donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Forum Desk
Title :
   Nezame Taleem Ki Tabahi

 

نظامِ تعلیم کی تباہی
 
صاحبو! اِس دَورِ کم نظری میں کہ صاحبانِ اقتدار کو علم اور عالم کی کوئی قدرنہیں اور اِس لیے نہیں کہ ہمارے سابقہ حکمرانوں اور اُن کے ساتھ جو مملکت کا نظم و نسق چلانے کے ذِمّہ دار تھے، انھوں نے تعلیم کو یورپی اقوام کی طرح صرف اور صرف حصولِ زر کا ذریعہ سمجھا اور سمجھایا ہے۔ جس کے نتیجے میں تعلیم گاہوں کا نظام جان بوجھ کر بگاڑا گیا۔ پہلے سرکاری سکولوں اور کالجوں سے عربی اور فارسی کو دیس نکالا ملا۔ اُس کے بعد جعلی اور نام نہاد انقلابیوں نے نظامِ تعلیم کو حکومتی تحویل میں لے لیا اور پورا تعلیمی نظام ‘ سرکاری افسران کے حوالے کردیا گیا، جنھوں نے سرکاری دفاتر کو جس طرح عوام کے لیے اذیت گاہوں میں تبدیل کردیا تھا ،اُسی طرح تعلیم گاہوں کوقتل گاہوں میں بدل دیا کہ تعلیم کے نام پر’’ جہل‘‘ کو عام کردیا گیا۔ ہر سال نصاب تعلیم تبدیل کیا جاتا رہا، نصابی کتابیں شائع کرنے کے لیے بھاری بھرکم بجٹ کے ساتھ نئے  ادارے قائم کیے گئے، جن کی وجہ سے بدانتظامی اور نا اہلی کے نئے عالمی ریکارڈ قائم ہوئے۔ تعلیمی سال ختم ہونے کے بعد نصابی کتابیں بازار میں آتیں لیکن بے کار ہوجاتیں کہ اِسی عرصہ میں ایک بار پھر کسی منظورِ نظر کو نوازنے کے لیے ’’نصابِ تعلیم‘‘ تبدیل کردیا گیا اور لاکھوں روپے کے خرچ سے ایک بار پھر نئی نصابی کتابیں شائع کی گئیں۔  میرے اُستادِ گرامی قدر حافظ محمود خان شیرانی مرحوم ومغفور (اﷲ اُن کی قبر میں نور بھرے )، نے جامعہ پنجاب کے لیے ’’نویں ‘‘ اور ’’دسویں ‘‘ جماعت کے لیے اُردو کا نصاب ترتیب دیا :’’سرمایہ اُردو‘‘ ، جوتقریباً  بیس برس تک نصاب میں شامل تھی ۔ جہاں تک مجھے یاد ہے یہ کتاب 1956-57ء  کے تعلیمی سال تک ،جس سال میں نے جامعہ پنجاب سے میٹرک (دسویں جماعت) کا امتحان پاس کیا تھا، نصاب میں شامل تھی۔میرے گرامی قدر استاد کا انتقال 1946ء میں ہوا جب کہ انھوں نے نصاب اُس زمانے میں ترتیب دیا تھا جب وہ اورینٹل کالج ،لاہور میں پڑھاتے تھے۔ آج مملکت خداداد پاکستان کے کسی علاقے میں چلے جائیے اور معلومات کر لیجیے ہر جگہ ایسا ہی ملے گا کہ نصاب اگر ہر سال نہیں تو دوسرے یا تیسرے سال ضرور بدلا گیا ہے۔ یہ جینے کی باتیں نہیں ہیں۔
 
ایک بار پھر ماحول بدلا تو تعلیمی نظام دوبارہ نجی تحویل میں دیا جانے لگا۔ لیکن کسی بھی صاحب اقتدار نے یہ جاننے کی کوشش نہیں کی کہ نجی تعلیمی اداروں کا نصاب کیا ہے اور کیا نہیں؟ پھر یہ ہوا کہ بتدریج سرکاری اسکول بند ہونے شروع ہوگئے یا اُن کو نجی اداروں کو فروخت کیا جانے لگا۔ لیکن وفاقی اور صوبائی حکومتوں کے تعلیمی بجٹ میں ہر سال اضافہ ہوتا چلا گیا۔ یہ  شاید  1989۱ء کی بات ہے ‘  میں لندن میں مقیم تھا اوروہاں کے نہایت ہی معتبر و موقر روزنامہ ’’گارڈین‘‘(The Guardian) میں ایک رپورٹ شائع ہوئی ،جس میں وزارت تعلیم کے اخراجات کی تفصیل بیان کی گئی تھی۔ اُس رپورٹ کا ماحصل یہ تھا کہ وزارت تعلیم کے لیے جو بجٹ ایوان نمائندگا ن سے منظور ہوا تھا اُس کا تقریباً ۵۰ فی صد تو ’’قلم گھسنے والوں ‘‘ یعنی وزیر صاحب اور افسران کی فوج ظفر موج پر خرچ ہو جاتی ہے، تقریباً 30 فی صد رقم درس گاہوں کی تعمیر نو کے نام پر خرچ ہوجاتی ہے اور باقی 20 فیصد اساتذہ پر۔ اور یہی وجہ ہے کہ انگلستان کے اپنے اسکولوں اور کالجوں میں لوگ ملازمت نہیں کرتے بلکہ پڑھ لکھ کر کسی دوسرے ملک میں جاکر قسمت آزمائی کرتے ہیں۔ اِس رپورٹ کے شائع ہونے کے بعد انگلستان میں تہلکہ مچ گیا اور فوری طور پر اقدامارت کیے جانے لگے۔ ہمارے ہاں کا حال یہ ہے کہ کچھ بھی لکھ دو، کچھ بھی ہوجائے، کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی۔  دوسری جانب یہ ہوا کہ طویل عرصے تک پورا تعلیمی نظام چونکہ افسر شاہی کے پاس تھا اِس لیے خرابی درخرابی پیدا ہوتی چلی گئی۔ اُس کی ایک مثال یہ ہے کہ اگر کسی اُستاد نے  پی۔ ایچ۔ ڈی۔Ph.D.) ( کی ڈگری لے لی تو اُس کی تنخواہ میں اضافہ کردیا گیا اور کالج اور یونیورسٹیوں میں کچھ مناصب مخصوس کر دیے گئے کہ ان پر صرف ’’پھرے ہوئے دِماغ‘‘ ( عوامی رائے لکھی ہے، میرا خیال نہیں ہے) یعنی پی۔ایچ۔ڈی ہی مقرر کیے جاسکتے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں جعلی ڈگریوں کا رِواج ہوگیا۔ کتنے لوگ ہیں جنھوں نے واقعی اپنے طور پر پڑھ کر اور سمجھ کر ڈگری کے لیے مقالہ لکھا ہوگا۔ بہت سے لوگوں کے لیے یہ خیال عام ہے کہ انھوں نے دوسروں سے مقالہ لکھواکر جمع کرایا اور پی۔ایچ۔ڈی۔ کی ڈگری لے لی۔ حصولِ زر کے اِس رجحان نے ملک میں کئی طرح کے تعلیمی نظام اور مختلف نصاب رائج کردیے ہیں۔ نصاب کی کتابیں مہنگی سے مہنگی ہوتی جارہی ہیں، فیسیں عام آدمی کی جیب پر بار بنتی جارہی ہیں۔ دنیا کے سامنے جھوٹ بولنے کے لیے جو بھی اعداد وشمار سرکار کی جانب سے شائع کیے جاتے ہیں کہ اِتنے فی صد لوگ تعلیم یافتہ ہیں۔ کیا واقعی ایسا ہے؟ میرے خیال میں تو مشکل سے چار سے پانچ فی صد لوگ واقعی تعلیم یافتہ ہیں۔ حروف شناسی یا کوئی شخص اپنے ہاتھ سے دستخط کرلیتا ہے ،اس کو بھی اگر تعلیم یافتہ لوگوں میں شامل کیا جاتا ہے تو زیادتی ہے۔ایک اور کارنامہ ہمارے صاحبان اقتدار نے یہ سرانجام دیا کہ وہ قوانین افسر شاہی کے لیے رائج کیے گئے تھے جو برطانوی ہند کی حکومت سے ہمیں وِرثہ میں ملے تھے ،انھیں کو جاری رکھا گیا، اِس طرح جیسے کہ یہ قوانین ،قواعد و ضوابط وحی الٰہی ہوں۔ ان قواعد و ضوابط کے تحت ایک عمر مقرر کردی گئی تھی اُس کے بعد سرکاری ملازم کو لازمی طور پر گھر جانا ہوجاتا تھا۔ وہی عمر کی حد اساتذہ اور منصفوں (ججوں) کے لیے مقرر کردی گئی ، جس نے مزید بگاڑ پیدا کیا جو بڑھتا ہی جارہا ہے۔ درآں حالیکہ استاد اور منصف (جج) تو ایسا شخص ہوتا ہے کہ وقت کے ساتھ ساتھ اُس کے علم اور اُس کی مہارت میں اِضافہ ہوتا ہے۔ انگلستان میں تو یہ قانون رائج تھا کہ ہائی کورٹ کا جج تا حیات ہوتا تھا، اِلّا یہ کہ وہ دِماغی طورپر کام کرنے کا اہل نہ رہے، یا وہ خود مستعفی ہوجائے ،اور تیسری صورت یہ تھی کہ اُس پر غداری کا الزام ثابت کردیا جائے۔ انتقال کرجائے تو وہ ایک ناگزیر مجبور ی تھی اور ہے۔ کیا ہم اساتذہ اور ججوں کے لیے اپنے قوانین میں تبدیلی نہیں کر سکتے!
 
ایک اور بگاڑ یہ پید اہوا کہ ایک نجی ادارے کو یہ اختیار دے دیا گیا کہ وہ اپنے طور پر نہ صرف نصاب تیار کرے بلکہ اپنے نصاب کو دیگر مدارس میں بھی رائج کرے‘ اور مدارس کو پابند کیا گیا کہ وہ اس ادارے کے احکامات اور ضوابط کے مطابق امتحان کا بندوبست کریں۔ سرکاری تعلیمی بورڈ کی کوئی حیثیت ہی نہیں رہنے دی گئی۔ کیا مملکت ِخداداد میں اب امتحانات بھی دیگر ملکوں کے ادارے لیا کریں گے؟ اِس سوال کا جواب کوئی بھی تو دینے کے لیے تیار نہیں۔ کیا اِسی بات کے لیے آزادی حاصل کی گئی تھی کہ ہم دوسری قوموں یا ملکوں کے اقدار اپنائیں گے؟ اُن کی فکر اور نظریا ت کے مطابق ہم اپنی آئندہ نسلوں کی تعلیم و تربیت کا بندوبست کریں گے؟
 
صاحبو! وقت ہاتھ سے نکلا جارہا ہے۔ لوٹ کر نہیں آئے گا۔ قومیں صرف اپنی فکرا ور نظریات اور اپنی اقدار کی بنیاد پر باقی رہ سکتی ہیں، وگرنہ تباہ و برباد ہوجاتی ہیں۔
صاحبو! آخر میں ایک شعر آپ کی نذر:
علم کیا‘ علم کی حقیقت کیا
جیسی جس کے گمان میں آئی
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 1266