donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Altaf Hussain Quraishi
Title :
   Dilon Me Zinda Rahne Wala Masiha

دلوں میں زندہ رہنے والا مسیحا


الطاف حسن قریشی


ہم  جس عہدِ پُر آشوب میں ڈرتے ڈرتے سانس لے رہے ہیں ٗ اُس میں اِن عظیم شخصیتوں کا تذکرہ بہت ضروری ہے جنھوں نے اپنے کردار سے معاشرے میں درخشندہ روایات قائم کیں اور لوگوں کے دکھوں کا مداوا بنے۔ یکم جون ۲۰۱۴ء کی دوپہر ایک ایسے مسیحا اِس دارِ فانی سے کوچ کر گئے جن کی یادوں کے چراغ مسیحائی کے مقدس پیشے کو تابدار کرتے رہیں گے کہ اِس کے اندر بھی ہوسِ زر نے راستے بنا لیے ہیں۔ ہم نے ڈاکٹر افتخار احمد کا نام سب سے پہلے آغا شورش کاشمیری (مرحوم) کی تقریروں میں سنا تھاجب وہ ۵۲روزہ بھوک ہڑتال کے بعد کراچی سے رہا ہو کر دسمبر ۱۹۶۸ء کے آخر میں لاہور آئے تھے۔

اُنھوں نے ۲۲؍اپریل ۱۹۶۸ء کے ہفت روزہ چٹان میں ایک شذرہ الحمد ﷲ کے عنوان سے لکھا تھا جس پر وہ ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار کر لیے گئے ٗ چٹان کا ڈیکلریشن منسوخ اور پریس ضبط کر لیا گیا۔ وہ پہلے ڈیرہ اسماعیل خان جیل میں رکھے گئے اور بعدازاں سنٹرل جیل کراچی منتقل کر دیے گئے۔ حکومت کی پے درپے ناانصافیوں اور چیرہ دستیوں کے خلاف آغا صاحب نے بھوک ہڑتال کا اعلان کر دیا۔ جب اُن کی حالت دگرگوں ہونے لگی ٗ تو وہ سول اسپتال منتقل کر دیے گئے جو ڈاؤ میڈیکل کالج سے ملحق تھا۔

وہ جس وارڈ میں رکھے گئے ٗ اُس کے انچارج ڈاکٹر افتخار احمد تھے۔ آغا صاحب ذیابیطس کے مریض تھے اور کچھ نہ کھانے کے باعث اُن پر بے ہوشی کے دورے پڑنے لگے تھے۔ اُنہوں نے اپنی کتاب ’’موت کی واپسی‘‘ میں بھوک ہڑتال کے دوران گزرے ہوئے واقعات بیان کیے جن سے ڈاکٹر افتخار احمد کا عظیم کردار اُجاگر ہوا۔ وہ لکھتے ہیں: 

’’۲۳ دسمبر کو کراچی میں شام کے اخباروں نے پہلی شہ سرخی کے ساتھ یہ خبر چھاپ دی کہ شورش کی نبضیں ڈوب رہی ہیں۔ خبر اُس خفیہ رپورٹ سے اُڑائی گئی جو اُس دن پروفیسر افتخار احمد نے حکومت کو ارسال کی اور ماتحت عملے نے اخباروں کو بتا دی۔ شام کے اخبارات میں یہ خبر چھپتے ہی جنگل کی آگ کی طرح پھیل گئی۔ پروفیسر افتخار احمد نے اِسی صبح ایک اور رپورٹ لکھی کہ بچنے کی اُمیدیں ختم ہوتی جا رہی ہیں اور اگلے ۷۲گھنٹوں میں بھوک ہڑتال ختم نہ ہوئی ٗ تو پھر بچنا محال ہو گا۔ گورنر موسیٰ خاں جو کراچی پہنچ گئے تھے ٗ اُنھوں نے پروفیسر افتخار احمد کو بلایا۔ اُنھوں نے بتایا کہ حالت نہایت درجہ نازک ہو چکی ہے اور آج تو اُنھوںنے پانی پینا بھی چھوڑ دیاہے۔

’’دوست میری نبض پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے تھے اور میرے لیے بولنا نہ بولنے کے برابر تھا۔ میں اِس وقت جاں بلب اور لاش کی طرح پڑا تھا۔ ڈپٹی کمشنر کراچی اور پروفیسر افتخار صاحب نے گورنر کو سارا ماجرا سنایا۔ گورنر نے پروفیسر سے کہا کہ آپ فوراً اُن کے پاس چلے جائیں ٗ میں صدر ایوب سے بات کر کے ابھی مطلع کرتا ہوں۔ پروفیسر صاحب ابھی اپنے آفس پہنچے ہی تھے ٗ تو اُن کے اسسٹنٹ نے کہا کہ گورنر صاحب نے بلایا ہے۔ وہ اُلٹے پاؤں گورنر ہائوس گئے۔ گورنر نے کہا شورش سے کہہ دو کہ بھوک ہڑتال چھوڑ دے۔

حکومت نے اُنھیں غیرمشروط طور پر رہا کر دیا ہے ٗ اُس کو بچاؤ۔ ساتھ ہی پرائیویٹ سیکرٹری کو آرڈر کیا کہ سہ پہر کی خبروں میںیہ خبر نشر کراؤ اور اُس کے بچوں کو لاہور فون پر اطلاع کرو۔ پروفیسر افتخار دوڑے دوڑے میرے پاس آئے اور مبارک باد دیتے ہوئے خبر سنائی ٗ لیکن میں نے اُن سے رہائی کا پروانہ مانگا۔ کہنے لگے پروانہ ہوم سیکرٹری کے دستخطوں سے شام تک پہنچ جائے گا ٗ لیکن میں حکومت سے اتنا بدظن تھا کہ پروفیسر افتخار جیسے انسان دوست اور خدا پرست سے بھی عذر کیا کہ پہلے پروانہ دکھائیں ٗ پھر بھوک ہڑتال ختم کروں گا۔ وہ سہ بارہ گورنر کے پاس گئے اور پندرہ منٹ میں پروانہ لے کر آ گئے۔ وہ تب سے میری نبض پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے اور انجکشن پر انجکشن دے رہے تھے۔ کوئی نو بجے شب میری حالت خطرے سے باہر ہو گئی ٗ میں موت کی سرحد سے لوٹ آیا تھا۔‘‘

آغا شورش کاشمیری اپنی تقریروں اور نجی گفتگوؤں میں پروفیسر افتخار احمد کے بارے میں اکثر کہتے تھے کہ اُن کی انسان دوستی اور بے پناہ کاوشوں کی بدولت اُن کی موت سے واپسی ممکن ہوئی تھی وگرنہ ایوب خاں اور اُن کے مشیران اُنھیں ختم کر دینے پر تُلے ہوئے تھے۔ اِس حیات افروزواقعے کے بعد عمروں میں تفاوت کے باوجود ان دونوں شخصیتوں کے مابین رفاقت کا ایک ایسا رشتہ قائم ہوا جو خونی رشتو ں سے زیادہ مستحکم ثابت ہوا۔

پروفیسر صاحب ۱۹۷۰ء میں کراچی سے لاہور آ گئے تھے۔ روزانہ ملاقات یا ٹیلی فون پربات چیت کی ایسی رسم پڑی جو ضرب المثل بن گئی۔ پروفیسر افتخار نے ایوب خاں کے دورِ آمریت میں ایک عظیم سیاسی لیڈر ٗ بے بدل مقرر اور انشا پرداز کو انسانیت کی بنیاد پر حیاتِ نو بخش کر جو غیرمعمولی کارنامہ سرانجام دیا تھا ٗ اُس کی وجہ سے وہ تمام سیاسی حلقوں میں قدرومنزلت کی نگاہ سے دیکھے جانے لگے تھے اور جرأت اور انسانی خدمت کا استعارہ بن گئے تھے۔

ڈاکٹر افتخار ایک زمانے میں نشتر میڈیکل کالج ملتان میں تعینات تھے اور ایک اچھے معالج کی شہرت رکھتے تھے۔ وہاں اُن کی غلام مصطفی کھر سے دوستی ہو گئی۔ یہ اکتوبر ۱۹۷۰ء کا واقعہ ہے کہ کھر صاحب رات کے وقت ڈاکٹر صاحب کے پاس آئے اور اُنھیں ایک مریض دیکھنے کے لیے ساتھ چلنے کو کہا۔ وہ بلاتامل تیار ہو گئے۔مظفر گڑھ پہنچے ٗ تو معلوم ہوا کہ مسٹر ذوالفقار علی بھٹو بیمار ہیں اور بات کرنے سے بھی قاصر ہیں۔ ڈاکٹر صاحب نے معائنے کے بعد اُنھیں تین روز تک تقریر کرنے سے منع کر دیا اور کچھ دوائیں تجویز کیں۔ بھٹوصاحب نے فیس کے دو سو روپے پیش کیے جبکہ اُن دنوں ڈاکٹر کی فیس پچاس روپے ہوتی تھی۔

پروفیسر صاحب نے فیس لینے سے انکار کر دیا اور کہا کہ جب آپ وزیراعظم بن جائیں گے ٗ تو میرے لیے حساب چکانا محال ہو گا۔ اِس ملاقات کے بعد اعتماد کا جو رشتہ قائم ہوا ٗ وہ آخری وقت تک قائم رہا۔ ایک بار ذوالفقار علی بھٹو نے خوش ہو کر اُنھیں کئی مربعے الاٹ کرنے کی پیشکش کی جس پر پروفیسر افتخار نے سخت برہمی کا اظہار کیا ٗ البتہ یہ کہا کہ میرے وارڈ میں مریضوں کے لیے تمام جدید طبی سہولتیں فراہم کر دی جائیں۔ اﷲ تعالیٰ نے اُنھیں ایک مطمئن قلب عطا کیا تھا اور اُنھوں نے اپنا دامن دولت کی حرص و ہوس سے عمر بھر داغ دار نہیں ہونے دیا۔

میری اُن سے پہلی ملاقات اپنے ایک نہایت عزیز دوست جاوید نواز کے ہمراہ ہوئی جو اُن کے پھوپھی زاد بھائی ہیں۔ پروفیسر صاحب ادیبوں ٗ شاعروں ٗ صحافیوں اور علمائے دین کے بڑے قدردان تھے۔ جناب حفیظ جالندھری‘ جناب حبیب جالب ٗجناب طفیل ہشیارپوری‘ جناب مظفر شمسی ٗ مولانا عبدالرحمن اشرفی اور جناب مجیب الرحمن شامی سے اُن کے انتہائی دوستانہ روابط قائم تھے۔
میری درخواست پر وہ اُردو ڈائجسٹ میں قارئین کی صحت کے بارے میں سوالات کے جوابات باقاعدگی سے لکھتے رہے۔مجھے اُنھیں ۱۹۷۶ء کے اوائل میں بہت قریب سے دیکھنے کا موقع ملا۔ میں اور میرے بڑے بھائی ڈاکٹر اعجاز حسن قریشی ڈیفنس آف پاکستان رولز کے تحت گرفتار کر لیے گئے ٗ ہم پر مہینوں غداری کا مقدمہ چلا ٗ تو ٹریبونل نے ہمیں دو سال قید بامشقت کی سزا سنا دی۔ یہ وہ زمانہ تھا جب محمد حنیف رامے ٗ راجا منور اور نواب خاکوانی بھی ہمارے ساتھ جیل میں بند تھے۔

ایک روز مجھے سینے میں درد محسوس ہوا ٗ تو یاد آیا کہ مجھے ۱۹۶۴ء میں انجائنا کی تکلیف ہوئی تھی۔ جیل کے ڈاکٹر نے میو اسپتال ریفر کر دیا۔ وہاں کے ڈی ایم ایس نے میرا کیس پروفیسر افتخار کو بھیج دیا۔ اُنھوں نے تفصیلی معائنہ کرنے کے بعد مجھے اپنے وارڈ میں داخل کر لیا۔ پوری نگہداشت کے باوجود میرا بلڈ پریشر قابو میں نہیں آ رہا تھا اور دایاں پاؤں سوجتا جا رہا تھا۔ جیل کی ناقص غذا نے میری صحت پر منفی اثرات مرتب کیے تھے اور بوریوں کا بستر استعمال کرنے سے جلد کے امراض بھی پیدا ہو گئے تھے۔ چار ماہ کے دوران مجھے احساس ہوا کہ پروفیسر صاحب اپنے مریضوں کا بہت خیال رکھتے ٗ اُن کی صحت یابی کے لیے بڑی تگ و دو کرتے اور طلبہ کی تربیت پر غیر معمولی توجہ دیتے ہیں۔

اُن کی اوّلین کوشش ہوتی کہ نوجوانوں کی حوصلہ افزائی کی جائے اور اُن میں تحقیق اور جستجو کا شوق پیدا کیا جائے۔ اُن کا اپنے شاگردوں کے ساتھ رویہ ایک شفیق باپ کا سا ہوتا اور اُنہیں ترقی کرتے ہوئے دیکھ کر وہ بہت خوش ہوتے تھے۔ میں نے دیکھا کہ وہ گرتے ہوؤں کو تھامتے ہیں اور بڑی خاموشی سے حاجت مندوں کی دستگیری کرتے ہیں۔

وہ اپنی خداداد صلاحیتوں کے باعث ۱۹۷۶ء میں پنجاب کے سیکرٹری ہیلتھ مقرر ہوئے ٗ تو اُنھوں نے ڈاکٹروں کے کیڈر کو بڑی وسعت دی۔ اُن کے عہد میں ایسوسی ایٹ پروفیسرز کی اسامیاں پیدا ہوئیں اور سینئر ڈاکٹر آگے چل کر بائیس گریڈ پر فائز ہونے لگے جو ماضی میں صرف انیس گریڈ تک ہی جا سکتے تھے۔

اُن کے زمانے میں علامہ اقبال میڈیکل کالج اور جناح اسپتال کی عمارتیں تعمیر ہوئیں اور اُنھوں نے ینگ ڈاکٹرز کو ایک اچھا سکیل دلوایااور اُن کے عہد میں تعینات شدہ نوجوان ڈاکٹر آگے چل کر کالجوں کے پرنسپل بنے۔ اُن کی عظمت یہ تھی کہ کبھی کسی پر احسان جتایا نہ صلے کی تمنا کی۔ وہ یہی کہتے تھے کہ اِس نوجوان میں اپنی صلاحیت ہی بہت زیادہ تھی اور وہ اِس منصب کا پوری طرح مستحق تھا۔ اُن کا کلینک آج بھی ریواز گارڈن میں ہے جسے اب اُن کے چھوٹے بیٹے ڈاکٹر آصف چلا رہے ہیں جبکہ بڑے بیٹے ڈاکٹر عارف گنگا رام اسپتال میںکام کرتے ہیں۔

اُن کا اصول تھا کہ پرانے مریضوں سے صرف پچاس روپے فیس لیتے اور اُن کی زیادہ سے زیادہ فیس فقط تین سو روپے تھی۔ غریبوں کا علاج مفت ہوتا تھا ۔ اُن کی رفیقۂ حیات زاہدہ بھی ڈاکٹر ہیں جو سلیقہ مندی اور معاملہ فہمی کی ایک خوبصورت مثال ہیں۔ اُن کا تعلق ریاست جموں و کشمیر سے تھا اور اُن کے والدوہاں ڈپٹی انسپکٹر جنرل تھے جن کے شیخ عبداﷲ سے اچھے روابط چلے آ رہے تھے اور جن کے ہاں جناب حفیظ جالندھری قیام کرتے تھے۔

خوش قسمتی سے وہ جالندھر میں پروفیسر افتخار صاحب کے والد ڈاکٹر نیاز الدین احمد کے ہمسایہ تھے۔اُنھوں نے کشمیر میں قیام کے دوران یہ رشتہ تجویز کیا جسے طرفین نے خوش دلی سے قبول کر لیا۔پروفیسر صاحب کے ہزاروں شاگرد پوری دنیا میں پھیلے ہوئے ہیں اور اُن کی اعلیٰ روایات کو زندہ رکھنے کا عزم رکھتے ہیں۔ وہ کنگ ایڈورڈ میڈیکل کالج اور علامہ اقبال میڈیکل کالج کے پرنسپل رہے اور اپنے شاگردوں میں ولولۂ تازہ پھونکتے رہتے اور بڑی حکمت سے بگڑے ہوئے طلبہ کی اصلاح فرماتے تھے۔ وہ ڈاکٹروں کے قبیلے کے بہت بڑے محسن اور اعلیٰ اخلاقیات کے روشن منار تھے۔

وہ ایک اچھے معالج ہونے کے علاوہ ایک بہت وضع دار ٗ خوش طبع اور زندہ دل انسان بھی تھے اور اچھے لوگوں کی عزت افزائی اُن کے مزاج کا ایک لازمی حصہ تھا۔بلھے شاہ کی شاعری پر اُنھیں بہت عبور حاصل تھا۔ اپنی تقریروں میں اُن کے اشعار کثرت سے پڑھتے اور امن و سلامتی اور دلوں کی بستیاں آباد کرنے کا درس دیتے رہتے۔ اُن کی شخصیت میں یہ عجب کمال دیکھا کہ اُن پر جس قدر ذوالفقار علی بھٹو اعتماد کرتے تھے ٗ اُس سے کہیں زیادہ جنرل ضیا الحق اُن کے گرویدہ تھے جو اُن کی ممانی کے سگے بھائی تھے۔

اِس تعلق کی بنیاد پر اُنھوں نے وفاقی حکومت سے علامہ اقبال میڈیکل کالج اور جناح اسپتال لاہور کی تعمیر کے لیے خطیر فنڈز حاصل کیے اور جنرل ضیا الحق سے اُن کا افتتاح کروایا۔ وہ رشتوں کے آداب سے واقف تھے اور اُن کا بڑا اہتمام کرتے تھے۔ اﷲ تعالیٰ نے اُنھیں بلا کی ذہانت اور صلاحیتیں عطا کی تھیں جن کی بدولت وہ ترقی کی منزلیں وقت سے پہلے طے کرتے گئے۔

پروفیسر افتخار جس طرح صاحبِ اختیار مریضوں کو دیکھنے اُن کے گھروں میں چلے جاتے ٗ اُسی طرح اپنے دوستوں اور اُن کے شناساؤں کے گھروں میں مریض دیکھنے بلاتامل چلے جاتے تھے۔ مجھے یاد ہے کہ سمن آباد سے ملحق بستی اُردو نگر میں حضرت مفتی محمد شفیع کے صاحبزادے اور ہمارے دوست جناب ذکی کیفی اُوپر کی منزل میں رہتے تھے۔ اُنھوں نے گراؤنڈ فلور کرائے پر مغربی پاکستان اُردو اکیڈمی کو دے رکھا تھا جہاں شام کے وقت ڈاکٹر سید محمد عبداﷲ اہلِ علم کی مجلسیں جماتے تھے۔

جناب ذکی کیفی عالمِ دین ہونے کے علاوہ ایک بہت اچھے شاعر بھی تھے اور اُن کے ہاں ہر ماہ ایک شعری نشست ہوتی تھی۔ مولانا ظفر احمد انصاری جب کبھی کراچی سے لاہور تشریف لاتے ٗ تو اُنہی کے ہاں قیام فرماتے۔ ایک روز جناب مصطفی صادق (مرحوم) کا فون آیا کہ ذکی صاحب کی طبیعت بڑی خراب ہے اور وہ اسپتال جانے کے لیے تیار نہیں۔

کیا یہ ممکن ہے کہ پروفیسر افتخار احمد جو آپ کے دوست ہیں ٗ وہ اُنھیں گھر پر دیکھنے آ جائیں۔ میں نے کہا پروفیسر صاحب سے بات کر کے بتاتا ہوں۔میں نے اُنھیں فون کیا تو حضرت مفتی محمد شفیع کا نام سن کر آنے کے لیے بے تاب ہو گئے۔ میں نے پوچھا آپ کو لینے آ جاؤں ٗ کہنے لگے مجھے پتا بتاؤ ٗ میں خود ہی پہنچ جاتا ہوں ٗ چناںچہ ہمارے پہنچنے کے چند منٹ بعد ہی وہ تشریف لے آئے۔ جناب ذکی شدید تکلیف میں تھے اور پسینے چھوٹ رہے تھے ٗ لیکن وہ قرآن کی تلاوت کرتے ہوئے یہی کہتے رہے کہ میں ٹھیک ہو رہا ہوں۔

پروفیسر صاحب نے معائنہ کرنے کے بعد دوائیں تجویز کیں اور جاتے ہوئے کہا کہ میں رات کو دیکھنے پھر آؤں گا اور وہ آئے۔ میرے کان میں کہا کہ آخری وقت ہے ٗ اب شاید اسپتال جانے کا بھی کوئی فائدہ نہیں ہو گا۔ ذکی صاحب نے بڑی قوتِ ایمانی سے اپنی جان خالقِ حقیقی کے سپرد کر دی اور اُن کے چہرے کے گرد نور کا ہالہ بن گیا تھا۔

پروفیسر افتخار بھی یکم جون کی دوپہر آرام کے لیے لیٹے اور خراٹے بھرنے لگے۔ اِسی حالت میں اُن کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کر گئی۔ شدید گرمی کے باعث اُنھیں رات کے نو بجے دفنایا دیا گیا۔ مجھے خبر تک نہ ہوئی ۔ اسلام آباد سے لاہور آیا ٗ تو تعزیت کے لیے اُن کی رہائش گاہ پر گیا جہاں کبھی مور اور بطخیں رقص کیا کرتی تھیں۔ پروفیسر صاحب کو پرندے رکھنے کا بڑا شوق تھا۔

مجھے اِس لمحے جاوید نواز بہت یاد آئے کہ میں چند ہی ماہ پہلے اُن کی معیت میں یہاں آیا تھا اور ہم نے پروفیسر صاحب سے گھنٹوں باتیں کی تھیں۔ دل خوش کر دینے والی باتیں ٗ دلوں میں زندہ رہنے والی باتیں۔ میرے دل سے دعا نکلی کہ اﷲ تعالیٰ پروفیسر صاحب کے درجات بلند کرے اور اُن کے وارثین کو صبرِ جمیل عطا فرمائے اور ہمیں اُن کے نقشِ قدم پر چلنے کا حوصلہ اور جذبہ عطا کرے آمین ۔ ثم آمین ۔ کیا عجب آزاد مرد تھا!

۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 575