donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ahmad Mumshad Ali Nadvi
Title :
   Agar Kalim Na Hoga Maza Na Aayega


 اگر کلیم نہ ہوگا مزہ نہ آئے گا


احمد ممشاد علی ندوی

رات جی کھول کے پھر میں نے دعاء مانگی ہے
اور ایک چیز بڑی بیش بہامانگی ہے
اور وہ چیز نہ دولت نہ مکاں ہے نہ محل
تاج مانگا ہے نہ دستار و قبا مانگی ہے

پھر خواہشات و تمناؤں اورامیدوں و امنگوں کی ایک تفصیلی فہرست کے بعد

سن کے حیرا ن ہوئے جاتے ہیں ارباب چمن
آخرش کون سی پاگل نے دعاء مانگی ہے
آ ترے کان میں کہہ دوں اے نسیم سحری
سب سے پیاری مجھے کیا چیز ہے کیا مانگی ہے
وہ سراپائے ستم جس کا میں دیوانہ ہوں
اس کی زلفوں کے لئے بوئے وفا مانگی ہے

     سال ۲۰۰۶؁ کا تھا کہ جب جامعہ امام شاہ ولی اللہ الاسلامیہ پھلت میں درجہ ثانویہ ثالثہ کا طالب علم ہوتے ہوئے پہلی بارایک ثقافتی پروگرام میں کلیم عاجز کے یہ اشعار کان میں پڑے جو سماعت کی راہ سے دل میں داخل ہو گئے۔اس کے بعد بھی مختلف پروگراموں میں پدم شری ایوارڈ یافتہ اور تا عمرہندوستان کے وزیر مملکت کا درجہ رکھنے والے پروفیسر کلیم عاجزؔ کی غزلیں سننے کا موقع ملا اوران کے اشعار اور طرز و انداز ہر بار پہلے سے زیادہ متآثر کرتے چلے گئے مگر یہ دلچسپی اس وقت شوق میں تبدیل ہو گئی کہ جب ایک سینئر ساتھی کی میز پرکلیم عاجزؔ کا مجموعۂ غزل ’وہ جو شاعری کا سبب ہوا‘ نظر آیا اور اس میں سے کچھ غزلیں اس قدر اچھی لگی کہ انہیں ایک ہی نشست میں بیٹھ کر یاد کر لیا۔یہ تعلیم کے اس دور کی بات ہے کہ جب طالب علم کوکتاب کے مقدمہ کو پڑھنے میں کوفت محسو س ہوا کرتی ہے اس لئے میں اس کتاب کی ابتداء میں تحریر کئے گئے کلیم عاجزؔ کے خصوصی مضمون ’’ادا کیونکر کریں گے چند آنسو دل کا افسانہ‘‘کو نہ پڑھ سکا پھر ایک دن اچانک یہ شعر سامنے آیا

لگے ہے پھول سننے میں ہر ایک شعر
سمجھ لینے پے انگارہ لگے ہے

    اس کو شاعری کا فلسفہ اور بڑبولے پن پر محمول کرتے ہوئے میں نے صفحہ الٹ دیا مگر لاشعور میں یہ شعر بار بار دستک دیا کرتا تھا۔ پھر کچھ ہی دنوں بعد جب رات میںدرسی مذاکرہ سے فارغ ہو کر بستر پر جانے لگا تو سرہانے رکھی ہوئی اس کتاب کو اٹھا کر پڑھنے لگا۔ گرمی کا موسم تھا اور ٹیبل فین پورے زور پر تھا اچانک ہوا کے زور سے صفحات پھڑکنے لگے اورکتاب کا وہ حصہ سامنے آیا کہ جس میں کلیم عاجز نے اپنے گاؤں کی تباہی کی داستان تحریر کی ہے ، وہ اپنے تباہ شدہ گھر جانے کے لئے افسران سے فریاد کر رہے تھے اور وہ گزشتہ شب چراغاں میں اڑائی گئی بریانی اور قورمے کے ذکر میں اس قدر محو تھے کہ آہ و زاری ، کرب و سوز اور بے بسی سے بھر پور آواز ان کی قوت سماعت پر اثر انداز نہ ہو سکی۔اولین منظرنامہ ہی اس قدر جگر سوز تھا کہ کانوں میں سیٹیاں بجنے لگیں پھر میں نے کتاب الٹی اور کلیم عاجز کا خصوصی مضمون پڑھنا شروع کیا۔ اول تا آخر پڑھا ، بارہا پڑھا اور اس درمیان مجھے محسوس ہوتا رہا کہ میرا چہرہ بھیگ رہا ہے اور اب نمی گریبان تک پہنچنے لگی ہے۔ادھر مؤذن نے فجر کے لئے اذان دی اور ادھر غموں کا مارا یہ شاعر مسجد سے ہم کلام تھا۔کانپتے ہاتھوں سے کتاب میز پر رکھی ، وضوء کے بعد نماز ادا کی اور پھر پوری رات جاگے رہنے کے باوجود لاکھ کوششوں کے بعد بھی مجھے نیند نہ آسکی۔اب تک مجھے کتاب کا صرف شاعری والا حصہ ہی پسند تھا اور دوسرے صفحات کو میں نے کبھی زحمت نہ دی تھی مگر اب عاجز کی شاعری پڑھنے کی سکت نہ رہی تھی بس مسلسل ’شاعری کا سبب‘ ہی پڑھتا رہتا۔

ع    کبھی آنسؤں کو سکھا گئیں میرے سوز دل کی حرارتیں
    کبھی دل کی ناؤ ڈبو گئیں میرے آنسؤں کی روانیاں

    کلیم عاجز ؔ۱۹۲۵؁میں تلہاڑہ پٹنہ میں پیدا ہوئے ۔ ۱۹۴۷؁ کے فرقہ وارانہ فسادات میں ان کی والدہ، بہن اور دیگر رشتہ دار شہید ہوگئے۔ ۱۹۵۶؁میں پٹنہ یونیورسٹی سے گریجویشن کرنے کے بعد ایم اے اردو میں گولڈ میڈل حاصل کیا اور پھر اسی یونیورسٹی میں استاد مقرر ہو گئے۔پہلا مجموعہ کلام ۱۹۷۲؁ میں شائع ہوا جس نے ہندوستان بھر کے ادبی حلقوں میں زبردست پزیرائی حاصل کی ۔ بعد میں بھی آپ کے کئی شعری مجموعے اور نثری نگارشات کے ساتھ شائع ہوئے۔
کلیم عاجز نے اپنا تعارف اس انداز میں بھی کرایا ہے

یہی ہم نوا یہی ہم سخن یہی ہم نشیں یہی ہم وطن
میری شاعری ہی بتائے گی میرا نام کیا ہے پتہ ہے کیا

    میراجی سے لے کر مجاز اور مجاز سے فراز تک متعدد شعراء ایسے گزرے ہیں کہ جنہوں نے ذاتی المیوں اور درد و سوز سے کام لے کر اپنے ادبی قد اور شاعری کو جلابخشی اور ان تمام شعراء کا طرز علیحدہ علیحدہ ہونے کے باوجود اس طور پر مشترک رہا کہ اس نے سامعین و قارئین کے ذہن و دماغ پر گہرا اثر مرتب کیا۔ ان لوگوں کی زندگی کے درد و الم ، حادثات و آفات اور اتار چڑھاؤ جب شاعری کی صورت میں وجود پزیر ہوئے تو عوام کو یہ شعراء اپنے لگے، انہیں اشعار میں سچائی نظر آئی ۔ بناوٹ اور تصنع سے پاک اور عام زندگی سے راست مربوط ان کی شاعری نے جادو کا اثر کیا مگر کلیم عاجزؔ کی شاعری ان تمام خصوصیات کی حامل ہونے کے ساتھ ہی اس طور پر منفرد ہے کہ انہوں نے اپنے درد کو شاعری کے ذریعہ ہمہ گیریت عطا کی ۔ لوگ خوشیاں بانٹنے میں یقین رکھتے ہیں اور یہی خیال عام طور پر رواج پایا ہوا ہے مگر کلیم عاجز نے اپنا غم بھی بانٹا ، کسی کو روتا دیکھ کر ان کے اشعار آنسو کی جھڑی بن کر جھلکتے رہے ، دوسروں کے غموں کو بھی انہوں نے اپنا غم سمجھا

ع    جہاں غم ملا اٹھایا پھر اسے غزل میں ڈھالا
    یہی درد سر خریدا یہی روگ ہم نے پالا

اور

    دل درد کی بھٹی میں کئی بار جلا ہے
    تب ایک غزل حسن کے سانچے میں ڈھلی ہے

    یہی وجہ ہے کہ دیگر شعراء کے مقابلہ کلیم عاجز کو لوگوں نے اپنا سمجھنے کے ساتھ ہی ان کے درد کو بھی اپنا مانا اور خود کو اس سوز سے مربوط محسوس کیا جو ان کی شاعری میں ساز بن کر چھنکتا تھا۔آج بھی ایک بڑی تعداد ایسے باذوق افراد کی پائی جاتی ہے کہ جو یہ کہتے نظر آتے ہیںشاعری میں جو بے ساختہ پن اور سادہ انداز میں اپنی بڑی بات نہایت سلیقہ سے کہہ گزرنے کا جو انداز کلیم عاجز کے یہاں پایا جاتا ہے وہ موجودہ دور میں ناپید نہیں تو کمیاب ضرور ہے۔

    ڈاکٹر کلیم صاحب عاجز ؔتخلص کیا کرتے تھے ۔ اس کو اختیار کرنے میں کیا وجوہات محرک رہیںیہ میرے علم میں نہیں ہے مگر غالبا زندگی کے اس اندوہناک دور سے متآثر ہو کر ہی یہ تخلص اختیار کیا گیا ہوگا کہ جو’شاعری کا سبب ہوا‘ تھا ۔ زندگی کے خوشگوار ترین اور نامساعد تر دونوں قسم کے حالات میں ہی انسان مالک دو جہاں کے سامنے عاجز وبیکس محض ہی ہے شاید یہ بھی ایک ناحیۂ فکر ہو کہ جو باعث بنا ہوبہرحال مجھے بحث اس بات سے نہیں کہ کیا وجہ تھی اور کیانہیں اور ویسے بھی ’سبب ضروری ہے لیکن بتانا مشکل ہے‘ لیکن اپنی محدود اور ناقص معلومات اور کلیم عاجز کی شاعری اور شخصیت سے دلچسپی کے باعث میں نے بارہا یہ محسوس کیا ہے کہ مالک ذوالجلال کا یہ بندۂ عاجز اس کے کے علاوہ کسی بھی ، کہیں بھی اور کسی بھی طرح کے حالات کے سامنے سرنگوں یا عاجز نہیں ہوا۔ اس کی مسکراہٹ میں ہمیشہ اتنی اثرآفرینی رہی کہ آنسؤں کی نمکینی کو خوشی کی مٹھاس میں تبدیل ہو جانے کے علاوہ کوئی چارۂ کار نہ رہا۔ذاتی زندگی کے المیوں نے بڑے بڑے سورماؤں کی شخصیات اور صلاحیتوں کو دیمک بن کر چاٹ کر صاف اور کھوکھلا کیا ہے۔ زندگی کے دوسرے شعبوں کے طرح شاعری کے میدان میں بھی ایسے ناکام انسانوں کی ایک بڑی فہرست ہے جس میں عالمی سطح پر شہرت و مقبولیت حاصل کرچکے شعراء کے نام بھی درج ہیںبھلے ہی ان کی شاعری شہرہ آفاق رہی ہو ، آج تک بھی دل کی دھڑکن کوروا رکھنے کے لئے ان کی شاعری کا سہارا لیا جاتا رہا ہومگر جب ہم ان شعراء کی طرز زندگی کا جائزہ لیتے ہیںتو ایک ناچار ناکام اور صحیح معنوں میں بے کس و عاجزانسان نظر آتا ہے مگر میرے لئے کلیم عاجزؔ اس لئے بھی قابل قدر اور قابل تقلید رہے ہیں کہ انہوں نے اپنی زندگی میں پیش آنے والے سب سے بڑے حادثے اور راستے کی سب بڑی رکاوٹ کو اپنی سب سے بڑی طاقت و قوت بنا لیا۔ انہوں نے نہ تو زخم کو ناسور بنایااور نہ ہی اسے ہرا رہنے دیاساتھ ہی اس زخم کے نشانات پر فاتحہ خوانی بھی نہیں کی بلکہ اسے ایسا ذخیرۂ تقویت بنا لیا کہ جس نے انہیں پوری زندگی جمنے چلنے اور آگے بڑھنے کا حوصلہ دیا۔ ایک شاعر کی سطح سے بالاتر وہ ایک انسان کی حیثیت سے بھی سرخرو ہوئے۔ زخم خوردہ، پابجولاں اور چھلنی جسم و جاں کے باوجود انہوں نے زندگی کے سفرمیں جس سبک روی ، خوش شائستگی اور حوصلہ مندی کے ساتھ تمام مصائب کا سامنا کرتے ہوئے بڑے بڑے سنگ میل سر کئے وہ ایک عام انسان کے لئے عموما اور کسی حادثہ کی وجہ سے حیات کے بالکل الگ اور متنوع رنگ ڈھنگ اور چال ڈھال سے دوچار ہونے کے بعد اسے اپنی کج روی اور بربادی کے لئے بہانہ بنانے والے شعراء کے لئے خصوصا ایک قابل تقلید نمونے اور مثال کی حیثیت رکھتا ہے۔

    کلیم عاجز نے زندگی کے اصل مقصد کی جانب بھی توجہ مرکوز رکھی اوربھولے بھٹکے افراد کو دین کی دعوت دینے کا کام بھی کیا۔ وہ ایک مدت تک رانچی کے امیر جماعت رہے اگرچہ بعد میں بھی یہ عہدہ اعزازی طور پر انہیں کے پاس رہا مگر آخرمیں عمر نے اپنا اثر دکھانا شروع کر دیا تھا۔ علمی و ادبی حلقے میں اس قدر مقبولیت کے باوجود اپنی ذمہ داری کو انہوں نے جس حسن و خوبی کے ساتھ انجام دیا وہ قابل رشک ہے۔

اپنی شاعری میں انہوں نے اصل زندگی کو پیش کیا ہے ۔ تخیل کے خوشگوار احساسات و جزبات کے ساتھ ہی وہ کڑوی کسیلی اور فلسفۂ حیات و مرگ کے نہاں حانوں کے سپرد کی جا چکی حقیقت پسندی کی بھی ترجمانی کرتے رہے ۔ان کے اشعار جس طرح ذہن و دل کو متوجہ کرنے کا ہنر رکھتے تھے اس سے متآثر ہوکر رگھوپتی سہائے فراق گھورکھپوری بھی انہیں بے ساختہ موجودہ دور کا میر تقی میر کہہ اٹھے۔ جو گہرائی و گیرائی، موجودہ و سابقہ حالات پر نظر اور آئندہ حالات کا تجزیہ ، علم و مطالعہ کی کثرت کے ساتھ ہی ذخیرۂ الفاظ کی فراوانی اور پھر اپنی بات کو مؤثر اور صحیح طریقہ سے کہ جانے کا جو انداز کلیم عاجز کی شاعری میں نظر آتا ہے وہ ان کے ادبی قد اور شاعری کے معیار کی خود واضح نشانی ہے۔وہ خود کہا کرتے تھے’’میں اپنے شعر میں اپنے تجربات ، اپنے محسوسات کو پہلے اپنے دل کے سامنے پیش کرتا ہوں، کہنے والا کلیم سننے والے کلیم سے مخاطب ہوتا ہے، دونوں میں بحث ہوتی ہے ، حجتیں ہوتی ہیں،جھگڑے ہوتے ہیں جب تک حجتیں، بحثیں اور جھگڑے ہوتے رہتے ہیںدونوں کی پیشانیوں پر شکن رہتی ہیں، تیور پر بل رہتے ہیں، ابرؤں میں کجی رہتی ہے لیکن یک بیک ایک مقام ایسا آتا ہے کہ جہاں یہ سب ختم ہو جاتا ہے‘‘۔ اس کشمکش کے بعد یقینا کلیم عاجزؔ کا قلم انصاف ، عدل ،سچ اور ضمیر کی آواز بولتا رہا ہے کچھ شاہکار پیش خدمت ہیں۔

ایک کانٹا سا کوئی دل میں چبھو دیتا ہے
؁یاد جب آتا ہے پھولوں کا زمانہ ہم کو

بات گرچہ بے سلیقہ ہو کلیم
بات کہنے کا سلیقہ چاہئے

دامن پر کوئی چھینٹ نہ خنجر پہ کوئی داغ
تم قتل کرو ہو کہ کرامات کرو ہو

عقل پھرتی ہے لئے خانہ بخانہ ہم کو
عشق اب تو ہی بتا کوئی ٹھکانہ ہم کو

اہل جنوں سے بڑھ کے کوئی معتبر نہیں
دامن ہے چاک اگرنہ شرمانا چاہئے

فصل گل کی کچھ باتیں ہیں لیکن تم سے کون کہے
تم تو عاجز سنتے ہی دیوانے ہو جاؤ ہو

    ۱۵فروری ۲۱۰۵ہزاری باغ میں؁ ۶؍ بجے صبح مؤذن کا بلاوا اس بندئے مضطر کا لئے سکون کا سانس لے کر آیا، عمر بھر سوز سے مجبور ہو کر ساز چھیڑنے والی اس کی آواز خاموش ہو گئی اور بالآخر عمر بھر کی بے قراری کو قرار آتے ہی بنا۔ دعوت و تبلیغ اور اردو ادب سے وابستہ سنجیدہ افراد رسمی جملے کہنے کے بجائے یہ بات شدت سے محسوس کر رہے ہیں کہ یہ خسارہ زندگی کے عام خساروں سے کہیں بڑھ کر ہے ۔ ایک داعی کے لئے سب سے بڑی طاقت اس کے سینے میں دھڑکنے اور پھڑکنے والے دل کی موجودگی ہے اور یہ کلیم عاجزؔ کی زندگی کی سب سے بڑی حقیقت ہے کہ انہیں کلیم عاجز ؔبنانے میں سب سے اہم کردار ان کے درددل اور سوز جگر کا رہا ہے۔ بڑی شخضیات کے جانے سے ہمیشہ ایک خلا محسوس کیا جاتا ہے لیکن کلیم عاجزاشخصیت سے بڑھ کر ایک انجمن تھے اس لئے احساس محرومی کچھ زیادہ اثر دکھائے گا۔ اردو شاعری کو میر کے بعد کلیم عاجز ملا تھا کلیم عاجز کے بعد پھر کوئی دیوانہ ان الجھے گیسوؤں کو سنوارنے کا کام کرے گا سب کچھ بالکل اسی طرح چلتا رہے گا جس طرح عاجزؔ کی موجودگی میں تھا مگر

ع    یہ طرز خاص ہے کوئی کہاں سے لائے گا
    جو ہم کہیں گے کسی سے کہا نہ جائے گا

    غزل میں کون نئی چاشنی چکھائے گا
    اگر کلیم نہ ہوگا مزہ نہ آئے گا


*******************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 645