donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Baqi Nadvi
Title :
   Maulana Hamidul Ansari Anjum Hamajehat shakhsiat Ke Malik The

 

 مولانا حامدالانصاری انجم ہمہ جہت شخصیت کے مالک تھے


عبد الباقی ندوی بنیتھو، سنت کبیر نگر

 

سردیء مرقد سے بھی افسردہ ہوسکتا نہیں 
 خاک میں دب کر بھی اپنا سوز کھو سکتا نہیں 


اتوار ۱۷؍فروری ۲۰۱۳ء ؁ کو ضلع سنت کبیرنگر ہی نہیں بلکہ ملک کے آخری باکمال وبا فیض پختہ عالم با عمل ،سحر البیان خطیب ، ماہر حکیم ، عظیم خوش الحان شاعر ،بے باک صحافی ، اچھے ادیب حضرت حامد الانصاری انجم نے تقریباً ۸۵؍ سال کی عمر میں معمولی علالت کے بعد داعیء اجل کو لبیک کہا اور نہ صرف اہل خاندان وباشندگان لوہرسن کو بلکہ ہزاروں شاگردوں ،فیض یافتوں ،محبین ،معتقدین اور سارے علمی حلقے کو سوگوار اور اشکبار کرگئے ۔


حادثوں پر حادثوں کا تواتر دیکھئے کہ ابھی عا لمی شخصیت کے مالک مولانا عبداللہ حسنی ندوی استاذ حدیث دار العلوم ندوۃ العلماء لکھنؤ کی رحلت کو ایک مہینہ بمشکل ہوا ہوگا اور اتنے جلدی یہ المناک سانحہ یکایک اقبال کا یہ شعر ذہن میں گردش کر گیا جو حالی کی موت پر ان کے خامہء خوش ارقام سے بے اختیار چھلک پڑا تھا ۔


شبلی کو رورہے تھے ابھی اہل گلستاں
حالی بھی ہوگیا سوئے فردوس رہ نورد 

ہر طرف شور تھا فریاد تھی ،نالہ وشیون تھا کہ ایک عظیم ہستی ہمارے درمیان سے اٹھ گئی ،ایک نظیف وعفیف انسان ہمیں داغ مفارقت دے گیا،ایک قدیم روایات کا حامل ہمیشہ ہمیش کے لئے چلاگیا اب نہ اس کی روشن جبینی ہے اور نہ خوش آوازی کا معدن سب کچھ چھپ گیا اور اس خاک کی تہ میں جہاں سے اس کے وجود نے سر نکالا تھا آہ کیا کہئے ۔زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے ۔


دست قضانے ہم سے جدا کردیا جسے 

وہ تو دیار علم کا روشن نشان تھا 
تاریکیوں میں شمع ہدایت تھا اس کا نام 

وہ پتھروں کے شہر میں ہیرے کی کان تھا 

ایک قیمتی انسان ہمارے درمیں سے اٹھ گیا اور ایک ایسے شخص نے رحلت کی جو مثال بن کر جیتا رہا اور مثال بن کر ہی رخصت ہوگیا ،حضرت مولانا کا جانا ایک بڑا سانحہ ہے اور اس کی کسک دیر تک محسوس کی جائے گی ۔لیکن جب مولوی عبد الحق بابائے اردو کے لکھنے کے مطابق یہ ہو کہ’’ اس میں کوئی شک نہیں کہ موت اٹل ہے اور سب کو آنے والی ہے اور اس لئے ڈر کی کوئی چیز نہیں ہے لیکن ایسی موت جو بے وقت ہو خصوصاًجب کہ اس کا وارایسے شخص پر پڑے جو اپنی خوبیوں اور لیاقتوں میں عدیم النظیر ہو اور خاص کر جب یہ سانحہ ایسی قوم میں واقع ہو جہاں سے پہلے ہی قحط الرجال ہے تو ایسی موت غضب اور قیامت ہے (چند ہم عصر ص:۲۰)

مولانا مرحوم کا حادثہ وفات بھی اسی نوع کا ہے اصحاب کمال تیزی کے ساتھ عدم کی طرف بڑھ رہے ہیں اہل علم کی لگاتاراور مسلسل رخصتی نے ما حول کو سہما دیا ہے تو یہ حادثہ زیادہ کاری اور زیادہ غم انگیز ثابت ہوا ۔جو جارہا ہے اس کے جیسا امتیازات کا حامل کوئی دوسرا نظر نہیں آتا۔ یوں قدرت تمام کمیوں کو پورا کرنے والی ہے اور خدائے دوجہاں کی ذات سے ناامیدی کی کوئی وجہ سامنے نہیں ہے ۔مگر ایک کے جانے کے بعد دوسرے کے سامنے آنے کے لئے جتنا وقت اور مدت درکار ہے ملت یہ مدت سہارنے کی توانائی اور قدرت نہیں رکھتی ۔

مولانا عادات میں نظیف ،مزاج کے لطیف ،بیحد ذہین ،معاملہ فہم ،صاحب بصیرت اورہمہ جہت شخصیت کے مالک ، باخبر انسان تھے مولانامرحوم بڑے مرنجا مرنج اور قاعدو وضابطہ کے انسان تھے بے شمار مدارس ومساجد کے مؤسس ،شعراء وخطباء اور علماء کے مرجع تھے آپ کی تعلیمی دعوتی سرگرمیوں کا مرکز مشرقی یوپی کے ساتھ ہند نیپال کا سرحدی علاقہ تھا ،مولانا کی حیات وخدمات پر ایک کتاب نقوش جاوداں شائع ہوئی اور دوسری انجم تاباں اور کلیات انجم زیر اشاعت ہے ۔
مولانا کی تقریر ی اورشعری مجلس خوبصورت شیریں اور کانوں میں رس گھولنے والے انداز سے بڑی پرکشش اور بارونق رہتی تھی وہ کامیاب مدرس ،ہنرمند مقرر ،عظیم شاعر ،سحر انگیز خطیب ماہر حکیم سب سے بڑی بات یہ ہے کہ وہ وسیع الظرف سچے مومن تھے ان کے جیسا کثیر العلم کثیر الافادہ شخصیت کمیاب ہی نہیں بلکہ نایاب ہوتے جارہے ہیں ۔فضل وکمال لطف وشفقت ،نظم وضبط ہر کام کے حوالہ سے سلیقہ مندی ،ہمہ گیر ہنرمندی اور بے مثال فیض رسانی وافادیت کی بے نظیر قدرت کے ساتھ ساتھ پروقار وبااعتبار وپرکشش کے حامل اپنی نظیر آپ تھے ۔ان سے ملنے اور برتنے والے کو محبت کرنے پر مجبور ہونا پڑتا تھا وہ خلقتاً چست ،پھرتیلے اور پراعتماد شخصیت کے آدمی تھے زندگی کے مثبت فیضان میں ہر ایک کو شریک رکھتے تھے اور زیست کے کسی بھی منفی اثرات سے ہر ایک کو بچائے رکھتے تھے حضرت مولانا نے ایسی زندگی 
گذاری جو درسی انہماک ،مطالعہ میں استغراق ،محض مفید کاموں میں ہمہ تن مصروف ،بال بچوں کی تعلیم وتربیت ،انسانوں سے مواسات ،اعزہ واہل تعلق اور معاشرے کے عام انسانوں سے ہمہ گیر الفت ،سادگی ،قناعت ،سماجی محبوبیت اور شفافیت وپاکیزگی سے عبارت رہی مولانا مرحوم بیماری سے قبل یہ شعر گنگناتے ہوئے سنے گئے ،

التجا تجھ سے ہے ترحم کی لاج رکھ لے غریب انجم کی 

اللہ تعالیٰ بال بال ان کی مغفرت فرمائے اور یہاں سے بہت زیادہ وہاں سرخ رو رکھے کہ وہاں کی سرخ روئی ہی اصل سرخروئی ہے مولانا کے پسماندگان میں پانچ لائق وفائق فرزندحماد انجم ایڈوکیٹ،سہیل انجم (وائس آف امریکہ )قمر جمال انجم ،(جدہ)مولانا آصف ہلال انجم ،ڈاکٹر شمس کمال انجم صدر شعبہ عربی راجوری یونیورسٹی جمو کشمیراور دوبیٹیاں ہیں اللہ ان سبھی کا حامی وناصر ہے ۔

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 596