیگر ہندو رسموں کو اپنانے کے نقصانات کی تفصیل تقریباً دو سو صفحات پر مشتمل کتاب "مرد بھی بکتے ہیں ۔۔۔ جہیز کے لئے" میں راقم الحروف نے قلمبند کردی ہے جو مندرجہ ذیل ویب سائٹ پر دستیاب ہے۔ آپ سے صرف اتنی گزارش ہے کہ اصل دشمن کو پہچانئے۔ یقیناً ہندو، امریکہ اور یہودی مسلمانوں کے دشمن ہیں۔ لیکن جس مسئلے کا اوپر ذکر کیا گیا ہے اس کی وجہ سے نیوکلیر بم سے زیادہ تباہ کن نقصانات جو معاشرے کو پہنچ رہے ہیں وہ نقصان کوئی ہندو یا یہودی نہیں بلکہ خود مسلمان اپنی امّت کو پہنچا رہے ہیں۔ ان میں علما کی مجرمانہ خاموشی، دانشوروں کی لفّاظی، عوام کی جاہلیت اور آپ جیسے تمام جماعتیں اور گروہ جو دین کو قائم کرنے کا زعم رکھتے ہیں لیکن بجائے اصل کفر و شرک کے خلاف لڑنے کے فروعی مسائل پر لڑ کر امت کو مزید نقصان پہنچا رہے ہیں یہ سارے ذمہ دار ہیں۔  اس نقصان سے قوم کو بچانے کی ضرورت ہے۔ یہ کام آپ لوگ علما، قائدین اور مصلیحین سے زیادہ بہتر کرسکتے ہیں۔ بس اپنی بندوقوں اور کلاشنکوف کا رخ موڑیئے۔ اور ہر ایسے دلہے، دلہن اور ان کے مانباپ کی طرف موڑ دیجیئے جو اللہ کے رسول ﷺ کے طریقے سے ہٹ کر نکاح اور شادیاں کرنا چاہتے ہیں۔ اسراف کی نئی نئی رسمیں قائم کرکے اپنے ارمان تو پورے کرتے ہیں لیکن معاشرے میں لالچ اور آرزوئیں پیدا کرکے لاکھوں لڑکیوں کی شادیوں کو مشکل بنادیتے ہیں۔ لڑکیاں غلط راستوں پر چل نکلتی ہیں۔ مرد عورت کی کمائی کھارہے ہیں جن کو ہندی میں بھاڑکھاو {بھاڑ یعنی عورت کی کمائی، کھاو یعنی کھانے والا}کہا جاتا ہے۔ یہ جتنے بھی عورت سے جہیز اور رخصتی کے دن اپنے مہمانوں کی ضیافت لڑکی والوں سے لیتے ہیں سارے بھاڑ کھاو ہیں۔ ان پر گولی چلایئے تو قوم کے اخلاق سدھر جائنگے۔ صحیح نکاح کا سنّت کا طریقہ قائم ہوگا تو اس نسل سے حسنؓ و حسینؓ جیسے بچے بھی پیدا ہونگے اور ایک نیک، حلال کمائی کی پروردہ شریف نسل بھی پیدا ہوگی جو دہشت گردی کے بغیر دنیا میں دین قائم کرے گی۔ دنیا کو انصاف، امن و سکون حاصل ہوگا۔ گولیاں ضرور چلایئے لیکن ان پر نہیں جو معصوم ہیں۔ ان پر چلایئے جو ایسی حرام تقریبات میں بصد شوق شرکت کرکے ان حرامکاریوں کی ہمت افزائی کرتے ہیں۔ پھر اپنی باری میں یہی سب کچھ دوہراتے ہیں۔ جو برائی کو دیکھے اور اسے ہاتھ ، زبان سے نہ روکے یا دل سے نفرت نہ کرے یعنی اس کا بائیکاٹ نہ کرے وہ مسلمان تو نہیں ہوسکتا۔ ایسے دو چار کو ماردینے سے ہی باقی کو یہ سوچنے کا شعور آئیگا کہ کیا واقعی وہ صحیح کررہے ہیں ورنہ اُس وقت تک یہ قوم ان بیلوں اور بھینسوں کی طرح رہے گی جو کچھ نہیں سمجھتے، جہاں اِنہیں چارہ نظر آئے آپ کو سینگ مار کر گرائنگے اور چارہ چریںگے۔ ان کو برائیوں سے روکنا ہے تو ایک دو شادیوں کو درہم برہم کیجئے، دو چار کو ٹھکانے لگایئے، پہلے وارننگ دیجئے۔ اگر لوگ چھپ کر اس جہیز کا لین دین کریں یا کوئی اور طریقہ استعمال کریں تو دو چار کو ویسی ہی سزا دیجئے جیسے آپ اکثر دیتے ہیں۔ سڑکوں پر کئی معصوموں کو پھانسی پر لٹکا دیتے ہیں۔ کہیں ملالہ جیسی لڑکیوں کو گولی ماردیتے ہیں۔ ایسی ہی سزا ان لوگوں کو دیجئے جو اپنے پیسے کو قوم کی ترقی کے  بجائے اپنے ارمانوں کی تکمیل میں لگادیتے ہیں۔ کئی سال پہلے پاکستانی حکومت نے جب ان فضول خرچیوں پر روک لگائی تھی تو لوگوں نے ایک نیا دھندہ شروع کردیا تھا اور مکّہ میں نکاح اور جدہ یا دوبئی میں ریسپشن کا سلسلہ شروع کردیا تھا۔ اس کے علاوہ بھی کئی اور طریقے اپنائے گئے تھے۔ مقصد یہ تھا کہ لوگ کسی طرح بھی اللہ کے رسول کے طریقے پر راضی نہیں تھے اور ہر طریقے سے اسی طرح مخالفت کرنا چاہتے تھے جسطرح کہ آریس یس یا یہودی و امریکی کرتے ہیں۔ ایسے لوگوں کو جس طرح بھی ممکن ہو سزا دیں۔  قوم کو بچانا آپ کا فرض ہے۔ اور یہ اصلی جہاد ہے۔ اللہ تعالی آپ لوگوں کو اصل مرض پہچاننے اور اصل مجرموں پر گولی چلانےکی توفیق عطا فرمائے۔  
 
 

علیم خان فلکی ۔ جدہ

سوشیو ریفارم سوسائٹی

Email: aleemfalki@yahoo.com
Website: www.socioreforms.com

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 701