donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Hafiz Mohammad Idrees
Title :
   Qaumi Zaban Ki Mazloomiyat

 

قومی زبان کی مظلومیت
 
حافظ محمد ادریس
 
آج وطن عزیز کا انگ انگ زخمی ہے۔ عوام ظلم کی چکی میں پِس رہے ہیں۔ یوں معلوم ہوتا ہے کہ جنگی درندے بستیوں میں گھس آئے ہیں اور امن پسند شہریوں کو ان کے گلی محلے اور گھر کے اندر بھی امن وسکون میسر نہیں۔ کہا جاتا ہے کہ یہ دھماکے اورٹارگٹ کلنگ دہشت گردوں کے گروہوں کا شاخسانہ ہے جن کے پیچھے ملک دشمن قوتوںکا ہاتھ کارفرما ہے۔ سوال یہ ہے کہ ملک کے محافظ کہاں کھو گئے ہیں؟ اس موضوع پر
ہر روز ذرائع ابلاغ میں چیخ وپکار سنائی دیتی ہے مگر ارباب حل وعقد کے کانوں پرجوں تک نہیں رینگتی۔ مہنگائی، بیروزگاری، قتل وغارت گری اور بدعنوانی کا رونا تورویا جا ہی رہا تھا افسوس اس بات کا ہے کہ ایک نیا اور مہلک حملہ خدمت کے روپ میںکیا جارہا ہے۔ کیا کیجیے اور کس سے داد طلب کیجیے کہ اس مظلوم قوم کے جسم پرمزید کچوکے لگانے کے لیے اور زخموں پر نمک پاشی کے لیے خادم اعلیٰ پنجاب بھی میدان میں نکل آئے ہیں۔ اب تو نوبت یہاں تک آپہنچی ہے کہ
 تن ہمہ داغ داغ شد
پنبہ کجا کجا نہم!
اس میں شک نہیں کہ موصوف نے کچھ اچھے کام بھی کیے ہیں۔ نوجوان طلبہ وطالبات کے درمیان لیپ ٹاپ کی تقسیم اور راستوں اور گزرگاہوں کو کشادہ اور تیز تر بنانے کےلیے اقدامات قابل تحسین ہیں۔ یہ سارا کام سرکاری خزانے ہی سے ہورہا ہے مگر پھر بھی اس سے ملک وقوم کو جو فائدہ ہوسکتا ہے اس سے انکار نہیں کرنا چاہیے۔ تاہم ان اچھے کاموں کے ساتھ جو انتہائی خطرناک، تباہ کن اور ملی تشخص کو ملیامیٹ کرنے کا ڈول انھوں نے ڈالا ہے اس سے آنکھیں بند کرنا کسی غیرت مند پاکستانی کے لیے ممکن نہیں۔خادم اعلیٰ صاحب کا قومی زبان اردو کے خلاف جارحانہ طرز عمل اور استعماری زبان انگریزی کو آغاز ہی سے ذریعہ تعلیم کے طور پر رائج کرنا ملک وقوم کے ساتھ بہت
بڑی دشمنی ہے۔ اس کے ساتھ ہی موصوف نے روزِ اول ہی سے پنجاب کے تعلیمی اداروں میں مخلوط تعلیم کو لازم کرکے اسے اگلے مدارج تک ترویج دینے کا بھی منصوبہ شروع کردیا ہے۔ اس کی تفصیلات تو بہت ہیں مگر اختصار کے ساتھ یہ کہاجاسکتا ہے کہ جو کام انگریز اپنے دورِ استعمار میں نہ کرسکا وہ کام آج خادم اعلیٰ کے ہاتھوں سرانجام دیا جارہا ہے۔ جناب عالی! جن قوموں نے دنیا میں ترقی کی ہے تاریخ اوراعداد وشمار کے جملہ کوائف گواہ ہیں کہ ان کی یہ ترقی کسی بدیشی زبان کو ذریعہ تعلیم قرار دینے سے عمل میں نہیں آئی۔ جاپان ہو یا جرمنی، چین ہو یا فرانس، ان تمام ممالک نے اپنی قومی زبانوں کو ذریعہ تعلیم قرار دے کر اور انگریزی اور دیگر غیر ملکی زبانوں کو بطور مضمون اپنے نظام تعلیم کا حصہ بنا کر ترقی کی منزلیں طے کی ہیں۔یہ کس قدر ستم ظریفی ہے کہ ہم پاکستانی ہو کر اردو کشی پر اتر آئے ہیں جب کہ فورٹ ولیم کالج کلکتہ میں انگریز ماہر تعلیم گلکرسٹ نے بیسویں صدی کے آغاز یعنی 1800ءمیں اردو زبان کو رائج کیا اور اس میں بیش بہا تصنیفی خدمات سرانجام دیں۔ ہماری اپنی مقامی یونی ورسٹی عثمانیہ یونی ورسٹی حیدرآباد دکن نے ایک اعلیٰ مثال قائم کی جہاںجنگ عظیم اول کے خاتمے پر نظام حیدرآباد نے اپنے مشیروں کے مشورے سے اردو کوتمام سائنسی علوم کی تدریس کا ذریعہ بنایا۔ 1918ء سے تقسیم ہند تک یہ سلسلہ بہت کامیابی سے چلتا رہا۔ سائنس کے تمام مضامین، انجینئرنگ سے لے کر میڈیکل تک سب کے لیے اردو کورس تیار کیے گئے۔ یہ ارتقا بڑی کامیابی اور خوش اسلوبی کے ساتھ جاری تھا کہ 1948ء میں بھارت کے اس مسلمان ریاست پر غاصبانہ قبضے نے اردوزبان کی ساکھ لپیٹ دی۔ ہندو کی اردو دشمنی تو سمجھ میں آتی ہے، کیونکہ انھوں نے اردو کو ختم کرکے اس کی جگہ ہندی رائج کرنے کے لیے طویل عرصہ پہلے منصوبہ بندی کرلی تھی۔ تعجب تو خادم اعلیٰ کے اس اقدام پر ہے جس کے لیے وہ بہت پرُجوش انداز میں میدان میں نکلے ہیں۔ اردو کو بے دخل کرنے کے نتیجے میں ہماری نوجوان نسل اسلام، جذبہ حب الوطنی، اپنے قومی وملی ورثے اور زبانِ اردو میں موجود بے شمارقیمتی کتب سے مکمل طو رپر کٹ جائے گی۔ خادم اعلیٰ کو سوچنا چاہیے کہ ہماری جتنی بھی عظیم ملی وقومی شخصیات کا تحریک پاکستان، قیام پاکستان اور تعمیر پاکستان میںکوئی قابل قدر کارنامہ ہے، ان کی پہچان اردو زبان ہی تھی۔ جو قومیں اپنی زبان سےلاتعلق ہوجاتی ہیں وہ تاریخ کی گزرگاہوںمیں اپنا تشخص بھی گم کربیٹھتی ہیں اور اپنے اصل سے بھی محروم ہوجاتی ہیں۔ ہمیں مرعوبیت کے خول سے نکل آنا چاہیے۔ ہمیں اپنےقومی ورثے اور اپنی قومی زبان پر فخر کرنا چاہیے۔
 پاکستان حضرت قائداعظمؒ نے بارہا ہندو اور انگریز لیڈروں کے سامنے اس بات کابرملا اعلان کیا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور ہم اس سے کسی صورت دست بردارنہیں ہوسکتے۔ انگریزی تو بدیشی زبان ہے، 1908ء میں جب پنجاب یونی ورسٹی کے ہندووائس چانسلر ڈاکٹر چیٹرجی نے یونی ورسٹی کے جلسہ تقسیم اسناد میں کہا کہ پنجاب میںاردو کی جگہ پنجابی رائج کی جائے تو مسلمانان پنجاب اس بیان کے خلاف بھی یک زبان ہو کر میدان میں نکل آئے۔ آل انڈیا مسلم ایجوکیشنل کانفرنس کا ہنگامی اجلاس منعقد ہوااور اس میں علامہ اقبال، سرشیخ عبدالقادر، سرمحمد شفیع، مولانا سلیمان شاہ پھلواری اوردیگر مسلم رہنماؤں نے اردو کی حمایت میں مدلل تقاریر کیں اور ایک جامع قرار دادمنظور کی گئی جس میں دو ٹوک الفاظ میں کہا گیا کہ مسلمان، برصغیر، بالخصوص پنجاب میں اردو زبان سے کسی صورت دستبردار ہوں گے نہ ہی اس کی جگہ کسی دوسری زبان کو رائج کرنے کی اجازت دیں گے۔قائداعظمؒ کا ایک مشہور خطاب ہے جو علی گڑھ یونی ورسٹی میں 1941ء میں لوگوں نےان کی زبان سے سنا۔ انگریزوں اور ہندوؤں کو مخاطب کرکے آپ نے فرمایا: ’’مجھےپاکستان میں اسلامی تاریخ کی روشنی میں اور اپنی ثقافت نیز روایات کے تحت اور اپنی اردو زبان کو برقرار رکھتے ہوئے زندگی گزارنے دو۔‘‘ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی صاحب کا بھی ایک فتویٰ قائداعظمؒ ہی کے استفسار پر 1935ء میں سامنے آیا جس میں انھوں نے فرمایا: ’’اس وقت اردو کی حفاظت دین کی حفاظت ہے، اس کی حفاظت کرنا مسلمانوں پر واجب ہے۔ لہٰذا قدرت کے باوجود اس سلسلے میں غفلت اور سستی کامظاہرہ کرنا موجبِ گناہ ہوگا جس کا آخرت میں مواخذہ کیا جائے گا۔‘‘ (بحوالہ قومی ذریعہ تعلیم، ڈاکٹر محمد شریف نظامی)۔
یہاں شاید یہ امر قارئین کے لیے دل چسپی کا باعث ہوگا کہ باغیرت نومسلم پاکستانی بھی اردو زبان کی اہمیت سے واقف ہیں ۔ راقم کے لیے تو یہ واقعہ بڑا ایمان افروز بھی ہے کہ نومسلم امریکی خاتون مریم جمیلہؒ نے پاکستان آنے کے بعد اپنے بچوں کو انگریزی کےبجائے اردو زبان میں تعلیم حاصل کرنے اور اسی میں اپنا مافی الضمیر بیان کرنے کی تعلیم وترغیب دی۔ وہ خود انگریزی زبان میں اسلام کا دفاع کرنے کے لیے لکھتی رہیںجس کا ثبوت ان کی تین درجن معرکۂ آرا کتب ہیں۔ مگر وہ فرمایا کرتی تھیں کہ میری تومجبوری ہے کہ میری مادری زبان انگریزی ہے۔ میں اردو میں وہ مقام حاصل نہیںکرسکتی جو اچھی تصنیف کے لیے درکار ہے، اس لیے میں تو مجبوراً انگریزی میںلکھتی ہوں۔ اس حوالے سے ہم ان کے بیٹے حیدرفاروق کی زبانی محترمہ کی یہ نصیحت قارئین کی خدمت میں پیش کررہے ہیں: ’’مریم جمیلہ کے عزمِ صمیم اور غیرت اسلامی کو صدرِ اول کے اہل عزیمت کی مثال قرار دیا جاسکتا ہے۔ مریم جمیلہ کے بیٹے حیدرفاروق نے بتایا کہ میں جب امریکا گیا تو تحریکی ساتھیوں نے مجھ سے کہا: ’’انگریزی میں تقریر کرو‘‘۔ ان کا خیال تھا کہ میری والدہ کی وجہ سے انگریزی میری مادری زبان ہوگی۔ میں نے کہا : ’’نہیں میں تو اردو ہی میں کچھ کہہ سکتا ہوں‘‘۔ اس پر سب لوگوں کوازحد تعجب ہوا۔ دراصل آپا [مریم جمیلہ] نے ہمیں یہی سمجھایا تھا کہ اردو ہماری قومی زبان ہے اور اسی میں ہمیں تعلیم حاصل کرنی ہوگی۔ میں نے ایک بار امریکا سے اپنےخط میں یہ شکایت لکھی کہ ہمیں انگریزی میں کمال اور مہارت آپ نے فراہم نہیں کی توجواب لکھا: ’’تم میرے انگریزی مکتوب کو اچھی طرح سمجھ لیتے ہو اور مجھے جواب بھی لکھ دیتے ہو۔ اتنی انگریزی کیا تمھارے لیے کم ہے؟ اُردو پر فخر کرو، ہرگز کبھی مرعوبیت کا شکار نہ ہونا۔‘‘
عزیمت کے راہی، جلدچہارم، صفحہ(259-260
  حافظ محمد ادریس
 ++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 991