واصف علی واصف: مختصر تعارف
– 1923 تا 1993لاہور
عہدِ حاضرکا منفرد صوفی منش انسان , عالِم، دانشور، مصنف،استاد، جس نے دنیا کو الگ رنگ سے دیکھا یا یوں کہنا ذیادہ مناسب ہو گا
کہ حقیقی رنگ سے دیکھا، جس حقیقت کی تلاش میں بڑے بڑے نامور دانشور ٹکّریں مارتے دنیا سے تشنہ لب گذر گئے۔ اس دور کے
بڑے نامور عالِم اس شخص کے سامنے طفلِ مکتب بنے بیٹھے رہتے تھے ۔ کہتے ہیں ہزار کتابیں پڑھنے سے بہتر ہے اُس عالِم کی صحبت میںبیٹھو جس نے ہزار کتابیں پڑھی ہوئ ہوں، واصف کا علم ہزاروں نہیں لاکھوں کتابوں کا تھا،
(واصف صاحب کی ایک غزل پیش خدمت ہے)
ہر چہرے میں آتی ہے نظر یار کی صورت
احباب کی صورت ہو کہ اغیار کی صورت
سینے میں اگر سوز سلامت ہو تو خود ہی
اشعار میں ڈھل جاتی ہے افکار کی صورت
جس آنکھ نے دیکھا تجھے اُس آنکھ کو دیکھوں
ہے اِس کے سِوا کیا ترے دیدار کی صورت!
پہچان لیا تجھ کو تری شیشہ گری سے
آتی ہے نظر فن سے ہی فنکار کی صورت
اشکوں نے بیاں کر ہی دیا رازِ تمنا
ہم سوچ ہی رہے تھے ابھی اظہار کی صورت
اس خاک میں پوشید ہ ہیں ہر رنگے کے خاکے
مٹی سے نکلتے ہیں جو گلزار کی صورت
دل ہاتھ پہ رکھا ہے کوئ ہے جو خریدے؟
میں بھی تو ذرا دیکھوں خریدار کی صورت
صورت مری آنکھوں میں نہ سما ے گی کوئ
نظروں میں بسی رہتی ہے سرکار کی صورت
واصف کو سرِ دار پکارا ہے کسی نے
انکار کی صورت ہے نہ اقرار کی صورت
انتخاب : انیس
۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸۸
|