donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Osama Mustafa
Title :
   Afghanistan,Pakistan Aur Secularism

افغانستان،پاکستان اور سیکولرازم
 
…اسامہ مصطفی…
 
محترم حامد میرصاحب کا ایک کالم بعنوان اے این پی،طالبان اور سیکولرازم شائع ہوا۔جس میں پاکستان کے حکمران گروہ اور سیکولرولبرل لابی کی بہترین ترجمانی کرتے ہوئے سیکولر تناظر میں پاکستان کے حالات کا جائزہ لے کر بنیادی مسائل کی نشاندہی کی گئی اور پھر سیکولر تناظر میں ان کا حل بتایا گیا۔ضرورت اس بات کی ہے کہ اس نقطہ نظر کا جائزہ لیا جائے۔سیکولراور سیکولرازم کی اصطلاح اول اول انقلاب فرانس کی کامیابی سے قبل وضع کی گئی۔عالمی سرمایہ دارانہ تحریک نے روشن خیالی کے عنوان سے چرچ اورپوپ کی اتھارٹی کو چیلنج کیا جس کے نتیجے میںدونوں کیمپوں کے درمیان کشمکش شروع ہو گئی جو مسلح تصادم میں بدل گئی۔جو لوگ غیرجانبدار تھے انہوں نے اپنے آپ کو سیکولر کہنا شروع کر دیا سیکولر اور سیکولرازم کی پہلی تعریف یہ کی گئی کہ وہ فرد جو کسی اسٹیٹ سسٹم یا اسٹیٹ آئیڈیالوجی اور مذہب پر یقین نہ رکھتا ہو وہ سیکولر ہے اور سیکولر ریاست وہ ریاست ہوتی ہے جو کسی اسٹیٹ آئیڈیالوجی اور مذہب پر یقین نہ رکھے اور ریاستی و حکومتی قوت نافذہ کے ذریعے کسی نظریہ ریاست اور مذہب کو نافذ کرنے کی کوشش نہ کرے۔گویا سیکولر ریاست محض ایک پولیس اسٹیٹ ہوگی جس کا کام محض امن و امان برقرار رکھنا ہوگا۔
 
فرانس میں ’’روشن خیالی‘‘ کے عنوان سے جب عالمی سرمایہ دارا نہ تحریک کامیاب ہوئی تو یہ سیکولر گروہ فاتح کیمپ سے جا ملا چرچ اور اس کے حامیوں کی بیخ کنی میں روشن خیال انقلابیوں سے زیادہ متحرک ہوگیا۔ انقلاب فرانس کی کامیابی کے بعد یورپ ’’قومی ریاستوں‘‘میں تقسیم ہوگیااور ان ریاستوں نے میٹریل ازم ،لبرل ازم اور کیپٹیل ازم کو اسٹیٹ سسٹم اور اسٹیٹ آئیڈیالوجی کی حیثیت سے قبول کر لیا اور ریاستی و حکومتی قوت نافذہ عالمی سرمایہ دارانہ تحریک کے مقاصد کے حصول کے لیے پوری قوت سے استعمال ہونے لگی۔انقلاب کے استحکام کے بعد ’’سیکولرازم‘‘کا علمی محاکمہ کیا گیااور اس بات کولغو اور جہالت قرار دیا گیا کہ کوئی ریاست بغیر اسٹیٹ آئیڈیالوجی اور سسٹم کے کام کرسکتی ہے اور یہ محض ایک پولیس اسٹیٹ ہو۔
 
روشن خیال کیمپ کی جارحانہ تنقید کے نتیجے میں سیکولرازم کی دوسری تعریف کی گئی کہ ’’سیکولروہ فرد ہوتا ہے جو کسی مذہب کو اسٹیٹ سسٹم اور اسٹیٹ آئیڈیالوجی تسلیم نہ کرتا ہو‘‘عوام کے لیے اس کی یہ تفہیم کی گئی مذہب کا ریاست،حکومت اور عدالت سے کوئی تعلق نہیں ہوتا۔
 
لیکن اس لفظ سیکولر اور سیکولر ازم میںاس قدر کشش تھی کہ موجودہ دور میںوہ تمام افراد، جماعتیں جو میٹریل ازم اور، لبرل ازم ہی کو اسٹیٹ سسٹم اور اسٹیٹ آئیڈیا لوجی سمجھتی ہیں وہ سیکولر اور سیکولر ازم کے علمبردار ہیں۔ یہ اقوام اور جماعتیں خواہ سرمایہ دارانہ قوم پرستی، سوشلزم پر مبنی نیشنل سوشل ازم، فسطائیت، سرمایہ داری، سوشلزم، نسل پرستی پر مبنی اسٹیٹ سسٹم کے ماننے والے سب سیکولر ہیں۔ جن کے لیے قوم پرست، وطن پرست، ترقی پسند، مہذب، روشن خیال، موڈرن، پوسٹ موڈرن، لبرل وغیرہ کے القابات استعمال ہوتے ہیں۔ میٹریل ازم، لبرل ازم، کیپٹیلزم، سوشلزم/ کمیونزم، قوم پرستی، نیشنل سوشلزم وغیرہ کومسترد کرکے جو لوگ اسلام ہی کو اسٹیٹ سسٹم اور اسٹیٹ آئیڈیا لوجی قرار دے کر اللہ کے اقتداراعلیٰ اور محمدؐ کی نیابت اعلیٰ کی بنیاد پرریاست کی صورت گری کرنے کی جدوجہد کریں تو ان کے لیے ’’بنیاد پرست‘‘ تاریک خیال، مذہبی جنونی، ترقی دشمن، دہشت گرد وغیرہ کے القابات استعمال کیے جاتے ہیں۔اسلام اول روز ہی سے اسٹیٹ سسٹم اور اسٹیٹ آئیڈیالوجی ہے،محمدؐ نے ریاست مدینہ قائم کی اور اس کو کامیابی سے چلایا۔خلفائے راشدین نے بھی اس ریاست کو چلایا۔اسلام صدیوں تک مسلسل ریاست و حکومت کی صورت گری کرتا رہا ہے اور مسلمان اسلام کے اسٹیٹ سسٹم اور اسٹیٹ آئیڈیالوجی ہونے کے حوالے سے یکسو رہے۔اہلِ مغرب کی غلامی کے نتیجے میں اسلام کو ریاست و حکومت اورعدالت سے بیدخل کرنے کی کوششیں کی گئیں لیکن ملت اسلامیہ کی اجتمائی بصیرت نے اس بدعت مسترد کر دیا۔
 
قرآن اور محمدؐ کے اسوۂ حسنہ سے اسلام کا اسٹیٹ سسٹم اور اسٹیٹ آئیڈیالوجی ہونا ثابت ہے اور یہی حجت ہے۔اہل مغرب کو اسلام کے معنی و مفہوم اور حدود مقرر کرنے کا ہر گز کوئی اختیار نہیں ہے، پاکستان، افغانستان ، مصر ، تیونس وغیرہ میں نام نہاد سیکولر لابی ہاری ہوئی جنگ لڑ رہی ہے، اسلام ایک اسٹیٹ آئیڈیالوجی اور سسٹم کی حیثیت سے جارحانہ پیش قدمی کررہا ہے، اسلام کو محض مذہب اور دھرم بنانے کی ہر کوشش ناکامی سے دوچار ہوچکی ہے۔
 
اے این پی کی تعریف کرتے ہوئے محترم حامد میر صاحب کی ’’ڈالر انک‘‘ شاید ختم ہوگئی ، تمام دنیا میں یہ مسلمہ اصول ہے اور بین الاقوامی قوانین کے حوالے سے اس بارے میں ایک ہی رائے ہے کہ ’’ہر قوم کو قابض افواج کے خلاف مسلح جدوجہد کا حق حاصل ہے‘‘۔ یہ حق جارج واشنگٹن کی رہنمائی میں امریکی عوام ’’نیلسن منڈیلا کی قیادت میں جنوبی افریقہ کے عوام اور برصغیر میں محمد علی جوہر، محمد علی جناح، شیخ الہند مولانا محمود الحسن، موہن داس گاندھی، پنڈت جواہر لال نہرو اور خان عبدالغفار خان کی قیادت میں برصغیر کی اقوام کو بھی حاصل تھا۔ ان قائدین کی قابض اقوام کے خلاف جدوجہد بر حق تھی اور ساری دنیا اُس کو برحق کہتی ہے۔ لیکن خان عبدالغفار خان کے نام نہاد پیروکاروں نے پہلے افغانستان پر قابض سویت افواج کا ساتھ دیا اور اب قابض امریکی و اتحادی افواج کا ساتھ دے رہے ہیں کیا ان کی پالیسی خان عبدالغفار خان کی تعلیمات کے مطابق ہے، اگر جارج واشنگٹن، نیلسن منڈیلا ، محمد علی جوہر، محمد علی جناح، موہن داس گاندھی، پنڈت نہرو حریت پسند اور قابل عزت ہیںتو پھر گلبدین حکمت یار اورملا عمر بھی قابل عزت و احترام ہیں ، اور اگر گلبدین حکمت یار اور ملا عمر دہشت گرد ہیں تو پھر جارج واشنگٹن بھی دہشت گرد تھا جس نے امریکا کی آزادی کیلیے تاج برطانیہ سے جنگ کی۔ کیا اب برطانوی حکومت جارج واشنگٹن کو دہشت گرد قرار دے سکتی ہے؟
 
افغانستان کے عوام، پینٹاگون ، ناٹواور ان کے اتحادیوں کی مزاحمت کررہے ہیں تاکہ وہ اپنے نظریہ حیات یعنی اسلام کا تحفظ کرسکیںاور افغانستان کو قابض افواج سے آزاد کراسکیں، یقینا وہ برسر حق ہیں اور پینٹا گون کے کاغذی سپاہیوں کی ’’ڈالر انک‘‘ افغانستان کی ملت اسلامیہ کی برسر حق جدوجہد کو دھندلا نہیں سکتی۔ قابض افواج سے مزاحمت کرنا ہی خان عبدالغفار خان کا راستہ ہے ، قابض افواج کے پے رول پر چلے جانا خان عبدالغفار خان کا راستہ نہیں۔
 
افغانستان پچھلے دو سو سال سے میٹریلزم کے مختلف ماڈلز کی فوجی یلغار کا شکار ہے، سب سے پہلے ’’تاج برطانیہ‘‘ کے جھنڈے تلے افغانستان پر کئی حملے کیے گئے اور بزور قوت افغانستان کے لوگوں کے دل و دماغ بدلنے کی کوشش کی گئی لیکن آخر کار تاج برطانیہ عبرتناک شکست کھاکر افغانستان سے نکل گیا اور پھر پسپا ہوتا ہوا اپنی حدود میں محدود ہوگیا۔ برطانوی یلغار کا مقصد افغان ملت کے دلوں سے اسلامی نظریہ حیات کو نکال پھینکنا اور افغانوں کے جذبہ حریت کو کچل کر اُن میں خوئے غلامی پیدا کرنا تھا، تاکہ وہ میٹریل ازم اور لبرل ازم سے ہم آہنگ ہوجائیں اور اسلام نظریہ حیات کے بجائے عیسائیت کی طرح محض مذہب اور دھرم بن جائے۔ دسمبر 1979ء میں سویت یونین کی افواج قاہرہ ’’سرخ انقلاب‘‘ کے تحفظ کے لیے افغانستان پر قابض ہوگئیں اُن کا مقصد افغانستان کو مادی پرستانہ سوشلزم کے سانچے میں ڈھال دینا اور اسلام کو افغانستان سے باہر کرنا تھا۔ لیکن افغانستان کے مسلمانوں کی گیارہ سال پر محیط جدوجہد کے نتیجے میں سوشلزم کا فکری اور سویت یونین کا فوجی اور سیاسی زوال رونما ہوا اور سویت یونین 15 ملکوں میں تقسیم ہوگیا۔
 
امریکی CIAکے ڈیزائن کیے گئے نائن الیون کے واقعے کی آڑ میں پینٹا گون اور ناٹو کی افواج اپنے اتحادیوں کے ساتھ افغانستان پر ٹوٹ پڑیں اور قبضہ کرلیا۔ ڈیزی کٹر بموں کی بارش کی گئی، ممنوعہ چھوٹے ایٹمی اور کیمیائی ہتھیار بڑے پیمانے پر استعمال کیے گئے، اس کا مقصد میٹریل ازم، لبرل ازم اور امریکا و مغرب کی بالادستی کو تسلیم کرانا اور اسلام کو نظریہ حیات کی حیثیت سے دل و دماغ سے نکالنا تھا، کیونکہ عرصہ دراز سے افغانستان کے لوگ اسلام کو اسٹیٹ سسٹم اور اسٹیٹ آئیڈیالوجی کی حیثیت سے قبول کرکے اپنے ملک کا نظام چلانے کی کوشش کررہے ہیں اور آج تک انہوں نے میٹریل ازم کے کسی بھی ماڈل کو قبول نہیں کیا۔
 
آج جب امریکا اور اس کے اتحادی شکست فاش کھاکر افغانستان سے فرار ہورہے ہیں تو جناب حامد میر صاحب جیسے اخباری دانشور اپنے کالموں کے ذریعے اسلام کو محض مذہب اور دھرم قرار دے کر ریاست و حکومت سے بے دخل کرنا چاہ رہے ہیں۔ امریکا اور اس کے اتحادیوں نے جس طرح افغانستان میں بین الاقوامی قوانین کو پامال کیا اور جنگی جرائم کیے ہیں، پاکستان میں ڈرون حملے ہوئے ہیں اُن کا ذکر کرنے سے حامد میر کی کمان ٹوٹ جاتی ہے اور قلم میں ڈالر انک خشک ہوجاتی ہے۔ حامد میر اسلام کو ریاست و حکومت سے بے دخل کرنے ہی کو تمام مسائل کا حل قرار دیتے ہیں۔ اسلام محمدؐ پر نازل ہوا ، انہوں نے ریاست مدینہ قائم کی اور خلفائے راشدین نے اس کو کامیابی سے چلایا۔ کیا محمدؐ نے ریاست مدینہ قائم کرکے غلطی کی؟ کیا حضرت ابراہیم ؑ نے نمرود، طالوت ؑ نے جالوت اور موسیٰ ؑ نے فرعون کے قائم کردہ اسٹیٹ سسٹم اور آئیڈیالوجی کو چیلنج کرکے غلطی کی تھی؟ حضرت دائود ؑ، سلیمانؑ اور محمدؐ نے ریاستیں کیں کی اور ان کا انتظام چلاکر غلط کیا تھا؟ کیا حامد میر کے قائم کردہ پیمانے کی رو سے مندرجہ بالا تمام انبیاء و رسول نعوذباللہ غلط تھے؟ کیا ان انبیاء کو ریاست اور حکومت کے معاملات میں دخل نہیں دینا چاہیے تھا؟ رہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور کی بات تو اسلامی جمہوریہ پاکستان کے دستور اور قرارداد مقاصد میں ریاست، حکومت اور اس کے تمام اجزاء اللہ تعالیٰ کے اقتدار اعلیٰ کے سامنے غیر مشروط طور پر سرنگوں ہیں۔ دستور پاکستان کی رو سے اسلام ہی پاکستان کیلیے اسٹیٹ سسٹم اور اسٹیٹ آئیڈیالوجی ہے اور اسلام ہی نظریہ پاکستان ہے۔
 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 834