donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Abdus Samad
Title :
   Fiction Ka Jadugar--Shaukat Heyat


 

فکشن کا جادوگر۔شوکت حیات
 
عبدالصمد
 
13جنوری 2011کی رات میں شوکت حیات اپنے افسانوں کا بیش قیمتی مجموعہ’’گنبد کے کبوتر‘‘ کے ساتھ میرے گھر پر آئے تو یکلخت وہ دیوار غائب ہوگئی جو برسوں سے میرے اور اُن کے درمیان کھڑی تھی ۔کبھی کبھی غائب ضرور ہوجاتی مگر کچھ عرصے کے بعد اچانک پھر اٹھ آتی ۔یہ دیوار بے بنیاد باتوں ، غلط مفروضوں ، لگی بجھائی اور سنی سنائی پر کھڑی تھی اس لئے اس کی کوئی مضبوط بنیاد کبھی رہی ہی نہیں۔
ہم عمرکی اُس منزل پر ہیں کہ ہمارے ساتھ کبھی بھی کوئی انہونی ہوسکتی ہے ۔مجھے اندیشہ تھا کہ اگر میں یا شوکت حیات اس منزل سے گذر گئے تو اس دیوار کا کیا ہوگا کیوں کہ تنہا یہ دیوار نہ ڈھوئی جاسکتی تھی نہ ڈھائی جاسکتی تھی ۔
ہم دراصل جانے انجانے لمحوں کی گرفت میں ہیں ۔وہ لمحہ بہت منحوس تھا جس نے اس دیوار کو کھڑا کیا اور وہ لمحہ بہت مسعود جس نے یہ دیوار ڈھاری ۔میں شوکت حیات کا بہت ممنون ہوں کہ اُنہوں نے اس سلسلے میں پہل کرنے کی ہمت دکھائی ۔
 
میں اور شوکت حیات کم و بیش چالیس برسوں سے ایک ہی راستے کے مسافر ہیں ۔1979میں بہار اردو اکادمی نے ہم دونوں کے افسانوں کے مجموعوں کی اشاعت کے لئے مالی امداد فراہم کی تھی ۔میرے افسانوں کا پہلا مجموعہ ’’ بارہ رنگوں والا کمرہ ‘‘ 1980میں ہمارے دوست علی احمد فاطمی کی مخلصانہ کوششوں سے شائع ہوا جب کہ شوکت حیات کے افسانوں کا پہلا مجموعہ اب منظر عام پر آیا ہے یعنی تیس برسوں کے بعد مگر اس عرصے میں شوکت حیات خاموش نہیں بیٹھے ۔بے حد فعال رہے ۔وہ لگاتار لکھتے رہے او راُن کے مجموعے کی کمی کا کوئی شدیداحساس پیدا نہیں ہوسکا ۔ وہ اس لمبے عرصے کی تقریباً ساری افسانوی تنقید کے کم و بیش مرکز بنے رہے۔ افسانوں پر کہیں بھی کسی قسم کی گفتگو ہو، اُن کے ذکر کے بغیر مکمل نہیں ہوتی تھی ۔بہر کیف مجموعہ شائع ہونے کی افادیت اپنی جگہ پر مسلم ہے ۔ایک تو ڈھیر سارے افسانے یکجا طور پر پڑھنے کو مل جاتے ہیں ، دوسرے مجموعہ جب بھی مرتب کیا جاتا ہے ،اس کے لئے بہترین افسانوں ہی کو منتخب کرنے کی کوشش کی جاتی ہے ۔تیسرے انعام و اکرام وغیرہ کے لئے غور و خوض کرنے کے سلسلے میں مجموعے ہی کو ترجیح دی جاتی ہے ، ادبی خدمات وغیرہ کے لئے تو بالکل آخری عمر کا انتظار کیاجاتا ہے ۔میرے جیسے کچھ ہم عصروں کے لئے اتنے دنوں تک اُن کا مجموعہ نہیں چھپنا کوفت کا سبب تھا اور اتنی تاخیر سے سہی ،اُس کا شائع ہوجانا ، ضرور باعث طمانیت ہے ۔
شوکت حیات اُن افسانہ نگاروں میں شامل ہیں جن کے ہاں کم تردرجے کے افسانے یا تو نہیں ہیں یا پھر بہت کم ،دراصل وہ ٹریٹمنٹ کے جادو گر ہیں ۔اُن کے ہاتھوں میںپہنچ کر معمولی اور عام موضوع بھی کہاں سے کہاں چلا جاتا ہے ۔یہ جادوگری بہت کم لوگوں کو نصیب ہوئی ہے ۔زندگی کے دوسرے معاملات میں اُن کا رویہ جو بھی رہا ہو ، انہوںنے اپنے فن کے ساتھ کبھی کھلواڑ نہیں کیا  اور اُس کی حرمت پر حرف تک آنچ نہیں آنے دی ۔اتنے طویل عرصے تک کوئی مجموعہ شائع نہیں ہونے کے باوجود وہ اپنے ہم عصروں میں رشک بلکہ کسی حد تک حسد کا جذبہ پیدا کرنے میں کما ل رکھتے ہیں۔
 
شوکت حیات ادب کے طالب علم نہیں تھے ، ادب کو اُنہوں نے بعد میں ا ختیارکیا مگر جس شدت اور خلوص کے ساتھ اُنہوں نے ادب کو اپنا اوڑھنا ،بچھونا بنایا، وہ اُن کی ہر تحریر سے آشکارہ ہے ۔
’’گنبد کے کبوتر‘‘ میں کل پچیس افسانے شامل ہیں ۔شوکت حیات نے بے شمار افسانے لکھے ہیں اور اُن بے شمار افسانوں میں پچیس افسانوں کا انتخاب بہت احتیاط سے کیا گیا ہے ۔یہ سارے افسانے اس لائق ہیںکہ اُن کا تفصیلی مطالعہ کیا جائے ، ظاہر ہے کہ یہ نہ میرا مقصد ہے نہ منصب ،یہ کام دوسرے بہت سے لوگ بہ طریق  احسن کرسکتے ہیں اور اُنہیں کرنا چاہئے۔میں تو ادب کا ایک ادنیٰ قاری ہوں اور اپنے ہم عصر شوکت حیات کے فن کا مداح ، چنانچہ میرے لئے اس مجموعے کا مطالعہ بصیرت سے مسرت تک کا سفر ہے او رمسرت سے بصیرت تک کا۔ 
 
******************
Comments


Login

You are Visitor Number : 756