donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Arif Aziz
Title :
   Ikhlaq Aur Kasre Nafsi Ka Doosra Naam - Nasir Kamal


اخلاق اور کسرِ نفسی کا دوسرا نام۔ ناصر کمال


عارف عزیز

(بھوپال)

 

 انسانوں کی بھیڑ میں سے تین سال پہلے ایک شخص ناصر کمال ہم سے اچانک دامن چھڑاکر چلا گیا۔ مرنا ابنِ آدم کی میراث سے ہے لیکن کوئی باکمال شخص رخصت ہوتا ہے تو اُس کی کمی تادیر ستاتی ہے۔ صحافت بالخصوص انگریزی اور ہندی کی اخبار نویسی کے طور طریقے آج کافی تبدیل ہوگئے ہیں۔ اِس شعبے میں قدم رکھنے والے سماج اور حکومت سے اپنا لوہا منوانے کے لیے کوئی کسر اُٹھاکر نہیں رکھتے، اُن کے ہر فعل اور اُس سے زیادہ قول سے اِس کا اظہار ہوتا ہے کہ ہمیں سر آنکھوں پر بٹھاؤ، عام انسانوں سے ہمیں برتر سمجھو، اِس شعبے سے تھوڑا بہت تعلق رکھنے کی بناء پر مجھے عوام الناس سے زیادہ اِس کا تجربہ ہے کہ انگریزی اور ہندی اخبارات میں کام کرنے والے اپنی شناخت بنانے کے لئے کیسی کیسی حرکتیں کرتے ہیں، لیکن ناصر کمال ایسی جملہ ’’خوبی نما‘‘ برائیوں سے دور تھے، کبھی احساس ہی نہیں ہوتا کہ ہم ایک سینئر انگریزی جرنلسٹ سے گفتگو کررہے ہیں، ملنے ملانے کا وہی پرانا انداز جو تیس سال پہلے تھا آخر تک اُن میں پایا جاتا تھا۔ مروت ، شرافت اور معاملہ فہمی مزاج میں کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی، ’آفتابِ جدید ‘میں کام کرنے کے دوران ہمارے درمیان جو رشتے قائم ہوئے وہ آخر تک برقرار رہے، بارہا مجھے خیال آیا کہ اگر اردو صحافت میں وہ رہتے تو اپنی فکرونظر سے اِس کا وقار بلند بلند کرنے میں معاون بنتے اور اُردو صحافت کی زبوں حالی کو دور کرنے کی کوشش بھی کرتے۔

ناصر کمال صحافت میں اپنی ذمہ داری ستائش وصلہ کی تمنا کے بغیر انجام دیتے تھے، اور اردو زبان وادب سے گہرے تعلق کی بناء پر اردو صحافت کے نشیب وفراز پر بھی نظر رکھتے تھے، ایک مرتبہ کوئی۲۰-۲۲سال قبل مردم شماری کے بعد اُس کے نتائج کو بھارتیہ جنتا پارٹی نے فرقہ وارانہ رنگ دینے کی کوشش کی اور مسلم آبادی کی شرح بڑھنے کا سوال اُٹھایا، اُس وقت کے وزیراعلیٰ دگوجے سنگھ نے اسمبلی کی پریس گیلری میں بی جے پی کی اِس ذہنیت کو نشانہ بناکر جواب میں صحیح اعدادوشمار پیش کئے، اس موضوع پر میرا کالم شائع ہوا اور سہ روزہ ’دعوت‘ نئی دہلی نے ایک خصوصی نوٹ کے ساتھ اِسے نقل کیا اور یہ بھی لکھا کہ بی بی سی اردو سروس کی اِس بارے میں رپورٹ سے جو نکتے واضح نہیں ہوسکے، اِس کالم سے اُس کی وضاحت ہوگئی ہے۔ ناصرکمال کی نظر سے دعوت کا یہ نوٹ اور میرا کالم گزرا تو بہت پُرجوش طریقے پر مجھے مبارکباد دی، اتفاق سے میں دعوت کے مذکورہ شمارے کو دیکھ نہیں سکا تھا۔ اُن کی مبارکباد کے پس منظر کو سمجھنے میں مجھے دِقّت ہوئی، جب دعوت کا یہ شمارہ نظر سے گزرا تو دوسرے دن میں نے اسمبلی میں اُن کا شکریہ ادا کیا، وہ برسوں کرانیکل، ہتواد، ہندوستان ٹائمز اور فری پریس جرنلس کے لئے وِدھان سبھا کی رپورٹنگ کرتے رہے، میرے تحریر خاکوں کا دوسرا مجموعہ ’سورج چاند ستارے‘ کی تقریب اجرا انجام پائی تو اُس کی تفصیلی رپورٹ اُنھوں نے ہندوستان ٹائمز میں مع تصویر کے اُسی دن شائع کردی، جبکہ روزنامہ’ندیم‘ میں یہ کافی تاخیر سے آسکی، وہ بڑے اچھے انشائیہ نگار تھے، ’آفتابِ جدید‘میں اُن کی تحریروں نے کافی دھوم مچائی لیکن بعد میں پیشہ ورانہ مصروفیت کی بناء پر یہ سلسلہ جاری نہ رکھ سکے، ’ندیم‘ خاندان سے بھی اُن کے گہرے مراسم تھے، جب بھی ضرورت پیش آتی عارف حسن صاحب انھیں بلا لیتے اور وہ سر کے بل چلے آتے، اُن کے اندر اپنا نام یا حیثیت منوانے کا ذرا بھی جذبہ نہیں تھا۔میرے ساتھ تو ناصر کمال کا رویہ شروع سے چھوٹے بھائی کی طرح رہا، میری کئی کتابوں پر اُنھوں نے فری پریس جنرل اور ’ہندوستان ٹائمز‘ میں تبصرے کئے، ایسے ہی ایک تبصرہ کے بعد ’ٹیلی گراف‘ کلکتہ کے نمائندے مسٹر پرویز نے ملاقات پر مجھ سے کہا کہ عارف صاحب ہم نے آپ کو جیسا دیکھا اور پایا ناصر کمال نے اُس کی ہوبہو تصویر کھینچ دی ہے۔  

انتقال سے دو سال پہلے ناصر کمال سفرِ حج پر جارہے تھے تو میرا سفر نامہ ’مسافرِ حج‘ ساتھ لیکر گئے، واپسی پر انھوں نے دوبارہ فری پریس جنرل جوائن کرلیا تھا، اِس کا آفس ’ندیم‘ کے قریب واقع ہے، اکثر مغرب کی نماز میں ہماری ملاقات ہوجاتی تو ہم ایک دوسرے کی خیریت معلوم کرلیتے ، اُنھوں نے میری کتاب ’مساجدِ بھوپال‘کی ایک جلد پاکستان کے کسی عزیز کے لئے مجھ سے مانگی تھی، کہنے لگے کہ میرے گھر آکر لے جائیں گے، لیکن وہ نہیں آئے، آج بھی ’مساجدِ بھوپال‘ کی یہ کاپی رکھی ہوئی ہے، اور میں منتظر تھا کہ ممبئی سے لوٹیں گے تو اِسے لیجائیں گے، دل اِس تصور سے ہول کھاتا ہے کہ یہ انتظار اب کبھی ختم نہیں ہوگا۔

انتقال سے کچھ دن پہلے استادِ محترم پروفیسر آفاق احمد نے بتایاتھا کہ ’ٹائمز آف انڈیا‘ کے بھوپال سے شائع ہونے والے ایڈیشن کی تیاری کے لئے ناصر کمال آج کل ممبئی میں مقیم ہیں۔ میں چاہتا تھا کہ اُنہیں فون کرکے مبارکباد دوں لیکن بروقت یہ خواہش پوری نہیں ہوسکی، اِس عرصے میں میری آنکھ کا آپریشن پورا ہوا تو مزید تاخیر ہوتی رہی جب ان کے انتقال کی خبر ملی تو میرے اعصاب پر بجلی بن کر گری ، کافی دیر تک ذہن اِسے قبول کرنے کو تیار نہیں تھا، لیکن حقیقت کو تسلیم کرنے کے سوا کوئی چارہ بھی تو نہیں تھا، دل بار بار کہتا کہ ناصر کمال جیسا مخلص، بااخلاق دوست اب کہاں ملے گا، حسنات صدیقی مرحوم کے بعد اہلِ بھوپال نے ایک اور باصلاحیت صحافی کھودیا ، یہ دونوں اردو انگریزی دونوں زبانوں پر یکساں عبور رکھتے تھے اور صحافت کے شعبہ میں احترام کی نظر سے دیکھے جاتے تھے۔ (یو این این

 

***********************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 569