donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ataul Haq Qasmi
Title :
   Ahmad Nadeem Qasmi

احمد ندیم قاسمی


عطا الحق قاسمی
 
 
یوں نہ آجائے۔ میں بھی انہی ’’یار لوگوں‘‘ میں سے ہوں اور یوں میرے لیے بھی اس انسان کی بڑائی کے اعتراف میں خاصی دشواری پیش آرہی ہے جواپنے حریفوں تک کی عظمت کے اعتراف سے باز نہیں آتا۔


بلکہ پیروں کے خانوادے کا فرد ہونے کی حیثیت سے تو انھیں کئی بار نیم جاں لوگوں پر بھی دم درود کرتے پایا گیا ہے۔ جب کہ سائیں منیر نیازی کا کہنا ہے کہ مردوں کو زندہ نہیں کرنا چاہیے۔ کیونکہ حضرت عیسیٰ علیہ السلام جن مردوں کو زندہ کرتے تھے، بعد میں وہی ان کے بیری ہو جاتے تھے۔


قاسمی صاحب اپنے کھچڑی بالوں کے باعث جتنے بزرگ نظر آتے ہیں، اتنے ہیں نہیں آپ انھیں قریب سے دیکھیں تو پتا چلے گا کہ ان میں نہ صرف جوانوں ایسا حسن پایا جاتا ہے بلکہ ان میں بچپن کی معصومیت بھی ابھی تک تروتازہ ہے، بس اتنا ہے کہ جہاں بزرگ بننا ہوتا ہے، بزرگ بن جاتے ہیں۔ جہاں جوان بننا ہوتا ہے جوانوں میں شامل ہو جاتے ہیں اور جب جی چاہتا ہے۔


اپنا بچپن واپس لے آتے ہیں۔ مثلاً کسی دور دراز شہر میں مشاعرہ ہے ہم پانچ چھ مبینہ نوجوان بھی وہاں مدعو ہیں لیکن اسٹیشن پر پہنچ کر جب ٹکٹیں لینے کا موقع آتا ہے تو اس وقت قاسمی صاحب فوراً بزرگ بن بیٹھتے ہیں اور روکنے کے باوجود ٹکٹیں خریدنے کے لیے کھڑکی تک پہنچ جاتے ہیں۔


ٹرین میں سفر کے دوران لطیفوں کا دور شروع ہوتا ہے تو ایسے ’’مقوی‘‘ لطیفے سناتے ہیں کہ ’’مایوس نوجوان‘‘ بھی اپنے اندر زندگی کی نئی لہر محسوس کرنے لگتے ہیں اور جب وقت گزاری کے لیے تاش کا سلسلہ شروع ہو جاتا ہے تو قاسمی صاحب وہ ’’روندیاں‘‘ مارتے ہیں کہ اپنا بچپن نظروں کے سامنے گھوم جاتا ہے۔


ان کی یہ معصومانہ حرکتیں مقام مشاعرہ پر پہنچ کر بھی جاری رہتی ہیں۔ چنانچہ مشاعرے کے اختتام پر وہاں رہائش کے لیے مختص کمرے میں کپڑے تبدیل کرتے وقت وہ ہمیں دکھائی نہ دینے والے ’’ڈولے‘‘ پہلوانوں کے انداز میں دکھاتے ہیں اور بچوں کی طرح معصوم ہنسی ہنستے ہیں۔


شاید یہی وجہ ہے کہ اگر انھیں کبھی ہم بھولے سے کہہ دیں کہ آپ ہمارے بزرگ ہیں تو وہ ہاتھ نچا کر کہتے ہیں بزرگ ہو گے تم، بزرگ ہوں گے تمھارے بزرگ، اور وہ ٹھیک ہی کہتے ہیں ان کی بزرگی ہم جوانوں کے لیے قابل رشک ہے۔وہ روزانہ صبح آٹھ بجے پکی ٹھٹھی میں واقع اپنے مکان سے پتلون کے دونوں پائنچے اوپر اٹھائے نکلتے ہیں،یہ اس لیے کہ پکی ٹھٹھی کی تمام سڑکیں کچی ہیں اور اگر کمزور مثانے والا ایک گھوڑا بھی ادھر سے گزر جائے تو وہاںہفتوں پانی جمع رہتا ہے۔


قاسمی صاحب چوک میں پہنچ کر تانگے کا انتظار کرتے ہیں اور پھر اس تانگے میں چوبرجی پہنچ کر مجلس ترقی ادب کے دفتر پہنچنے کے لیے رکشے کا انتظار شروع کر دیتے ہیں۔ پھر نو بجے سے دو بجے تک وہاں کام کرتے ہیں۔


ڈھائی تین بجے ’’فنون‘‘ کے دفتر پہنچتے ہیں اور وہاں ڈیڑھ دو گھنٹے بیٹھتے ہیں وہاں سے اٹھ کر نیلے گنبد کے چوک میں ایک معقول عرصہ رکشے کا انتظار کرنے کے بعد جب شام کو گھر پہنچتے ہیں تو ایک بار پھر لکھنے پڑھنے کے کام میں مشغول ہو جاتے ہیں۔ جس میں نظمیں، غزلیں، افسانے، ڈرامے اور تنقید نگاری کے علاوہ اخبار کا ڈیلی کالم بھی شامل ہے اور یہ سلسلہ رات گئے تک جاری رہتا ہے۔ ان سب کاموں کے ساتھ ساتھ وہ ایسے مشاعروں کی صدارت بھی کرتے ہیں جو بسا اوقات رات کے نو بجے شروع ہو کر صبح چار بجے محض اس لیے اختتام پذیر ہو جاتے ہیں کہ کوئی ادب دشمن قریبی تھانے میں امن عامہ میں خلل کی رپٹ درج کرا دیتا ہے۔


گھریلو ذمہ داریاں نبھانا اور احباب سے میل ملاقات اس کے علاوہ ہے۔ موضع انگہ تحصیل خوشاب میں اپنے قریبی یا دور کے عزیزوں کے غم اور خوشی میں شرکت کرنے کے لیے پگ اور لاچا پہنے آٹھ دس گھنٹے لاری کے ’’پاسے توڑ‘‘ ہچکولے کھانا بھی ان کا روز کا معمول بن چکا ہے یہ سلسلہ غالباً اس لیے چل رہا ہے کہ وہ خود پر کبھی وہ بزرگی طاری نہیں ہونے دیتے جو نوجوانوں کو بھی بُسے ہوئے کریلے جیسا بنا کر رکھ دیتی ہے۔


احمد ندیم قاسمی کے عشق میں مبتلا ہونے کی وجہ ان کی یہ دلکش اور دلربا شخصیت ہی نہیں کچھ اور بھی ہے وہ ایک نظریاتی فنکار ہیں جن کی تخلیقات میں نظریہ اور فن اک مک ہو کر سامنے آتے ہیں۔انھیں پڑھتے ہوئے ذہن کو آسودگی بھی ملتی ہے اور سوچ کے دروازے بھی وا ہوتے ہیں۔


وہ مالشیے شاعر یا افسانہ نگار نہیں ہیں کہ اپنے قاری کو محض چند لمحوں کی آسودگی بخشیں اور پھر تیل کی شیشی جیب میں ڈال کر گھر کو ہو لیں۔ وہ اقبال کے سلسلے کی ایک انتہائی اہم کڑی ہیں اور مجھے یہ کہنے میں کوئی باک نہیں کہ اقبال کے بعد وہ برصغیر پاک و ہند کے سب سے بڑے نظریاتی شاعرہیں۔


ان کی کومٹ منٹ (Commitment) پہلے دن سے عوام کے ساتھ ہے اور اس ضمن میں انھوں نے بڑی بڑی قربانیاں دی ہیں۔ خالد احمد کا کہنا ہے کہ ترقی پسند مقصد دوستی، عوام دوستی اور وطن دوستی کی تثلیث سے وجود میں آتی ہے۔


اس کی یہ بات یقینا درست ہے مگر میں اس میں ایک شق انسان دوستی کا اضافہ بھی کرنا چاہتا ہوں کیونکہ میرے نزدیک ترقی پسند کی مکمل اور عملی صورت احمد ندیم قاسمی کی صورت میں ابھرتی ہے اور ندیم صاحب جہاں وطن دوست ہیں، عوام دوست ہیں اور مقصد دوست ہیں وہاں ان کی نظم اور نثر میں دنیا کے سبھی خطوں کے انسانوں کے لیے ایک غیر مشروط محبت بھی جھلکتی ہے کیونکہ وہ انسانوں کو بنیادی طور پر ایک قابل محبت مخلوق تصور کرتے ہیں۔


اور ہاں اس ذکر سے یاد آیا کہ میری عمر اس وقت چونتیس برس ہے چنانچہ محبت کے ضمن میں میرا تیس سالہ تجربہ یہ ہے کہ محبت کرنا آسان ہے۔ محبت کی اداکاری مشکل ہے میں نے احمد ندیم قاسمی کو افسانوں اور شعروں کے علاوہ عام زندگی میں بھی لوگوں سے محبت کرتے دیکھا تو یہ ٹوہ لگانے کی کوشش کی کہ وہ کہیں محبت کی بجائے محبت کی اداکاری تو نہیں کرتے؟


جیسا کہ میں نے ابھی کہا محبت کرنا آسان اور محبت کی اداکاری مشکل ہے۔ کیونکہ محبت میں انسان پہاڑوں کا سینہ چیر دیتا ہے اور اسے یہ کام قلمی آم کاٹنے کے برابر محسوس ہوتا ہے۔ اور میں نے دیکھا کہ ندیم صاحب محبت کرتے ہیںاور یہ ان کی مجبوری ہے۔ کیونکہ ان کی مصروفیات اتنی زیادہ ہیں کہ وہ اداکاری نہیں کر سکتے۔


میں اس فیصلے پر ایک دن میں نہیں پہنچا، بلکہ پے درپے مشاہدات نے میری انگلی پکڑ کر مجھے اس نتیجے پر پہنچا دیا۔ باقی باتیں چھوڑیں میں نے ندیم صاحب کی محبت کا ایک رخ اور بھی دیکھا ہے۔ اس کی اس محبت کا ہدف وہ نئے لکھنے والے بنتے ہیںجن کے تخلیقی جوہر کے ضمن میں ندیم صاحب کو کوئی شبہ نہیں۔


میں نے یہاں ہدف کا لفظ اس لیے استعمال کیا ہے کہ ندیم صاحب لٹھ لے کر ان کے ’’دوالے‘‘ ہو جاتے ہیں۔ اور ان سے ہر ماہ ’’بنوک شمشیر‘‘ کچھ نہ کچھ لکھوا لیتے ہیں۔ اس واقعہ کی سنگینی کا مزید اندازہ آپ کو اس صورت میں ہو سکتا ہے اگر آپ کو کسی رسالے کے ایڈیٹر بلکہ ایک بڑے رسالے کے بڑے ایڈیٹر کی انا کا اندازہ ہو اور اس واقعہ کی لذت سے آپ اس صورت میں ہمکنار ہو سکتے ہیں جب یہ ایڈیٹر نہ صرف یہ کہ بقلم خود آپ سے اپنے پرچے کے لیے کوئی چیز مانگے بلکہ دس آدمیوں کی موجودگی میں کچھ اس انداز سے طلب کرے کہ آپ کی اپنی انا پھول کر غبارہ بن جائے۔


تو معاملہ یہ ہے کہ ندیم صاحب نوجوانوں کے ساتھ کچھ ایسا ہی سلوک کرتے ہیں بلکہ کئی بار تو ایسا ہوا ہے کہ ’’فنون‘‘ کی کاپیاں پریس جانے کے لیے تیار پڑی ہیں مگر پریس اس لیے نہیں بھجوائی جارہیں کہ ایک نوجوان کی تازہ تخلیق کا انتظار ہے۔


وہ اپنی مصروفیات کی بنا پر بصد ادب معذرت کرتا ہے تو ندیم صاحب کہتے ہیں ’’آپ کو جب فرصت ہو لکھ بھیجئے فنون بہرحال اتنی دیر تک شائع نہ ہو گا۔‘‘ ظاہر ہے اس جواب پر اسے شرموں شرمی ہڈ حرامی چھوڑنا ہی پڑتی ہے۔ جس کا نتیجہ یہ نکلتا ہے کہ ہر سال نوجوان تخلیق کاروں کی ایک کھیپ تیار ہوتی ہے جو آگے چل کر اردو ادب کی آبرو ثابت ہوتی ہے۔


یہ محبت خاصی گنجلک اور پیچیدہ چیز ہے کبھی تو سمٹ کر ایک نقطے پر مرتکز ہو جاتی ہے اور کبھی پھیل کر کائنات کی وسعتوں پر حاوی ہوتی دکھائی ہے۔ ندیم صاحب کی محبت خاصی توسیع پسندانہ ہے اور وہ محبت کرتے کرتے اس ملک کے کروڑوں بھوکے ننگے عوام سے محبت کرنے لگتے ہیں۔


جب انھیں اس کے باوجود سیری نہیں ہوتی تو دنیا بھر کے پسے ہوئے طبقوں پر اپنی محبت کا سایہ کر دیتے ہیں۔ ندیم وہ بلند و بالا مینار ہے جہاں سے محبت کی اذان بلند ہوتی ہے اور دکھی دلوں میں اترتی چلی جاتی ہے۔


لیکن میں نے ندیم صاحب کو کئی مواقع پر محبت چھوڑ مروت سے بھی دستبردارہوتے دیکھا ہے اور خاصا حیران ہوا ہوں۔مثالیں تو اور بھی بہت سی ہیں، لیکن مجھے ایک حالیہ واقعہ یاد آگیا ہے،پہلے وہ بیان کر لوں۔گزشتہ دنوں ادیبوں کا ایک وفد ’’روس یاترا‘‘ کے لیے ترتیب دیا گیا جس کے لیڈر سندھ کے ایک شاعر تھے جو قومی حلقوں میں خاصے متنازع ہیں۔


ندیم صاحب کو بھی اس وفد میں شمولیت کی دعوت دی گئی۔ مگر ندیم صاحب نے انکار کردیا۔ وجہ اس کی انھوں نے یہ بیان کی کہ ایک پاکستانی کی حیثیت سے مجھے ان کے نظریات سے اختلافات ہیں۔ چنانچہ وفد کے سربراہ کی حیثیت سے وہ روس میں جو کچھ کہیں گے اگر میں وہاں اس کی تردید کرتا ہوں تو یہ ضوابط کی خلاف ورزی ہو گی اور اگر میں خاموش رہوں تو اپنے نظریات کے ساتھ غداری کروں گا۔


ندیم صاحب کی اس حرکت پر میںخاصا حیران ہوا تھا کیونکہ ایک تو وہ یہاں اپنی محبت کے رویے سے دستکش ہو گئے تھے اور دوسرے انھوں نے بیٹھے بٹھائے روس کی مفت سیر کا زریں موقع گنوا دیا۔


حالانکہ ہمارے ہاں اگر کسی کو غیر ملکی دورے کی پیش کش کی جائے اور اس کے ساتھ یہ شرط عاید کی جائے کہ اس کو ایک گھنٹے تک بکری بن کر کان توپکڑنا ہوں گے تو وہ ہنسی خوشی یہ شرط قبول کر لے گا بلکہ ہم نے تو یہ بھی دیکھا ہے کہ وہ دانشور اگرچہ مقررہ مدت کے بعد کان چھوڑ دیتا ہے مگر ہمیشہ ہمیشہ کے لیے بکری ہو جاتا ہے۔


لیکن ندیم صاحب ایسی ترغیبات سے ایک دفعہ نہیں بے شمار دفعہ گزرے ہیں اور ایسے مواقع پر انھوں نے محبت سے اعلان لاتعلقی کر کے آنکھیں ماتھے پر رکھ لی ہیں۔ ایسا ہی ایک موقع اس وقت بھی آیا تھا جب ایک بھارتی ادیب جن کی تمام عمر پاکستان دشمنی میں بسر ہوئی تھی اور جن کے ندیم صاحب کے ساتھ دیرینہ تعلقات تھے،فوت ہوئے۔


مجھے یاد ہے ’’فنون‘‘ میں ان کے بارے میں جو کچھ چھپا وہ پڑھ کر میں ایک بار پھر حیران ہوا تھا لیکن اس کے بعد میں نے حیران ہونا چھوڑ دیا۔ میں نے یہ جان لیا کہ ندیم کا عہد وفا مظلوموں سے ہے ظالموں سے نہیں۔


ندیم صاحب کو میں نے ورزاء اور حکام کے ساتھ بھی بڑا عجیب طرز عمل اختیار کرتے دیکھا ہے۔ کئی تقریبات میں ایسے ہوا ہے کہ ایک سے ایک بڑا دانشور محفل میں  بوجود وزیر صاحب کے ہاتھ چومنے کے لیے بے تاب نظر آرہا ہے۔ لیکن ندیم صاحب اس کی طرف کنڈ کیے بیٹھے ہیں حتیٰ کہ میں نے دیکھا کہ وہ اپنی جگہ سے اٹھ کر خود ان کے پاس آیا ہے اور بڑی گرم جوشی سے مصافحہ کیا ہے اور پھر ان کے برابر میں بیٹھ گیا ہے۔ ندیم صاحب کے چہرے پر ان کی دل موہ لینے والی مسکراہٹ نمودارہوتی ہے۔


وہ پوچھتے ہیں ’’کیا حال ہے؟‘‘ اور اس ایک جملے کے بعد اس کی طرف سے یکسر غافل ہو کر قریب بیٹھے ہوئے کسی تھن ٹٹ ادیب سے مصروف گفتگو ہو جاتے ہیں۔ یہ منظر میں نے ایک دفعہ نہیں کئی دفعہ دیکھا ہے اور ہر بار دل میں کہا ہے کہ ’’ہدایت اللہ!


تیں ترقی نہیں کر سکدا‘‘۔سو میری عمر اس وقت چونتیس برس ہے اور محبت کے ضمن میں میرا تیس سالہ تجربہ یہ ہے کہ محبت کرنا آسان ہے۔ محبت کی اداکاری مشکل ہے۔ وزیروں کی طرف کنڈ کر کے بیٹھنے والے ندیم صاحب بہت مصروف آدمی ہیں۔ ان کے پاس واقعی اداکاری کے لیے وقت نہیں ہے۔


جہاں تک اداکاری کا تعلق ہے۔ میں نے جاگیردار شاعروں کو شاعر انقلاب کہلاتے،بیوروکریٹ شاعروں کو عوام کی باتیںکرتے اور مزدوروں کسانوں کی حالت زار پر ٹسوے بہاتے دیکھا ہے۔ اور کچھ نہیں دیکھا تو وہ خلوص ہے جو ان کے عمل میں نظر آنا چاہیے تھا۔خدا کا شکر ہے کہ میں نے ندیم صاحب کو صرف پڑھا ہی نہیں، قریب سے دیکھا بھی ہے۔ ورنہ میں انھیں بھی اس گروہ میں شامل سمجھتا جو رات کو غرق مئے ناب ہوتے ہیں اور دن کو مزدوروں کے غم میں غلطاں نظر آتے ہیں۔


میں نے اگر کچھ دیکھا تو یہ کہ ندیم صاحب کے پاس ایک مفلوک الحال ادیب آتا ہے اور انھیں مفلوک الحال کر کے چلا جاتا ہے۔ پھر اگلے روز وہ ٹی ہائوس میں بیٹھا انھیں گالیاں دے رہا ہوتا ہے۔ جیسا کہ میں نے ابھی کہا کہ ندیم صاحب کے احباب اور نیاز مندوں میں بڑے بڑے وزیر سفیر بھی شامل ہیں، مگر ندیم صاحب انھیں کبھی اس گرمجوشی سے نہیں ملے جس گرمجوشی سے وہ لکھاری دوستوں کو ملتے ہیں، جن سے انھیں ’’فنون‘‘ کے لیے نظموں، غزلوں اور افسانوں کے انبار کے سوا کچھ حاصل نہیں ہو سکتا۔


صرف یہی نہیں بلکہ ہم لوگوںنے برصغیر کی اس عظیم ادبی شخصیت کے ساتھ اسٹیشن کے ٹی سٹال پر کھڑے ہو کر بیس پیسے کپ والی چائے پی ہے۔ ایک تنگ و تاریک گلی کے ایک غلیظ ہوٹل میں تنگ دامانی کے شکار بنچ کے کونے پر بیٹھ کر انھوں نے ہمارے ساتھ سموسے بھی کھائے ہیں۔


لوگوں نے انھیں مزدوروں کے جلوس میں ’’فلق شگاف‘‘ نعرے لگاتے بھی دیکھا ہے۔ اور تحریک پاکستان میں عوام کے ہجوم کے مابین انھیں نظمیں سناتے بلکہ گاتے بھی پایا ہے۔
عوام کے ساتھ ان کا اتنا گہ

را رابطہ دیکھ کر ہی مجھے یہ بات سمجھ میں آئی کہ وہ خود کو ’’سکہ بند‘‘ انقلابی کہلانے پر ضد کیوں نہیں کرتے شاید۔اس لیے کہ ان میں سے بیشتر کا منہ ’’سکوں‘‘سے بالآخر ’’بند‘‘ ہو جاتا ہے اور پھر عوام کے ساتھ ان کا وہی تعلق باقی رہ جاتا ہے جسے عرف عام میں ناجائز تعلق کہا جاتا ہے۔


میں باتوں باتوں میں آپ کو یہ بتانا تو بھول ہی گیا کہ احمد ندیم قاسمی اور مجھ میں نسبی لحاظ سے صرف ’’قاسمی‘‘ ہونا ہی مشترک نہیں بلکہ اس کے علاوہ یہ کہ وہ بھی پیرزادے ہیں اور میں بھی پیرزادہ ہوں،وہ بھی علماء کے خاندان سے تعلق رکھتے ہیں اور میں بھی علماء کے خاندان کا آخری چشم و چراغ ہوں۔ میر تقی میر نے کہا تھا:


؎ اس باغ کے ہر گل سے چپک جاتی ہیں آنکھیں
مشکل ہے پڑی آن کے صاحب نظروں کو


اور اس میں کیا شبہ ہے کہ ’’قاسمیوں‘‘ میں ایک قدر مشترک صاحب نظر ہونا بھی ہے خواہ وہ احمد ندیم قاسمی ہوں یا عطاء الحق قاسمی۔چنانچہ اس باغ کے ہر ’’گل‘‘ سے ان قاسمی حضرات کی آنکھیں چپک کر رہ جاتی ہیں۔تاہم احمد ندیم قاسمی کا کمال یہ ہے کہ ایسے مواقع پر انھوں نے کبھی خود کو مشکل میں محسوس نہیں کیا یا پھر یہ کہ ظاہر نہیں ہونے دیا۔ اس ضمن میں تو ایک واقعہ کا عینی شاہد بھی ہوں۔


قاسمی صاحب ایک روز رکشہ نہ ملنے کی صورت میں میرے ساتھ سکوٹر پر بیٹھے تھے اور میں اس روز حفاظتی اقدامات کے تحت اس باغ کے ہر ’’گل‘‘ سے نظریں بچاتا ہوا سیدھا تک دیکھ رہا تھا کہ اچانک قاسمی صاحب گفتگو کرتے کرتے خاموش ہو گئے اور پھر تھوڑی دیر بعد انھوں نے دھیمی دھیمی سی آواز میں ’’سبحان اللہ‘‘ کہا۔میں نے اس پر حیران ہو کر دائیں بائیں نظر دوڑائی تو اردگرد سوائے انتہائی خوبصورت چہرے کے اور کوئی چیز ’’سبحان اللہ آور‘‘ نہیں تھی۔


بس قاسمی صاحب کی ساری رنگین مزاجی خوبصورت چہروں کو دیکھ کر اس ایک ’’سبحان اللہ‘‘ تک ہی محدود ہے۔ چنانچہ بڑے قاسمی اور چھوٹے قاسمی میں اگر کوئی فرق ہے تو وہ یہ ہے کہ ایسے مواقع پر وہ محض ’’سبحان اللہ‘‘ کہہ کر خاموش ہو جاتے ہیں جب کہ میں ’’انشاء اللہ‘‘ بھی کہتا ہوں۔


٭٭٭
 

Comments


Login

You are Visitor Number : 846