donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Abdullah Salman
Title :
   Qaumo Millat Ka Be Laus Khadim Justice Badruddin Taiyab Jee


قوم و ملت کا بے لوث خادم

 

جسٹس بدر الدین طیب جی


عبد اللہ سلمان ریاض

E-mail:   salman_pbh@rediffmail.com     Mob:  9341378921
26, Haines Road, 1st Floor, Egyptian Block, Bangalore -560051

ہندوستان کی پہلی جنگ ِ ِآزادی کے بعد مسلمانوں کا حال کھوٹے سکّے کی طرح بے قدر ہوگیا تھا۔ خو ف و حراس کی زندگی گذارنے پر وہ مجبور تھے کیوں کہ انگریز سرکار کی نظر میں وہ باغی تھے ایسے حوصلہ شکن ماحول میں جسٹس طیب جی(۱۸۴۴ ء -۱۹۰۶ ء ) مشعلِ راہ بن کر قوم کو ذلت و رسوائی کے اندھیرے غار سے نکال کر میدان عمل میں لاکھڑا کردیا۔ اور اُنہیں منزل مقصود کا راستہ دِکھایا۔

طیب جی کی پیدائش بمبئی میں ہوئی۔آپ کے والد علی میاں اپنے وقت کے ایک کامیاب تاجر تھے۔آپ نے اپنی اولاد کو اعلیٰ تعلیم کے لیے برطانیہ بھیج دیا۔ صرف پندرہ سال کی عمر میں طیب جی ایک کامیاب بیرسٹر بن کر۱۸۶۷ ء میں ہندوستان واپس لوٹے صرف پانچ سال کے عرصے ہی میں آپ کا شمار بھی بمبئی کے ممتاز وکلاء میں ہونے لگا۔آپ انتہائی ذہین تھے۔ ۱۹۰۲ ء میں بمبئی ہائی کورٹ کے چیف جسٹس بنادیئے گئے۔آپ پہلے ہندوستانی مسلمان تھے جن کو اتنا بڑا عہدہ ملا تھا۔ آپ کا دماغ ایک خاص قانونی سانچہ میں ڈھلا ہوا تھا۔ آپ کے دانش ورانہ فیصلوں کو دیکھ کر انگریز دنگ رہ جاتے۔ آپ غیر جانبدار تھے۔اس کا ثبوت اس واقعہ سے ملتا ہے۔ کانگریس کے صدر بال گنگا دھرتلک قید میں تھے اِن کی ضمانت کے لیے کوشش کی جارہی تھی اور کئی مرتبہ ان کی ضمانت کی درخواستیں رد کی جاچکی تھیں۔ جب ضمانت کی درخواست ان کے سامنے آگئی تو اُنھوں نے فوراً بال گنگا دھر تلک کو ضمانت پر رہا کردیا۔ انگریز افسروں کو جب یہ خبر ملی تو بہت ناراض ہوگئے۔ طیب جی کے سامنے بال گنگا دھر تلک کو بُرا بھلا کہنا شروع کیا۔ طیب جی کی طبیعت بھڑک اُٹھی۔ انھوں نے طیش میں آکر کہا ’’ میں اپٖنے اس عہدے سے زیادہ قدر اس عہدے (کانگریس صدر) کی کرتا ہوں اور ایک لفظ بھی اُن کے خلاف سُننا گوارا نہیں کرسکتا‘‘۔

۱۸۷۵ ء میں بمبئی میں انڈین نیشنل کانگریس کے اجلاس میں آپ اس پارٹی میں شامل ہوگئے اور صرف دس سال بعد ہی کانگریس کے اجلاس میں متفقہ طور پراس کے صدر چُن لیے گئے۔ آپ کا صدارتی خطبہ ہندوستان کی تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھا جائے گا۔کیوں کہ اُنھوں نے البرٹ بِل پر بڑے ہی موثر انداز میں تقریر کی تھی:

 ’’ میں کانگریس کے صدر کی حیثیت سے ہندو مسلم دونوں کو یہ آواز دیتا ہوں کہ طبقاتی گروہ بندیوں میں اپنے آپ کو نہ جکڑو اس تنگ دائرے سے باہر نکل آؤ اور باقاعدہ انگریزوں کے سامنے سینہ سپر ہوجاؤ۔ ہم اپنے مقصد میں اُس وقت کامیابی حاصل کرسکتے ہیں جب ہم ایک قوم ہوکر ایک جھنڈے تلے جمع ہوجائیں ۔‘‘

آپ کے دل میں قوم و ملت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا آپ نے اپنی اعلیٰ تدبیروں سے مسلمانوں کے حوصلے بڑھائے۔ ان کا کہنا تھا کہ قوم و ملک کی ترقی کا دارو مدار تعلیم و تربیت پر منحصر ہے۔ آپ چاہتے تھے کہ مسلمان عصری تعلیم کی طرف توجہ دیں۔ آپ تعلیم نسواں کے زبردست حامی تھے۔آپ پہلے مسلمان تھے جو سماجی مخالفت کے باوجوداپنی بیٹیوں کو اعلیٰ تعلیم کے لیے یوروپ بھیجا۔ تعلیم کی اہمیت کو محسوس کرتے ہوئے انجمنِ اسلام بمبئی کی بنیاد ۱۸۷۵ ء میں رکھی۔آپ نے رسم ستی کے خلاف آواز اُٹھائی اور بچپن کی شادی پر روک لگائی، ہندوؤں اور مسلمانوں کی مخالفت کے باوجود شادی کے لیے عمر کی معیار مقرر کی۔ بیوہ عورتوں کی دوبارہ شادی ہو اس کے لیے کوشش کی۔عورتوں میں  جدید تعلیم کے ساتھ ساتھ اُمور خانہ داری اور مذہبی تعلیم کو بھی آپ ضروری سمجھتے تھے۔

طیب جی صرف ایک آزادی کے سپاہی ہی نہ تھے بلکہ ایک مصلح قوم اور مفکر بھی تھے۔دولت ، شہرت، عہدہ اور خطابات کی کبھی پرواہ نہ کی۔ بڑی ہی خاموشی کے ساتھ قوم و ملت کی خدمت کرتے رہے۔ تاریک میں چراغ بن کر بے بس و مجبور و بے کس لوگوں کی زندگی میں اُجالا کرنے والا یہ روشن ستارہ بالآخرایک دن ہمیشہ کے لیے غل ہوگیا۔

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 516