donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdul Noor Fikarde Bhatkali
Title :
   Maulana Syed Salman Saheb Husaini Nadvi - Aik Dharhakta Dil

 

 مولانا سید سلمان صاحب حسینی ندوی ۔ ایک دھڑکتا دل

 


عبد النور فکردے بھٹکلی

دارالعلوم ندوۃ العلماء کے استاذ حدیث اورعالم اسلام کی مؤقر شخصیت اوربقول یوسف قرضاوی کے نابغۃ الزمان اورجمعيت شباب الاسلام کے بانی وصدر مولانا سیدسلمان حسینی ندوی کا تعلق سرزمین منصورپور ضلع مظفر نگر سے ہے، مولانا کا خاندان زمیندار تھا اورآدھا منصورپور مولانا کے آباء واجداد کا تھا، خاندان ساداتِ بارہ کے مختلف شاخیں ملک کے مختلف حصے میں پھیلیں جن میں سے ایک شاخ بہار میں بسی جس سے علامہ سیدسلیمان ندویؒ اورمولانا سیدمناظر احسن گیلانیؒ پیدا ہوئے

ان ہی میں سے ایک شاخ منصورپورجاکرآباد ہوئی اوران کوشاہجہاں نے جاگیریں عنایت کیں، منصورپورمیںآج بھی مولانا کا گھر حویلی کے نام سے باقی ہے جہاں کسی زمانے میں پورے گاؤں کے فیصلے ہوتے تھے اورآپ کے آباء واجداد گاؤں کے چودھری تھے۔ مولانا کی پیدائش ایسے شاہی خاندان میں ہوئی اوریہ بات محقق ہے کہ انسان کی شخصیت میں اس کے خاندان اوربچپن کے ماحول کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے۔ مولانا نے شروع میں قرآن حفظ کیا پھردارالعلوم ندوۃ العلماء میں داخلہ لیا، آپ زمانہ طالب علمی میں بہت محنت کرتے تھے حتی کہ کھاتے وقت بھی کتاب پڑھتے اورکوئی وقت کتاب کے بغیر نہیں گزرتا تھا اس کے بعد جامعۃ الامام محمد بن سعود ریاض گئے اورچارسال تک وہاں تعلیم حاصل کی۔ وہاں پر بالخصوص شیخ عبدالفتاح ابوغدّہ سے کسب فیض کیا، شیخ عبدالفتاح خود اپنے اس شاگرد سے متاثر تھے اور مولانا کے بارے میں فرماتے تھے کہ انا اہتز بہ کہ مجھے تم پر فخر ہے۔ مولانا کی شخصیت میں مفکراسلام مولانا ابوالحسن علی ندویؒ کی تحریروں اورتقریروں کا اہم رول رہا ہے، وہاں پڑھائی سے فراغت کے بعد آپ کووہیں استاذ ہونے کی پیش کش کی گئی لیکن آپ نے اپنے 

مادرعلمی دارالعلوم ندوۃ العلماء کوترجیح دی۔ اس وقت سے آج تک تقریباتیس سال سے آپ برابر خدمت انجام دے رہے ہیں اورمختلف دینی، ملی وسماجی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ آپ نے ۱۹۷۴ء ؁ میں جمعیت شباب الاسلام کی بنیاد ڈالی جس کا چرچا پورے ملک میں ہوا اورجس کے نقوش اب بھی پورے ملک کے گوشے گوشے میں پھیلے ہوئے ہیں۔ آپ نے مختلف میدانوں میں کام کیا، آپ کا مشن بالخصوص نوجوانوں کوتیار کرنا ہے اوران کو لے کر ملت کوبیدار کرنا ہے۔ مولانا کو تین چیزیں ایسی نصیب ہوئی ہیں جوآج کے دورمیں بہت کم لوگوں میں پائی جاتی ہیں۔(۱) علم میں پختگی، (۲) عربی، اردو، انگریزی زبان پر قدرت جس کا اظہار آپ کی مختلف تقریروں میں ہوتا ہے، (۳) ملت کی فکر اوراس کے لئے تڑپ۔

واقعہ یہ ہے کہ آپ کا دل امت کے لئے ہمیشہ بے چین رہتا ہے، گھر کی خلوتوں میں، محفل کی جلوتوں میں اورندوۃ العلماء کے آفس میں ہروقت آپ میں وہی جوش، وہی فکر،وہی اسپرٹ کہ کس طرح امت مسلمہ بیدار ہوجائے اوراللہ کا پیغام دنیا کے انسانوں تک پہنچائے۔ اس وقت بھی مولانا کی صرف ایک ہی فکر ہے کہ ملت کومتحد کریں اور ان کا سیاسی شعور بیدار کریں اوراس کے لئے مولانا نے عملی قدم بھی اٹھایا ہے۔ مولانا کی فکر یہ ہے کہ مسلمانوں کی تمام سیاسی پارٹیوں کوایک نقطۂ فکرپر جمع کریں جس کی میٹنگ انشاء اللہ دہلی میں ہونے والی ہے۔ مولانا ایک صاحب طرز خطیب ہیں جن کی تقریروں نے ملک کے ایوانوں کوللکارا ہے اورجس کی آواز رابطہعالم اسلامی کے اسٹیج پر بھی گرجی اورعالم اسلام کے مختلف علاقوں بالخصوص عالم عربی میں گونجتی رہتی ہے، ملک کے چپے چپے کا مولانا دورہ کرتے رہتے ہیں اوران کی ذمہ داریوں سے ان کوآگاہ کرتے ہیں، مولانا کی تقریر کا جوانداز ہے بلاشبہ ان سے مسلم وغیرمسلم دونوں متاثر ہوئے بغیر نہیں رہتے، ابھی گزشتہ مہینے کی بات ہے کہ نجیب آباد میں دوروزہ حصول انصاف کی کانفرنس تھی، مولانا نے ایک گھنٹہ گفتگو کی، آپ کی تقریر جیسے ہی ختم ہوئی ایک غیرمسلم آدمی لپک کر آیا اورکہنے لگا کہ مولانا میں آپ کا غلام ہوگیا۔ (غرض یہ کہ ملت کے لئے دھڑکنے اورکڑھنے والا دل جومسلسل تیس سال سے مختلف طریقوں سے کوشش کررہاہے)

واقعہ یہ ہے کہ اس وقت مولانا کی جوفکر ہے وہ بلاشبہ ایک انقلابی اورعہدآفریں فکر ہے۔اللہ تعالیٰ مولانا کو اپنے مقصد میں کامیاب فرمائے۔ مولانا نے جمعیت شباب الاسلام کے پلیٹ فارم سے مختلف مدارس ومساجد ومکاتب کی بنیاد ڈالی، بالخصوص جامعہ سیداحمدشہید کٹولی اسی کے ساتھ وہیں پر ایک بڑا لڑکیوں کا مدرسہ ہے اوروہیں پر ایک طبیہ کالج بھی قائم ہے، ان تمام چیزوں کودیکھنے سے صاف معلوم ہوتا ہے کہ مولانا ایک انقلاب انگیز اورعہدآفریں شخصیت ہیں اور مولانا کی فکر اوران کی باتوں کوسمجھنے کے لئے مستقل کتاب کی ضرورت ہے۔

کاش کہ ملت کا کوئی مخلص اس اہم کام کوانجام دے۔ اللہ تعالیٰ مولانا کی عمردراز فرمائے اورآپ کا ساےۂ عاطفت ہم پر تادیر سلامت رکھے اورملت کومزید مستفید ہونے کی توفیق عطافرمائے۔
یہ مولانا کے تعارف پر صرف سرسری جھلکیاں تھیں اورحق تویہ ہے کہ حق ادا نہ ہوا۔


**********************

Comments


Login

You are Visitor Number : 616