donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Prof. Mian Abdul Majeed
Title :
   MASLA ahle PAKISTAN ki SHENAKHT ka

 

مسئلہ اہل پاکستان کی شناخت کا 

 

 

 تحریر :۔پروفیسر میاں عبدالمجید

    گذشتہ کچھ عرصہ سے ہمارا مقتدر طبقہ دعویٰ کر رہا ہے کہ ہم پاکستان کے لوگوں کو ان کی شناخت دے رہے ہیں ۔صوبہ سرحد کے لوگوں کو خیبر پختونخواہ کانام دے کر پہچان دی ہے۔ جنوبی پنجاب کے محروم طبقہ کے لیے سرائیکی صوبے کی آواز بلند کی ہے ۔گلگت ،  بلتستان کو صوبہ کا درجہ دیا ہے ۔وغیرہ وغیرہ ۔یوں پاکستان میں علاقائی اور لسانی بنیادوں پر شناخت کے حوالے سے بھانت بھانت کی بولیا ں بولی جارہی ہیں ۔اور یوں محسوس ہوتا ہے کہ شناخت دینے کے نام پر لسانی اور علاقائی عصبیتوں کو ہوا دی جارہی ہے۔ حتی کہ پاکستان ٹیلی ویژن پر ہمارے ایک سکھ مہمان فرماتے ہیںکہ ''جت پنجابی دی ہونی ایـںـ''

    زیر نظر تحریر میں میں نے اسی نکتے کی تفہیم کی کوشش کی ہے کہ اہل پاکستان یا پاکستانی عوام کی اصل شناخت کیاہے؟ اگر وہ اسے کھودیں گے تو کیا انجام ہوگا ؟اس مقدمے کے عادلانہ تصفیہ کے لیے چند تاریخی حقائق کو جاننا اور مدّ نظر رکھنا ازحد ضروری ہے۔


    1857ء کی جنگ آزادی کے بعد جب انگریزوں نے برصغیر میں جمہوریت کی داغ بیل ڈالنی چاہی تو یہاں کے مسلمانوں کو اپنی اور اپنے تشخص کی بقا کی فکر دامن گیر ہوئی کیونکہ اب عددی اکثریت کی بنیاد پر اختیارات دیے جانے تھے جب کہ بر صغیر میں ہندوئوں کی آبادی مسلمانوں سے تین گنا تھی ،انگریزوں اور ہندوئوں کی باہم قربت اور سرکار کی جانب سے ان کی سرپرستی مگر مسلمانوں پر عتاب نے صورت حال کو اور بھی تشویش نا ک بنا رکھا تھا،ایسے میں سر سید احمد خان نے مسلمانوں کو تعلیمی میدان میں آگے بڑھانے اور ان کے وجود اور اردو زبان کے تحفظ کی کوششیں شروع کیں۔جن کے نتیجے میں 1906میں برصغیر کے مسلمان قائدین نے جداگانہ طریق انتخاب ،مسلمانوں کی تہذیب وثقافت ،مذہب اور اردو زبان کے تحفظ کے مطالبات نسبتاًواضح انداز میں پیش کیے۔


      1940میں قراردادپاکستان پیش ہونے تک کی مسلم لیگ کی ساری جدوجہداسلام ،مسلم قوم اورمسلم تشخص کومحفوظ کرنے کی جدوجہدتھی،جیساکہ محمد علی جناح ؒکے چودہ نکات میں سے ایک یہ بھی تھاکہ'' مسلم تہذیب و ثقافت ،تعلیم ،زبان،مذہب اور اوقاف کو آئینی تحفظ دیا جائے'' ۔جب کہ ہندو قیادت دوقومی نظریے کو اور یہ کہ مذہب کی بنیاد پر قوم تشکیل پاتی ہے اس نظریے کو تسلیم کرنے کو تیا رنہ تھی ۔نتیجتاًمسلم لیگی قیادت نے مسلمان قوم اور مسلم تشخص کی بقا کے لیے الگ مملکت کا مطالبہ پیش کردیا جسے انڈین نیشنل کانگریس نے بالآخر ان ریمارکس کے ساتھ تسلیم کیا کہ ''پہاڑوں اور سمندروں نے ہندوستان کو جغرافیائی وحدت بنایا ہے۔ہمارے دلوں میں ہمیشہ متحدہ ہندوستان کا تصور قائم رہے گا اور امید ہے کہ جب عوام الناس کے جذبات مائل بہ سکوں ہوں گے تو وہ خود بخود دو قوموں کے غلط نظریے کو ترک کردیں گے''انڈین نیشنل کانگریس کے ان ریمارکس سے یہ بات بالکل واضح ہو جاتی ہے کہ ہندو قیادت مسلمان قوم کے وجود کو تسلیم ہی نہیں کرتی تھی اور اس کا یہ دعویٰ تھاکہ قومیں علاقے او ر وطن کی بنیاد پر بنتی ہیں جب کہ تحریک پاکستان دراصل مسلم قوم کی بقا اور شناخت کے تحفظ کی تحریک تھی۔


    برصغیر میں اس ہندو مسلم کش مکش کے دوران مولانا مودودیؒ نے ''مسئلہ قومیت ''کے عنوان سے ایک کتابچہ لکھا تھا جس میں مسلمانوں کونظریے یا عقیدے کی بنیادپر ایک قوم ثابت کیا تھا ۔اور یہی دعویٰ محمد علی جناح ؒکا تھاکہ برصغیر کے مسلمان ہر حوالے سے ایک الگ قوم ہیں ۔یہی وجہ تھی کہ مسلم لیگ نے مولانا مودودیؒ کے اس رسالے کی وسیع پیمانے پر اشاعت کی تھی ۔یہی مسلم قومیت پاکستانیوں کی شناخت تھی اور ہے۔اسی لیے جناحؒ نے فرمایا تھا کہ'' پاکستان اسی دن وجود میں آگیا تھا جب یہا ں پہلا ہندو مسلمان ہو اتھا''


    اس حوالے سے اگر نبی کریم  ﷺ کی سیرت کو دیکھا جائے تو بھی یہی بات سامنے آتی ہے کہ حجازکے لوگ اگرچہ علاقے ،قوم ،نسل اور زبان کے حوالے سے ایک تھے مگران میں دین اسلام کی بنیاد پر تفریق ہوئی ،ابوجہل ،ابولہب اور دیگر قریشی نبی کریم ﷺ کے ہم نسل ،ہم علاقہ اور ہم زبان ہونے کے باوجود بلکہ قریبی رشتہ دار ہونے کے باوجود مد مقابل تھے جب کہ بلال حبشیؓ،سلمان فارسی ؓ اور صہیب رومی ؓ مسلم قوم کے اہم فرد تھے حالانکہ علاقے نسل اور زبان کے حوالے سے حضور نبی کریم ﷺ سے ان کی کوئی نسبت نہ تھی اور تاریخ شاہد ہے کہ آج تک مسلمانوں کے نزدیک یہ ہستیاں بڑی عظمت کا مقام رکھتی ہیں ،حضرت بلال ؓ کو سیدنا کے الفاظ سے یاد کیا جاتا ہے۔اسی لیے علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں ۔


اپنی ملت پر قیاس اقوام مغرب سے نہ کر   خاص ہے ترکیب میں قوم رسول ِ ہاشمی 
ان کی جمعیت کا ہے ملک و نسب پر انحصار   قوت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری


     قرآ ن اورسیرت کا مطالعہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ عقیدہ توحید،نظریے کی بنیاد پر تمام عالمِ انسانیت کودو قوموں میں بانٹ دیتاہے ۔ایک مسلم اور دوسرے غیر مسلم۔ سورۃ یونس میں آیت مبارکہ  ہے وَمِنْہُمْ مَّنْ   یُّؤْمِنُ   بِہٖ  وَمِنْھُمْ   مَّنْ  لَّا   یُؤْمِنُ  بِہٖ ط


ترجمہ۔اور ان میں سے کچھ ایمان لائیں گے اور کچھ ایمان نہیں لائیں گے۔پھر اللہ رب العزت فرماتے ہیں انماالمومنون اخوۃ (الحجرات)بے شک ایمان والے بھائی بھائی ہیں۔قرآنی آیات اور اللہ کے رسول ﷺ کی احادیث کے مفہوم نے کفار کوایک ملّت قرار دے کر اس تقسیم کو بالکل واضح کردیاہے۔(الکفرملّۃ واحدۃ)دیکھیے تاریخ اسلام میں کفراور اسلام کے پہلے معرکے یعنی بدر میں کون ایک دوسرے کے مد مقابل ہوا ،دونوں قریشی ہیں ہم علاقہ و ہم زبان ہیں بلکہ باپ اور بیٹا ماموں اور بھانجا،چچا اور بھتیجا۔ حتیٰ کی چودہ سرداران قریش واصل جہنم ہوجاتے ہیں ۔بات بالکل واضح ہے کہ آقائے دو جہان نے نظریہ اسلام پر نسل وخون اور علاقہ وزبان کے تمام رشتے اور نظریے قربان کردیے ۔


    جس طرح انڈین نیشنل کانگریس نے دو قومی نظریہ کو تسلیم نہیں کیا تھا اسی طرح نوزائیدہ پاکستان میں موجود سیکولر اور قوم پرست لابی نے نہ صرف اسے تسلیم نہیں کیا بلکہ اس کے خلاف جدوجہد بھی شروع کردی جس کا مظاہرہ مشرقی پاکستان میں 1948میںبنگالی زبان کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کے مطالبے اور بعد میں اس کے لیے احتجاج کی شکل میں ہوا۔


محمد علی جناح ؒنے بنگالی کو مشرقی پاکستان کی سرکار ی زبان اور اردو کو پاکستان کی قومی زبان قرار دیا اور یہ محمد علی جناحؒ کا ذاتی فیصلہ نہ تھا بلکہ پاکستان کی دستور ساز اسمبلی کے مشرقی پاکستان کے مسلمان ممبران جن میں خواجہ ناظم الدین ،مولوی تمیز الدین اور اے کے فضل الحق جیسے اکابرشامل تھے ،کا فیصلہ تھا ۔کیونکہ انہوں نے پاکستان دستوریہ کے ایک ہندو رکن دھریندر ناتھ کی بنگالی کو پاکستان کی قومی زبان بنانے کی قرارداد مسترد کردی تھی ۔


    اردو  دراصل بر صغیر کے مسلمانوں کی زبان مانی جاتی تھی ۔تحریک پاکستان میں خاص طور پرمسلم قائدین نے اس کا دفاع کیا تھا اور یہ پورے بر صغیر کے مسلمانوں میں رابطے کی زبان بھی تھی اور ان کا اثاثہ اور ورثہ بھی ،کیونکہ یہ فارسی، عربی اور دیگر مقامی اور غیر مقامی زبانوں سے مل کر تشکیل پائی ہے۔ایک دعوے کے مطابق قرآن کریم کے 98فی صد الفاظ اردومیں مستعمل ہیں۔


    چنانچہ محمد علی جناحؒ مشرقی پاکستان تشریف لے گئے اور ڈھاکہ کے جلسہ عام میں اس لسانی فتنے کا  پردہ چاک کرتے ہوئے واشگاف الفاظ میں فرمایا۔ ''میں صاف طور پر آپ کو ان حالات سے آگاہ کرنا چاہتا ہوں جو پاکستان کو اور خصوصاً آپ کے صوبے کو لاحق ہیں پاکستان کے قیام کو روکنے کی کوشش میں ناکام ہونے کے بعد اپنی شکست سے پریشان ہوکر پاکستان کے دشمن اب مسلمانوں میں پھوٹ ڈال کر اس مملکت میں انتشار پیدا کرنا چاہتے ہیں ۔ان کوششوں نے اب صوبہ پرستی کو ہوا دینے کی صورت اختیا رکی ہے۔جب تک آپ اپنی ملکی سیاست سے اس زہر کو نکال نہیں پھینکیں گے اس وقت تک آپ خود کو حقیقی قوم میں نہیں ڈھال سکتے اور نہ ہی ایک قوم پرور جوش وولولہ پیدا کرسکتے ہیں۔آپ کو چاہیے کہ بنگالی ،سندھی ،بلوچی ،اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں۔ آپ سب ایک قوم سے تعلق رکھتے ہیں آپ نے ایک سلطنت اپنے لیے بنائی ہے ۔ایک وسیع سلطنت۔ یہ سب آپ کی ہے۔ یہ نہ پنجابی کی ہے نہ بنگالی کی ،نہ سندھی یاپٹھان کی یہ آپ سب کی ہے ۔میں چاہتاہوں کہ آپ بنگالی ،سندھی ،بلوچی اور پٹھان وغیرہ کی اصطلاحوں میں بات نہ کریں ،یہ کہنے میں آخر کیا فائدہ ہے کہ ہم پنجابی، سندھی یا پٹھان ہیں ۔ہم تو بس مسلمان ہیں ۔


    قیام پاکستان کے ساتھ ہی جہاں ہندوستان کی حکومت پاکستان کے خلاف متحرک تھی وہاں سیکولر اور قوم پرست لابی پاکستان کے اندر اس کے خلاف متحرک تھی ۔اور چونکہ دونوں کانظریہ ایک تھا اور دونوں دو قومی نظریہ  کے مخالف تھے اس لیے ان میں تال میل فطری بات تھی ۔
    یہ پاکستان کے قیام کے فوری بعد کی صورت حال تھی یہ کہ مغربی پاکستانی مشرقی پاکستان کو لوٹ کر کھا گئے ہیں ،ابھی ایسی کسی کیفیت کا تصور بھی نہ تھا ،یہ خالصتا ً نظریاتی کشمکش تھی جو قوم پرستوں اور ہندو لابی نے اس اسلامی سٹیٹ کے خلاف زبان جیسے حساس مسئلے کو اٹھا کر اختیار کی تھی جسے برابر پروان چڑھایا گیا ۔پاکستان کے حکمرانوں نے بھی صحیح طور پر مشرقی پاکستان کے حالات کونہ سنبھالا اور نہ ہی صحیح طورپر نظریہ پاکستان کی آبیاری کی ، حتیٰ کہ ہندوستان کی تشکیل کردہ اور تربیت یافتہ مکتی باہنی کی مسلح شورش اور انڈین آرمی کی مداخلت سے مشرقی پاکستان کو فتح کیا گیا اور اندرا گاندھی نے اس کامیابی پر یہ بیان دیا کہ ''ہم نے دو قومی نظریہ کو خلیج بنگال میں ڈبو دیا ہے''


    یہاں ایک امر قابل ِ توجہ ہے کہ 1970میں مشرقی پاکستان میں اسلحے کی بھرمار ، بوریوں میں بند لاشیں، مکتی با ہنی اور ہندوستانی سرحد پر ٹریننگ کیمپ کیا افغان جہاد کا نتیجہ تھے؟دراصل وہی عناصر اور وہی دشمن ،وہی حربے اب اِدھر استعمال کر رہا ہے اور ہندو اپنے سیاسی راہنما کوتلیہ چانکیہ کے اس اصول پر عمل پیر اہے کہ دشمن کے ہاں ایسے حالات پیدا کرو کہ جنگ کے بغیر جنگ کے مقاصد حاصل ہو جائیں۔


    فرقہ وارانہ ،لسانی اور علاقائی نسبتیں ایسی چنگاریا ں ہیں جو معمولی ہوا دینے سے الائو بن جاتی ہیں۔مختلف  طبقات ایک دوسرے کے خلاف صف آراء ہو جاتے ہیں اور ملت اسلامیہ پارہ پارہ ہوجاتی ہے ۔پہلی جنگ عظیم میں اتحادی اقوام نے ان ہی نسبتوں کوہوا دے کر سلطنت ِعثمانیہ کو پارہ پارہ کیا تھا، ایسی ہی عصبیتوں اور افتراق کا شکار اندلس کے مسلمان ہوئے جس کے نتیجے میں عیسائی ریاستیں کامیاب ہو سکیں اور وہاں نہ صرف صدیوں سے قائم مسلم اقتدار ختم ہوا بلکہ مسلمان ناپید ہو گیا۔


    مشرقی پاکستان بنگلہ دیش کی شکل میں ایک بڑے خون خرابے کے بعد بنگالی شناخت کی بنیادپر وجود میں آیا ہے ۔یعنی انہوں نے بنگالی شناخت کو مسلم شناخت پر ترجیح دی ورنہ حقوق تو مسلم شناخت کے ساتھ بھی لیے جاسکتے تھے ۔مگر بنگالی شناخت اپنانے سے اتنا بڑا نقصان ہو گیا کہ کروڑوں کی آبادی اپنی اسلامی شناخت سے دست بردار ہوگئی ۔اب ان کے رشتے کی پہلی ترجیح مسلمان نہیں رہی ۔اب ان کی ترقی اور تنزلی بنگالی کی حیثیت سے ہے ۔اس پر طرّہ یہ ہے کہ وہاں پر اس قسم کی قانون سازی ہورہی ہے کہ کوئی جماعت مسلم یا اسلامی شناخت کے ساتھ کام نہ کرسکے گا۔ یہی بھارتی قیادت اور اسلام دشمن سیکولر قوتوں کی منشا تھی جو پوری ہو رہی ہے۔
    اب بقیہ پاکستان میں مختلف شناختوں اور حقوق کے حوالے سے یہی کھیل کھیلا جارہا ہے ۔ہمار ا مقتدر طبقہ اور میڈیا مختلف عصبیتوں کو ہو ادے رہاہے۔ایک لابی جو مقتدربھی ہے ،یہ ثابت کرنے پرلگی ہوئی ہے کہ یہ بات غلط ہے کہ پاکستان اسلام کے لیے حاصل کیا گیاتھا ،یہ تو جہاں مسلمانوں کی اکثریت تھی وہاںمحض ان کا اقتدار قائم کرنے کے لئے حاصل کیا گیا تھا ،محمد علی جناحؒ اسے ایک سیکولر سٹیٹ بنانا چاہتے تھے اور ان کی گیارہ اگست 1947کی تقریر کا اقلیتوں کے حوالے سے ایک اقتباس پیش کرکے اُن کے اُن سارے بیانات پرپانی پھیر دیا جاتا ہے جو تحریک پاکستان کے دوران دیے گئے تھے۔جن میں سے ایک واضح اور راہنمابیان یہ ہے کہ ''پاکستان نہ ہندو کی تنگ نظری کا نتیجہ ہے اور نہ ہی انگریز کی چالبازی کا بلکہ یہ اسلام کا بنیاد ی مطالبہ ہے''


    اسی طرح ایک اورجگہ آپ نے فرمایا'' ہم ایک ایسی تجربہ گاہ چاہتے ہیں جہاں اسلام کے اصولوں کوآزما سکیں ''نیز یہ بات قابلِ غور ہے کہ اگر سیکولر سٹیٹ ہی مقصود تھی تو انڈین نیشنل کانگریس ہندوستان کے سیکولر سٹیٹ ہونے کا پہلے ہی اعلان کر چکی تھی ،پھر الگ مملکت کے مطالبے کا آخرکیا جواز تھا؟اور کون پاگل ہو گا جوایک سیکولر سٹیٹ کے لیے اپنا گھر بار،کاروبار اور عزت لٹائے ؟


    اس مقتدر طبقے کی پاکستان کو سیکولر سٹیٹ ثابت کرنے سے بھی تسلی نہیں ہو رہی ۔اب بات اس سے آگے بڑھ گئی ہے اور کہہ رہے ہیں کہ ہم پاکستان کے لوگوں کوان کی شناخت دے رہے ہیں ۔اور وہ شناخت پختونخواہ ،سرائیکی ،پوٹھوہاری ،پنجابی ،سندھی اور بلوچی وغیرہ ہے اور ان شناختوں کو محرومیوں کے حوالے سے ہوا دی جارہی ہے۔جس کے نتیجے میں انتشار پھیلنا یقینی ہے۔
     یہ مقتد رطبقہ پاکستانی قوم کوشناخت دینے کے پرفریب اور نہایت درجہ شاطرانہ نعرے کے پردے میں دراصل اُن سے اُن کی اصل شناخت چھیننے کی طویل المیعاداور تباہ کن منصوبہ بندی پر نہایت مستعدّی اور تندہی سے عمل پیرا ہے۔یہ قوم کو پارہ پارہ کرنے کا منصوبہ ہے۔ اسی تحریر میں تحریک پاکستان کے حوالے سے اصل شناخت کاتذکرہ آچکاہے کہ یہ ملک اسلام او ر مسلمانوں کے تحفظ کے لیے حاصل کیا گیا تھایوں کیا یہ لابی پاکستان کی اس بنیاد کو ڈھانہیں رہی جس پر یہ قائم کیا گیا تھا؟اورکیا یہ محمد علی جناحؒ کے فرمان کی کھلی خلاف ورزی نہیں کررہی ؟کیا یہ چاروں صوبوں کی زنجیر کو نہیں کاٹ رہی ؟ کیا یہ بھارت کے اس دعوے کو سچا ثابت کرنے کی کوشش نہیں ہے کہ دو قومی نظریہ غلط ہے اور مسلمان کوئی قوم نہیں ہیں؟


    خدانخواستہ اگر واقعی یہ لوگ کامیاب ہو جاتے ہیںاور بقیہ پاکستان کے لوگ ان لسانی اور علاقائی حوالوں سے الگ الگ حیثیت منوانے کا شکار ہو جاتے ہیں تو وہ مسلم پاکستان کہاں ہوگا جو قائد اعظم ؒ نے حاصل کیا تھا ۔لوگوں کی پہلی ترجیح تو بلوچی پشتون پنجابی اور سرائیکی وغیرہ ہو گی نہ کہ اسلام۔


    اوریہ یوں اتنی آسانی سے نہیں ہو جائے گا جس طرح چند جملے میں نے لکھ دیے ہیں بلکہ دشمن ان چنگاریوں کو ایسی ہوا دے گا کہ مشرقی پاکستان کی تاریخ دوہرائی جائے گی ۔آپ ملاحظہ کرسکتے ہیں کہ بلوچستان میں کیاہورہا ہے ۔خیبر پختونخواہ میں حالات کس جانب لے جائے جارہے ہیں اور کراچی میں کس قدر قتل وغارت جاری ہے اور پی ٹی وی پر ہمارے ایک سکھ مہمان یہ فرماکر کہ ''جت پنجابی دی ہونی ایں''جلتی پر تیل کا کام کررہے ہیں۔


    اس صورت حال میں ہماری موجودہ حکومت کے بعض کارپردازان خود یہ بیان دے چکے ہیں کہ ہندوستان کی پاکستان میں مداخلت کے ثبوت موجود ہیں ۔یعنی بھارت دو قومی نظریے کو غلط ثابت کرنے ،پاکستان کو توڑنے ،اسلام اور مسلمان قوم کو مٹانے کے لیے پھرسے پوری طرح سرگرم عمل ہے ۔ذرا سوچئے تو سہی  پورے بر صغیر کے لوگوں کو ایک قوم کہنے والی ہندو قیادت ہم پاکستانی مسلمانوں کو بیسیوں ٹکڑوںمیں کیوں بانٹناچاہتی ہے؟؟؟۔فاعتبرو ا یآ اولی الابصار
ایسے میں ہم پاکستانیوں کو اپنی اصل شناخت یعنی مسکم پر مضبوطی سے قائم ہونا ہوگا ،اسلامی شناخت کو مضبوط کرنا ہو گا ۔


علامہ اقبال ؒ فرماتے ہیں ۔    قوّت مذہب سے مستحکم ہے جمعیت تری    اور    

 دامن ِدیں ہاتھ سے چھُوٹا تو جمعیت کہاں          اور جمعیت ہوئی رخصت تو ملّت بھی گئی


    پاکستان کے وہ طبقات جو محرومی کی بات کرتے ہیں ،ان کے لیے ایثار و قربانی کا جذبہ اختیار کرنا ہوگا جیسے بلوچستان کے بھائی ہیں انہیں بلوچستان کے تمام وسائل کا مالک ماننا ہو گا مگر ان سے یہ درخواست کرنی ہوگی کہ وہ اس مملکت خداداد کو مضبوط اسلامی فلاحی مملکت بنانے کے لیے کیا ایثار کرسکتے ہیں اور ایسے ہی دیگر طبقات کو بحیثیت پاکستانی اور بحیثیت مسلمان شیر وشکر کرنا ہو گا۔ہماری علاقائی زبانیں ہماری اپنی ہیں ۔اردو کی طرح یہ بھی عربی ،فارسی کے الفاظ اپنے اندر رکھتی ہیں ،ان کی اشاعت وترویج ہونی چاہیے مگر ان کی بنیاد پر ملت کو تقسیم ہونے سے بچانا ہوگا۔آیت ِمقدسہ ہے ۔ ٰٓیاَیُّھَا  النَّاسُ اِنَّاخَلَقْنٰکُمْ مِّنْ ذَکَرٍ وَّاُنْثٰی وَجَعَلْنٰکُمْ شُعُوْبًا وَّقَبَآئِلَ لِتَعَارَفُوْا  اِنَّ اَکْرَمَکُمْ عِنْدَ  اللّٰہِ اَتْقٰئکُمْ 


ترجمہ:۔ اے لوگو بے شک تمھیں ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا گیاہے اور تمھارے خاندان اور قبیلے بنائے ہیں تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو،بے شک اللہ تعالیٰ کے نزدیک سب سے زیادہ عزت والا وہ ہے جو سب سے زیادہ پرہیز گار ہے)یعنی اللہ رب العزت کے نزدیک ایسی شناختیں محض پہچان اور تعارف کے لیے ہیں۔ اللہ تعالیٰ کی پسندیدہ چیز تو تمھاری پرہیز گاری اور کردارہے۔ چنانچہ ہمیں ان ابھاری جانے والی شناختوں کو اسلام کے تابع رکھنا ہوگا۔


    اگر ایسا نہ کیا گیا تو بقیہ پاکستان کے لوگ بھی اپنی حقیقی شناخت کھو دیں گے ۔اور یوں بر صغیر کا وہ علاقہ جو پاکستان کے نام سے دنیا کی سب سے بڑی اسلامی مملکت کے طور پر ابھر اتھا اسلام کا نمائندہ اور دعوے دار ہونے کی بجائے سندھی پنجابی ،سرائیکی ،اور بلوچی وغیرہ کا نمائندہ ہو گا ۔ان میں کوئی اتحاد اور یکجہتی نہ ہوگی ،سابق مشرقی پاکستان کا مسلمان پہلے ہی بنگالی شناخت اختیار کرچکا ہے ۔اس طرح برصغیر میں ہندوستان سے باہر کے مسلمان اسلام سے دستبردار ہو جائیں گے اور ہندوستان کے اندر کا مسلمان پہلے ہی ہندو کی مضبوط گرفت میں ہے اور آئے دن مسلم کش فسادات کا شکار ہور ہا ہے اور اسے وہاں بحیثیت مسلمان کوئی کردار ادا کرنے کی اجازت نہ ہے ۔یاد رہے کہ بی جے پی کے دور ِحکومت میں ایل کے ایڈوانی نے وزیر کی حیثیت سے یہ بیان دیا تھا کہ مسلمان ہندوستان میں رہیں لیکن کوئی کام کرکے یہ نہ کہیں کہ ہم نے یہ بحیثیت مسلمان کیا ہے۔یعنی اسلام کے نمائندے کی حیثیت سے انہیں کسی سرگرمی کی اجازت نہ ہو گی۔ انہیں غلام اور مطیع ہو کر رہنا ہو گا ۔


    بقیہ پاکستان میں اب فرقہ وارانہ ،علاقائی اور لسانی شناختیں ابھار کر ہمیں باہم نفرتوں کی آگ میں دھکیل کر قتل و غارت گری کا میدان سجانے کی کوشش کی جارہی ہے ،جس کے نتیجے میں ملک خدانخواستہ ٹکڑوں میں بٹ جائے گا، ایسی شناختوں پر قائم ہونے والے یونٹس لامحالہ طورپر سیکولر ہوتے ہیں کیونکہ سیکولرزم اور ان شناختوں کاچولی دامن کا ساتھ ہے ۔تو کیا ایسا ہوجانے سے بر صغیر پاک وہنداسلام اور مسلم شناخت سے محروم نہیںہوجائے گا؟کیا ہم اپنی محرومیاں دور کرنے کی خاطر ایک دوسرے کے خون کے پیاسے نہیں ہو جائیں گے؟ اور سابق مشرقی پاکستان کی طرح لاکھوں لوگ قتل و غارت گری کی بھینٹ نہیں چڑھ جائیں گے۔ لاکھوں لوگ بے خانماں نہیں ہو جائیں گے ؟کیا کوئی قریہ کوئی گلی محلہ زخموںسے چور ہونے سے بچ سکے گا؟یاد رکھیں!اِن عصبیتوں کا خمار اتنا ہوگا کہ مسلمان اور اسلامی اخوت لاشوں کے انباروں تلے دب کر رہ جائے گی اور اس طرح ایٹمی صلاحیت رکھنے والی اسلامی ریاست کے مردہ ڈھانچے پر علاقائی ،نسلی اورلسانی بنیادوں پر قائم ہونے والی یہ ٹکڑیاں بھارت کے لیے تر نوالہ بن جائیں گی جسے امریکہ اور اس کے حواری علاقے کی سپر طاقت بنانا چاہتے ہیں ۔پھر اندلس کی طرح یہاں مسلمانوں کی تاریخی یادگاریں تو شاید رہیں مگر اسلام کا دعویدار اور نمائندہ کوئی نہیں ہو گا ۔اللہ تعالیٰ ہم پر رحم فرمائے ۔آمین


یہ بت کہ تراشیدئہ تہذیب ِنو ی ہے           غارت گر ِکاشانہ دینِ نبویﷺ ہے


     اب چاہے تو اسلام اور اسلامی اخوت سے دستبردار ہونے کے نتیجے میں پارہ پارہ ہو کراس بھیانک انجام سے دوچار ہو جائیے اور کاشانہ ِدین نبویﷺ کو مسمار کردیجئے یا نبی کریمﷺ کی سنت پر عمل کرتے ہوئے ان علاقائی اور لسانی عصبیتوں کو قربان کرکے مدینہ منورہ کی اسلامی ریاست کی طرز پرقائم ہونے والی اس واحد اسلامی ریاست کو سنبھالنے کے لیے کمر بستہ ہو جائیے ۔جس طرح حجاز کے لوگ آپ ﷺ کے اس فرمان کہ قولوا لآالہ الااللّٰہ تُفلِحوا ''پر عمل کرکے فلاح پاگئے تھے۔ فلاح اور کامیابی کو اپنا مقدر بنا لیجیے۔


 تحریر :۔پروفیسر میاں عبدالمجید

************************

Comments


Login

You are Visitor Number : 869