donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Aziz, Bhopal
Title :
   Abu Sayeed Bazmi Ki Seyasi Aur Qalmi Khidmat

ابوسعید بزمی کی سیاسی اور قلمی خدمات


عارف عزیز


٭    ہندوستان کی جنگ آزادی میں جن شخصیتوں نے انگریز حکمرانوں اور شخصی فرمانروائوں کے خلاف تحریروتقریر کے ذریعہ آواز اٹھائی اور قید وبند کی صعوبتیں برداشت کیں ان میں ایک اہم نام فرزندِ بھوپال ابوسعید بزمی کا ہے جو ایک اعلیٰ تعلیم یافتہ، گہری سوجھ بوجھ کے مالک اور ہمہ گیر صلاحیتوں کے حامل تھے۔ سیاست ہی نہیں شاعری، افسانہ نگاری، تاریخ نویسی اور صحافت وہ شعبے ہیں جن میں ابو سعید بزمی نے جوہر دکھائے، خاص طور پر ایک صحافی کی حیثیت سے غیر منقسم ہندوستان میں انہوں نے اپنی جو شناخت قائم کی وہ تاریخ کا ایک اہم باب ہے۔

    ابوسعید بزمی ۱۹۱۰ء میں بھوپال کے ایک معزز خاندان میں پیدا ہوئے، یہیں پرورش پائی، اس زمانے کے رواج کے مطابق بھوپال اور دیوبند میں مذہبی تعلیم حاصل کی، جس سے وہ مطمئن نہ ہوئے تو انگریزی تعلیم کی طرف متوجہ ہوگئے اور ۱۹۳۵ئ؁ میںپنجاب یونیورسٹی سے اعلیٰ اعزاز کے ساتھ ایم اے کی ڈگری حاصل کی نیز دو گولڈ میڈل کے مستحق قرار پائے، بزمی صاحب کو علم وادب سے خاص دلچسپی بچپن سے تھی، طالب علمی کے زمانہ سے انجمنوں کے پروگراموں میں حصہ لیکر تحریر وتقریر کی صلاحیتوں کا مظاہرہ کرتے رہے، سیاسی میدان میں قدم رکھنے پر یہی صلاحتیں ان کے کام آئیں۔

    ابوسعید بزمی نے سب سے پہلے ۱۹۳۶ء میں مولانا سعید اللہ خاں رزمی کے ساتھ مل کر بھوپال میں ’’سوشل سروس لیگ‘‘ تشکیل دی، اسی زمانہ میں ایک ہفت روزہ اخبار ’’رہنما‘‘ جاری کیا، جس کی موثر تحریروں اور جری تنقیدوں کو حکومتِ وقت برداشت نہ کرسکی، چند اشاعتوں کے بعد ضمانت طلب کرنے پر یہ اخباربند ہوگیا، اس  ہفت روزہ کے مضامین اور سیاسی تجزیے نہایت مدلل، فکر انگیز اور دلچسپ ہوتے تھے، نوابی حکومت اور انگریزی سرکار پر سخت تنقید کے ساتھ عوامی جذبات و آزادی کی تحریکات کی بھرپور نمائندگی ہوا کرتی تھی، اس لئے یہ اخبارجہاں گیا لوگ بزمی صاحب کے گرویدہ بن گئے، کوئی ایک سال بعد ۱۹۳۷ء میں بزمی صاحب کا نام ملک کی سطح پر اس وقت ابھرا جب سہ روزہ اخبار ’’مدینہ‘‘ بجنور میں انہوں نے چیف ایڈیٹر کا عہدہ سنبھالا، یہ وہی اخبار ہے، جس میں اپنے زمانے کے مشہور صحافی مولانا نصراللہ خاں عزیز اور مولانا حامد الانصاری غازی کام کرچکے تھے، ’’مدینہ‘‘ اپنے دور کے صف اول کے اخبار میں شمار ہوتا تھا،لہذا اعلیٰ صلاحیت و قابلیت کے صحافیوں کی خدمات اس کے لئے حاصل کی جاتی تھیں، بزمی صاحب اس زمانے کے ممتاز ایڈیٹروں میں سب سے کم عمر تھے، اپنے اندازِ فکر اور طرز بیان کی بناء پر مختصر وقت میں ، وہ پورے ملک میں نہ صرف متعارف ہوئے بلکہ قدر ومنزلت کی نظر سے دیکھے جانے لگے۔

    بھوپال اس زمانے میں نوابی ریاست تھی یہاں کے حالات وفضا آزادی تحریری وتقریر کے لئے سازگار نہیں تھے، ظلم وزیادتی اور ناانصافی کے خلاف آواز اٹھانا بھی جرم تھا، سرکاری ملازمتوں میں خوشامدیوں اور نمک خواروں کا غلبہ تھا، اعلیٰ عہدے سے مقامی لوگ محروم تھے، حکومت واقتدار پر زیادہ تر بیرون ریاست کے لوگ قابض تھے، مقامی شہریوں کو چوتھے درجے کی ملازمتیں ملتی تھی، بڑی جدوجہد کے بعد کوئی تیسرے درجہ کی ملازمت تک پہونچتا تھا، اسی لئے بے روزگاری وبے چینی بڑھ رہی تھی، لہذا عوام کی پریشانیوں نے تحریک کی شکل اختیار کرلی، شروع میں تو ملکی اور غیر ملکی کے نام سے  تحریکات چلتی رہیں، لیکن ۱۹۳۸ء تک بھوپال میں کوئی باقاعدہ سیاسی جماعت نہ بن سکی۔ ’’مدینہ‘‘ میں ضرور بزمی صاحب دوسری ریاستوں کے ساتھ بھوپال کی خبریں شائع کررہے تھے، جس کی وجہ سے یہاں اس اخبار کی مقبولیت میں غیر معمولی اضافہ ہوگیا تو ریاستی حکومت نے ’’مدینہ ‘‘ کا داخلہ بند کردیا، تقریباً ایک سال تک یہ پابندی جاری رہی لیکن ’’مدینہ‘‘ پڑھنے والوں کے شوق کا یہ عالم تھا کہ وہ بھوپال ریاست کے باہر دوسرے مقامات سے ’’مدینہ‘‘ اخبار خفیہ طور پر منگواکر اور شوق سے پڑھتے تھے۔

    بھوپال سے جانے کے بعد ابوسعید بزمی کا اپنے وطن کی سیاسی تحریکات سے تعلق قائم رہا، اسی کے نتیجہ میں انہوں نے ایک اندھیری رات میں بارہ بجے کے بعد ایک مسجد میں بیٹھ کر خان شاکر علی خاں اور مولانا طرزی مشرقی کے ساتھ مل کر بھوپال اسٹیٹ پیپلر کانفرنس (پرجامنڈل) کی بنیاد رکھی، بعد میں ریاست کے کارکنوں کی سہ روزہ کانفرنس کرکے اس کے قیام کا باقاعدہ  اعلان کیا، اس کی صدارت بھی بزمی صاحب نے قبول کرکے پیپلز کانفرنس کے پہلے صدر منتخب ہوئے، یہی جماعت بعد ازاں کانگریس میں تبدیلی ہوگئی، اس میں پنڈت چترنارائن مالوی اور ماسٹر لال سنگھ بھی شامل ہوئے۔

    فروری۱۹۴۰ء میں بھوپال کی لیجسلیٹو کونسل کا الیکشن ہوا، جس میں برائے نام ہی عوامی نمائندگی ہواکرتی تھی، پیپلز کانفرنس نے چند نشستوں پر الیکشن لڑنے کا فیصلہ کیا اور بزمی صاحب پر زور ڈالا کہ وہ الیکشن میں امیدوار بنیں بھوپال سے غیر حاضر رہنے کے باوجود عوامی تائید سے ابوسعید بزمی کونسل کے لئے منتخب ہوگئے۔

    جب بزمی صاحب لیجسلیٹو کونسل کے اجلاس میں شرکت کے لئے بھوپال آئے تو اجلاس سے ایک دن قبل ان کو ڈیفینس آف انڈیا رولز کے تحت گرفتار کرلیا گیا اور عوامی احتجاج کے باوجود ان پمفلٹس پر مقدمہ چلایا گیا جو پہلے شائع ہوئے تھے، ساتھ ہی ایک درجن کے قریب دوسرے لیڈر بھی گرفتار کئے گئے، مذکورہ دونوں مقدمات میں ۲۱-۲۱ ماہ قیدِ سخت اور جرمانہ کی سزا سناکر انہیں جیل بھیج دیا گیا، جن  پمفلٹس کی اشاعت کی پاداش میں بزمی صاحب کو سزا ملی، ان میں سے ایک ’’پیام نیاز‘‘ کے زیر عنوان انہوں نے بھوپال کی انتظامیہ کو جانبدار قرار دیکر اس کی ناانصافی پرروشنی ڈالی  اور یہ الزام عائد کیا کہ شخصی حکمراں اپنی ریاست میں پریس کو آزاد دیکھنا نہیں چاہتے، باہر سے چھپواکر کچھ منگوایا جائے تو اسٹیشن پر ایکسائز عملہ اسے قابلِ اعتراض قرار دیکر ضبط کرلیتا ہے، تاہم ان حالات پر بھی ہم صبر کرتے رہے، مگر وائے بدنصیبی کہ حکومت اس پر بھی مطمئن نہ ہوئی، ہمارا قلم چھین لینے کے بعد اسے فکر ہوئی کہ زبان بھی کاٹ لی جائے اور اس کے لئے جنگ سے متعلق قانون کا سہارا لیکر زباں بندی کے احکام نافذ ہونے لگے۔ اسی طرح دوسرے پمفلٹ ’’عرضِ نیاز‘‘ میں ابوسعید بزمی نے ایک ایسی ریاست جس میں ہندوئوں کی اکثریت ہے اس میں اسلامی حکومت کے جواز کو چیلنج کرتے ہوئے سوال کیا کہ ’’میں اور میرے ساتھیوں کے خلاف سب سے بڑا الزام یہ ہے کہ ہم ہندوئوں سے مل کر مسلم حکومت کو نقصان پہونچا رہے ہیں لیکن کوئی ہمیں بتائے کہ یہ اسلامی یا مسلم حکومت کہاں ہے جسے ہم نقصان پہونچا رہے ہیں، اس پمفلٹ میں بزمی صاحب نے بھوپال میں ذمہ دار حکومت کے قیام کیلئے یہ شرط رکھی کہ اس کی تمام ذمہ داریاں اہل بھوپال کے سپرد کی جائیں اور ان کی صلاحیتوں کو پھلنے پھولنے کا موقع دیا جائے۔ دوران گرفتاری ابوسعید بزمی نے اس وقت کے سرکاری ترجمان روزنامہ ’’ندیم‘‘ بھوپال کے ایڈیٹر محمودالحسن صدیقی کے خلاف ازالہ حیثیت عرفی کا مقدمہ دائر کرکے الزام لگایا کہ محمودالحسن صاحب کا تعلق کیونکہ مسلم لیگ سے ہے اور  وہ خود یعنی ابوسعید بزمی اسٹیٹ پیپلز کانفرنس کے صدر ہیں، اس لئے ان کی گرفتاری پر ’’ندیم‘‘ نے یہ بے بنیاد خبر شائع کی کہ ابوسعید بزمی نے جنگ کے خلاف پمفلٹ شائع کئے ہیں اور اس طرح ان کی نیک نامی کو صدمہ پہونچایا ، پولس سپرنٹنڈنٹ نے بھی بزمی صاحب کے موقف کی تائید کی، بعد میں یہ مقدمہ غالبا مولانا طرزی مشرقی کے درمیان میں پڑھنے پر ختم ہوا۔بزمی صاحب اپنی سزا پوری کرکے جب جیل سے رہا ہوئے تو ۱۹۴۲ء کی ہندوستان چھوڑو تحریک کا آغاز ہوگیا تھا، انہوںنے اس تحریک میں سرگرم حصہ لیا، چند ماہ بعد وہ دوبارہ ’’مدینہ‘‘ کی ادارت سنبھالنے کیلئے بجنور پہونچے اور کچھ عرصہ کام کرکے ’’زم زم‘‘ لاہور کے ایڈیٹر بن گئے، بعد میں وہ روزنامہ ’’شہباز‘‘ لاہور اور ’’احسان‘‘ لاہور وکراچی کے چیف ایڈیٹر کی خدمات انجام دینے لگے، ’’احسان‘‘ کی ادارت کے زمانہ میں ہی امریکہ گئے، جہاں اچانک حرکتِ قلب بند ہوجانے سے ستمبر ۱۹۵۲ئ؁ میں ان کا انتقال ہوگیا۔

    بزمی صاحب نے مئی ۱۹۵۰ء میں ہند-پاک ایڈیٹرس کانفرنس منعقدہ دہلی میں شرکت کی اور و ہ پاکستان نیوز پیپر ایڈیٹرس کانفرنس کے جنرل سکریٹری بھی رہے، انہوں نے اپنی ذہانت، یاد داشت اور مطالعہ کی بنیاد پر بھوپال سینٹرل جیل میں تاریخ ’’انقلابات عالم‘‘ کے نام سے ایک ضخیم کتاب تحریر کی۔ حالانکہ جیل میں کسی طرح کے لکھنے پڑھنے یا مواد حاصل کرنے کی سہولت انہیںمیسر نہیں تھی، یہ کتاب دو جلدوں میں شائع ہوئی ہے، ’’مولانا آزاد تنقید وتبصرہ‘‘ بھی ان کی مشہور کتاب ہے ’’زندگی کے جائزے‘‘ ان کے افسانوں کا مجموعہ ہے، ’’مسلمان کیا کریں؟‘‘ ان کی ایک اور فکر انگیز کتاب ہے، ابوسعید بزمی بلند پایہ ادیب، مشاق صحافی ومور خ ہونے کے ساتھ اعلیٰ پایہ کے مقرر بھی تھے، اخبارات کے اداریوں کے علاوہ دیگر موضوعات پر معیاری مضامین ومقالات رقم کرتے رہے جو ہندوستان کے مختلف رسائل واخبار، بالخصوص ’’نگار‘‘ لکھنو، ’’جامعہ‘‘ دہلی، ’’معارف‘‘ اعظم گڑھ، ’’تیج‘‘ دہلی، ’’ہمایوں‘‘ لاہور وغیرہ میں شائع ہوئے۔ افسوس کہ آزادی کے اس متوالے سے بھوپال کی نئی نسل ناواقف ہے، اس شہر میں جہاں وہ پیدا ہوئے، پلے بڑھے قانون ساز اسمبلی کے ممبر بنے ان کے نام پر کوئی یادگارموجودنہیں ہے۔

(یو این این)

***********************

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 672