donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Ayeni Neyazi
Title :
   Aye Hameed Main jata hoon Dil ko tere pas chhorh kar

 

 اے حمید  ۔۔ میں جا تا ہوں دل کو ترے پاس چھوڑ کر
 
 عینی نیازی
 
کہنے کو تو بر صغیر پاک و ہند میںکئی  بڑے نامور نا ول نگار، ڈر امہ نگار، انشا پرداز،کالم نویس اور خاکہ نگارپیدا ہو ئے جنھوں نے اپنے مقدور بھر اردو ادب کے علمی خزانے میںاضافہ کیا مگران میں ایک نام ایسا بھی ہے جسے اگر اردو ادب سے نکال دیا جا ئے تو اس خزانے میں ادھورا پن اورتشنگی محسوس ہوگی جی ہاں! اے حمید ہما ری اردو ادب کا وہ درخشندہ ستا رہ ہیں جنھیںاردو پڑھنے وا لے کبھی فر اموش نہ کر سکیں گے اردو نثر نگا ری کو اوڑھنا بچھو نا بنا نے وا لے اس بڑے ادیب نے بھارت کے شہر امر تسر میں 1928ء کو جنم لیا میٹرک اپنے آبا ئی وطن سے کیا پھرنو زائیدہ پا کستان کے شہرلا ہورکا رخ کیا پرائیوٹ ایف اے کا امتحان پاس کیا 1949ء میں اپنا پہلاافسا نہ ’منزل منزل، تحریرکیا اور ادبی دنیا  میں را توں رات مقبو ل ہوئے ریڈیو پاکستان میںا سٹنٹ ایڈ یٹرمقر رہو ئے کچھ عر صے براڈ کا سٹر کی ملا زمت کے بعد نوکری کو خیر آباد کہا اور وا ئس آف امریکہ سے منسلک ہو گئی۔ اے ھمید کی شخصیت کے با رے میں احمدندیم قاسمی فر ماتے ہین ’’ اے حمید سے جوملتا اس سے پیا رکرنے لگتا اس کی شخصیت  میں پیارکی اتنی گنجا ئش ہے کہ اگر کہیںکو ئی ایک آدھ خا می ہے بھی تو پیا ر کے پھولوں سے ڈھکی رہتی ہی،، ان کا شما ر تر قی پسند ادیبوں میں ہو تا ہے ان کی ناول نو یسی، خا کہ نگا ری،مختصرکہا نیاں، اورڈرا مہ نگا ری قا ری کو اپنے سحر میں جکڑ لیتی ہیں انھون نی00 کے قر یب نا ول لکھے ان کی کہٓا نیوںمیں تا ریخ ما ضی کی کہانیوں میں کھو جا نا اور اس منظر نا مے میں قا ری کو بھی شا مل کر لینا بہت نما یاں ہے قاری پر ان کا چیزوںکو دیکھنے کا مشا ہدہ ، رو مانی نقطہ نظر، مہم جو ئی،اور یاد نگاری کا مضبوط بیا نیہ تحریر ایسی خو بیاں ہیں جنھیںکبھی فراموش نہیں کیا جا سکتا قاری محسوس کر تا ہے کہ وہ بھی مصنف کے سا تھ ساتھ محوسفر ہے جس طرح
 
’’ داستان گو ،،کی یہ تحریر پڑ ھئے ’’جب اشفاق مجھے اپنی بنا ئی ہو ئی یہ پینتنگ دکھا رہا تھا تو مجھے یا دہے کمرے میں بڑا حبس اورگرمی تھی وہ گرمی اور حبس آج تک یاد ہے ما ضی کے دھند لکوں میں  ایک رو شنی سی چمکتی ہے میں اور اشفاق چوہٹہ مفتی باقرکے ایک تنگ با زار  میں جا رہے ہیں  اشفاق چہرے پر لگا نے و الی کر یم کی شیشیا ںخریدنے یہاں آئے ہیں میں اس کے ساتھ ہوں ہم دکان دکان  پھرکر شیشیاں  دیکھ رہے ہیںاشفاق احمد اندورون لا ہور کے کلچر پر تبصرہ بھی کر رہا ہے یہان سے ہم شاہ عالمی کی لا ل مسجد  کے پاس نکل آئے ہیں سا را شاہ عالمی ٹو ٹا ہوا اور جلا ہوا ہے صرف لا ل مسجد سلامت ہے جگہ جگہ مکا نوں کے ملبے  کے اونچے اونچے ڈھیر لگے ہو ئے ہیں با نسوں وا لے بازار  سے لے کر  رنگ محل تک ملبہ ہی ملبہ ہے لو گوں کے چلنے سے  ان ٹیلوں  پر پگڈنڈیا ں بن گئی ہے  ہم دو نوں ملبے کی پگڈندی پر چلتے ہو ئے  واپس جا رہے ہیں  رنگ محل اور لو ہا ری منڈی کی طرف مکان سلامت ہے با قی سا را کا سارا رڑا میدان ہی۔،، ان کی ایک طلسما تی تحریر ’’مرزا غالب لا ہور میں ،، اور اردو نثر کی تخلیقات   بھی پڑھنے سے تعلق رکھتی ہے ۔
 
انھوں نے بچوں کے ادب پر بھی بہت کام کیا 100 کے قریب بچوںکے لئے ناول لکھے  امبر ناگ اور ما را یہ کی سو سے زائد کہانی سیریز  پر مشتمل کتا بیں بچوں  کے ادب میںبیش بہا اضا فہ ہیں ۔ بچوںکے لئے ہی لکھے جا نے والے ٹی وی ڈرامہ سیریل’ عینک والا جن، پا کستان ٹیلیوژن کی تا ریخ میں طویل ترین منفرد و مشہور  ڈرامہ سیر یل کے طور پر یادرکھا جا ئے گا اس میں کو ئی دو رائے نہیں کہ جن بچوں نے اس ڈرامہ سیر یل کو دو دھا ئی قبل ٹی وی پر دیکھا وہ آج بھی اس کے اثر انگیز کرداروں،کہانیوں اور ڈائیلاگز کے سحر سے نہیں نکل پا ئے اس ڈرمہ ے نے پوری نسل کو مسمیر ائزکئے رکھا۔ عینک والاجن اور ’’ تھلے تھلی،،کے بعد انھوں نے ٹی وی کے لئے کچھ اورکام نہیںکیا جب کہ کا فی گنجا ئش تھی کہ وہ مزید یاد گا ر کام کر سکتے تھی۔ 
 
    اے حمیدکے ادبی حوالوںمیں ایک حوالہ خٓاکہ نگا ری بھی ہے خاکہ نگاری میں ان کے موضوعات کی تعداد دو درجن سے بھی تجاوزکرگئی ہے اتنے بہت سے خا کوںکو یک جا کر دینے سے تکرارکا خطرہ پیدا ہونا لا زمی امر ہے مگر اے حمید کے خاکوں کی با بت احمد ندیم قا سمی فرما تے ہیں ’’اس طرح کی تکرار اوپری اوپری با تیںکر نے والوں کے ہاں  پیدا ہوسکتی ہیں لیکن اے حمید نے تو ہر شخص کو اس کی انتہای گہرا ئی سے جا نچا پرکھا ہے وہ تو کسی بھی شخصیت پر لکھتے ہو ئے ا س کی سو چوں اور امنگوں تک کے مو تی ڈھونڈ  ھ لا تا ہے اس لئے اس کے ہاں تکرارکاا مکان بھی ختم ہو جا تا ہی،، جس طرح ان کے لکھے ہوئے تمام کردار خوش گفتار ، خوش خوراک اور زندگی سے بھر پور ہیں اسی طرح ان کی اپنی ظا ہری شخصیت  بھی خوش شکل، وضعدار، خوش اطواراورخوش گفتا ربنا وٹ سے پاک ہے ان کی  دراز قامتی ادبی محفلوں میں نما یاں نظر آتی۔زندگی بھر قلم کی مزدوری کرتے ہو ئے کینسر جیسے موذی مرض سے مقابلہ کرتے رہے عمر کی آخری دھا ئیوں میں کالم نگاری کے ذریعے اپنے چا ہنے والوں سے جڑے رہے اپنی بیماریاں ، دلی کیفیتیں ، یا دیں،خوشی اور غم تحریر کرتے رہے ان کے پڑھنے والے مدا ح دعا گو رہتے وہ صحت یاب ہو جا ئیں لیکن موت و زندگی کے اس کھیل سے کئی سال بنرد آزما ہو نے کے بعددوسال قبل  29اپریل 2011 کو لاہور میں زندگی کی بازی کینسر کے آگے ہار گئے اور اپنی تحریروں کی صورت میں اپنا دل مدا حوںکے در میاں چھوڑ گئے بقول شاعر
 
میں جا تا ہوںدل کو ترے پاس چھوڑ کر  ۔   تجھے یاد مری دلاتا رہے گا   ۔    
عینی نیازی   
 
*********************
Comments


Login

You are Visitor Number : 732