donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Present Situation -->> Pakistan
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Shams Khan
Title :
   Qayede Azam Aur Pakistan Ko Secular Qarar Dene Ki Sazish

 

قائداعظم اور پاکستان کو سیکولر قرار دینے کی سازش


 By Shams Khan


قائداعظم کو سیکولر قرار دینا ایسا ہی ہے جیسے کہا جائے کہ لینن سوشلسٹ نہیں تھا بلکہ سرمایہ دار تھا۔ آئن اسٹائن سائنس دان نہیں تھا بلکہ شاعر تھا۔ بل گیٹس سرمایہ دار نہیں تھا بلکہ سوشلسٹ تھا۔ اس کے باوجود پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر آئے دن قائداعظم اور پاکستان کو سیکولر باور کرانے کے لیے کوشش کرتے رہتے ہیں۔ لیکن یہ کوشش نہیں ہے، سازش ہے۔اس سازش کی تازہ ترین مثال انگریزی ماہنامہ News Line کا فروری 2014ء کا شمارہ ہے۔ اس شمارے کے سرورق پر قائداعظم کی تصویر داڑھی کے ساتھ شائع کی گئی ہے اور سرورق پر موجود سرخی میں کہا گیا ہے کہ دایاں بازو جناح اور پاکستان کو اپنے تصور کے مطابق ایجاد کرنے کے لیے کوشاں ہے۔ اس عمل کو انہوں نے جناح کی اسلام کاری یا Islamisation of Jinnahکا نام دیا ہے۔

حالانکہ پاکستان کا اصل مسئلہ جناح کی ’’اسلام کاری‘‘ نہیں، جناح کی ’’سیکولرائزیشن‘‘ ہے، اس لیے کہ قائداعظم کا مذہبی ہونا سینکڑوں مثالوں سے ثابت ہے، مگر ان کا سیکولر ہونا ایک مثال سے بھی ثابت نہیں۔ اس کا ایک ثبوت نیوز لائن کے زیربحث شمارے میں موجود عائشہ صدیقہ کا مضمون ہے۔ یہ مضمون پاکستان کے سیکولر عناصر کے جھوٹ‘ تضادات‘ کمزوریوں‘ پروپیگنڈے اور ان کی عدم تفہیم کا شاہکار ہے۔

عائشہ صدیقہ کا مذکورہ مضمون سات صفحات پر مشتمل ہے لیکن ان سات صفحات میں انہوں نے قائداعظم اور پاکستان کے سیکولر ہونے کی ایک مثال بھی پیش نہیں کی۔ البتہ مضمون کے اختتام پر انہوں نے فرمایا ہے:

“Perhaps, it will help to admit what we believe was Jinnah’s liberal Pakistan is now dead.”

لیکن نظریات‘ شخصیات اور تاریخ سے متعلق بحثیں اس زبان اور لب و لہجے میں نہیں کی جاتیں۔ تاریخ میں اس بات کی کوئی اہمیت ہی نہیں کہ کوئی شخص یا گروہ کیا”Believe”کرتا تھا یا کرتا ہے۔ تاریخ میں اہمیت حقائق کی ہے اور سیکولر عناصر کے پاس حقائق ہوتے تو عائشہ صدیقہ انہیں اپنے مضمون میں ضرور پیش کرتیں۔ لیکن اس کے باوجود عائشہ صدیقہ نے اپنا مضمون بڑے طمطراق سے شروع کیا ہے اور انہوں نے قائداعظم یا پاکستان کے سیکولر ہونے کی ایک شہادت بھی پیش کی ہے۔ انہوں نے معروف صحافی اور صنعت کار اردشیرکائوس جی کے ایک مضمون کا حوالہ دیا ہے۔ اس مضمون میں کائوس جی نے کہا ہے کہ جناح کے انتقال کے چھ ماہ بعد ریاست پاکستان نے ’’مذہب آلود‘‘ سیاسی مکالمے یا Discourse کی طرف مراجعت شروع کردی تھی۔ مگر سوال یہ ہے کہ اردشیرکائوس جی کے اس تبصرے میں شہادت کہاں ہے؟ یہ تو محض اردشیرکائوس جی کا ایک تبصرہ ہے۔ تو کیا اردشیرکائوس جی کا تبصرہ ہی شہادت ہے؟ ان کی قیاس آرائی ہی تاریخ ہے؟ عائشہ صدیقہ یہاں اور کچھ نہیں تو قائداعظم کی 11 اگست 1948ء کی اس تقریر ہی کا حوالہ دے دیتیںجو سیکولر عناصر کا واحد سہارا ہے اور جس میں قائداعظم نے فرمایا ہے کہ پاکستان بن گیا ہے اور پاکستان میں مسلمان اپنی مساجد‘ ہندو اپنے مندروں اور عیسائی اپنے گرجوں میں جانے کے لیے پوری طرح آزاد ہیں۔ لیکن عائشہ صدیقہ نے یہ حوالہ بھی پیش نہیں کیا۔ شاید اس کی وجہ یہ ہو کہ وہ اسے قائداعظم کے مبینہ سیکولرازم کا ثبوت نہ سمجھتی ہوں، اور اگر ایسا ہے تو عائشہ صدیقہ کا خیال بالکل درست ہے۔ اس حوالے سے سیکولرازم کا نہیں، اسلام کی روایتی رواداری کا اظہار ہوتا ہے۔ عائشہ صدیقہ نے اپنے مضمون میں قائداعظم کی ایک تقریر کا اقتباس پیش کیا ہے، لیکن بدقسمتی سے اس اقتباس کا تعلق سیکولرازم سے نہیں دو قومی نظریے سے ہے۔ قائداعظم نے مارچ 1944ء میں علی گڑھ میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہا تھا:
’’پاکستان ہمیشہ سے موجود تھا مگر مسلمانوں کو اس کا شعور نہیں تھا۔ ہندو اور مسلمان اگرچہ شہروں اور دیہات میں ایک ساتھ آباد تھے لیکن وہ کبھی بھی ایک قوم نہیں تھے۔ وہ ہمیشہ سے جداگانہ تشخص کے حامل تھے۔‘‘

سوال یہ ہے کہ جب  آپ یہ تسلیم کرلیتے ہیں کہ پاکستان دو قومی نظریے کی بنیاد پر وجود میںآیا تو پھر یہ کہنے کی جرأت کیسے کی جاسکتی ہے کہ قائداعظم سیکولر تھے اور پاکستان پہلے دن سے ایک سیکولر ملک تھا؟ اس کی وجہ یہ ہے کہ دو قومی نظریہ اپنی اصل میں ایک مذہبی نظریہ ہے، اور اگر دو قومی نظریے کی بنیاد اسلام ہے تو پھر قائداعظم اور پاکستان کو سیکولر کیوں کر قرار دیا جاسکتا ہے؟ یہاں عائشہ صدیقہ نے ایک نیا چکر چلایا ہے۔ انہوں نے فرمایا ہے کہ پاکستان تو دو قومی نظریے کی بنیاد پر بنا مگر قائداعظم پاکستان کے طرزِ حکمرانی یا  Governance کو سیکولر رکھنا چاہتے تھے۔ یہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل ذہن کا ایک اور تاریخی جھوٹ ہے اور اس کی بھی کوئی شہادت موجود نہیں۔ تاہم عائشہ صدیقہ نے اس سلسلے میں قائداعظم کے امریکی صحافی کو دیے گئے ایک انٹرویو کا حوالہ دیا ہے۔ اس انٹرویو میں قائداعظم نے کہا تھا کہ اسلام جمہوریت کی نفی نہیں کرتا، اس کی حوصلہ افزائی کرتا ہے۔ قائداعظم کی اس بات کا مفہوم یقینا یہ ہوگا کہ اسلام اجماع اور شورائیت کے اصول کا قائل ہے۔ لیکن عائشہ صدیقہ صرف یہ کہہ کر نہیں رہ گئیں کہ پاکستان بنا تو مذہب کی بنیاد پر تھا مگر قائداعظم اس کے طرزِ حکمرانی کو سیکولر رکھنا چاہتے تھے۔ یہ کہنے کے بعد عائشہ صدیقہ نے فرمایا ہے:

“Perhaps Mohammad Ali Jinnah did not think too deeply about his capacity and that of his successors to keep a country made on the basis of religious identity secular.”

یعنی قائداعظم نے اپنے اور اپنے بعد آنے والے رہنمائوں کے حوالے سے اس بات پر گہرائی کے ساتھ غور نہیں کیا کہ جس ملک کو مذہبی تشخص کی بنیاد پر قائم کیا جارہا ہے اسے سیکولر کیسے رکھا جاسکے گا۔ تجزیہ کیا جائے تو یہ قائداعظم کی شخصیت پر ایک اور الزام ہے اور اس کا مطلب یہ ہے کہ اگر قائداعظم کو سیکولر ثابت نہ کیا جاسکے تو ان کی غور و فکر کی اہلیت کو سوالیہ نشان کی زد میں رکھ دو۔ حالانکہ قائداعظم کی فکر پرسرسری ہونے کا الزام ان کے بدترین حریف بھی نہیں لگا سکے۔ لیکن چونکہ سیکولر اور لبرل عناصر پاکستان کو سیکولر او رلبرل نہیں بناسکے چنانچہ انہیں غصہ آگیا ہے اور وہ غصے میں کچھ بھی کہہ سکتے ہیں، یہاں تک کہ قائداعظم کو ’’سطحی‘‘ بھی۔ لیکن سوال یہ ہے کہ اس وقت پاکستانی معاشرے میں سیکولر اور لبرل فکر اور سیکولر اور لبرل عناصر کا حال کیا ہے؟

اس امر کا قصہ بھی عائشہ صدیقہ کی زبانی سنیے۔ انہوں نے لکھا ہے کہ پاکستان میں میڈیکل کے طلبہ بھی حقائق کی صرف سائنسی تعبیر کو قبول کرنے سے ہچکچانے لگے ہیں۔ انہیں ایک ماہر نے بتایا کہ ڈاکٹر تک ڈارون کے نظریۂ ارتقا کو درست تسلیم کرنے پر آمادہ نہیں ہوتے۔ عائشہ صدیقہ کے بقول ٹیلی وژن کے ایک پروگرام میں فلکیات پر گفتگو ہو رہی تھی اور پروگرام کا میزبان کہہ رہا تھا کہ خلا سے متعلق سائنسی نظریات وحی کے ذریعے حاصل ہونے والے علم کی تصدیق کررہے ہیں۔ ا س سے عائشہ صدیقہ نے یہ نتیجہ نکالا کہ پروگرام کا میزبان یہ تسلیم کرنے سے خوفزدہ تھا کہ کچھ چیزیں مذہب کے زاویۂ نگاہ سے باہر بھی  ہوسکتی ہیں۔ عائشہ صدیقہ نے لکھا ہے کہ سندھ کے ڈھرکی اور گھوٹکی کے علاقے میں سندھ پروگریسو موومنٹ اگرچہ ’’ترقی پسند‘‘ ہے مگر اس تنظیم نے بھی ہندو لڑکیوں کے اسلام لانے یا ان کے الفاظ میں Forced Conversion کی حمایت کی ہے۔ اس صورت حال کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی معاشرے میں اسلام کے مکمل ضابطۂ حیات ہونے کا تصور عام ہورہا ہے اور لوگوں کی اکثریت خواہ اسلام پر عمل کرتی ہو یا نہ کرتی ہو مگر وہ پوری زندگی کو اسلامی تناظر میں دیکھنے کی طرف مائل ہوگئی ہے اور یہ بات کسی بھی اسلامی معاشرے کے لیے ’’فطری‘‘ ہے، لیکن سیکولر عناصر کے یہاں اس حوالے سے صفِ ماتم بچھی ہوئی ہے۔ یہاں تک کہ سیکولر عناصر یہ تاثر دے رہے ہیں کہ ہمارا معاشرہ ’’سیکولر روایات‘‘ سے انحراف کررہا ہے۔ یہ بات کوئی مفروضہ یا الزام نہیں۔ عائشہ صدیقہ نے لکھا ہے کہ بعض لوگ سمجھتے ہیں کہ صوفیانہ قسم کے میلوں سے معاشرے کے گمشدہ تنوع کی بازیافت ممکن ہے، تاہم مسئلہ یہ ہے کہ ہمارا معاشرہ سیکولر لبرل روایات سے کوسوں دور آگیا ہے۔ ہم سب جانتے ہیں کہ ’’روایت‘‘ کا لفظ ان رویوں اور رجحانات کے بارے میں استعمال کیا جاتا ہے جو کسی معاشرے میں ہزار‘ سینکڑوں یا کم از کم پچاس ساٹھ سال سے موجود ہوں۔ اس اعتبار سے دیکھا جائے تو سیکولر اور لبرل روایات کی اصطلاح استعمال کرنے کا مطلب یہ ہے کہ پاکستانی معاشرہ ہزاروں‘ سینکڑوں یا کم از کم پچاس ساٹھ سال سے سیکولر تھا، حالانکہ یہ تمام دعوے غلط ہیں۔ یعنی پاکستانی معاشرہ نہ ایک ہزار سال قبل سیکولر تھا، نہ دو سو سال پہلے سیکولر تھا، نہ پچاس سال پہلے سیکولر تھا۔ بلاشبہ ایک وقت تھا کہ معاشرے میں مذہب کا ذکرِ خیر کم تھا، مگر اس کی وجہ مذہبی علم کی کمی تھی۔ مذہبی علم کو فروغ حاصل ہوا ہے تو معاشرے میں مذہبی تناظر بھی عام ہوا ہے۔ اس کا مطلب یہ نہیں کہ معاشرے میں سیکولرازم اور لبرل ازم کبھی موجود ہی نہیں تھا۔ جنرل ایوب اور بھٹو کا زمانہ سیکولرازم اور لبرل ازم کا زمانہ ہے۔ لیکن ایک تو ان ادوار میں سیکولرازم مخصوص طبقے تک محدود تھا۔ دوسرے یہ کہ سیکولرازم اپنی موجودگی کے باوجود معاشرے کی ’’روایت‘‘ بہرحال کبھی نہیں تھا۔ چنانچہ عائشہ صدیقہ نے سیکولر روایات اور ان سے انحراف کے سلسلے میں جو کچھ کہا ہے وہ ان کی خواہش تو ہوسکتی ہے مگر اس کا تاریخی حقائق سے کوئی تعلق نہیں۔ اس صورت حال کا مفہوم واضح ہے اور وہ یہ کہ سیکولرازم اور لبرل ازم پاکستان میں اپنی جنگ ہار گئے ہیں۔ اسلامی جماعتیں اقتدار میں ہوں  یا نہ ہوں لیکن ان کے برپا کیے ہوئے نظریاتی ماحول نے اسلام کو معاشرے کا واحد تناظر بنادیا ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ قائداعظم نے اسلام اور پاکستان کے باہمی تعلق کے سلسلے میں کیا کہا ہے؟
قائداعظم نے 25 جنوری 1948ء کو کراچی بار ایسوسی ایشن سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’اسلام صرف روایات‘ رسوم اور روحانی نظریات کا مجموعہ نہیں، بلکہ یہ ایک ایسا ضابطہ ہے جو اس کی زندگی اور طرزعمل کی صورت گری کرتا ہے، یہاں تک کہ سیاست، معیشت اور ایسے ہی دیگر شعبوں میں مسلمانوں کی رہنمائی کرتا ہے۔‘‘

قائداعظم نے ستمبر 1945ء میں ایک پیغام میں فرمایا:

’’ہر مسلمان کو معلوم ہے کہ قرآن کی تعلیمات صرف مذہبی اور اخلاقی فرائض تک محدود نہیں‘ بلکہ جیسا کہ (مغربی مؤرخ) گبسن نے کہا ہے ایٹلانٹک سے گنگا جمنا کے میدانوں تک اسلام مسلمانوں کے لیے واحد بنیادی اور عمومی ضابطے کی حیثیت رکھتا ہے۔ اسلام مذہبی‘ سماجی‘ شہری‘ فوجی‘ تجارتی اور عدالتی دائرے سے متعلق ہے۔ چنانچہ اسلام ایک مکمل ضابطۂ حیات ہے جو مسلمانوں کی انفرادی اور اجتماعی زندگی کے ہر شعبے کا احاطہ کیے ہوئے ہے۔‘‘

قائداعظم نے کراچی میں 26 دسمبر 1943 ء کو ہونے والے آل انڈیا مسلم لیگ کے اختتامی اجلاس سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’وہ کیا چیز ہے جو ایک قوم کی حیثیت سے مسلمانوں کو متحد رکھتی ہے۔ یہ صرف اسلام ہے، یہ صرف قرآن مجید ہے جو برصغیر کے مسلمانوں کا رہنما ہے۔ اور مجھے یقین ہے کہ ہم اس موضوع پر جتنا غور کریں گے اتنا ہی مسلمانوں کی یکتائی نمایاں ہوگی۔ ہم ایک خدا‘ ایک کتاب اور ایک رسول کے ماننے والے ہیں اور ہم (اسی لیے) ایک قوم ہیں۔‘‘

قائداعظم نے 14 فروری 1948ء کو سبی دربار سے خطاب کرتے ہوئے کہا:

’’مجھے یقین ہے کہ ہماری نجات رسول اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی زریں تعلیمات کی پاسداری میں ہے۔ آپ (پاکستان میں) حقیقی اسلامی اصولوں اور اسلامی آئیڈیلز کے مطابق جمہوریت کی بنیاد رکھیں۔ اللہ تعالیٰ نے ہمیں تعلیم دی ہے کہ اپنے اجتماعی امور کو باہمی صلاح مشورے سے انجام دو۔‘‘

ان حقائق کو دیکھا جائے تو پاکستان میں دایاں بازو قائداعظم اور پاکستان کے بارے میں وہی کچھ کہتا ہے جو تاریخی حقیقت ہے۔ وہ نہ نیا پاکستان ایجاد کررہا ہے، نہ نئے قائداعظم تخلیق کررہا ہے۔ اس کے برعکس حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کے سیکولر اور لبرل عناصر اسلامی جمہوریہ پاکستان کو سیکولر پاکستان اور اسلام کے علَم بردار قائداعظم کو سیکولر جناح ثابت کرنے کے لیے کوشاں ہیں۔

************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 690