donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Afroza M. Kathiawari
Title :
   Hazrat Ameer Khusro Dehlavi

حضرت امیر خسرو دہلوی

 

حضرت امیر خسرو دہلوی (1253-1325ئ)ہندوستان کے وہ اوّلین سخن گو ہیں جن کے کلام میں ہندوستانیت کی گونا گون تصاویر اپنے رنگوں کی نقاشی کے ساتھ جلوہ نما ہیں۔حضرت خسرو نے اگرچہ اپنی شاعری کا بیشتر حصہ فارسی میں قلم بند کیاہے لیکن ان کی اُردو یا ہندوی شاعری اس لحاظ سے ایک بے مثال مرتبہ رکھتی ہے کہ اس میں ہندوستانی تہذیب وثقافت اور معاشرے کے مختلف پہلوئوں کو نہایت فن کاری کے ساتھ پیش کیا گیا ہے ۔ اُردوادب میں اس میدان میں خسرو کا موازنہ صرف نظیر اکبر آبادی (1740-1830ئ) کے ساتھ کیا جاسکتاہے جس نے خسروؔ کے پانچ سو سال بعد اپنا ایک منفرد لوک لہجہ اختیارکرکے شاعری کی ایک اور طرح ڈالی ۔

اُردو زبان کی اولین نگارشات دکھنی بولی میں ملتی ہیں ۔صوفی شاعروں نے پہلے پہل اسی بولی کو بڑھاوادیا۔ اس طرح سے ایک ممتاز صوفی حضرت خواجہ بندہ نواز گیسو دراز کو دکھنی اُردو کا اولین تخلیق کار مانا جاتاہے ۔

خشونت سنگھ کا کہناہے کہ امیر خسرو کی طرح میر تقی میر ، اقبال اور غالب نے بھی پہلے پہل فارسی میں شاعری کی لیکن ہندوستانی عوام کے دلوں میں اترنے کے لئے جو زبان ان کے کلام کی ترسیل وتشہیر کے لئے موزوں ترین تھی وہ تھی اُردویا ہندوستانی یا ہندوی۔

ایک شاعر یا ادیب بہرحال اسی زبان میں اظہارِ خیال کرسکتاہے جس میں وہ اپنا تجربہ حسن وخوبی کے ساتھ بیان کرکے دوسروں تک اسی طرح پہنچائے کہ وہ اس تجربے کے اظہار کو اپنے ہی دل کی بات تصور کریں ۔ علامہ اقبال سے جب کسی نے سوال کیا کہ آپ فارسی میں بھی شاعری کرتے ہیں تو انہوں نے کہا اگر میرے بس میں ہوتا تو میں عربی میں شاعری کرتا کیونکہ عرب قوم کو وقت کے تقاضوں کے مطابق خوابِ غفلت سے جگانا باقی ہے۔

اقبال کے اردو کلام کے مقابلے میں اس کا فارسی کلام بدرجہا بہتر ماناجاہے۔

غالب کی قسمت میں اردو ہی کے ذریعہ مقبول ومشہور ہونا تھااور وہ اُردو دنیا میں اپنی پذیرائی کے اس والہانہ پن کو روک نہ سکا۔اسی طرح امیر خسرو بھی خالصتاً فارسی سخن گو تھے ۔ اگرچہ انہوں نے دوہے ،پہیلیاں اور برج بھاشا میں اپنے کلام کا ایک حصہ بھی تخلیق کیاہے ۔

خسروؔ نے اپنے کلام کو فارسی اور اُردو برج کھڑی بولی کے امتزاج سے ایک منفرد تزئین اور نقاشی سے سنواراہے۔

امیر خسرو نے ننانوے تصانیف تخلیق کیں اور ان کا بیشتر کلام زبانِ شیراز ہی میں موزوں ہوالیکن بقول علی جوادزیدی خسروؔ اپنی فارسی سخن گوئی میں بھی مادروطن کے ایک حساس فرزند کی حیثیت میں نغمہ سرا ہیں۔عظمت ِ ہند، اس کے عوام ، بدلتے ہوئے جغرافیائی مناظر ، مہکتے ہوئے گل وگلزار ، تناور درخت اور رواں دواں ندیاں اور دریا ان کے محبوب موضوعات میں شامل ہیں ۔

انہیں اپنے ہندوستانی ہونے پر ناز تھا اورہندوی ہی ان کی زبان تھی؎

چومن طوطیٔ ہندم ار راست پرسی

زمن ہندوی پرس تار است گویم

فارسی اور ہندوی کی ممزوج غزل کا یہ بے مثال نمونہ امیر خسرو ہی کا خاصہ ہوسکتاہے؎

زحال مسکین مکن تغافل در اے نیناں بنائے بتیاں

کہ تاب ہجراں نہ دارم اے جان نہ لیہو کا ہے لگائے چھتیاںشبانِ

ہجراں دراز چوزلف و روزِ وصلت چو عمر کوتہ

سکھی پیا کو جو میں نہ دیکھوں تو کیسے کاٹوں اندھیری رتیاں

یکایک از دل دوچشمِ جادو بصد خرابیم صبر وتسیکن

کسے پڑی ہے جو جا سناوے پیارے پی کو ہماری بتیاں

چو شمع سوزاں چو ذرّہ حیراں ہمیشہ گریاں بہ عشق آں مہ

نہ نیند نیناں، نہ انگ چیناں نہ آپ آویں نہ بھیجیں پتیاں

بحقِ روزِ وصال دلبر کہ داد مارا فریب خسروؔ

سپیت من کو دراے راکھوں جو جانے پائوں پیا کی گھتیاں

کیا امیر خسرو نے ہندوی زبان میں شاعری کی ہے یا نہیں ؟ اس موضوع پر انیسویں صدی میں یہ مباحثہ چھڑ گیا کہ حضرت سے منسوب ہندوی شاعری دراصل ان کے زورِ قلم کا نتیجہ نہیں ہے لیکن بعد میں بہرحال اس امر پر اتفاق رائے پایا گیا کہ چونکہ اس نوع کا کلام امیر خسرو کے سوا اور کسی شاعر کے ساتھ تاریخی اعتبار سے منسوب نہیں کیا جاسکالہٰذا اسے امیر خسرو ہی کا کلام تسلیم کیا گیا لیکن افسوس کا مقام یہ ہے کہ ان کا ہندوی کلام زمانے کی دست برد سے محفوظ نہ رہ سکا اور جو کچھ ہم تک آج ان کے ہندوی کلام کی شکل میں پہنچاہے و ہ سینہ درسینہ ہی محفوظ رہ سکاہے اور اس کے ایک فرد سے دوسرے فرد تک منتقل ہونے کے عمل میں تغیر وتبدیلی کے امکانات کو رد نہیں کیاجاسکتا۔

خسرو خود ہند ی زبان پر فخر کرتے ہوئے کہتے ہیں؎

ترکِ ہندوستانیم در ہندوی گویم جواب

شکرِّ مصری ندارم کز عرب گویم سخن

خسرو نے اپنے ہندی یا ہندوی کلام کا باربار ذکر کیاہے اور اس میں انہوں نے نزاکت اور معنی آفرینی کے جو گل وگلزار کھلائے ہیں وہ اپنی مثال آپ ہیں ۔ مثلاً؎

رفتم بہ تماشائے کنارے جوئے

دیدم برلبِ آب زنِ ہندوے

گفتم صنما بہائے زلف چہ بود

فریاد بر آورد کہ دُر دُر موئے

(میں نے ایک جو ئبار کے کنارے ایک ہندوستانی دوشیزہ کو دیکھااور اس سے پوچھا کہ تمہاری ان زلفوں کی قیمت کیاہے ۔اس نے جواب دیا دُردُر موئے ۔اوموئے دور ہوجا دو رہو جا۔ انہی الفاظ کے دوسرے معنی یوں ہیں ۔دُردُر موئے یعنی میری ایک ایک زلف کی قیمت ایک ایک موتی ہے۔)

ہندوستان کی ہر شئے اور بالخصوص ہندوستانی حسن کے تئیں امیر خسرو کی والہانہ محبت کا جوعالم تھا سید صباح الدین عبدالرحمان نے ان شاعرانہ الفاظ میں اس کی توضیح کی ہے ۔ ان کو چینؔ کا حسن بھی نہیں جچا کیونکہ ان کے معیار کے مطابق اس میں عجز وانکسار نہیں۔ تاتاری حسینوں کے لبوں پر ہنسی نہیں دکھائی دیتی اور ختن کے حسینوں کے چہرے پر نمک نہیں ہوتا۔ سمرقند اور قندھار کے حسن میں مٹھاس یعنی قند کی کمی ہے ۔ اسی طرح مصر اور روم کے سیمیں بدن حسینوں میں وہ چستی اور چالاکی نہیں پاتے ۔خسروؔ کو ہندوستان کے حسن میں یہ ساری خوبیاں دکھائی دیتی ہیں یعنی عجز وانکسار بھی ۔لبوں پر تبسم بھی ۔ چہرے پر نمک بھی۔ شرینی بھی ۔ ادائوں میںچستی اور چالاکی بھی ۔اسی لئے بے اختیار ہو کر کہتے ہیں؎

بتانِ ہند را نسبت ہمیں است

بہریک موئے شاں صد ملکِ چین است

امیر خسروؔ نے ہندوی یا ہندوستانی میں شاعری کسی تفریح یا تفنن کے لئے نہیں کی بلکہ ان کی اس شعوری کوشش اور تجربے کا ماحصل اس ایک نئی زبان کی ابتداء میں دیکھاجاسکتاہے جسے ابوالفضل نے دہلوی کا نام دیا اور پھر جسے لوگوں نے ریختہ کی حیثیت میں پہچانا اور جو بالآخر اُردو کی شکل میں تخت ِ دہلی کی سرکاری زبان بن گئی ۔

ہندوستان کی سرزمین او ر خاص کر دہلی سے انہیں اتنا لگائو تھاکہ ایک بار جب وہ کچھ عرصہ تک دہلی سے باہر رہنے کے بعد واپس اس شہر میں آئے تو انہوں نے کہاکہ دہلی آکر مجھے ایسامحسوس ہواکہ گویا حضرت یوسف چاہِ زندان سے باہر نکل آیا ہو۔ اپنی مثنوی ’’قرآن السعدین‘‘ میں امیر خسرو نے دل کھول کر دہلی کی اتنی تعریفیں کی ہیں کہ اس مثنوی کو ’’در صفت ِ دہلی‘‘ کے نام سے بھی یاد کیا جاتاہے ۔

امیر خسرو ؔنہ صرف ایک عہد ساز شاعر تھے بلکہ وہ ہندوستانی کلاسیکی موسیقی کے بھی موجد تھے ۔ انہوں نے ہندوستانی موسیقی کے مختلف مقامات کو مرتب کرکے جو راگ ایجاد کئے ان میں مجیر ، سازگری ، ایمن ، مشتاق ، موافق غنم اور زیلف وغیرہ شامل ہیں ۔ان میں سے بعض مقامات ہندی میں پہلے ہی موجود تھے ۔امیر خسرو نے ان میں کچھ تبدیلیاں کرکے ان کے نام بدل ڈالے ۔

گوپی چند نارنگ کے الفاظ میں ہندوستان کے عاشق صادق اور سچے وطن پرست تھے۔اپنی شاعری میں جہاں جہاں وہ امیر خسرو ہندوستان کی تعریف کرتے ہیں ان کی روح وجد میں آجاتی ہے اور جیسے ان کے منہ سے پھول جھڑنے لگتے ہیں ۔

ہندوستان کے موسموں ، تیوہاروں اور رسومات کے بارے میں خسرو نے فارسی اور ہندوی میں جو کچھ لکھاہے وہ ان کے لاتعداداشعار پر مشتمل ہے۔ اس برجستہ موضوع کو تفصیلاً زیر تذکرہ لانے کا یہ موقع نہیں ہے البتہ ان کی اس قبیل کی صرف چند مثالیں دے کر ہی خسرو کے عشقِ وطن کی ایک جھلک دیکھ سکتے ہیں۔برسات کے موسم کی یہ تصویر کشی ملاحظہ ہو؎

ہوائے خرم است وہرطرف باراں ہمی بارد

نگویم قطرہ کز بالا گل ریحاں ہمی بارد

نگوں سرشاخ ہائے سبز گوئی ورہمے جنبند

زبس کا بردر افشاں لولوئے غلطاں ہمی بارد

ہولی ہندوستان کا ایک روایتی اور رنگین تیوہارہے او راس کے تئیں خسروؔ نے اپنے ذوق وشوق کا مختصراً یوں اظہارکیاہے؎

دَیاری موہے بھجویا رے

شاہ نجام کے رنگ میں

کپڑے رنگنے سے کچھ نا ہوت

یارنگ میں میں نے تن کو ڈبویا رے

واہی کے رنگ سے سن وے شوخ رنگ

خوب ہی کل کل دھویا رے

پیر نجام کے رنگ میں بھجویا رے

ساون یعنی برسات کی رُت بھی ہندوستانی موسموں میں سب سے شاعرانہ اور جذبات خیز موسم ہے ۔امیر خسرو نے اس رنگین موسم کی کہانی ہلکے پھلکے انداز بیان میں لوک رنگ میں اس طرح بیان کی ہے؎

اماں میرے باوا کو بھجو جی کہ ساون آیا

بیٹی تیرا باوا تو بڈھاری کہ ساون آیا

اماں میرے بھائی کو بھجو جی کہ ساون آیا

بیٹی تیرا بھائی تو بالا ری کہ ساون آیا

اماں میرے ماموں کو بھجو جی کہ ساون آیا

بیٹی تیرا ماموں تو بانکاری کہ ساون آیا

پان یعنی Betel Leaf کو ایک بن بوجھ پہیلی کی یہ شکل دی ہے؎

ایک گنی نے یہ گن کینا

ہریل پنجرے میں دے دینا

دیکھ جادوگر کا حال

ڈالے ہرا نکالے لال

اور اسی طرح مکئی کے بھٹے کی یہ تصویر کشی امیر خسرو کی فارسی میں ملاحظہ ہو؎

پیرمردہ لطیف ریش سفید

کردہ دندان سرخ چوں گلنار

ہفت کرتہ بدارد او برتن

تایکے کرتہ مے رود درنار

امیر خسرو نے اپنی 72سالہ زندگی میں کئی انقلابات دیکھے جوسلطنتوں اور حکومتوں کے عروج وزوال کا باعث بن گئے ۔ ان واقعاتِ زمانہ سے بے نیاز حضرت خسرو نے صرف اپنی صوفیانہ اور ادبی زندگی ہی کو اپنے ذوق وشوق کا مرکز بنالیا۔ ان کا فلسفہ تصوف ان کے فکر وفن کے اظہار کا ایک بہت بڑا منبع ہے۔

خسرو کی شاعرانہ صلاحیتوں کا نکھار اور جلال ان کی اسی شاعری میں ابھر کر سامنے آجاتاہے جس میں انہوں نے اپنے ملک ہندوستان اور ہندوستانیت کے گیت گائے ہیں ۔خسروؔ کا اسلوب اس حوالے سے ان کے بعد آنے والے ہندوستانی شاعروںسے نہایت الگ تھلگ اور ایک منفرد حیثیت کا حامل ہے ۔

اپنے محبوب شہر دہلی میں قیام پذیر ہوتے ہوئے بھی امیر خسرو نے سارے ملک کے اُن ثقافتی پہلوئوں پر خامہ فرسائی کی ہے جن کا ذاتی اور عملی تجربہ کئے بغیر ان کی صحیح تصویر کشی کرنا بصورت دیگر ناممکن نظر آتاہے۔ یہی خسرو کے فن اور نکتہ بین نگاہ کی جولانیوں کا کمال ہے ۔

امیر خسروؔ قدیم وجدید ہندوستان کی ادبی زندگی میں ایک مقبول نام ہے جسے یہ خطہ ارضی ابوالحسن یمین الدین کے اصلی نام کی بجائے امیر خسرو ہی کے نام سے جانتاہے ۔وہ اپنے عہد کے اعلیٰ پایہ کے سخن گو ، موسیقار، موجد،فلسفہ دان،ماہر لسانیات او رعظیم درجہ کے صوفی تھے ۔

حضرت امیر خسرو ؔ کی شاعری اور فن کے حوالے سے ہندوستانیت کی عکاسی کے متعلق علامہ اقبال ؔنے ان کے بارے میں بجاطور پر کہاہے؎

رہے نہ ایبک وغوری کے معرکے باقی

ہمیشہ تازہ و شیریں ہے نغمۂ خسروؔ

-----------------------

رابطہ:15- راولپورہ ہائوسنگ کالونی ،سرینگر کشمیر

موبائل نمبر:9419005909


-- 
With Regards
 
Afroza.M.Kathiawari. 
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

Comments


Login

You are Visitor Number : 671