donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Aziz, Bhopal
Title :
   Maulana Abul Hasan Ali Nadvi Ki Fikro Nazar, Taqareer Ke Ayine Me


 

مفکر اسلام مولانا ابوالحسن علی ندوی کی

 

فکر ونظر، تقاریر کے آئینہ میں

 

  عارف عزیز

( ۔بھوپال)

 

 ٭ حضرت مولانا سید ابوالحسن علی ندوی (علی میاںؒ) کا شمار دنیا کی بلند پایہ علمی شخصیتوں میں ہوتا ہے، وہ بیک وقت مفکر، مدبر، مصلح، قائد، زمانہ شناس ، ادیب اور نباضِ وقت ، خطیب تھے، اللہ تعالیٰ نے انہیں فہم وفراست اور حکمت وبصیرت کے بڑے حصہ سے نوازا تھا۔ اس لئے دور حاضر کے تقاضے اور نفسیات کے مطابق وہ دین وشریعت پیش کرنے کا کام اپنے قلم اور زبان سے لیا کرتے تھے، دنیا کے جس گوشے میں جاتے وہاں دل کی گہرائیوں سے اسلام کا پیغام لوگوں کو سناتے، خاص طور سے عالم عرب اور اسلامی ملکوں میں لوگوں کو یاد دلاتے کہ تمہارے گھر سے دیئے گئے پیغام کی بدولت ہندوستان میں ہمارے آباء واجداد اسلام لائے اور آج ہم جب اسلام لانے کی قیمت ادا کررہے ہیں تو تم محوِ خواب ہو، حضرت نے عرب ممالک میں پاکستان کے اس پروپیگنڈہ کا بھی رد کیا کہ ہندوستان میں اب مسلمان نہیں رہ گئے، جو تھے وہ پہلے پاکستان منتقل ہوگئے یا بعد میں مار دیئے گئے۔ انہوں نے ہندوستان کی اسلامی تاریخ سے اپنی تحریر وتقریر کے ذریعہ عربوں کو اس خوبی سے متعارف کرایا کہ اس سے پہلے کوئی دوسرا یہ کام نہیں کرسکا۔ وہ ہمارے عہد کے واحد ہندوستانی تھے جو عربوں کو ان کی زبان اور ان کے لہجہ میں بغیر کسی مرعوبیت کے مخاطب کرتے تھے اور ایسی فصیح عربی بولتے و لکھتے تھے کہ اہل عرب بھی اس کے سحر میں کھو جاتے، اس میں تنقید واحتساب کی دعوت کے ساتھ طاقت و توانائی حاصل کرنے کی راہ بھی دکھاتے، ان کے دکھ درد میں شریک رہتے، ان کے غم پر آنسو بہاتے اور بارگاہ الٰہی میں دعائیں بھی کرتے، عرب قومیت کا گمراہ کن نعرہ ہو یا فلسطین پر اسرائیل کا غاصبانہ قبضہ اس کے خلاف زبان وقلم سے جہاد چھیڑ کر حضرت نے واضح الفاظ میں عربوں کو متنبہ فرمایا کہ اسلامی صلاحیت اور دینی حمیت کا مطلوبہ معیار پورا کئے بغیر وہ قیامت کے مستحق نہیں ہوسکتے، عربوں کو جو بھی عزت نصیب ہوئی وہ اسلام اور محمد عربی ﷺ کا فیض ہے ، یہ مایا اگر عربوں سے چھن جائے تو ان کے پاس کچھ باقی نہیں بچے گا، اسی طرح فلسطین کے مسئلہ کو انہوں نے عربوں کا نہیں اپنا مسئلہ سمجھا، اس پر تقاریر کیں اور کتاب لکھی، مسئلہ فلسطین کے اسباب وعوامل بیان کئے اور حل کیلئے راہ دکھائی، بارہا اپنی تحریر وتقریر میں فرمایا کہ عربوں کے اس زوال وپستی کی بنیادی وجہ ان کے یقین کی کمزوری، شک وشبہ کا نفوذ اور احساسِ کمتری ہے۔ کویت اور سعودی عرب کی یہ تقریریں ’’عالم عربی کے المیہ‘‘ کے نام سے شائع ہوچکی ہیں، جن میں نہایت بے باکی اور دلسوزی کے ساتھ عربوں کی اخلاقی کمزوری، دینی قدروں کی زبوں حالی، فکری انارکی، ابن الوقتی اور جھوٹے معیار کے آگے سپر اندازی پر روشنی ڈالی گئی ہے۔ اسی طرح انہوں نے پاکستان پر اسلامی تہذیب کے تحفظ اور صحیح عقیدہ کی ضرورت واضح کی اور وہاں کے حکمرانوں کو اسلامی حکومت کے آداب و اطوار سمجھائے۔

    حضرت مولانا علی میں کی شخصیت نہ صرف دانائی ودور اندیشی سے عبارت تھی بلکہ حق پرستی وجرأت کا بھی اعلیٰ مظہر تھی، انہوں نے حق گوئی سے گریز کرکے تلخ حقائق کے اظہار پر مصلحت اندیشی کا غلاف کبھی نہیں چڑھایا بلکہ باطل کے خلاف کھل کر آواز بلند کی افغانستان تشریف لے گئے تو مغربی ثقافت کی ’’برکات‘‘ اور مستشرقین کے افکار ونظریات سے دامن بچانے کی ضرورت واضح کی، ایران گئے تو شیعہ و سنیوں کو ایک دوسرے کے قریب آنے کا مشورہ دیا۔ہندوستان میں بھی شیعہ و سنیوں کے مسلکی اختلافات کو امت کے رستے ہوئے ناسور سے تعبیر کیا اور اس کے تدارک میں پیش پیش وفکر مند رہے۔

    حضرت نے مسلم پرسنل لا بورڈ کے اجلاسوں کی صدارت کرتے ہوئے جو خطبے دیئے، ان میں مسلمانان ہند کے لئے جہاں پرسنل لاء کو ناگزیر بتایا، وہیں اسے مسلمانوں کی عزت وآبرو کیلئے اہم قرار دیا اور اس کی حفاظت کو اسلامی تہذیب وتشخص کے تحفظ سے تعبیر فرمایا۔ حضرت کے خطبات وتقاریر مختلف عنوانات کے تحت کتابی شکل میں شائع ہوچکے ہیں، جن میں سے ایک اہم مجموعہ ’’پاجا سراغ زندگی‘‘ ہے ان تقریروں میں دارالعلوم ندوۃ العلماء کے طلباء کو وہ یہ پیام دیتے ہیں کہ ’’شاخِ ملت انہی کے دم سے ہری ہوسکتی ہے‘‘۔ امریکہ کے سفر پر گئے تو وہاں کی یونیورسٹیوں اور مجلسوں میں جو تقاریریں کیں ’’مغرب سے کچھ صاف صاف باتیں‘‘ اور ’’نئی دنیا‘‘ کے نام سے وہ منظر عام پر آگئی ہیں، ان تقاریروں میں حضرت نے دو ٹوک انداز میں فرمایا کہ ’’امریکہ میں مشینوں کی بہار تو دیکھی، لیکن آدمیت اور روح کا زوال پایا‘‘۔ وہاں کے مسلمانوں کو تعلق باللہ، اپنے کام میں اخلاص اور انابت کی روح پیدا کرنے پر زور دیا، یہی پیغام وہ ہر جگہ ہر ملک اور ہر شہر میں دیتے رہے، جو نیا نہیں تھا لیکن کچھ ایسے ایمانی ولولے، قلبی درد اور دایانہ انداز میں اس کا اعادہ کرتے کہ سننے والوں کے قلوب گرما جاتے، اسی طرح یوروپ، برطانیہ، سوئزرلینڈ اور اسپین کی یونیورسٹیوں اور علمی مجلسوں میں تخاطب کے دوران یہ پیام دیا کہ ’’وہاں کے مسلمان مغربی تہذیب و تمدن کے گرویدہ نہ ہوں کیونکہ اس کا ظاہر روشن اور باطن تاریک ہے، مسلمان اس سرزمین پر اسلام کے داعی بن کر رہیں، اسلام کی ابدیت پر مکمل اعتماد رکھیں اور مشرق ومغرب کے درمیان ئی نہر سوئز تعمیر کرنے کے لئے کام کریں۔‘‘

    حضرت نے ملی مسائل کے حل کے لئے بھی جو بن پڑا اس سے دریغ نہیں کیا ’’دینی تعلیمی کونسل ہو، مسلم پرسنل لا بورڈ یا پیام انسانیت کا پلیٹ فارم سب کا استعمال مسلمانوں کی فلاح وبہبود اور ان کے حقوق کی بازیابی کے لئے کیا، بالخصوص ’’پیام انسانیت‘‘ کے ذریعہ جہاں برادران وطن کو ایک مہذب انسان اور ذمہ دار شہری بننے، اپنے اندر وسعت نظر اور وسعت قلبی پیدا کرنے کا درس دیا، وہیں مسلمانوں کو تلقین کی کہ وہ ہندوستان کو اپنا ملک سمجھیں، اس کی رنگا رنگ تہذیب کے ماننے والوں کے ساتھ شرافت وانسانیت کا سلوک کریں، مل جل کر رہیں، ہندو اور مسلمانوں کو ایک ہی کشتی کا سوار تصور کرکے باہم معاملہ کریں، اس تحریک کا مسلمانوں وک اچھا پھل یہ ملا کہ اکثریت کے حلقوں میں فرقہ وارانہ ہم آہنگی قائم ہوئی اور گرم فضا کو معتدل بنانے میں مدد ملی، حضرت نے ہندوستان کی خوابیدہ ملت کو جگانے کی بھی بھرپور کوشش کی۔ شہر شہر ، قریہ قریہ اپنی تقریروں کے وسیلہ سے یہ بتایا کہ دنیا پر خودغرضی اور بداخلاقی کا مانسون چھایا ہوا ہے، اسے چادروں سے نہیں روکا جاسکتا لیکن انسانیت کا درد محسوس کرکے اور اپنے ملک کو نمونہ کا ملک بناکر اس صورت حال پر ضرو ر قابو پایا جاسکتا ، ان تقریروں کے مجموعے ’’پیام انسانیت‘‘ ’’تحفہ انسانیت‘‘ اور ’’تحفہ دکن‘‘ کے نام سے طبع ہوئے اور انسانیت کا یہ پیغام زندگی کے آخری مرحلہ تک وہ لوگوں تک پہونچاتے رہے۔

    حضرت سرگرم سیاست سے دور رہے لیکن وطن کی محبت اس کی بھلائی اور ترقی کی فکر نے انہیں ہمیشہ بے چین رکھا، ’’پیام انسانیت‘‘ تریک بھی گویا ایک نسخہ کیمیا تھی جس کے ذریعہ وہ قوم اور ملت کو مل جل کر رہنے اور ایک دوسرے کا احترام کرنے کا درس دیتے تھے۔ اس کی بنیاد اگرچہ ایک تقریر کے ذریعہ ۱۹۵۴ء میں رکھی گئی لیکن عملی طو ر پر اس تحریک کا آغاز ۱۹۷۴ء سے ہوا اور زندگی کے آخری مرحلہ تک حضرت کا اس سے والہانہ لگائو جاری رہا۔ ملت اس تحریک کی معنویت کو سمجھے اور اس کے پیغام پر توجہ دے تو آج بھی تعصب وتنگ نظری کی دیواریں منہدم ہوسکتی ہیں اور بحیثیت انسان مسلمانوں کے لئے دوسروں کا درد وتکلیف سمجھنا آسان ہوجائے گا، اس موضوع پر حضرت مولانا علی میاں نے جو تقریریں فرمائیں ’’دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہے‘‘ کہ مصداق نہایت موثر ہیں، ان تقاریر میں ان کے دل کا درد اور فکر کی روشنی جلوہ گر نظر آتی ہے۔

    حضرت کا عوام سے خطاب ہو یا طلباء سے گفتگو، اہل علم سے درد دل کہہ رہے ہوں یا حاکم وامراء کو نصیحت فرما رہے ہوں سب کو وعظ ونصائح کے بجائے آئینہ دکھانے پر وہ یقین رکھتے تھے اور سننے والے اس آئینہ میں اپنی صورت وسیرت کی کمزوریوں ، اپنے دل ودماغ کی کوتاہیوں کا مشاہدہ کرتے جاتے تھے، اس بالواسطہ ترسیل سے حضرت نے وہ کام لیا جو زورِ خطابت اور جوش بیان سے نہیں ہوسکتا تھا، اسی طریقہ نے عوام الناس سے اہل علم تک سب کو متاثر کرکے ان کا گرویدہ بنادیا تھا۔ ان تقریروں کو پڑھنے سے ایک منضبط تحریر کی خوبی نظر آتی ہے، جو دماغ سے زیادہ دل کو اپنی گرفت میں لے لیتی ہے، قرآنی آیات واحادیث کی روشنی میں بزرگوں کی سیرت وسوانح کے حوالہ سے حضرت جو فرماتے وہ سامع کے دل میں اترجاتا اور زبانِ حال سے وہ پکار اٹھتا    ؎


دیکھنا تقریر کی لذت جو اس نے کہا
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دل میں ہے

 

********************************

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 


 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 585