donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Amir Khakwani
Title :
   Khushwant Singh Ka Safar Tamam Hua

 

خشونت سنگھ کا سفر تمام ہوا


عامر خاکوانی


جمعرات کی سہ پہر معمول کے مطابق دفتر میں بیٹھا کام کر رہا تھا‘ عادتاً کچھ دیر کے بعد نیوز ویب سائٹس بھی چیک کر لیتا۔ اچانک ایک ویب سائٹ پر نامور ادیب خشونت سنگھ کی موت کی خبر نظر آئی۔ ایک دھچکا سا لگا۔ ننانوے سالہ خشونت اپنی عمر کی سنچری مکمل نہ کر سکے‘ مگر کیا انہیں اس کی واقعی حاجت تھی؟ 

اُنہوں نے اس قدر بھرپور زندگی گزاری، اس کے پیڑ سے اس قدر رَس کشید کیا کہ شاید ہی کوئی حسرت باقی رہی ہو گی۔ خشونت سنگھ سے میرا تعارف بہت پہلے کا ہے۔ نوجوانی میں کہیں سے ان کا انگریزی ناول ''ٹرین ٹو پاکستان“ ہاتھ آیا۔ مصنف کا اسلوب مختلف اور دلچسپ تھا۔ مختصر ناول تھا، جلد ہی اسے پڑھ ڈالا۔ یہ خشونت سنگھ سے میری محبت کا آغاز تھا۔ ان کی کئی کتابیں بعد میں پڑھیں۔ ''دِلّی “ ان کا مشہور ناول ہے۔ عجیب انداز ہے اس کا، ایک طرف جنسی تلذذ پسندی جھلکتی ہے، دوسری طرف تاریخ کا گہرا شعور۔ اس میں خشونت نے اپنی عادت کے مطابق کئی بیریئر توڑے۔ اورنگ زیب کے بارے میں یہ پروپیگنڈا غلط قرار دیا کہ اس نے مندر مسجد میں تبدیل کئے یا سکھوں کو انتقام کا نشانہ بنایا، دوسری طرف ممتاز مسلم شاعر اور صوفی امیر خسرو پر تنقید کر ڈالی۔

خشونت سنگھ کی زندگی ڈرامائی پیچ و خم سے بھری ہے۔ وہ خوشاب کے ایک قصبے میں پیدا ہوئے، گورنمنٹ کالج سے پڑھے، لاہور میں وکالت شروع کی، نامور پاکستانی قانون دان منظور قادر گہرے دوست تھے، ان کی شخصیت کا خشونت پر گہرا اثر پڑا، اردو شاعری، خاص طور پر اقبال سے ان کا تعارف ہوا۔ اقبال ان کا عشق بن گیا، وہ اقبال کو عظیم شاعر مانتے تھے۔ شکوہ، جواب شکوہ کا انگریزی میں ترجمہ کیا، جس کے بھارت میں ایک درجن کے قریب ایڈیشن شائع ہو چکے ہیں۔ تقسیم کے بعد خشونت دہلی چلے گئے، فارن سروس جوائن کی، چند سال بعد چھوڑ دی، پڑھاتے رہے، پھر تحریروتصنیف کی طرف آئے۔ ٹرین ٹو پاکستان جیسا ناول لکھا، جس کا کئی زبانوں میں ترجمہ ہوا، اس پر فلم بھی بنی۔ سکھوں کی تاریخ پر جامع کتاب لکھی۔ خشونت کا دعویٰ تھا کہ سکھ مذہب نے ہندو مت سے جنم لیا۔ صحافت کی طرف آئے اور پھر یہیں کے ہو کے رہ گئے۔ السٹریٹیڈ ویکلی آف انڈیا اور بعد میں ہندوستان ٹائمز کے ایڈیٹر رہے۔ خشونت کی تحریروں کا ایک اہم جزو جنس رہی، انہوں نے دانستہ طور پر بعض متنازع موضوعات پر ناول اور افسانے لکھے، جنہیں بولڈ سٹائل کے باعث پذیرائی ملی۔ نہرو اور اندرا کے بارے میں متنازع ناول ''سمندر میں تدفین“ لکھا، کمپنی آف ویمن کے کئی ایڈیشن شائع ہوئے۔ خشونت کی مقبولیت کی وجہ ان کی بے باکی اور دلچسپ اسلوب تھا۔ ان کی تحریر میں بلا کی روانی تھی۔ انہوں نے لطائف کی کئی کتابیں بھی مرتب کیں۔ ان کے کالموں میں جو خستگی اور کرارا پن تھا، وہ کم ہی دیکھنے میں آتا ہے۔ 
اپنے عقائد اور نظریات کے حوالے سے خشونت سنگھ نرالے قسم کے آدمی تھے۔ وہ سکھ گھرانے میں پیدا ہوئے مگر مذہبی طور پر سکھ نہیں رہے، وہ کسی بھی مذہب کو نہیں مانتے تھے مگر انہوں نے سکھوں والی صورت نہیں بدلی، پگڑی اور ڈاڑھی آخر وقت تک ان کا جزو رہی۔ ایک انٹرویو میں انہوں نے بتایا کہ وہ دفن ہونا چاہتے ہیں، اس لئے وصیت کی ہے کہ انہیں جلانے کے بجائے بہائیوں کے قبرستان میں دفنایا جائے۔ خشونت انقلابی مزاج کے نہیں تھے، اندرا گاندھی کے حامی تھے، ایمرجنسی میں وہ حکومت کے ساتھ کھڑے رہے، ان کے مخالف انہیں پرواسٹیبلشمنٹ لبرل کہتے تھے؛ تاہم بعض معاملات میں وہ دلیری سے ڈٹ گئے۔ 1971ءکی جنگ کے بعد جب پاکستانی فوجی بھارت کی قید میں تھے تو خشونت نے ان کی رہائی کی بھرپور مہم چلائی، اندرا اُن پر ناراض ہوئیں، بلا کر ڈانٹا کہ تم سیاست کے بارے میں کچھ نہیں جانتے۔

تیزدھار خشونت نے برجستہ جواب دیا، سیاست نہ سہی مگر اخلاقیات کے بارے میں‘ میں جانتا ہوں، میں اخلاقی بنیادوں پر پاکستانی فوجیوں کی رہائی کا مطالبہ کرتا رہوں گا۔ یہ وہ دن تھے جب بھارت میں پاکستان کا نام لینا جرم سے کم نہ تھا۔ اسی طرح ایک بار ایک جریدے میں طویل مضمون لکھا، جس میں بتایا کہ مغرب کا اسلام اور حضور اکرم کے خلاف پروپیگنڈا غلط ہے، انہوں نے اسلام کو سمجھا ہی نہیں۔ انہوں نے پیغمبر اسلام پر لگائے گئے کئی الزامات کا دلائل کے ساتھ جواب دیا۔ شدت پسند ہندو اس پر ناراض ہوئے مگر خشونت نے ان کی پروا نہ کی۔ کانگریس نے ایوان بالا (راجیہ سبھا) کا رکن بنایا مگر جب گولڈن ٹیمپل پر آپریشن ہوا تو اپنا صدارتی تمغہ احتجاجاً واپس کر دیا۔
اپنی طویل عمر کا سبب وہ ڈسپلن سے گزاری زندگی کو قرار دیتے تھے۔ بتاتے کہ میں روز آٹھ بجے رات سو جاتا ہوں، پنڈت نہرو بھی اگر مہمان تھے، تب بھی ان سے رخصت لے لی، صبح چار بجے اٹھ کر لکھنا شروع کرتا ہوں۔ خشونت سنگھ نے پچھلے سال آنے والی اپنی آخری کتاب ''لیسنز آف مائی لائف“ میں اپنی زندگی کے تجربات کو نچوڑ چند نکات میں بیان کیا۔ انہوں نے لکھا کہ صحت مند طویل زندگی کے لئے روزانہ ورزش ضروری ہے، کوئی کھیل کھیلا جائے یا ایک گھنٹہ واک کی جائے۔ کھیل نہ سکیں تو روزانہ ایک گھنٹہ مساج کرائیں، اس کے بھی وہی نتائج نکلیں گے۔ کھانے پینے کے معمولات طے کئے جائیں، کم مگر اچھی خوراک کھائی جائے۔ کھانا ہمیشہ خاموشی کے ساتھ لطف اٹھا کر کھایا جائے، بہتر یہی ہے تنہائی میں کھائیں تاکہ فوکس رہے اور لذت اٹھائی جا سکے۔ ایک وقت میں صرف ایک قسم کا گوشت یا سبزی کھائیں اور کوئی دیسی چورن بھی استعمال کریں تاکہ معدہ ٹھیک رہ سکے، خاص طور پر بڑھاپے میں خود کو قبض سے بچائیں۔ دولت کی ہوس نہ کریں مگر بڑھاپے کے لئے پس انداز ضرور کریں، اس عمر میں بینک بیلنس اطمینان اور آسودگی دیتا ہے۔ غصے اور جھوٹ سے بچیں، قہقہے لگانے کے بہانے ڈھونڈیں۔ سخاوت کریں، ہاتھ کھلا ہو گا تو عمر بھی زیادہ ہو گی اور زندگی میں آسانیاں بھی آئیں گی، یاد رکھیں کہ سب کچھ چھوڑ کر ہی جانا پڑے گا۔ سب سے اہم یہ کہ کوئی مشغلہ ضرور اپنائیں، باغبانی، شوقیہ پڑھانا، موسیقی سننا اور فلمیں دیکھنا۔ ہاتھ اور دماغ مصروف رہنا چاہیے۔

موت سے چار سال پہلے معروف بھارتی میگزین آؤٹ لک میں خشونت سنگھ کا مضمون شائع ہوا۔ یہ تحریر ان کے مخصوص اسلوب کا دلکش نمونہ ہے۔ لکھتے ہیں: ''میری عمر پچانوے سال ہو گئی، میں اب اکثر موت کے بارے میں سوچتا ہوں۔ میں ان کے بارے میں سوچتا ہوں جو جا چکے ہیں، حیران ہوتا ہوں کہ وہ کہاں چلے گئے، اب کہاں ہیں اور ان کے ساتھ کیا ہو رہا ہوگا؟ مجھے ان سوالات کے جوابات نہیں آتے۔ عمر خیام کی ایک رباعی یاد آتی ہے: 

اس کائنات میں اور کچھ بھی نہ جانتے ہوئے

نہ ہی اس بات کا کوئی علم کہ تالاب میں کنول کا پھول کیسے کھلتا ہے
اور ایک دروازہ تھا مقفل، مجھے اس کی چابی نہیں ملی
ایک نقاب، جس کے پیچھے میں جھانک نہ سکا
وہی چھوٹی سی بات جو تم میں اور مجھ میں ہوئی
لیکن وہ کیا بات تھی کہ
تم تم رہے‘ نہ ہم ہم 


میں نے تبت کے روحانی پیشوا دلائی لامہ سے پوچھا تھا کہ کسی کو موت کا سامنا کس انداز سے کرنا چاہیے۔ دلائی لامہ نے جواب دیا: ''مراقبے اور استغراق کے ذریعے۔“ موت کا مجھے خوف نہیں، صرف یہی ڈر ہے کہ کہیں میں معذور نہ ہو جاؤں۔ میں ایک ہی امید کرتا ہوں کہ میری موت آہستہ آہستہ نہیں بلکہ تیزی سے آئے۔ نزع کے عالم میں لٹکے رہنے کے بجائے غنودگی میں موت آ جائے تو سب سے بہتر ہے۔ تب تک میری خواہش ہے کہ میں کام کرتا رہوں اور ہر دن ایک زندہ شخص کے طور پر گزاروں۔ ابھی میرے کرنے کو بہت کام پڑا ہے۔ مجھے اقبال کے اس شعر سے بہت لطف آتا ہے :

باغ بہشت سے مجھے حکم سفر دیا تھا کیوں
کار جہاں دراز ہے، اب میرا انتظار کر

بہت سال پہلے میں نے اپنی قبر کی لوح کے لئے ایک منظوم پیغام بھی لکھ لیا تھا: ''یہاں وہ شخص لیٹا ہے، جس نے کسی انسان کو معاف کیا نہ خدا کو، اس کے لئے اپنے آنسو ضائع کرنے کی ضرورت نہیں۔ وہ بدکردار تھا، گندی گندی چیزیں لکھتا اور انہیں فرحت بخش کہتا تھا۔ شکر ہے مالک کا کہ وہ مر گیا ہے، خود کو بڑا تیس مار خان سمجھتا تھا۔“ آؤٹ لک کے مضمون کو خشونت سنگھ نے اپنے پسندیدہ شاعر اقبال کے ایک فارسی شعر پر ختم کیا:

نشان مرد مومن با تو گوئم
چوں مرگ آید، تبسم بر لب اوست

(مرد مومن کی یہ نشانی ہے کہ جب موت آئے تو اس کے لبوں پر مسکراہٹ ہو )
بوڑھے ادیب نے نجانے موت کو مسکرا کر خوش آمدید کہا یا اجل نے اسے غنودگی میں دبوچا، یہ بات مگر ہے کہ خشونت سنگھ کی تحریریں ان کے لاتعداد مداحوں کے ہونٹوں پر مسکراہٹیں بکھیرتی رہیں گی۔ وہ انہیں کبھی بھلا نہیں سکیں گے۔ ٭


 روزنامہ دُنیا، کراچی

***************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 657