donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Mujahid Mansoori
Title :
   Jamhuriyat Aur Taleem Ka Taaluq -- Ayine Nau

جمہوریت اور تعلیم کا تعلق...آئین نو…


ڈاکٹر مجاہد منصوری

 

وائے بدنصیبی ہم پاکستانی بحیثیت قوم جمہوریت اور تعلیم کے تعلق کو سمجھنے میں ناکام ہوئے ہیں یا سمجھ کر بھی ہر دو(جمہوریت اور تعلیم) کو ایک دوسرے سے الگ رکھ کر پوری قوم ہی بڑے قومی جرم کی مرتکب ہورہی ہے۔ بلاشبہ انتہائی عالم مایوسی میں غالب جیسے پیکر، لطافت، سرسید احمد خاں جیسے حکیم، قائد اعظم جیسے راست قائد، اقبال جیسے وژنری(دور بیں) مولانا محمد علی جوہر اور مولانا ظفر علی خاں کے درجے کے خطیب اور قلم کاروں، حالی و شبلی جیسے مصلح، حسرت موہانی، علامہ مشرقی اور آغا شورش کاشمیری جیسے حریت پسندوں اور فیض ،ساغر صدیقی، ساحر لدھیانوی اور حبیب جالب اور ان جیسے مزاج کے حامل کتنے ہی سیاستدانوں، دانشوروں اور رائے سازوں پھر انقلابی و عوامی شعراء نے اپنے اپنے رنگ و ڈھنگ کی اثر انگیزی سے پاکستان بنانے اور اسے چلانے میں شاندار تاریخ رقم کی ۔ اس قافلے نے ہندکو تقسیم کرکے پاکستان بنانے پھر نئی قوم میں موجود مستقل نوعیت کا جمہوری جذبہ اور سیاسی شعور پیدا کرنے میں جو کردار ادا کیا وہ اس قافلہ آزادی و حریت ہی کا کمال تھا۔ حقیقت یہ ہی ہے کہ برصغیر کے مسلمانوں میں اس پوٹینشل کے بغیر نہ آزادی حاصل ہوتی اور نہ نئی مملکت کو ابتدائی طور پر چلانے کا ساماں، یہ المیہ اپنی جگہ ہے کہ پاکستانی قوم قرآن کے اشارے کے مطابق اس بڑھیا کی مانند ثابت ہوئی جو مشقت سے سوت کات کات کر خود ہی ا سے ادھیڑتی اور کاتتی ہے۔ ہم (مسلمانان ہند) نے اپناملک الگ اور قوم تشکیل دے کر بطور پاکستانی شاید اسی پر اکتفا کیا کہ اگر ہم پاکستان نہ بناتے تو آج بھارت میں ایک بڑی اقلیت ہو کر بھی طرح طرح سے ہندو کی تنگ نظری اور شدید تعصب کا شکار ہوتے یا آج کی چڑھتی ہندو بنیاد پرستی کے خلاف بکھری بکھری ایک طویل بے نتیجہ مزاحمت میں مبتلا۔

قیام پاکستان کے فوراً بعد ہمیں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت تھی کہ نئی مملکت کو چلانے اور اس کی تعمیر و ترقی و استحکام کے لئے کس نوعیت کا پوٹینشل(ان پٹ) درکارہے اور اس سے ہم نے کیا نتائج (آئوٹ پٹ) نکالنےہیں لیکن شاید ہم نے قیام پاکستان پر ہی اکتفا کیا اور اس کو چلانے اور بنانے سے غافل ہوتے گئے۔ اپنے میں مطلوب اور موجود جمہوری جذبہ جذب کرکے ہم حقیقی جمہوریت(صحیح معنوں میں عوامی جمہوریت یا سوشل ڈیموکریسی) کی راہ پر آئے ہی ہیں۔ عوامی فلاح بذریعہ جمہوریت کے بنیادی تقاضے’’جمہوریت اور تعلیم کا تعلق قائم کرنا‘‘ کا شعور چونکہ عوام الناس میں مفقود تھا، فقط جمہوری جذبہ تھا (ابھی تک یہ ہی تشویشناک صورت موجود ہے) اس لئے’’پاکستانی جمہوریت‘‘عوام کی بجائے خواص کی ’’فلاح الفلاح‘‘ کا ذریعہ ہی بنی رہی اور ہے اور عوام فقط جمہوری جذبے سے سرشار جس کا اظہار وہ جلسے جلوسوں میں شرکت ،نعرے بازی اور ووٹ دے کر کرتے ہیں۔

قیام پاکستان کے بعد تحریک پاکستان کے مطلوب پوٹینشل، زبان و کلام کی طاقت ،دانش اور رائے سازی کے معیار کا ابلاغ تو کافی حد تک موجود رہا اور کم ہوتے ہوتے ہی کم ہوا اور غیر معیاری بھی، لیکن ایک آزاد قوم کو صحیح معنوں میں وقت کے تقاضوں کے مطابق جو پوٹینشل یا نیا ان پٹ(جمہوریت اور تعلیم کا تعلق )مطلوب تھا، وہ مفقود تھا ۔جیسے جیسے تحریک پاکستان کی اعلیٰ اجتماعی صلاحیتیں نئے منظر میں قافلہ آزادی کے معدوم ہوتے ہوئے کم سے کم ہونے لگیں۔ نئے مطلوب نتائج آئوٹ پٹ(حقیقی عوامی آزادی و فلاح) حاصل کرنے کے لئے درکار ان پٹ(ہر شعبہ زندگی میں علم کا اطلاق) جو ہمارے پاس وافر ہونا چاہئے تھا یا ہمیں پیدا کرنا چاہئے نہیں تھا نہ پیدا کیا، جو کیا اس سے صلاحیت کے مطابق کام ہی نہیں لایا۔

پاکستان میں جمہوریت کتنے ہی حوالوں سے زیر بحث رہی اور آج بھی ہے۔ عوام میں اس کا جذبہ اور اس کا عوام سے تعلق کا شعور بھی مطلوب درجے تک موجود ہے۔ ہم ملکی استحکام، سماجی انصاف، اقتصادی خوشحالی، ثقافت کے فروغ، سماجی ترقی، قومی اتحاد حتیٰ کہ ملکی سلامتی کا رشتہ بھی جمہوریت سے جوڑتے ہیں۔ آئے دن حقیقی جمہوریت سے ہر دم خوف میں مبتلا سیاستدان اور ان کے معاونین انتباہ کرتے ہیں کہ جمہوری عمل نہ چل سکا تو ملکی سلامتی خطرے میں پڑجائے گی۔ یہاں تک کہا جارہا ہے کہ جمہوریت نہ رہی تو (خاکم بدہن) پاکستان بھی نہیں رہے گا۔ یہ اپنی جگہ ایک بڑا سوال ہے کہ’’جمہوری عمل‘‘ کے تعطل سے قوم کو ڈرانے والے اس کے تسلسل کے تقاضوں کی جملہ ضروریات سے بھی آگاہ ہیں یا نہیں؟ نیز کیا وہ حقیقی جمہوریت کے بڑھتے شعور کے ساتھ اس جمہوریت کی منزل تک پہنچنے کے لئے بھی آمادہ ہیں؟ اور یہ جانتے ہیں کہ اب عوامی جمہوریت(سوشل ڈیموکریسی) جو اصل میں اسلامی جمہوریہ ہے، سے گریز کا کوئی راستہ نہیں؟ اس میں آئین مکمل طور پر اختیار کیا جائے گا اور قانون کا اطلاق ملک کے تمام طبقات پر یکساں ہوگا۔ ٹیکس کولیکشن صرف عوام سے نہیں جائز و ناجائز دولت کا انبار لگاتے امیروں سے بھی ہوگی اور ٹیکس خرچنے کا ترجیحاً رخ غرباء اور محرومین کی طرف ہوگا ، اگر نہیں توپھر نہ کہا جائے کہ پاکستان اسلامی ہے اور جمہوری بھی اور یہ کہ ملک میں آئینی حکومت اور مطلوب سیاسی عمل اور قانون کی حکمرانی جاری ہے۔ یہ کچھ بھی تو نہیں، نہ ہی اب ارتقائی عمل کے نام پر خطرناک ادھوری جمہوریت کی آڑ میں ملک کے ہر ادارے اور عوامی خدمت کے شعبے کی مزید بربادی کی کوئی گنجائش باقی رہ گئی ہے ۔ عوام کے بھرپور جمہوری جذبے اور روایتی سیاستدانوں کے ہر سانس پر جمہوریت کے غم میں گھلے رہنے کے باوجود ہماری جمہوریت وہ نتائج نہیں دے سکی جو دوسرے(حقیقی) جمہوری ممالک کو حاصل ہوئے تو اس کی بڑی اور بنیادی وجہ ہے کہ فلسفہ جمہوریت کے مطابق ہم واقعی کوئی مطلوب ان پٹ سے جمہوریت کا رشتہ بالکل درست جوڑتے ہیں لیکن نہیں جوڑا۔ تو سب سے اولین اور سب سے اہم شعبے، یعنی تعلیم سے نہیں جوڑا، نہ اب الیکشن2008ء میں بحالی جمہوریت کے بعد جوڑا، نتیجتاً بھٹک رہے ہیں اور ملک میں اصلی نفاذ جمہوریت کا رونا67 سال کے بعد بھی رویا جارہا ہے۔

بہت تشویشناک امر ہے کہ ایک بار پھر بحال ہونے والے جمہوری مرحلے میں’’ادھورا جمہوری‘‘ عمل جاری ہے لیکن ملک میں جاری سیاسی عمل کو صحت مند اور جمہوریت کو یقینی طور پر پائیدار بنانے کے لئے فروغ تعلیم اس کا معیار بلند اور آئین کے مطابق بنیادی حق کے طور پر ہر شہری کو اس سے نوازنے کی مطلوب ترجیح ناصرف ہر طرح نظر انداز ہورہی ہے بلکہ بحیثیت مجموعی ملک میں شعبہ تعلیم کی حالت بگڑتی جارہی ہے۔ پبلک سکول سسٹم برباد ہوچکا ہے، کالجوں یونیورسٹیوں میں سیاسی جماعتوں کی مداخلت جو عشروں سے جاری تھی کم ہوئی ہے تو انہیں حکومتی چنگل میں لینے اور تعلیمی آزادی اور تعلیمی اداروں کی خود مختاری کو ختم اور کم سے کم کرنے اور ان میں سیاسی اور انتظامی مداخلت پیدا کرنے کے باقاعدہ حکومتی اقدامات کئے جارہے ہیں۔ آج جبکہ تمام ریاستی اداروں خصوصاً پارلیمنٹ اور عوامی خدمات و مفادات کے محکموں کو مکمل طور پر ریسرچ ،علوم کے اطلاق اور جدید ٹیکنالوجی تابع کرنا ملکی استحکام اور عوامی خوشحالی اور عوام کو جدید سہولتیں فراہم کرنے کے لئے ناگریز ہوگیا ہے ناصرف یہ کہ تعلیم کے شعبے کو قومی امور کی ترجیح میں حسب روایت نظر انداز بھی کیا جارہا ہے اور اسے حکومتی ذہنیت کے تابع کرنے کے سرکاری اقدامات بھی کئے جارہے ہیں۔ یہ ایک بہت چیلنجنگ صورتحال ہے۔ اس کے دور رس منفی اثرات سے عوام کو آگاہ کرنا اور تعلیم اور حقیقی جمہوریت کے تعلق کو عوام کی سطح پر واضح کرنا بھی بذات خود ایک چیلنج ہے۔ فکر کی بات یہ ہے کہ چھوٹے چھوٹے مفادات کے تحفظ کے لئے اس مسئلے کو سمجھنے والے کوئی آواز نہیں اٹھارہے۔
جب حکومتیں ہی بغیر کسی پالیسی اور عوامی اعتماد اور پارلیمنٹ کو نظر انداز کرکے فقط حکمرانوں کی مرضی و منشا کے مطابق کتنی بھی سرگرم ہوں اور اپنی توانائی کی کتنی بھی آئوٹ پٹ دے رہی ہوں لیکن ان کی کوئی سمت ہو نہ ان کی سرگرمیوں میں کوئی عوامی شیئر، نظام اور ادارے بدستور علوم کے اطلاق کے بغیر جیسے تیسے چل رہے ہوں تو اس کے نتائج اس سے بھی زیادہ منفی ہوں گے جو نکل چکے اور جنہیں عوامی سطح پر بڑی اذیت سے جمہوریت کے نام پر برداشت کرایا جارہا ہے۔

تعلیم کے ساتھ ہم بطور قوم اور حکومت کیا کررہے ہیں اس پر آئندہ آئین نو میں مزید۔

*******************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1171