donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Sayeed Aasi
Title :
   Media Ka Oodham : Khuda Ki Panah

 

میڈیا کا اودھم ‘ خدا کی پناہ
 
سعید آسی 
 
میں نے 70ءکی دہائی میں اپنی لاءکی تعلیم کے ساتھ ساتھ اپنے طبعی میلان کے باعث پیشہ ¿ صحافت کا بھی آغاز کیا تو بھٹو مرحوم کی شتربے مہار روشن خیالی کے باوجود صحافت میں ادب آداب والی شائستگی‘ عورت کے ساتھ وابستہ تقدس کی نگہبانی‘ شعائر اسلامی کی تعظیم اور اخلاقی سماجی اقدار کا دامن ہاتھ سے کبھی نہیں چھوڑا جاتا تھا۔ اگرچہ اس دور میں بھی ایوب دور کے پریس اینڈ پبلی کیشنز آرڈی نینس اور ڈی پی آر (ڈیفنس آف پبلک ریگولیشن) کی جکڑ بندیاں تھیں مگر یہ ضابطے حکمران بالعموم قومی پریس کو اپنی خواہشات کے تابع رکھنے کیلئے استعمال کرتے تھے۔ صحافت میں اخلاق باختگی کے معاملات پر کسی قانونی پکڑ کا تصور اس دور میں بھی پختہ نہیں تھا‘ اسکے باوجود اخبارات کے مالکان اور ایڈیٹر حضرات نے اپنے طور پر شستگی اور شائستگی پر مبنی ضابطہ ¿ اخلاق وضع کر رکھا تھا اور اخباری کارکنوں کے علاوہ مفصلات کے نامہ نگاروں تک کو واضح ہدایات تھیں کہ خواتین سے متعلق جرائم کی خبروں میں کوئی ناشائستہ لفظ نہیں دیا جائیگا اور نہ ہی کسی جرم کی خبر اس انداز میں بنائی جائیگی کہ اس سے جرم کی ترغیب ملتی ہو۔ اس دور میں ایک شہر کے نامہ نگار نے کسی خاتون کے ساتھ زیادتی کے جرم کی خبر ایڈیٹر کے بتائے گئے ضابطہ  اخلاق کی روشنی میں احتیاط کے تقاضوں کو ملحوظ خاطر رکھتے ہوئے تیار کی اور ہمارے اخبار کو بھجوا دی جس میں خاتون کے ساتھ پیش آنیوالے واقعہ کی ایک ضرب المثل کے ذریعے عکاسی کی کہ ملزم نے کماد کے کھیت میں خاتون کو تنہا پا کر پکڑا اور اپنا الو سیدھا کرلیا۔ یہ خبر ذومعنی فقرے کے ساتھ شائع ہوئی تو ملک بھر سے احتجاجی ٹیلی فون کالوں کا تانتا بندھ گیا‘ چنانچہ اگلے روز اخبار نے یہ خبر شائع ہونے پر نہ صرف نمایاں طور پر معذرت شائع کی بلکہ متعلقہ نامہ نگار کو بھی فارغ کر دیا گیا۔ اس دور میں ذومعنی فقرہ بازی کی روایت ”دھنک“ نے صحافت میں ”انجیکٹ“ کی تھی مگر یہ روایت اس پرچے تک ہی محدود رہی‘ نجی ٹی وی چینلز کا تو اس دور میں سرے سے وجود ہی نہیں تھا‘ صرف پی ٹی وی کی نشریات محدود وقت کیلئے چلا کرتی تھیں جو ایک خبرنامے‘ ایک ڈرامے اور ایک آدھ کلاسیکل موسیقی کے پروگرام پر مبنی ہوتیں‘ جن کے درمیان چلنے والے اشتہار بھی اخلاقیات کی حدود کبھی نہیں پھلانگ سکتے تھے اور غیراخلاقی پروگراموں پر مبنی غیرملکی ذرائع ابلاغ تو اس دور میں شجر ممنوعہ ہوتے تھے‘ سوائے بی بی سی‘ وائس آف امریکہ کی ریڈیو سروس کے یا ریڈیو سیلون کا موسیقی کا پروگرام رغبت سے سنا جاتا تھا۔ ابلاغ کے یہ سارے ملکی اور غیرملکی ذرائع اخلاقیات کی درس وتدریس کی عملی تصویر ہوتے تھے‘ اس لئے ذرائع ابلاغ بشمول پرنٹ میڈیا جرائم کی ترغیب کا کبھی باعث نہیں بنتا تھا۔ سو معاشرے میں جرائم کی شرح بھی بہت کم تھی۔ بالخصوص خواتین کے ساتھ جرائم کی پبلسٹی سے ہر ممکن گریز کیا جاتا تھا اور قتل‘ ڈکیتی جیسے کسی جرم کے سرزد ہونے پر متعلقہ علاقہ ہی نہیں‘ دور دراز کے علاقوں تک ہفتوں‘ مہینوں خوف و ہراس کی فضا طاری رہتی تھی۔ جب کبھی لال آندھی اٹھتی تو اس سے یہی تصور کیا جاتا کہ کسی علاقے میں قتل کی واردات ہوئی ہے جس کا قدرت انتقام لے رہی ہے۔ اس دور کا میں آج کے دور صحافت کے ساتھ موازنہ کرتا ہوں تو الحفیظ و الامان۔ میڈیا کے ذریعے اخلاق باختگی تمام حدود پھلانگتی نظر آتی ہے۔ آج ہمارا معاشرہ صرف اخلاقیات سے ہی عاری نہیں ہوا‘ شعائر اسلامی اور ملک کی نظریاتی اساس کو بھی بھلا بیٹھا ہے۔ حکمرانوں کی انا کی تسکین کی خاطر میڈیا پر پابندیاں لگانے والے قوانین آج بھی موجود ہیں مگر میڈیا پر اخلاقی بے راہروی کو روکنے کیلئے یہ قوانین کبھی حرکت میں نہیں آتے۔ آج الیکٹرانک اور پرنٹ میڈیا پر ذومعنی تو کجا‘ خواتین کی عفت و تقدس کی پامالی کا باعث بننے والے ننگے‘ لچر الفاظ استعمال اور تحریر کرنے سے بھی گریز نہیں کیا جاتا۔ خواتین کے ساتھ زیادتیوں کے جرائم کی اس انداز میں کوریج کی جاتی ہے کہ اس سے جرائم کی سرکوبی کے بجائے ترغیب کی راہیں نکل آتی ہیں۔ بیشتر نجی ٹی وی چینلز نے تو لچر بھارتی پروگراموں کے رگڑے لگا کر بے حیائی کا اودھم مچا رکھا ہے۔ اس اودھم میں خواتین کا تھوڑا بہت زیب تن لباس ہی معیوب نظر آتا ہے‘ باقی سارے عیب عجیب بنا دیئے گئے ہیں اور موبائل ٹیلی فونز تک پر کمپیوٹر انٹرنیٹ کی سہولت نے تو عملاً اخلاقیات کا جنازہ نکال دیا ہے چنانچہ آج نوجوان نسل کتابوں کے مطالعہ سے ہٹ کر کیبلز کے ذریعے نجی ٹی وی چینلز کی جانب سے پھیلائے جانیوالے لچرپن کے مشاہدہ اور رات گئے تک انٹرنیٹ کے ساتھ اٹکھیلیوں میں مگن نظر آتی ہے۔ اس اخلاق باختگی کے ماحول میں میڈیا پر خواتین کیخلاف جرائم کی آزادانہ کوریج ہو گی تو اس سے نئی پرانی نسل میں ان جرائم کی کیوں رغبت پیدا نہیں ہو گی؟ کیا حکمران طبقات کی جانب سے دانستہ طور پر معاشرے کو بے راہروی اور بداخلاقی کی جانب دھکیلا جا رہا ہے تاکہ انکے پیدا کردہ مسائل سے عاجز آئے عوام اسی نشے میں ڈوبے رہیں اور ان میں غیرت وحمیت کی کوئی رمق باقی نہ رہے۔ جس معاشرے کو اخلاقی اقدار سے محروم کر دیا جائے‘ وہاں غیرت و حمیت کی فصل کاشت کرکے کبھی بارآور نہیں بنائی جا سکتی۔ اخلاقی طور پر انحطاط پذیر اس معاشرے کو سنبھالنے کی ذمہ داری یقیناً ہمارے میڈیا پر ہی عائد ہوتی ہے‘ مگر میڈیا نے تو جنسی اشتہاءوالے اشتہارات کی بہار لگا دی ہے۔ کیا آج میڈیا کیلئے کسی ایسے مو ¿ثر ضابطہ ¿ اخلاق کی ضرورت نہیں جس کے تحت اخلاق سے عاری کسی ذومعنی فقرے کی بھی پکڑ ہو سکے؟ اگر ٹوٹ پھوٹ اور گراوٹ کا شکار اس معاشرے کو سنبھالنا ہے تو میڈیا کی آزادی پر حکمرانوں کی خوشنودی والی قدغنیں لگانے کے بجائے میڈیا کے ذریعے پھیلائی 
جانےوالی بے راہروی پر قدغنیں لگانا ہونگی۔ 
+++++
 
Comments


Login

You are Visitor Number : 827