donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ghaus Siwani
Title :
   America Ne Karaya Tah Pakistani Wazeer Azam Leyaqat Ali Khan Ka Qatal


امریکہ نے کرایا تھا پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خاں کا قتل


ایک بار پھر بے نقاب ہوئے انکل سام کے شیطانی کرتوت


تحریر: غوث سیوانی،نئی دہلی


    پاکستانی تاریخ کے سب سے پرتجسس قتل پر سے اب پردہ اٹھ چکا ہے۔ اب دنیا کو پتہ چل چکا ہے کہ پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خاں کا قتل امریکہ نے کرایا تھا۔ اس شرمناک جرم کو خود امریکہ کی خفیہ دستاویزات نے بے نقاب کیا ہے۔ پاکستانی تاریخ کی جس زبردست مرڈر مسٹری کو پاکستانی تفتیش کار نہیں سلجھا سکے وہ اب مجرم کے اعتراف جرم کے سبب سلجھ چکی ہے۔۱۹۵۱ء میں نوبزادہ لیاقت علی خاں کے قتل کے بعد پاکستان کی سمت بھی بدل گئی اور امریکی مداخلت میں بھی اضافہ ہوا۔ حالانکہ اس کے بعد بھی کئی اہم سیاسی شخصیات کی موتیں بھی شکوک کے گھیرے میں رہیں اور اب بھی سچائی تک پہنچنا ممکن نہیں ہوپایا ہے۔ ممکن ہے کسی وقت یہ راز بھی دنیا کے سامنے آئے کہ ذولفقار علی بھٹو کی موت کے پیچھے کون تھا؟ جنرل ضیاء الحق کی موت حادثہ نہیں قتل تھی اور محترمہ بے نظیربھٹو کی موت کا راز کیا تھا؟ یہ بات شکوک سے بالاتر ہے کہ دنیا کے کئی ملکوں میں امریکہ کی مداخلت رہتی ہے اور جو کوئی حکمراں اس کی مرضی کے خلاف جانے کی کوشش کرتا ہے اس کے خلاف موت کا فرمان آجاتا ہے۔ دنیا بھر اس قسم کی موتیں اکثر چرچے میں رہی ہیں۔ امریکہ نے پاکستان ہی نہیں بلکہ سعودی عرب، مصر، لیبیا اور دوسرے ممالک میں بھی اس قسم کی حرکتیں کی ہیں۔

کیسے کرایاگیا لیاقت علی خاں کا قتل؟

    تازہ انکشافات کے مطابق لیاقت علی خان کو امریکہ نے افغان حکومت کے ذریعے قتل کرایا تھا کیونکہ وہ امریکہ کی مرضی کے مطابق چلنے سے انکار کر رہے تھے۔ امریکی منصوبے کے تحت افغان حکومت کے تیار کردہ قاتل کو دو ساتھی ملزموں نے قتل کیا دونوں معاون قاتلوں کو وہاں موجود ہجوم نے بری طرح روند دیئے ،اس طرح پاکستانی قائد ملت کا قتل ایک سربستہ راز بن گیا۔ یہ انکشاف اب امریکی محکمہ خارجہ کی طرف سے ری کلاسیفائیڈ دستاویزات میں کیا گیا ہے۔ یہ دستاویزات اگرچہ 59 سال پرانی ہیں مگر پاکستان کے زخم آج بھی پوری طرح مندمل نہیں ہوئے ہیں۔ پاکستانیوں کو آج بھی محسوس ہوتا ہے کہ اگر لیاقت علی خاں ہوتے تو ملک کی تاریخ کچھ الگ ہوتی۔امریکی محکمہ خارجہ کی دستاویزات میں اس جرم عظیم سے پردہ اٹھاتے ہوئے انکشاف کیا گیا ہے کہ اس قتل کے پیچھے امریکہ کی تیل کی ہوس تھی۔ امریکہ اس وقت ایران کے تیل کے چشموں پر نظر رکھتا تھا۔یہ وہ زمانہ تھا جب ایران اور پاکستان کے تعلقات بہت قریبی تھے۔حالانکہ 1950-51ء میں افغانستان‘ پاکستان کا دشمن شمار ہوتا تھا۔ اس وقت امریکی صدر نے پاکستانی وزیر اعظم لیاقت علی خان سے سفارش کی تھی کہ اپنے قریبی دوست ایرانیوں سے کہہ کر تیل کے چشموں کا ٹھیکہ امریکہ کو دلادیں۔ اس پر لیاقت علی خان نے دو ٹوک جواب دیا کہ میں ایران سے دوستی کا ناجائز فائدہ نہیں اٹھانا چاہتا۔ نہ ہی انکے داخلی معاملات میں مداخلت کروں گا۔ اگلے روز امریکی صدر ٹرومین کا لیاقت علی خان کو دھمکی آمیز فون موصول ہوا۔ لیاقت علی خان نے جواب میں کہا کہ میں ناقابل خرید ہوں یہ کہہ کر فون بند کر دیا اور حکم دیا کہ آئندہ 24 گھنٹوں کے اندر پاکستان میں امریکہ کے جتنے طیارے کھڑے ہیں وہ پرواز کر جائیں۔واشنگٹن ڈی سی میں اسی لمحے میٹنگ ہوئی اور طے ہوا کہ نوابزادہ لیاقت علی خان ہمارے کام کا آدمی نہیں لہذا اسے ختم کردیا جائے۔منصوبہ یہ تھا کہ لیاقت علی خاں کا قتل کوئی افغان کرے کیونکہ پاکستان اور افغانستان کے رشتے اس وقت بہت اچھے نہیں تھے۔ واشنگٹن ڈی سی سے کراچی میں امریکہ اور کابل کے سفارتخانوں کو فون کیا گیاکہ قاتل کو افغانستان میں تلاش کیا جائے اور جس قدر جلد ممکن ہو یہ قتل انجام دیا جائے۔ امریکہ نے اس راز سے افغان حکمراں ظاہر شاہ کو بھی آگاہ کیا تھا اور اسے لالچ دیا کہ اگر تم لیاقت علی خان کا قاتل تیار کرا دو تو ہم صوبہ پختونستان آزاد کرا لیں گے۔ افغان حکومت فوراً تیار ہو گئی۔ 3 آدمی ڈھونڈے ایک سید اکبر تھا جسے گولی چلانی تھی۔ دو مزید افراد تھے جنہیں اس موقع پر سید اکبر کو قتل کر دینا تھا تاکہ کوئی ثبوت کوئی گواہ باقی نہ رہے اور قتل کی سازش دب جائے۔ 16 اکتوبر سے ایک دن پہلے سید اکبر اور اس کے وہ ساتھی جنہیں وہ اپنا محافظ سمجھتا تھا، تینوں راولپنڈی آئے ایک ہوٹل میں ٹھہرے ۔قبل از وقت کمپنی باغ میں اگلی صفوں میں بیٹھ گئے۔ جیسے ہی لیاقت علی خان جلسہ گاہ میں آئے اور اپنے خاص انداز میں کھڑے ہو کر کہا ’’برادران ملت!‘‘ تو سید اکبر نے کوٹ سے رائفل نکال کر 2 فائر کئے جو سیدھے لیاقت علی خان کے سینے پر لگے اور وہ سٹیج پر گرپڑے۔انھیں ہسپتال لے جایا گیا جہاں سے 2 کارٹیجز نکلے جن پر امریکی مہر تھی۔ یہ گولیاں امریکی فوج کے اونچے درجے کے افسروں کو دی جاتی تھیں۔

لیاقت علی خاں کون تھے؟

    نواب زادہ لیاقت علی خان پاکستان کے پہلے وزیر اعظم تھے جنہوں نے پاکستان تحریک کے دوران محمد علی جناح کے ساتھ کئی دورے کئے۔ وہ متحدہ ہندوستان کے وزیر کامرس بھی تھے۔ان کی پیدائش متحدہ ہندوستان میں 1 اکتوبر 1895کوہوئی تھی۔وہ کرنال میں پیدا ہوئے تھے جب کہ ان کی موت  16 اکتوبر 1951کو، راولپنڈی،(پاکستان)میں ہوئی تھی۔ لیاقت علی خان 14 اگست 1947-16 اکتوبر 1951 تک وزیر اعظم پاکستان رہے۔ وہ ایک زمیندارخاندان کے چشم وچراغ تھے اور ان کی تعلیم علی گڑھ، الہ آباد و آکسفورڈ میں ہوئی تھی۔

    لیاقت علی خان پیشے سے بیرسٹر تھے اور 1923 میں وہ سیاست میں داخل ہوئے۔ پہلے وہ صوبائی کونسل کے لئے اور بعد میں مرکزی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے۔ وہ پہلے مسلم لیگ میں شامل ہو گئے اور بعد میں مرکزی اسمبلی کے لئے منتخب ہوئے۔ انہوں نے بتدریج سیاست میں قابل احترام مقام حاصل کیا اور بعد میں تحریک پاکستان کے  دوران مسلم کمیونٹی میں انھیں خاص مقبولیت حاصل ہوئی۔ جب وہ قائداعظم محمد علی جناح  پاکستان کے پہلے گورنرجنرل بنے، تو لیاقت علی خاں وزیر اعظم بنے۔ان کی کاوشیں اس لئے قابل قدر ہیں کہ اگر جناح نے پاکستان کی بنیاد رکھی، تو لیاقت علی خان نے ملک کی داخلی اور خارجی پالیسیوں کو مرتب کی۔ بعد میں انہی پالیسیوں نے ملک کی رہنمائی کی۔

محفل جو مقتل بن گئی

 16اکتوبر 1951 کو راولپنڈی کے کمپنی باغ میں منعقد کی جا رہی مسلم لیگ کی میٹنگ کے دوران ان کو گولیاں مار کر قتل کر دیا گیا۔ پولیس نے موقع پر ہی قاتل کو مار دیا تھا۔ سردیوں کے ابتدائی ایام کی اس شام نوابزادہ لیاقت علی خان پونے چار بجے جلسہ گاہ میں پہنچے۔ حیرت کی بات یہ تھی کہ ان کے استقبال کے لیے مسلم لیگ کا کوئی مرکزی یا صوبائی لیڈر یہاں موجود نہیں تھا۔مسلم لیگ کے ضلعی رہنماؤں نے ان کا استقبال کیا۔ مسلم لیگ گارڈز کے مسلح دستے نے انہیں سلامی پیش کی۔اس موقع پر پنڈال میں چالیس پچاس ہزار کا مجمع موجود تھا۔ مسلم لیگ کے ضلعی رہنما شیخ مسعود صادق کے خطبہ استقبالیہ کے بعد وزیراعظم مائیک پر آئے۔وزیر اعظم نے ابھی ’برادران ملت‘ کے الفاظ ہی ادا کیے تھے کہ پستول کے دو فائر سنائی دیے۔ اگلی صف میں بیٹھے افغان باشندے سید اکبر نے پستول نکال کر وزیر اعظم پر یکے بعد دیگرے دو گولیاں چلائیں۔ پہلی گولی وزیر اعظم کے سینے اور دوسری پیٹ میں لگی۔وزیرِ اعظم گر پڑے۔ فضا میں مائیکرو فون کی گونج لحظہ بھر کو معلق رہی۔ پھر ایس پی نجف خان کی تحکمانہ آواز گونجی جس نے پشتو میں حکم دیا تھا کہ ’گولی کس نے چلائی؟ مارو اسے!

    نجف خان کے حکم کے چند سیکنڈ بعد پستول کا ایک فائر سنائی دیا پھر یکے بعد دیگرے تین فائر سنائی دیے۔اس کے بعد فائرنگ کی کئی آوازیں آئیں۔ اس وقت تک قاتل کے ارد گرد موجود لوگوں نے اسے قابو کر لیا تھا۔ اسکا پستول چھین لیا گیا تھا۔ کہاجاتا ہے کہ ایس پی نجف خان کے حکم پر انسپکٹر محمد شاہ نے قاتل پر سرکاری پستول سے یکے بعد دیگرے پانچ گولیاں چلا کر اسے ختم کر دیا۔ وزیر اعظم شدید زخمی حالت میں جلسہ گاہ سے باہر لائے گئے۔ وزیر برائے امور کشمیر نواب مشتاق گورمانی کی گاڑی جلسہ گاہ میں داخل ہو رہی تھی۔ وزیر اعظم کو اسی گاڑی میں ملٹری ہسپتال پہنچایا گیا۔ جہاں وہ زخموں کی تاب نہ لاکر انتقال کر گئے۔

قاتل کون تھا؟

    لیاقت علی خان کا قتل پاکستان کی تاریخ کے پْراسرار ترین واقعات میں سے ایک ہے۔ لیاقت علی خان کا قتل وہ نکتہ ہے جہاں پاکستان کی قیادت سیاسی رہنماؤں کے ہاتھ سے نکل کر سرکاری اہل کاروں اور ان کے کاسہ لیس سیاست دانوں کے ہاتھ میں پہنچی۔قاتل سید اکبر کے بارے میں متضاد باتیں سامنے آئی ہیں۔ وہ پاکستانی شہری نہیں، بلکہ افغان تھا۔ 1944ء میں برطانوی حکومت کی ایماء پر افغانستان میں سیاسی گڑبڑ کی ناکام کوشش کے بعد اس کا خاندان صوبہ سرحد میں آباد ہوگیا تھا۔ اسے اور اس کے بھائی مزدک خان کو برطانوی حکومت سے وظیفہ ملتا تھا، جو پاکستان بننے کے بعد بھی جاری رہا۔اس کے بارے میں کہاجاتا ہے کہ وہ نمازاور روزے کا پابند تھا۔ ہر سال زکوٰۃ بھی ادا کرتا تھا۔ اسی کے ساتھ اس کے دل میں جہاد کی تمنائیں بھی انگڑائیاں لیتی تھیں اور کشمیر میں جہادچھیڑنے کی بات کرتا تھا۔ اس کی شخصیت کا دوسرا رخ اس کے بھائی کے بیان کے مطابق یہ تھا کہ اس نے خواتین کا پردہ ترک کر ادیا تھا۔ وہ کبھی کبھی اپنی بیوی اور بیٹے کو سینما دکھانے لے جایا کرتا تھا۔اس نے 16 اپریل 1949ء کو لاہور سے دو گھڑیاں خریدیں، جن میں سے ایک اس کی داشتہ رخ عافیہ کے لیے تھی۔ اس نے اپنے لڑکے دلاور خاں کو ایبٹ آباد میں ماڈرن یورپین سکول میں تعلیم کے لیے داخل کرایا تھا۔

    ایسا لگتا ہے کہ سید اکبر ایک کنفیوزڈانسان تھا جو کبھی مذہب کی طرف آتا تھا تو کبھی جدیدیت کا رخ کرتا تھا۔ جو لوگ ذہنی اور نظریاتی اعتبار سے کشمکش کے شکار ہوں انھیں آلہ کار بنانا آسان ہوتا ہے۔ ممکن ہے اسے آلہ کار کے طور پر استعمال کیا گیا ہو اور اس کے لئے ا سکا برین واش کیا گیا ہو۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ گولی چلاتے وقت اس نے وہی لباس پہن رکھا تھا جو اس نے جہاد کے لئے سلوایا تھا۔ مرنے کے بعد سید اکبر کی جیب سے 2041 روپے برآمد ہوئے۔ 450 روپیہ ماہانہ سرکاری وظیفہ پانے والے قاتل کے گھر سے7650 روپے کے نوٹ اور ’منی لال چمن لال اینڈ کمپنی بمبئی‘ کی تیار کردہ نقلی سونے کی 38 اینٹیں ملیں۔ سید اکبر پر اسرار طور پر کچھ آدمیوں سے ملتا جلتا تھا۔ ۱۴اکتوبر کو پنڈی پہنچ کر سید اکبر نے چند سوالات لکھ کر کسی سے استخارے کی درخواست کی تھی۔ قتل سے ایک روز قبل اسے تحریری جواب ملا جس میں اور باتوں کے علاوہ یہ بھی لکھا تھا کہ بہشت میں حوریں تمہاری منتظر ہیں۔ تم ہماری خوشنودی پاؤ گے۔ انکوئری کمیشن کی رپورٹ کے مطابق ’استخارے کا کاغذ دیکھنے اور واقعات پرکھنے سے معلوم ہوا کہ سید اکبر دانستہ یا نادانستہ طور پر کسی ہوشیار شخص یا گروہ کا آلہ کار بن گیا تھا۔


رابطہ

Email:ghaussiwani@gmail.com
Facebook/Ghaus Siwani

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 769