donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ashfaqur Rahman Sharar
Title :
   Khwateen Ke Liye Mashale Raah Mohtarma Asma Choudhry

خواتین کے لئے مشعل راہ محترمہ اسماء چودھری

 

از قلم اشفاق الرحمن شررؔ  مئو ناتھ بھنجن، یو۔پی۔ 

حال مقیم جدہ، سعودی عربیہ

Mob. +966540032857 

(Email: sharar68@gmail.com)


    دنیا میں مردوں کے بنائے اس سماج میں خواتین کو کمزور، مظلوم، محکوم، کم عقل ، مجبور اور یہاں تک کہ عملی طور پر دوسرے درجہ کا شہری سمجھا جاتا ہے۔ دنیا بھرمیں حقوق نسواں اور آزادی نسواں کے نعرے تو بلند کئے جاتے ہیں لیکن عملی طور پر اسکا اثر نہیں دکھائی دیتا۔ نہ تو خواتین کو ان کا حق ملتا ہے، نہ انھیں معقول آزادی ہے اور نہ ہی وہ محفوظ ہیں۔ عام طور سے خواتین حالات اور ماحول سے سمجھوتا کر لینا ہی مناسب سمجھتی ہیں اور خودکو محکوم سمجھتے ہوئے زندگی گذار دیتی ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ پہلے کے مقابلہ حالات میں کافی تبدیلی آئی ہے آج خواتین اپنے حقوق اور ذمہ داریوں کے لئے بیدار ہو رہی ہیں، تعلیم کے میدان میں آگے بڑھ رہی ہیں، زندگی کے ہر شعبہ میں ان کی حصہ داری بڑھ رہی ہے لیکن اب بھی مردوں سے بہت پیچھے ہیں۔ لڑکیاتعلیم حاصل تو کرتی ہیں لیکن مختلف وجوہات کے سبب کسی مقام کو نہیں پہونچ سکتیں۔ انھیں میں کچھ خواتین ایسی بھی ہیںجو حالات سے سمجھوتا نہیں کرتیں بلکہ حالات کا مقابلہ کرتی ہوئی اس مقام پر پہونچ جاتی ہیں کہ نسلوں کے لئے مثال بنتی ہیں۔ انھیں میں ایک نام اسماء چودھری کا ہے جو ملک سے باہر برطانیہ میں رہ کر نہ صرف بھارت کا نام روشن کر رہی ہیں بلکہ لڑکیوں کے لئے ایک مشعل راہ بھی ہیں۔ بھارت کی ریاست پنجاب کے جالندھر سے تعلق رکھنے والے سردار احمد چودھری گریجوئیشن تعلیم یافتہ برطانیہ شہر میں اکائونٹنٹ کے طور پر ملازمت کرتے تھے پھر انھوں نے ملازمت کے ساتھ کاروں اور پراپرٹی کا اپنا کاروبار بھی شروع کیا جس میں کامیاب رہے۔ 19؍ فروری 1987 کو سردار احمد کے آگن میں حمیدہ بیگم کی گود میں ایک ننھا پودا کھلا جو آج تناور درخت بن چکا ہے جس کے سائے اور سہانی ہوا سے مظلوم و لاچار اور مسائل سے دو چار مردو خواتین مستفیض ہو رہے ہیں جسے دنیا اسماء چودھری کے نام سے جانتی ہے۔ اسماء چودھری کی صلاحیت اور خدمات کو دیکھ کر میں متاثر ہوئے بنا نہیں رہ سکا اور ان کی خدمات کا اعتراف کرتے ہوئے اس بات کی ضرورت محسوس ہوئی کہ اسماء چودھری کے بارے میں کچھ لکھا جائے تا کہ ہمارے قوم کی زیرتعلیم بچیوں کے اندر اسپرٹ پیدا ہو اور انکا حوصلہ مضبوط ہو سکے انھیں اس بات کا احساس ہو کہ کوئی منزل غیر ممکن نہیں اگر حالات کا مقابلہ کیا جائے تو منزل تک پہونچا جا سکتا ہے۔ یوں تو اسماء چودھری سے سوشل میڈیا کے ذریعہ میرے روابط سالوں پرانے ہیں میں ان کو بہت عزیز رکھتا ہوں اور وہ بھی میری عزت کرتی ہیںتقریباً چھ سال پرانے تعلقات میں خوشگوار تجربات رہے، ان کی تخلیقات اور ادبی سرگرمیوں سے واقف تھا لیکن شخصیت کے بارے میں کوئی معلومات نہیں تھی اور نہ ہی کبھی اس کی ضرورت محسوس ہوئی لیکن جب خیال آیا کہ اسماء کی شخصیت کے بارے میں کچھ لکھا جائے تو ان سے رابطہ کیا اور ضروری معلومات طلب کیا حسب توقع اسماء نے مکمل تعاون کیا جس کے نتیجہ کے طور پر قوم کی بہنوں اور بیٹیوں کے لئے کچھ لکھنے کی کوشش کر رہا ہوں۔

                     
    اسماء چودھری بچپن سے ہی ذہین رہیں دوران طالب علمی کلاسیز میں نمایاں رہیںبقول اسماء وہ بچپن سے ہی بحث و مباحثہ کرتیں، کسی بھی بات کو بہ آسانی مان لینا ان کی عادت نہیں تھی بلکہ مدلل بحث ان کی عادت تھی اس عادت کو دیکھتے ہوئے ان کے والد کے دوست اور ان کے استاد کہا کرتے تھے کہ بڑی ہوکر وکیل بنے گی اور ہوا بھی یہی گریجوئیشن مکمل کرنے کے بعد اسماء نے نیو کاسٹل یونیورسٹی برطانیہ سے ایل ایل بی کیا۔ دوران طالب علمی نصابی اور کلچرل پروگراموں میں بہت سے انعامات حاصل کئے۔ اسماء نے بہت جگہوں پر عارضی ملازمت کی خود دار ذہنیت اورلاجکل گفتگو کی وجہ سے کہیں بھی زیادہ دنوں تک ٹک نہ سکیں۔ بہ زبان اسماء ’’میں کسی کے لئے مسلسل جاب نہیں کرسکتی تھی نہ کرنا چاہتی تھی کیونکہ جتنا بھی کام کرو لوگ آپ کی اچھائیوں کو کم سراہتے ہیں لیکن تنقید فوراً کرتے ہیں‘‘۔ اسماء نے ناٹنگھم میں ’کامیابی‘ نامی ایشین کمیونٹی سینٹر میں ملازمت کیا جسے وہ اپنی کامیابی کی بنیاد مانتی ہیں۔اس کمیونٹی سینٹر میں اسماء نے ان ایشیائی خواتین کی رہنمائی کی جن کی شادیاں ناکام ہوئیں یا کوئی اور مسائل درپیش ہوں اسی کے ساتھ وہ ان کی انگریزی زبان کی معلمہ بھی رہیں۔ایشیائی ملکوں کا کوئی بھی تہوار ہوتا تو اس کے جشن منعقد کرنے کی ذمہ داری اسماء پر ہوتی اور وہ اسے بڑی خوبی کے ساتھ ادا کرتیں۔ 2007 میں یوم عالمی یوم خواتین پر اسماء کو کمیونٹی ایوارڈ سے نوازا گیااس کے علاوہ ’Motivational Speaker ‘ اور بہترین معلمہ کے ایوارڈ سے بھی نوازا گیا۔ 2008 میں اسماء کو ایف ایم 87.7 چینل کے لئے تکنیکی معاونت کا موقع ملا ساتھ ہی اواز کا آڈیشن بھی لیا گیانیز اسکرپٹ بھی لکھنے کی فرمائش ہوئی ا سی دن ایک اسلامی پروگرام’ نو ر نسائ‘ کی میزبانی بھی مل گئی جو پیر کے روز دن میں گیارہ بجے پیش کیا جاتا تھا۔ اسطرح اسماء نے میڈیا کے سفر کا آغاز کیا اسکے بعدبی بی سی ریڈیو شیفلڈ کے لئے درخواست دی،جہاں پر نیوز ریڈر،نیوز ٹرانسلیٹراورنیوز ریسرچر کی حثیت سے سائوتھ یارک شائر کیمقامی خبریں نشر کیا۔ خود سے خبریں جمع کرتیں اور مختلف ذرائع سے انگریزی میں موصول ہونے والی خبروں کو اردو میں ترجمہ کر کے انھیں نشر کرتی تھیں۔مقامی خبروں کا آئیڈیا بھی اسماء کا اپنا تھا اور اسکی ذمہ داری بھی انھیں کی تھی۔ بی بی سی جیسے بڑے ادار ے کے سخت ضوابط کا خیال رکھتے ہوئے انھوں نے اپنی ذمی داری بخوبی نبھاتے ہوئے بی بی سی کی مقامی خبریں پیش کرنے والی پہلی نیوز ریڈر اور ریسرچر بنیں ۔ اس کے ساتھ ہی ڈراما لکھنا، انٹرویو لینا، اسلامی سوز وغیرہ کی میزبانی جیسے کئی فیلڈ میں کامیابی کے جھنڈے گاڑے۔پھر بی بی سی کے لئے ماڈرن ہیر رانجھا عنوان سے ایک اردو ڈرامہ لکھاجس کی ڈائریکٹراور پروڈیوسر کی ذمہ داری اسماء نے ہی نبھائی نیز ہیر کا مرکزی رول بھی خود ہی ادا کیا۔ یہ ڈرامہ 25 قسطوں پر مشتمل تھا اور ہفتہ میں ایک روز اتوار کو نشر کیا جاتا تھا جو کافی مقبول رہا اور دوبارہ بھی نشر ہوا۔اور تیسری بار ایشین لائیو ریڈیو پر نشر کیا گیا۔ اس طرح اسماء چودھری کو بی بی سی ریڈیو کی پہلی لوکل اردو نیوز ریڈر کے ساتھ بی بی سی ریڈیو کی پہلی ڈرامہ رائٹر کا بھی اعزاز حاصل ہوا۔میڈیا کے سفرپر اسماء آگے بڑھتی رہیں اور 2013 میں  ایشین ریڈیو لائیو جوائن کرلیا۔یہاں پر بھی ہر نوعیت کا شو کرتی ہیں جس میںغزل نائٹ،کلا سیکل شو، پوئٹری،ٹاک شو،میوزیکل اور اسلامی شوز شامل ہیں۔ایشین ریڈیو کے مشہورومعروف اور کامیاب پروگرام ’موجِ بہاراں وِد اسمائ‘ کی میزبان ہیں۔ اسماء چودھری پرنٹ میڈیا میں بھی نمایاں حیثیت کی مالک ہیں بین الاقوامی اردو روزنامہ 'Daily Pukar International' (E-paper)  کی شیفلڈ، برطانیہ کی بیورو چیف ہونے کے ساتھ کالم نگاری بھی ہیں۔ اسماء چودھری ایک اچھی شاعرہ بھی ہیں جن کی غزلوں میںرومانی اشعار تو ہوتے ہی ہیں ان کے ساتھ معاشرہ میں بیداری، اپنی تہذیب کی بقائ، تعلیمی بیداری کے پیغامات بھی پائے جاتے ہیں دنیائے اسلام کی خستہ حالی کا کرب بھی ان کے اشعار میں ظاہر ہوتا ہے۔ اسماء صرف شاعرہ ہی نہیں وہ اچھی مضمون نگار بھی ڈرامہ رائٹر بھی ہیں انھوں نے بے شمار آرٹیکل بھی لکھا ہے اور اب بھی لکھ رہی ہیں اردو اور انگریزی میں ان کے ارٹیکل زیادہ ہیں جب کہ ہندی میں بھی کچھ تحریر کیں۔ انکے انگریزی میں لکھے ہوئے آرٹیکل ہڈرسفیلڈ یونیورسٹی کی میگزین میں شائع ہوتے تھے۔ یہ اسماء کے ادبی اور ثکافتی کارنامے  ہیں ان کی اصل راہ تو وکالت ہے وکالت میں گریجوئیشن کی ڈگری تو حاصل ہو چکی تھی تجربہ کے لئے انھوں نے2009 میں ایک لاء کمپنی جوائن کیا جہاں استقبالیہ پر ٹیلی فون ریسیو کرنا اور موکلوں کو ڈیل کرنانیز آفس کی صفائی اسماء کی ذمہ داریاں تھیں یہاں اسماء نے صرف تجربات حاصل کرنے کے لئے بلا تنخواہ کام کیا اور صرف تجربہ حاصل کرنے کی غرض سے متمول گھرانے کی لڑکی اور لاء گریجوئیٹ ہوتے ہوئے بھی آفس کی صفائی تک کی ذمہ داری قبول کی لیکن ان کا مقصد پورا ہوتا نہیں دکھائی دیا کیوں کی کمپیوٹر میں ڈاٹا پروٹیکشن کی وجہ سے وہ کسی بھی موکل کی کیس فائل نہیں دیکھ سکتی تھیں لہٰذابہت دنوں تک اپنی خدمات جاری نہیں سکیں اور ایک روز کچھ کہا سنی کے بعد آفس چھوڑ دیا۔ پہلے ہی ذکر کیا جا چکا ہے کہ اسماء بڑی خوددار قسم کی خاتون ہیں کہا سنی میں ان کے باس نے کچھ ایسے توہین آمیزجملے کہہ ڈالے جس سے  اسماء کواپنا ضمیر مجروح ہوتامحسوس ہوا اور جملہ اسماء کے دل پر لگاتو ’’تیرے گھر کے سامنے اک گھر بنائوں گی‘‘ کی طرز پر خود کی لاء کمپنی قائم کرنے کا چیلنج دے ڈالا۔ اس کے بعد لاء میں ماسٹر ڈگری کے لئے داخلہ کے لئے مختلف یونیورسٹیز میں درخواست گذاریں تین معروف یونیورسٹیز ڈربی یونیورسٹی،شیفلڈ یونیورسٹی اور ہڈرسفیلڈیونیورسٹی (Huddersfiled University) میں داخلہ کے لئے منتخب ہوئیں  ہڈر سفیلڈ یونیورسٹی (Huddersfiled University) میں داخلہ لیا اسکی وجہ یہ تھی کہ اس میں ان کی پسند کے مضمون کامرشل لاء کا شعبہ ہے۔داخلہ سے قبل ان کا کنبہ ناٹنگھم سے شیفلڈمنتقل ہو چکا تھا۔کامرشیل لاء میں ماسٹر ڈگری حاصل کرنے کے بعد اسماء نے اپنا چیلنج پورا کرتے ہوئے رائل سالیسٹرز کے نام سے خود کی لاء کمپنی قائم کر لی۔ ایک خاص بات یہ ہے کہ اسماء چودھری ٹرینڈ بیوٹی آرٹسٹ بھی ہیں نیز انھیں موسیقی کا بھی شوق ہے اور موسیقی کی باقاعدہ طور پر تربیت بھی حاصل کر رہی ہیں۔ اسماء اپنی ملازمت،  پیشہ اور ادبی شوق کے ساتھ عوامی خدمت بھی کرتی ہیںایشیاء نزاد افراد کی جو برطانیہ میں مقیم ہیں ان کے ایمیگریشن، ویزا و دیگر قانونی مشورہ کے ذریہ مدد کرتی ہیں۔


    اس طرح واضح ہے کہ اسماء چودھری نے اپنی زندگی کا کوئی پل ضائع نہیں کیا بلکہ جو بھی وقت ملا اسے غنیمت جانا اور کچھ نہ کچھ سیکھنے یا کرنے میں استعمال کیا جس کی بدولت جواں عمری میں ہی وہ اس مقام پر پہونچ چکی ہیں کہ دیگر خواتین کے لئے مثال ہیں۔ برطانیہ جیسے ملک میں ایک خوشحال گھرانے میں پیدا ہونے لاء میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہونے کے باوجود اردو سے محبت اور دلچسپی ، اردو کی ترویج و اشاعت میں اہم کردارادا کرنا واقعی غیر معمولی بات ہے وہ بھی ایسے ماحول میں جہاں اردو جاننے والے بہت کم تعداد میں ہوں اور اردو سے کسی طرح کی ضرورت بھی پوری ہونے والی نہ ہو۔ یہ ان لوگوں کے لئے نصیحت بھی ہے جو بھارت میں رہ کر بھی جدید انگلس میڈیم تعلیم دلانے کے چکر میںاپنی اولاد کو اردو سے نا بلد رکھتے ہیں۔ ذرا سوچیں اسماء جیسی کسی لڑکی کو جو ذہین اور وکالت میں اعلیٰ تعلیم یافتہ ہو اسے برطانیہ میں اردو سے کیا کام لیکن انھوں نے یہ ثابت کر دکھایا کہ اردو ہماری اپنی زبان ہے اور ہمیں اس سے محبت ہے۔اپنی اردو سے دل چسپی اور اردو تعلیم کے بارے میں اسماء کا کہنا ہے کہ یہ انکی والدہ محترمہ حمیدہ بیگم کی محنت کا نتیجہ ہے۔ انھوں نے ہی اسماء کو اردو سکھایا اور اس خوبصورت طریقہ سے سکھایا کہ اسماء نے اردو کی خدمت کو اپنی زندگی کا ایک حصہ بنا لیا۔


    اسماء کے اندر جذبہ اور شوق تھا کہ خود کو نمایاں ثابت کروں دنیا میں اپنی الگ ایک پہچان بنائوں اس کے لئے انھوں نے اپنے میدان سے الگ ہٹ کر بھی کوششیں کیں۔ ورنہ صرف وکالت پر ہی ذہن مرکوزرکھتیں تو کون جانتا کہ اسماء بھی کوئی شخصیت ہے۔ برطانیہ میں بے شمار کامیاب وکیل اور لاء کمپنی موجود ہیں اسی بھیڑ میں اسماء بھی کہیں گم رہتیں لیکن انھوں نے اپنی پہچان بنانے کا عزم کرلیا تھا اورایک نمایاں مقام حاصل کرنے کے لئے ہر ممکن کوششیں کیں۔ ظاہر ہے سب کچھ سہل نہیں رہا ہوگا اپنے نصاب کا مطالعہ کرنے کے ساتھ فارغ وقت تفریح میں نہ لگا کر دوسرے مشاغل میں استعمال کرنا کوئی آسان کام نہیں۔لاء اور تاریخ جیسے خشک مضامین کے ساتھ ادب، میڈیا، موسیقی  اور بیوٹی آرٹ میں دل چسپی لینا اور کامیابی حاصل کرنا مشکل کام ہے لیکن اسماء چودھری نے یہ ثاب کر دکھایا ہے کہ اگر عزم مضبوط ہو تو کچھ بھی غیر ممکن نہیں۔ اسماء چودھری کا کہنا ہے کہ ہیلن کیلر (Hellen Keller) اور ڈاکٹر اسٹیفین ہاکنگ (Dr. Stephen Hawking)سے وہ بہت متاثر ہوئیںلیکن انکی اس مامیابی میں کسی کا کوئی ہاتھ نہیں بلکہ وہ جو کچھ بھی ہیں ان کی اپنی محنت اور لگن کی بدولت اور والدہ کی تربیت اور والد کی شفقت اور تعاون کا نتیجہ ہیں۔ اسماء اپنی کامیابی کے پیچھے ان لوگوں کا ہاتھ ضرور مانتی ہیں جو انکے مخالف رہے اور طرح طرح کی تنقیدیں اور طعنے دیتے رہے۔ ان کا کہنا ہے کہ ہر تنقید اور طعنے کے بعد ان کا عزم مزید مستحکم ہوتا اور کامیابی حاصل کرنے کا ایک جنون سا سوارا ہو گیا تھا۔ان کاکہنا ہے کہ کسی بھی شعبہ میں کامیابی کے لئے ضروری ہے کہ اسی کے پیچھے اپنی ہستی کو قربان کردو اپنی کوششوں میں اس حد تک کھو جائو کہ لوگ دیوانہ اور پاگل کہنے لگیں یہاں تک کہ لوگ تنقید اور طعنہ کشی کرنے لگیں پھر دیکھئے کس طرح کامیابی قدموں میں ہوگی۔ اسماء اس مقام پر پہونچنے کے لئے بہت دشوار مراحل سے گذریں ہیںلوگوں کے کڑوی باتیں برداشت کرنا، طعنے سہنا، دن رات محنت کرنا، اپنی ذاتی خواہشات، آرام قربان کرنا سب کچھ گوارا کیا۔ برطانیہ میں کسی ایشیاء نزاد کے لئے کامیابی کے اس مقام پر پہونچنا مشکل ترین کام ہے۔ یہ سچ ہے کہ اسماء ایک متمول گھرانے سے تعلق رکھتی ہیں ان کے سامنے پیسے کی کمی کا کوئی مسئلہ نہیں تھا لیکن دیار غیر میں سر اٹھا کر جینا اور مقامی لوگوں سے ٹکر لیکر ان کے برابری میں کھڑے ہونا کوئی معمولی بات نہیں۔ اپنی کامیابی کے سفرپر مسلسل آگے بڑھتے ہوئے اسماء نے اپنی تہذیب کا دامن کبھی نہیں چھوڑااور برطانیہ میں پیدا ہونے تعلیم حاصل کرنے اور ایک کامیاب مقام حاصل کرنے کے باوجود ان کے اوپر مغربی تہذیب حاوی نہیں ہوسکی ہے جو قابل ستائش بات ہے۔ اسماء کے جدو جہد اور کامیابی سے ہمارے قوم کی بیٹیوں اور بہنوں کو سبق حاصل کرتے ہوئے تنقیدوں اور طعنوں سے بے پرواہ ہو کر ایک نئے عزم و حوصلہ کے ساتھ اپنی منزل تک پہونچنے کی کوشش کرنی ہوگی ساتھ ہی اپنی تہذیبی پہچان بھی باقی رکھنی ہوگی تب جاکر ان کی کوئی پہچان بن سکے گی۔


**************************

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 754