donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Akbar Allahabadi : Aik Haqiqat Pasand Shayar


اکبر ا  لہٰ آبادی : ایک حقیقت پسند شاعر


احسان عالم

الحراء پبلک اسکول، رحم خاں، دربھنگہ

 

    اکبر الہ آبادی کامقام اردو ادب کی دنیا میں درخشاں ستارے کے مانند ہے ۔ وہ ایسے دور میں پیدا ہوئے جس وقت ہندوستان میں مغل شہنشاہوں کا اقبال زوال پذیری کی جانب قدم بڑھا رہا تھا۔ مایوسی اور افراتفری کا عالم تھا۔ جاگیر داری کی جڑیں مظبوط ہورہی تھیں۔ زندگی کے ہر گوشے میں تبدیلیاں نمایاں ہورہی تھیں۔ ہندوستانیوں کے مال و جائداد ، عزت و حرمت سب پامال ہوتے جارہے تھے۔ اکبر ایسے ہی حالات میں پروان چڑھے۔ حیرت ناک واقعات اورانقلابات کا مشاہدہ کیا۔ ان کے کلام میں سب سے زیادہ مذہبی زوال کا تذکرہ ملتا ہے۔ مادیت کے خلاف ان کے اشعار میں صدائیں بلند ہوتی نظر آتی ہیں۔

    اکبر کی پیدائش ۶؍ نومبر ۱۸۴۶ء کو قصبہ باروں میں ہوئی جو الہ آباد سے ۱۲؍میل کی دوری پر واقع ہے۔ ابتدائی تعلیم گھر پر ہوئی۔ بہت کم عمر سے شاعری کا شوق پیدا ہوچکا تھا۔ جیسے جیسے ان کے علم میں وسعت پیدا ہوتی گئی ان کے افکار میں بلندی آتی گئی۔ قدرت کی جانب سے انہیں عالمانہ دماغ اور شاعرانہ جذبات عطا ہوئے  ۔ انہوں نے موجودہ مسلم تہذیب، اخلاق و معاشرت ، رسم و رواج ، تعلیم و تربیت ، میلانات و رجحانات ، تنقید و تبصرہ کو نہایت خوش اسلوبی سے شعری پیکر میں ڈھالا ۔ ان کے اشعار سے اس زمانے کی پوری پوری عکاسی ہوتی ہے:

ہم نشیں کہتا ہے کچھ پرواہ نہیں مذہب گیا
میں کہتا ہوں کہ بھائی یہ گیا تو سب گیا
بہت روئے وہ اسپیچوں میں حکمت اس کوکہتے ہیں
میں سمجھا خیر خواہ ان کو حماقت ان کو کہتے ہیں
رقیبوں نے رپٹ لکھوائی ہے جاجاکے تھانوں میں
کہ اکبر نام لیتا ہے خدا کا اس زمانے میں

    اکبر الہ آبادی نے غزلیں، مثنویاں ، رباعیات، قطعات جیسی شعری صنفوں پر طبع آزمائی کی۔ لیکن ان سب میں نمایاں حصہ غزلوں کا ہے۔ ان کی غزلوں کی خوبی طنز و ظرافت اور تصوف و معرفت ہے جو اس زمانے کے حالات اور انقلاب کو ہمارے سامنے پیش کرتا ہے۔ ان کے کلام میں چند ایسے کلام بھی ملتے ہیں جن سے ان کے عاشقانہ مزاج کی جھلک ملتی ہے۔ حسن پرستی کا طرز بیان ان کے ابتدائی دور کا انداز ہے ۔ ملاحظہ ہوں چند اشعار:

تشبیہ تیرے چہرے کو کیا دوں گل تر سے
ہوتا ہے شگفتہ مگر اتنا نہیں ہوتا
حیا سے سر جھکالینا ادا سے مسکرا دینا
حسینوں کو بھی کتنا سہل ہے بجلی گرا دینا
دشمن راحت جوانی میں طبیعت ہوگئی
جس جس سے مل گئی آنکھیں محبت ہوگئی

    اکبر کے کلام میں تصوف و معرفت ، حکمت و قومیت، عشق و محبت وغیرہ کی دیگر چاشنی ملتی ہے جو اس نے اردو شاعری کو ایک جدید اسلوب سے آشنا کیا ہے لیکن ان کی شاعری کی ایک خوبی جو سب سے بڑھ کر بتائی جاتی ہے وہ ظرافت اور شوخ طبعی ہے۔

    اردو ادب میں اکبر الہ آباد ی کے پہلے بھی ظرافت اور طنز کا سلسلہ قائم تھا۔ میرؔ، انشاؔ اورمصحفی ؔاس میدان میں اپنے جوہر دکھلاتے نظر آتے ہیں لیکن اکبر کی ظرافت نے زندگی میں ایک نئی راہ کو ہموار کیا۔ غالب نے اپنی ظرافت کے ذریعہ انسان کو پیار کرنا سکھایا تو اکبر نے زندگی میں برکت دینے کی بھرپور کوشش کی۔

    اکبر مشرقیت کے حامی تھے اورمغربیت سے بیزار تھے۔ اس وقت جو رسم رواج، نئی تہذیب اور نئے نظام جڑ پکڑتے نظر آہے تھے وہ سب کے سب مذہبی عقائد کے خلاف تھے۔ اس لئے انہیں اپنے وقت کے نظام اور رسم و رواج سے سخت نفرت تھی۔ اس لئے انہوں نے مغربی تعلیم اور تہذیب و تمدن کو روکنے کی ہر ممکن کوشش کی۔ وہ مغربی تعلیم کے خلاف نہیں تھے، ان کی رائے تھی کہ مغربی تعلیم سے بھی اچھی باتیں اخذ کی جانی چاہئے۔ اکبر کو سائنس اور فلسفہ سے نفرت نہیں تھی لیکن ان کی روحانیت اس کے غلبہ کو برداشت نہیں کرسکتی تھی ۔ ان کے ذہن میں یہ بات تھی کہ ہماری اخلاقیات ان علوم سے ٹکراکر پاش پاش ہورہی ہے۔ ایسے میں ان کا تحفظ ضروری ہے۔ ویسے نظریا ت جو ہمارے معاشرے اور ہماری تہذیب کے لئے نقصان دہ تھے اسے کسی بھی حال میں اپنے اندر شامل ہونے کے خلاف تھے۔ اکبر نے فرنگی تمدن کو اپنے سماج سے ہٹانے کے لئے اپنی فطری طنز و ظرافت سے کام لیا۔ پیش ہیں کچھ اس طرح کے اشعار:

طفل دل محو طلسم رنگ کالج ہوگیا
ذہن کو تپ آگئی مذہب کو فالج ہوگیا
مسجد کا ہے خیال نہ پروائے چرچ ہے
جو کچھ ہے اب تو کالج و ٹیچر پہ خرچ ہے
کوٹھی میں جمع ہے نہ ڈپازٹ ہے بینک میں
قلاش کردیا مجھے دوچار تھینکس میں

    تصوف ایک علاحدہ طرز فکر ہے۔ اس سے تخیل کو پرواز اور دل و دماغ کو سکون فراہم ہوتا ہے۔ فن جمالیات، مذاق اورمعیار کی تربیت ہوتی ہے۔ بصارت اور بصیرت کو تقویت ملتی ہے۔ مضامین میں دلگدازی اور سخن میں دلکشی پیدا ہوتی ہے۔ اکبر جذباتی ہونے کی وجہ سے زندگی کے قریب ہوکر سوچنا پسند نہیں کرتے تھے۔ وہ فلسفیانہ تصوف کے مخالف تھے کیونکہ اس کی بنیاد عقل پر ہوتی ہے۔ وہ کہتے ہیں:

عقل کو کچھ نہ ملا علم میں حیرت کے سوا
دل کو بھایا نہ کوئی رنگ محبت کے سوا
صدیوں فلاسفی کی چنا اور چین رہی
لیکن خدا کی بات بھی جہاں تھی وہی رہی

    اکبر الہ آبادی بلاشبہ ایک حقیقت پسند شاعر تھے۔ وہ زندگی کو اجتماعی حیثیت سے دیکھتے تھے۔ عام شعر اء سے ان کا انداز جداگانہ تھا۔ وہ طنز و ظرافت کے ذریعہ انسان کے دلوں میں اثر پیدا کرتے تھے۔ ان کے طنز میں بھی انسانی دوستی کا جذبہ ہوتا تھا۔ اپنی طنز و ظرافت کے ذریعہ تیروں کے نشتر لگاتے ہوئے بڑے حسن و ادا کے ساتھ مطلب کی بات کہہ جاتے ہیں۔             

(مطبوعہ روزنامہ ’’قومی تنظیم‘‘ پٹنہ، ۱۸؍ اپریل ۲۰۱۵ئ)


٭٭٭

Ahsan Alam
Raham Khan, Darbhanga
Email: ahsanalam16@yahoo.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 618