donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Mateen Muniri
Title :
   Dr Kalim Ahmad Aajiz : Azimabad Ki Tahzeeb Ke Aakhri Hadi Khwan

ڈاکٹر کلیم احمد عاجز :عظیم آباد کی تہذیب کے آخری حدی خواں ۔


 میر تقی میر کی شعری روایت کے امین


 از :   عبد المتین منیری ۔ بھٹکل

دیکھئے میری غزل  میں کبھی صورت اپنی  ۔  یہ وہ آئینہ ہے کہ جو آپ نے کم دیکھا ہے
         اس شعر کے خالق اور عظیم آباد کے تہذیبی گہوارے کے آخری حدی خواں ، میر تقی میر کی شعری روایت کے امین عظیم شاعر و ادیب ڈاکٹر کلیم احمد عاجز آج  اپنے خالق حقیقی سے جاملے اور اپنے ساتھ وضع داری اخلاق  و رواداری کی ایسی انمول  روایات لے گئے جو دور دور تک اب ڈھونڈے سے نہیں ملیں گیں  ۔ آپ کی رحلت کے ساتھ اردو شعر ادب کا جو خسارہ ہوا ہے اس کی بھر پائی  اب شایدممکن نہ ہو، عاجز صاحب نے ایک طویل عمر پائی ۔ آپ کی ولادت ۱۹۲۰ء کو پٹنہ میں ہوئی تھی۔

        جس طرح موسی ندی کی باڑھ اپنے ساتھ شہنشاہ رباعیات امجد حیدرآبادی کے پورے اہل خانہ کو بہا لے گئی تھی ،کچھ اس سے بھی زیادہ بھیانک انداز میں تقسیم ہند کی اعلان کے ساتھ پھوٹ پڑنے والے فسادات کی آگ نے آپ کے خاندان کے سبھی افرا د کو اپنی لپٹوں میں جکڑ کر راکھ کردیا تھا۔ ۲۶ ؍اکتوبر ۱۹۴۶ء کو آپ کی والدہ اور چھوٹی بہن سے ملاقات ہوئی تھی ، اور دس روز بعد ۵؍نومبر ۱۹۴۶ء کو عید الاضحی کے روز ان دونوں کا قتل ہوگیا ۔   یہ ایک ایسا حادثہ جانکاہ تھاکہ جس کے غم نے اردو ادب کو{ وہ جو شاعری کا سبب ہوا }کی غزلوں کے مجموعے کے ساتھ اس کے مقدمہ کی شکل میں نثری اور سوانحی ادب کا  ایک شہ پارہ دے دیا اور یہ کہنا مشکل ہوگیا کہ کلیم صاحب بڑے شاعر تھے  یا نثر نگار۔

       

        پے در پے غموں اور تنہائی نے نے کلیم عاجز کو میر تقی میر کے اسلوب اور روایات کا امین بنا دیا ،اس درد  و الم میں آپ کی فکر و قلم سے اشعار کا نزول ہونے لگا، یہ اشعار دوسرو ں کو سنا نے  اور واہ واہ بٹورنے کے لئے نہیںتھے ، بلکہ دل و ماغ پر طاری ایک کیفیت تھی جو اشعار  کی شکل میں ڈھل رہی تھی ، وہ کسی کی نقالی نہیں تھی، بلکہ ایک الہامی اسلوب تھا ، جس کا جادو شعری محفلوں میں سر چڑھ کر بولتا تھا، یہی وجہ تھی کہ جب مشاعروں کے بازار میں مشاعرہ بازوں نے اس اسلوب  کی نقالی کرتے ہوئے کرو ہو  بھروہو جیسی تعبیرات پیش کرنی شروع کیں تو مشفق خواجہ جیسے نقادوں نے توجہ دلائی کہ یہ اسلوب صرف کلیم عاجز ہی پر سجتا ہے ۔یہ لہجہ کسی اور کے ماتھے کا جھومر نہیںبن سکتا ۔کلیم عاجز نے اپنے لئے  جوشاعری کی وہ دکھی اور کچلے دلوں کی آواز بن گئی ۔اس کی ہرکاٹ توپ و تفنگ کے وار سے زیادہ بھاری پڑتی تھی ، لال قلعہ کے سالانہ مشاعروں میں اندراگاندھی اور راجیوگاندھی کے سامنے پیش گئے بہت سے اشعار اور شعری تلمیحات ادب عالیہ اور جرا ء ت رندانہ  کے اعلی نمونے شمار ہوتے ہیں ، یہی وجہ ہے کہ جب بھی ظلم ہو ، معصوموں کا خون ناحق بہے ، درندگی کا ننگا ناچ کھیلا جارہا  ہو ۔ آپ کے اشعار اس حوالے سے جتنی مرتبہ  اور بار بارصحافت سیاست اور میڈیا کے میدانوں میں دھرائے گئے ۔اتنی بڑی تعداد میں یہ شاذونادر ہی دوسرے شعراء کے حصے میں آئے ۔ نقاد کہتے ہیں کہ عظیم شاعر وہ  ہوتا ہے جس کے شعری ذخیرے سے چند اشعار ضرب المثل کی حیثیت اختیار کرجائیں  اور موقع بہ موقع زبان پر یاد آجائیں۔ اس کسوٹی پر آپ کے کلام کو پرکھا جائے تو شاید دوسرا کوئی اور معاصر شاعر آپ کا ہم پلہ نہیں بن سکتا ، عاجز صاحب  کی رحلت شعر و ادب کے ایک دور کا خاتمہ ہے۔

کلیم عاجز صاحب دینی اقدار کے امین تھے ،وہ  عرصہ تک  صوبہ بہار میں تبلیغی جماعت کے امیر رہے۔وہ اسلام کی آفاقیت کے قائل تھے لیکن  و ہ سمجھتے تھے کہ اسلام کی اعلی قدروں کو دنیا کے تمام افراد تک پہنچانے کے لئے اس پر ہمیشہ اسلام کا لیبل لگانے سے دعوتی نقطہ نظر سے نقصان ہورہا ہے۔  اس کی وجہ سے ایک بہت بڑا طبقہ اسلام کا نام سن کر ان اقدار کو سنے بغیر ہی ان میں مین میخ نکالنے لگتا ہے ، اور تعصب کی دیوار حق بات پہنچانے میں آڑے آجاتی ہے ، لہذا وہ ادب مین حلقہ بندیوں کے مخالف تھے ، وہ سمجھتے تھے ادب کی اسلامی اور غیر اسلامی  حد بندی کرکے اسلامی اقدار کی اشاعت میں رکاوٹ پڑ رہی ہے۔ اقبال پر اسلامی شاعر کا لیبل لگا کر ہم نے اقبال کا بڑا نقصان کرکے اس کی آفاقیت پر روک لگادی ہے ، ان کا کہنا تھا کہ اردو زبان کسی ایک دین کے ماننے والوں کی جاگیر نہیں ہے ، اسے غیر مذہب کے لوگوں نے سنوارنے اور مقبول بنانے میں کچھ کم حصہ نہیں لیا ، اردو بولنے والے غیرمسلموں میں ایسے افراد کی بڑی تعداد رہی ہے  جو حد بندی کے بغیر اسلامی و مشرقی اقدار کے پابند رہی ہے ، لیکن جب سے مسلمانوں کی بے سمجھی سے یہ زبان پڑوسی ملک کی قومی زبان اور مسلمانوں کی زبان بن گئی  ہے اب گنگاجمنی کی صفت اس زبان سے ختم ہوتی جارہی ہے ، اب غیر اقوام میں اردو زبان کی ترقی میں حصہ لینے والے پیدا ہونے کا سلسلہ بند ہوگیا ہے ۔ آپ نے طویل عرصہ تک پٹنہ یونیورسٹی کے صدر شعبہ اردو کی حیثت سے اردو کے فروغ میں حصہ لیا ، وہ  یہاں پر اردو کے عظیم شاعر جمیل مظہری کے جانشین بنے  تھے ۔ آخر ی سالوں میں آپ کے قلم سے کئی  ایک کتابیں ، جب فصل بہاراں آئی تھی ، پھر ایسا نظارہ نہیں ہوگا، جہاں خوشبو ہی خوشبو تھی ،ابھی سن لو مجھ سے ، کوچہ جاناناں ، مجلس ادب، دیوانے دو، میری زبان میرا قلم ، دفتر گم گشتہ  وغیرہ نکلیں۔

        ہم نے آپ کو پہلے پہل ۱۹۸۱ء میں دبی شیراتون میں منعقدہ پہلے عالمی مشاعرے میں دیکھا تھا، اپنے معیار اور استاد شعراء کی شرکت کی  وجہ سے ایسا مشاعرہ پھر دیکھنا نصیب نہیں ہوا ، حالانکہ اس کے بعد دبی میں منعقد  ہونے والے تقریبا سبھی عالمی مشاعروں میں شرکت کا ہمیں موقعہ نصیب ہوا ، اس وقت آپ کے پیش کردہ کلام کی ریکارڈنگ ہماری ویب سائٹ اردوآڈیو ڈاٹ کام میں سنی جاسکتی ہے ۔۱۹۷۶ء  میں آپ کا پہلا مجموعہ کلام {وہ جو شاعری کا سبب ہوا }شائع ہوا تھا ، اس پر فراق گورکھپوری نے فلیپ لکھا تھا، اس کا اجرا صدر جمہوریہ کے ہاتھوں ہوا تھا ، لیکن یہ ایڈیشن عام قاری کی دست رست سے باہر رہا  اور زیادہ تر افراد اس کتاب سے ناواقف ہی رہے ، اس کا اہم سبب کلیم عاجز کا اس کے تیں رویہ بھی تھا، ہوا یہ تھا کہ کتاب کی اشاعت میں آپ کو کوئی خا ص دلچسپی نہیں تھی ، احباب آپ کے کلام کو ضائع ہونے سے بچانا چاہتے تھے، عاجز صاحب ایک ایسی روایت کے امین تھے جہاں کاروبارائی ذہنیت معیوب تھی ، وہ چاہتے تھے کہ ان کا کلام ان افرادکے ہاتھوں تک پہنچے جن کے پاس آپ کے کلام کے سامنے روپئے پیسوں کی کوئی اہمیت نہ ہو، ہر قیمت پر وہ اسے حاصل کرنے کے لئے تیار ہوں ، لہذا کتاب بڑے اعلی معیار پرمحدود تعداد میں زیور طباعت سے آراستہ ہوئی ، اس کا ہدیہ عام قاری کی دست رست سے باہر رکھا گیا ،دہلی کے امریکی سفارت نے بڑی قیمت دے کر اسے خرید ا اور اپنے جملہ مرکزی کتب خانوں کی زینت بنایا ، عام قاری اس کا نام سنتے ہی رہ گئے ۔اسی طرح  دو ایک سال بعد اس کے ایک اور محدود تعداد میں خوبصورت ایڈیشن کا دبی میں اجراء عمل میں آیا ، یہ بھی ناپید ہوگیا ، لیکن آپ کے کلام کی خوشبو مشک و عنبر کی طرح فضاؤں میں مہک رہی تھی، آپ کے مجموعہ کلام کے حصول کی تڑپ باذوق افراد  میں رہ رہ کر جاگ رہی تھی ، لیکن عاجز صاحب اسے ریوڑیوں کی طرح بے قدری سے بانٹنے کے روادار نہیں تھے ، وہ چاہتے تو اپنے مجموعہ سے بہت کچھ دولت کما سکتے تھے ، لیکن انہیں دولت سے زیادہ اس کی قدر وعزت اور اس کے لئے ہونے والی تڑپ عزیز تھی ، اس کے بعد آپکے مضامین کا مجموعہ جہاں{ خوشبو ہی خوشبو تھی} اور دوسرا مجموعہ کلام {جب فصل بہاراں آئی تھی } شائع ہوئے  تو خوش قسمتی سے اس وقت اردو بک ریویو دہلی میں آرہ کے پروفیسر رضوان اللہ صاحب نے اس پر بہت خوب صورت تبصرہ لکھا ، جس سے عاجز صاحب کی کتابوں تک رسائی کا ایک ذریعہ مل گیا ، اس مجموعہ کی بھی قیمت بہت زیادہ تھی ، لیکن ہم نے اس کے کئی نسخے دبی کے پتے پر منگوالئے  اور عاجز صاحب سے ربط و تعلق اور مراسلت کی ایک راہ نکل آئی ۔

        اس وقت صرف ہمارے دوست نہیں بلکہ بزرگ بھی مرحوم  مولانا محمد رضوان القاسمی صاحب بانی مہتمم جامعہ سبیل السلام حیدرآباد بقید حیات تھے ، اللہ تعالی نے علم دین کے ساتھ بڑا صاف ستھرا ادبی ذوق  انہیں دیا تھا، جید صاحب قلم،  ایک زمانے میں حیدرآباد سے نوید دکن نکالاتھا، پھرسیاست میں ہفتہ وار کالم لکھا کرتے تھے ، جب دبی میں آتے تو رمضان میںتراویح کے بعد  ہمارا  مختلف موضوعات پرتبادلہ خیال ہوتا تو سحری کا وقت ہونے کا پتہ نہیں چلتا  تھا،انہوں نے ہم سے کہا کہ {وہ جو شاعری کا سبب ہوا }لوگ پڑھنا چاہتے ہیں ، لیکن عاجز صاحب اسے چھپوانے کے لئے تیار نہیں ، ہمارے خاص الخاص تعلق کے آدمی ہیں ، لیکن یہاں ہمارا تعلق بھی کام نہیں آرہا ہے ۔سبیل السلام میں رابطہ ادب اسلامی کا سیمینار ہونے جارہا ہے ، اگر اس کی اشاعت کے لئے کوئی ڈول ڈال سکتے ہوں تو آپ کی کرامت سمجھوں گا ۔

         کہاں بھٹکل دبی اور پٹنہ ، عاجز صاحب سے ہماری شناسائی صرف ان کی کتابیں پڑھنے اور کلام سننے کی حد تک تھی ، رضوان صاحب تو ان کے گھر کے آدمی تھے ، لیکن قربان جائیے  اس وضع داری اور بھولے پن پر کہ جب ہم نے  عاجز صاحب کو خط لکھا تو فورا رضوان صاحب کے توسط سے کتاب کی اشاعت پر راضی ہوگئے  اور ان کے پاس اپنی کتاب کا جو اکلوتا نسخہ تھا وہ اور کتاب کے پہلے ڈیلکس ایڈیشن کی پلیٹیں ڈاک سے بھیج دیں ، کہاں یہ  رخ کہ دبی سے چھپے نسخہ کی قیمت پانچ سو درھم  (دو گنی سونے کی قیمت کے برابر) کہ ہم جیسا کوئی اسے خریدنے کا سوچے بھی نہیں اور مال کے تعلق سے شاعر موصوف کے بارے میں غلط فہمی میں مبتلا ہو ۔رضوان القاسمی مرحوم کا شائع کردہ یہی نسخہ ہندوستان میں عام قاری کے ہاتھوں تک پہنچا ، ہمارا خیال ہے طلب کے باوجود گذشتہ پندرہ بیس سال میں اس کا کوئی دوسرا ایڈیشن نہیں نکلا ۔یہ کتاب کلیم عاجز کو ہمیشہ زندہ رکھے گی ۔

      کتاب کی اشاعت کے چند ہی دنوں بعد ۱۹۹۷ء میں پچاس سالہ جشن آزادی کے موقعہ پر بھٹکل میں نوجوانوں کی تنظیم وائی یم یس یم

نے سیرت کوئز اور نعت کا ایک مقابلہ رکھا، جس کے لئے عاجز صاحب کو مہمان خصوصی کی حیثیت سے شرکت کی دعوت دی گئی ، ، خوش قسمتی سے ہمیں بھی اس موقعہ پر ساتھ رہنے کا موقعہ ملا،  خوب چہکے ، عادت کے برخلاف بہت سارا کلام مجلسوں میں سنایا ، طلبہ واساتذہ سے بھی خوب گھل مل گئے ، ایسا لگا کہ جیسے اپنے ہی گھر میں آئے ہیں ، جامعہ اسلامیہ بھٹکل میں  پہانی ، ہردوئی کے ہمارے حافظ کبیر الدین  صاحب وغیرہ  اساتذہ کی  محنت سے آپ کے اعزاز میں ایک شعری نشست منعقد ہوئی جس میں طلبہ نے آپ ہی کا کلام بڑے خوبصورت لب و لہجہ میں پیش کیا  ، بھٹکل میں وہ اتنے خوش ہوئے کہ ایک ایک پرانے محلے  اومسجد کا غور سے مشاہدہ کیا ، اتنی اپنائیت کا اظہار کیا کہ ہمیں خجالت سی محسوس  ہونے لگی ، اپنی کتابیں بھی طلبہ میں بڑی مقدار میں مفت بانٹیں ، یہاں ان کی مال و دولت سے بے نیازی ، فقیرانہ قلندرانہ زندگی ۔ عبادت و للہیت میں مگن ایک  ایسی شخصیت کا مشاہدہ سامنے آیا جسے بیان نہیں کیا جاسکتا ، خالص غزل کے لب لہجے کے عظیم شاعر کی ایسی پاکیزہ زندگی کسی اور شاعر میں پھر شاید ہی دیکھنے کو ملے ، کلیم عاجز کے اٹھ جانے سے نہ صرف اردو دنیا کا ایک عظیم سرمایہ لٹ گیاہے ، بلکہ ایک ایسے اہل اللہ  اور داعی سے بھی ہماری سرزمین خالی ہوگئی ہے ،جن کی موجودگی اللہ کے بہت سے عذابوں سے حفاظت کا سبب بنتی ہے ۔ اللہ ان کے درجات کو بلند کرے ۔ آمین

۱۵؍فروری ۲۰۱۵ء

**************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 818