donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ansar Aziz Nadvi
Title :
   Janab Dr. Malpa Ali Sb

 نام و نمود سے دور بھٹکل کی ایک انقلابی شخصیت


 جناب ڈاکٹر ملپا علی صاحب دامت برکاتھم


انصارعزیزندوی


ولادت اور نام:۔

ڈاکٹر صاحب کی پیدائش ۱۹؍ذی القعدہ  ۱۳۳۸؁ھ مطابق ۵؍اگست۱۹۲۰؁ء بمقام ملپا ہاؤس، ملکی سائیں

(شوکت علی روڈ)بھٹکل میں ہوئی۔ مشہور بزرگ مفسر قرآن شیخ مخدوم فقیہ علی مہائمی(متوفی۸۳۵؁ھ) کے نام کی نسبت سے آپ کا نام فقیہ علی رکھا گیا۔ لیکن آپ نے اپنے لئے صرف علی ہی پسند کیا۔فقیہ علی کبھی نہیں لکھا۔

(تذکرہ والد ۔ص؍۲۹   مؤلف مولانامحمد شفیع قاسمی بھٹکلی)

 بچپن:۔

بچپن ہی میں والدین کا انتقال ہوا تھا۔۔۔۔والدین کے انتقال کے بعد (آپ کی ) پرورش ماموں صاحب (محمد حسین صاحب،جو حکیم الاسلام قاری محمد طیب قاسمی ؒکے مرید تھے)نے کی۔

بچپن ہی سے خاموش طبیعت اور دینی مزاج کے حامل تھے۔ کھیل کود سے بالکل رغبت نہ تھی، جسمانی طور پر بہت کمزور تھے، بچپن سے عبادت کا شوق تھا ، جوانی ہی سے آپ تہجد گذار تھے۔بچپن آبائی گھر میں گذارا۔۔۔۔بعد میں ۱۹۶۳؁ء میں نوائط کالونی میں ایک مکان (طیبہ منزل ) تعمیر کیا تو وہاں منتقل ہوئے۔ الحمدللہ تا حال اسی مکان میں مقیم ہیں۔

(بحوالہ سابق ۔خلاصہ ۔ص؍۳۰ ؍۳۱)

تعلیم:۔

گھر کی عورتوں سے دعا اور اذکار کی تعلیم حاصل کی، نو سال کی عمر میں اسکول میں داخلہ ہوا۔ وہاں پر قرآن و دینیات کی تعلیم جناب ماسٹر محمد میراں صاحب محتشم مرحوم سے حاصل کی۔چار سال کے بعد ہائی اسکول میں داخلہ لیا۔ اس وقت انجمن ہائی اسکول کا ماحول خالص دینی و اسلامی تھا۔ انجمن کی تاریخ میں اسلامی تشخص کے اعتبار سے وہ دور بہت ہی ممتاز تھا۔محترم شاہ بندری حاجی حسن صاحب مرحوم صدر تھے، اور محترم اسماعیل حسن(i.h) صدیق ہیڈ ماسٹر اور مولانا عبدالحمید ندویؒ استاد دینیات تھے۔اسی زریں دور کی وجہ سے طلبہ میں دینی وعلمی وادبی ذوق پیدا ہوا۔ڈاکٹر صاحب پر بھی انجمن کی تعلیم وتربیت کا اثر غالب رہا۔

(بحوالہ سابق ۔ ص؍۳۲)

ملازمت و تجارت :۔

 ۱۹۳۷؁ء میں ساتویں پاس کر کے تنگی معاش کی بنا پر تعلیم ترک کر کے،کسب معاش کے لئے کلکتہ چلے گئے۔اور وہاں بھٹکلی حضرات کے پاس مختلف دکانوں میں ملازمت اختیار کرلی۔۔۔۔۔پھر کچھ ہی مدت کے بعد کاروباری سلسلہ شروع کیا۔۔۔۔۔پھر اپنے مشیر حضرت حاجی محمد شفیع بجنوری ؒ(م ۱۹۵۱؁ئ) کے مشورہ سے کاروباری سلسلہ ختم کرکے اپنے وطن بھٹکل جانے کا فیصلہ کیا۔اور گھر میں ہومیوپتھیک علاج کا سلسلہ شروع کیا۔ مگر حالات اور بعض ضروریات کی وجہ سے بھٹکل میں مستقل قیام نہیں رہا

۔۱۹۵۴؁ء سے بھٹکل میں مستقل قیام رہا۔۱۹۵۴؁ء میں تکیہ محلہ بھٹکل میں ــ’’شفیع ہومیوپیتھیک دواخانہ ‘‘کا افتتاح ہوا۔ یہ سلسلہ ۲۰۰۰؁ء تک جاری رہا۔    

(بحوالہ سابق ۔خلاصہ ۔ص؍۳۵؍۳۶)

بچپن میں جن سے آپ نے کچھ سیکھا:۔

محترم محمد حسین سائب صاحب مرحوم (ماموں) و ممانی صاحبہ
ہمشیرہ فاطمہ مرحومہ

(والدین کے انتقال کے بعد جو آپ کے لئے والدہ کا درجہ رکھتی تھی)

جناب ماسٹر میراں صاحب محتشم مرحوم
جناب اسماعیل حسن(ih)صدیق صاحب ؒ
 حضرت مولانا عبدالحمید صاحب ندوی

(ان تمام کی صحبت اور تعلیم وتربیت ہی کا اثر تھا کہ ڈاکٹر صاحب پر دینی جذبہ اور دینی مزاج گہرا اور پختہ ہوگیا)     

(بحوالہ سابق ۔خلاصہ ۔ص؍۴۲؍۴۳)

اصلاحی تعلق:۔

بچپن سے آپ کا مزاج دینی و عبادت کا رہا، محسن قوم، فخر نوائط محترم اسماعیل(ih)صدیقاؒ کی تعلیم وتربیت سے آپ کے اندر دینی واسلامی ذوق بہت ہی گہرا ہوا۔پھر مولانا عبدالحمید ندویؒ کی تربیت نے مزید نکھار پیدا کیااور مدراس میں قاضی حبیب اللہ صاحب سے عقیدت و محبت کا تعلق تھا۔ بھٹکل کی دینی شخصیات سے ملاقاتیں کرتے، خصوصاً صاحب طریقت بزرگ حضرت مولانا اسماعیل صاحب اکرمیؒ(م ۱۹۶۷؁ئ) سے۔کلکتہ کے قیام کے دوران وہاں بہت سے مشاہیر علماء کاآنا جانا رہا،اس وقت ان علما ء کی ملاقات اور ان کے بیانات سننے کا موقع ملا،جس سے آپ کو اصلاح باطن کی فکر پیدا ہوئی۔اس سلسلہ میں  اپنے استاد مولانا عبدالحمیدندوی ؒ (مقیم بھٹکل)کو خط لکھا، تو انہوں نے حضرت مولانا عبدالماجد دریابادی ؒ اور حضرت مولانا عیسیٰ صاحب الہ آبادی ؒ(خلیفہ حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قاسمی ؒ)سے رجوع ہونے کا  مشورہ دیا۔  ۔۔۔۔۔آپ نے ان دونوں بزرگوں کی خدمت میں خط ارسال کیا،تو مولانا عبدالماجد دریابادیؒکا جواب موصول ہوا۔ اس وقت سے اخیر عمر تک وہ آپ کے مشیر خاص رہے۔متعدد بار دریاباد حاضر ہو کر شرف ملاقات حاصل کیا، قدم قدم پر مولانا نے آپ کی رہنمائی کی۔ انکے علاوہ حضرت مولانا عبدالباری ندوی لکھنویؒ(جو حضرت مولانا اشرف علی تھانوی قاسمی ؒکے خلیفہ اور عاشق تھے)سے بھی آپ کا تعلق ابتدا ہی سے ہوا۔مولانا عبدالباری صاحب ؒ بھی مولانا عبدالماجد صاحب ؒ کی طرح آپ کے مشیر خاص رہے، بلکہ ایک طرح سے مرشد ہی تھے۔

ڈاکٹر صاحب مد ظلہ العالی اپنی اصلاح کے لئے مولانا عبدالماجد دریابادی ؒسے مشورہ کیا،انہی کے مشورہ سے سب سے پہلے اپنا اصلاحی تعلق حضرت مولانا عیسی صاحب محی الدین پوری الہ آبادیؒ(خلیفہ تھانویؒ) سے اپنا اصلاحی تعلق قائم فرمایا،اور انکی وفات تک خط وکتابتت جاری رکھا۔ ان کی وفات کے بعدحضرت حاجی حقداد خان لکھنوی ؒ (خلیفہ تھانویؒ)سے اپنا اصلاحی تعلق قائم فرمایا،اور مئی۱۹۴۴؁ء میں لکھنؤ حاضر ہو کر ان سے بیعت بھی ہوئے۔مسلسل خط وکتابت جاری رہی، یہ سلسلہ ان کی وفات(۱۹۵۰؁ئ)تک جاری رہا۔

انکی وفات کے بعد علامہ سید سلیمان ندوی ؒ(خلیفہ تھانویؒ) سے اپنا اصلاحی تعلق قائم کیا۔ان سے خط وکتابت جاری رہی اور ان کی خدمت میں متعدد بار حاضری بھی دی۔حضرت سید سلیمان ندوی کے ہجرت پاکستان کے بعدخط وکتابت میں دشواری ہونے لگی تو حضرت ہی کے مشورہ سے مصلح الامّت حضرت مولانا شاہ وصی اللہ صاحب فتحپوری قاسمیؒ(خلیفہ تھانویؒ)اپنا اصلاحی تعلق قائم فرمایا،اور آپ سے بیعت ہوئے۔ اور شاہ صاحب کی وفات تک زندگی کے ہر موڑ پر حضرت ہی سے رہنمائی حاصل کرتے رہے۔حضرت شاہ صاحب ؒ نے آپ کو اہنے سلسلہ کی اجازت بھی دی۔شاہدلی مسجد بھٹکل میں کتابی تعلیم کا سلسلہ اور جامعہ اسلامیہ بھٹکل کا قیام بھی حضرت شاہ وصی اللہ صاحب قاسمی ؒکے مشورہ سے عمل میں آیا۔

آپ کی وفات کے بعد محی السنّۃ حضرت مولانا شاہ ابرارالحق صاحب حقّی مظاہریؒ سے اپنا اصلاحی تعلق قائم فرمایا۔یہ تعلق شاہ صاحب کی وفات تک تقریباً چالیس(۴۰)رہا  ۔  ۱۹۷۳؁ء خلافت عطا فرمائی، مستقل خط وکتابت جاری رہی، ہر ہفتہ خط لکھنے کا معمول تھا۔ حضرت شاہ صاحب بھی اپنی ہدایات، مشورہ و دعاؤں سے مستفیض فرماتے اور عزت و احترام کا معاملہ فرماتے۔
                                 (تذکرہ والد ؍تألیف مولانا محمد شفیع صاحب قاسمی۔خلاصہ ،ص؍۴۵  تا  ص؍۵۰)

علماء و مشائخ سے روابط و مکاتبت:۔

 حسب ذیل علماء ومشائخ سے آپ کے روابط رہے اور ان سے مکاتبت بھی رہی:
حضرت حاجی محمد شفیع بجنوری ؒ
حضرت مولانا قاری محمد طیب قاسمیؒ
شیخ الحدیث حضرت مولانا محمد زکریّا کاندھلوی مظاہریؒ
مولانا مناظر احسن گیلانی قاسمی ؒ
حضرت مولانا منت اللہ رحمانی قاسمی ؒ
حضرت مولانا سید ابوالحسن علی حسنی ندوی المعروف علی میاںؒ
حضرت مولانا محمد احمد پرتاب گڑھی
حضرت مولانا مفتی محمود حسن گنگوہی قاسمی ؒ
حضرت مولانا معین اللہ صاحب ندویؒ
حضرت مولانا قاری امیرالحسن صاحب مظاہریؒ
 حضرت مولانا شہباز اصلاحی ؒ
 حضرت مولاناسید محمد رابع حسنی ندوی مد ظلہ العالی
حضرت مولانا قاری مبین صاحب مدظلّہ
حضرت مولانا عبدالرحمن جامی ؒ
مولانا قمر الزماں صاحب الہ آبادی  

( بحوالہ سابق ۔تلخیص، ص؍۵۱  ص ۵۹)

علماء و بزرگوں کی زیارت و ملاقات:۔

حسب ذیل علماء و بزرگوں سے ملاقات رہی:
حضرت حاجی شیخ عبدالمعبود ؒ
حضرت مولانا شبیر احمد عثمانی ؒ
حضرت مولانا حسین احمد مدنی ؒ
حضرت مولانا ظفر احمد عثمانی ؒ
حضرت مولانامفتی محمد شفیع صاحب دیوبندی قاسمیؒ
حضرت مولانا منظور نعمانی قاسمیؒ
امیر التبلیغ حضرت مولانا محمد یوسف کاندھلویؒ
حضرت مولانا حفظ الرحمن سیوہاریؒ    

( بحوالہ سابق ۔تلخیص، ص ۵۹ تا ص؍۶۲)

خدمات:۔

۱۹۵۴؁ ء میں تجارت وملازمت کو ترک کر کے مستقل طور پر بھٹکل قیام کرنے کا فیصلہ فرمایا۔بھٹکل کے اس مسقل قیام سے اللہ تعالی نے آپ سے بہت سا دینی واصلاحی و سماجی کام لیا ۔
بھٹکل میں مستقل رہنے کے فیصلہ کے بعد ذریعہ معاش کے لئے ہو میوپیتھک دوا خانہ قائم کرنے کا  ارادہ کیا۔ اور ۵؍اپریل ۱۹۵۴؁ء کو تکیہ محلہ بھٹکل میں ــــ’’شفیع ہو میو پیتھک دوا خانہ‘‘ کا افتتاح  ہوا۔ یہ دوا خانہ تقریباً پینتالیس (۴۵) سال تک قائم رہا۔ یہ دوا خانہ جہاں جسمانی امراض کا علاج کیا جاتاتھا وہیں امراض باطنی کابھی علاج ہوتا تھا۔ کتنے بے نمازی آپ کی نصیحت و صحبت سے نمازی بن گئے، کتنے لوگوں میں دینی جذبہ اور شعور پیدا ہوا،یہ دوا خانہ ایک دار المشورہ بھی تھا ۔مختلف طبقہ کے لوگ روزانہ یہاںآیا کرتے تھے،قوم کے بہت سے مسائل پر یہاں گفتگو ہوتی رہتی تھی۔جامعہ اسلامیہ بھٹکل کا قیام انہی مشوروں کا نتیجہ تھا۔اور عرصہ تک جامعہ کا دفتر بھی یہی رہا۔یہیں سے دعوت وتبلیغ اور اصلاح معاشرہ کا کام شروع کیا، جو لوگ دوا خانہ نہیں آتے تھے وہ صاحب ثروت حضرات تھے ۔ آپ ان کے گھر جا کر انفرادی ملاقات کرتے ، ان کو کوئی دینی کتاب (خصوصاًحضرت مولانا اشرف علی تھانوی ؒ کے مواعظ و ملفوظات) پڑھ کر سناتے۔ یہ سلسلہ جامعہ اسلامیہ بھٹکل کے قیام تک جاری رہا۔

آپ بھٹکل میں دعوتی کام کے ساتھ ساتھ بھٹکل کے اطراف واکناف میں بھی دعوتی دورہ کرتے۔مرڈیشور، منکی ،شرور،گنگولی ،کنڈلور،بسرور وغیرہ وقتاً فوقتاً جا کر دینی گفتگو فرماتے۔
۱۹۵۳؁ء میں غالباً پہلی مرتبہ جب بھٹکل میں تبلغی جماعت آئی،تو آپ نے ان کا بھر پور تعاون کیا۔ اور جماعت کے ساتھ اطراف بھٹکل کا دورہ بھی کیا۔یہ سلسلہ کئی سال تک جاری رہا۔

شاہد لی مسجد بھٹکل میں کتابی تعلیم کا سلسلہ:۔

۱۹۵۴؁ء سے  ۱۹۵۸؁ء تک دوا خانہ اور انفرادی ملاقات سے فائدہ نظر آیا، تو آپ کے حوصلے بلند ہوئے۔ ۱۹۵۶؁ء میں جب حضرت مولانا شاہ وصی اللہ فتحپوری ؒسے تعلق قائم ہوا تو حضرت مولاناکے مشورہ سے شاہدلی مسجد بھٹکل میں بعد نماز ظہر،پھر بعد نماز عصر کتابی تعلیم کا سلسلہ شروع فرمایا۔ غالباً یہ بھٹکل کی پہلی کتابی تعلیم تھی۔ آپ مختلف علماء کی کتابیں پڑھ کر سنایا کرتے تھے،پھر نوائطی زبان میں اسکی تشریح بھی فرماتے تھے۔یہ درس بہت مشہور ہوا۔ تقریباً(۴۲)سال تک یہ درس جاری رہا۔

اسکے علاوہ بھٹکل میں دو جماعتوں میں اتحاد کے لئے بھی آپ نے بہت کوششیں کیں۔۔۔۔دینی مدرسہ کے قیام کا ارادہ کیا اور اسکے لئے کوششیں شروع کیں۔۱۹۵۸؁ء  کے قومی انتشار کے بعد آپ نے پختہ ارادہ کر لیا کہ بھٹکل میں ایک دینی مدرسہ قائم کرنا چاہیے

(بحوالہ سابق۔تلخیص ص؍۶۳ تا  ص؍۷۸)

دیگر:۔

آپ دیگر اداروں سے بھی متعلق رہے،اور اسمیں خدمات دیتے رہے۔ مثلاً
انجمن حامئی مسلمین بھٹکل                  بھٹکل مسلم ایسوسی ایشن کلکتہ
جماعت المسلمین  بھٹکل                  مجلس اصلاح وتنظیم بھٹکل
ٹاؤن منسپالٹی کونسل بھٹکل                  شاہدلی مسجد بھٹکل   

(ایضاً   ص؍۱۴۰ تا  ص؍۱۴۳)

اسفار:۔

 آپ نے ملازمت، کاروبار، اصلاح ، دعوت، حج و عمرہ اور دیگر مقاصد کے لئے بہت سے مختلف  مقامات کئے:۔ مثلاً

کلکتہ ،دریاباد ، لکھنؤ،مدراس ، ممبئی، ڈھاکہ،کوئمبتور، اوٹی، الہ آباد، کیرلا ، دہلی ، اجمیر،منگلور، کالیکٹ، مالابار،وانمباڑی، وجے واڑہ، ہردوئی، دیوبند، رامپور ، تھانہ بون،حجاز ، مسقط و ڈبئی وغیرہ مختلف مقامات کے سفر مختلف مقاصد کے تحت کئے، بعض جگہ کئی ایک بار گئے۔  

(ایضاً   ص؍۱۴۴ تا  ص؍۱۴۸)

 فی الحال ڈاکٹر صاحب کی جمعہ کے دن عصر کے بعد ان کے دو لت کدے پر مجلس ہوتی ہے جس میں بالخصوص نوجوانوں کی ایک بڑی تعداد شرکت کرکے اپنے اینان کو جلا بخشتی ہے ۔ دعا ہے کہ اللہ ڈاکٹر صاحب کی عمر میں برکت نصیب فرمائے اور سینکڑوں بندگان خدا کو مزید آپ سے استفادہ کی توفیق نصیب فرمائے۔ آمین یا رب العالمین

****************************

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 703