donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Dr Zakir Hussain Aik Azeem Memare Qaumo Millat


ڈاکٹر ذاکر حسین ایک عظیم معمار قوم و ملت


احسان عالم

ریسرچ اسکالر

(اردو)

ایل۔این۔ایم۔یو۔، دربھنگہ


    ڈاکٹر ذاکر حسین کی پیدائش ۸ ؍فروری ۱۸۷۹ء کو حیدر آباد میں ہوئی۔ ان کے آبا واجداد افغانستان سے تعلق رکھتے تھے ۔ تقریباً سو سال قبل وہ ہندوستان کے فرخ آباد شہر تشریف لائے اور وہیں سکونت اختیار کر لی۔ جب ان کی عمر آٹھ سال تھی اس وقت و ہ اپنے والد کے سائے سے محروم ہوگئے ۔ کچھ سال بعد ان کی والدہ بھی ان سے رخصت ہوگئیں اور اپنے مالک حقیقی سے جاملیں۔ ان کی ابتدائی تعلیم فرخ آباد میں ہوئی۔ وہ بچپن سے ہی بہت ہمت ور، محنتی اور ذہین تھے۔ ابتدائی تعلیم حاصل کرنے کے بعد وہ علی گڑھ چلے گئے۔ وہاں سے اعلیٰ تعلیم حاصل کی۔ علی گڑھ جانے کے بعد ان کی زندگی میں جو تبدیلیاں رونما ہوئیں وہ ان کی زندگی میں سنگ میل ثابت ہوئی۔ علی گڑھ قیام کے دوران انہوں نے دنیا کو نئے انداز سے دیکھا ۔ وہاں وہ سماج کے مختلف مسائل سے روبرو ہوئے ۔ علی گڑھ سے انہوں نے ایف اے کا امتحان پاس کیا۔ میڈیکل کی تعلیم کے لئے وہ لکھنؤ چلے گئے لیکن انسان کی ہر خواہش مکمل نہیں ہوپاتی۔ وہی ہوتا ہے جو اللہ کو منظور ہوتا ہے۔ وہ اس قدر بیمار پڑگئے کہ میڈیکل میں داخلہ نہیں لے سکے۔ پھر علی گڑھ لوٹ آئے۔ علی گڑھ لوٹنے کے بعد ان کی زندگی میں ایک تبدیلی آئی ۔ سائنس کو چھوڑ کر انہوں نے آرٹس کی دنیا کی طرف رخ کیا ۔ ۱۹۱۸ء میں بی اے پاس کیا  پھر قانون کی تعلیم میں مصروف ہوگئے۔ قانو ن کی تعلیم کے دوران ان کی تقریری اور تحریری دونوں صلاحیتوں میں بے پناہ اضافہ ہوا۔ اعلیٰ تعلیم کے لئے وہ یورپ گئے۔ جرمن یونیورسٹی میں داخلہ لیا۔ وہاں سے فلسفہ میں ڈی۔فل کی ڈگری حاصل کی۔

    تعلیم مکمل کرنے کے بعد ڈاکٹر ذاکر حسین ہندوستان لوٹ آئے۔ جس وقت وہ ہندوستان لوٹے اس وقت ملک میں تحریک آزادی کی سرگرمیاں تیز تھیں۔ اکتوبر ۱۹۴۰ء میں مہاتما گاندھی، علی برادران، حکیم اجمل خاںاور مولانا ابوالکلام آزاد جیسے عظیم قومی رہنما جب علی گڑھ آئے تو بہت سے طلباء اور اساتذہ کے ساتھ ڈاکٹر ذاکر حسین بھی ان کے ساتھ ہوگئے اور علی گڑھ کو خیر باد کہہ دیا اور تحریک آزادی میں شامل ہوگئے۔

     ۲۹نومبر ۱۹۴۰ء کو جب علی گڑھ کی جامع مسجد میں شیخ الہند مولانا محمود الحسن صاحب کے ہاتھوں انتہائی بے سرو سامانی کے عالم میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی بنیادی رکھی گئی۔ اس موقع پر ڈاکٹر ذاکر حسین پر بہت پیش پیش رہے۔

    ڈاکٹر ذاکر حسین ایک مشفق استاد تھے۔ یہ صد فیصد سچ ہے کہ دو شخصیتیں اپنی امیدیں کبھی نہیں چھوڑتیں ۔ ایک ماں اور دوسرے استاد۔ ماں کی ہمیشہ یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا بیٹا زندگی کے ہر موڑ پر کامیاب رہے اور اس کی زندگی میں کو ئی تکلیف نہ آئے۔ اسی طرح ایک استاد کی یہ خواہش ہوتی ہے کہ اس کا شاگرد زندگی کے ہر میدان میں بڑے سے بڑے مقام پر فائز ہو اور اس کا نام روشن کرے۔ ایسے استادوں میں ڈاکٹر ذاکر حسین صاحب بھی تھے۔ آخری دم تک وہ ملک کی یکجہتی ، سالمیت اور اتحاد کے علمبردار بنے رہے۔

    ڈاکٹر ذاکر حسین ہندوستان کے عظیم قومی رہنما، قابل فخر ماہر تعلیم اور ایک اعلیٰ منتظم ہونے کے ساتھ ساتھ اردو زبان و ادب کے لئے بے مثال شیدائی تھے۔ جب وہ علی گڑھ مسلم یونیورسٹی کے وائس چانسلر بنائے گئے اس زمانے میں انہیں انجمن ترقی اردو (ہند) کا صدر بھی بنایا گیا۔ انہوں نے اپنی سربراہی میں اردو زبان کو آزاد ہندوستان میں اس کا واجب حق دلانے کی بھرپور کوشش کی۔ ۱۹۵۶ء میں اپنی علالت کے سبب وہ وائس چانسلر کے عہدے سے سبکدوش ہوگئے اور مولانا ابوالکلام آزاد کی خواہش کے مطابق یونسکو کانفرنس میں شرکت کی غرض سے یورپ چلے گئے۔ پنڈت جواہر لال نہرو نے انہیں ہندوستان لوٹ آنے کا پیغام بھیجا۔ وہ پھر ہندوستان لوٹ آئے ۔ ۱۹۵۷ء میں انہیں بہار کا گورنر بنایا گیا۔ اپنے گورنر شپ کے پانچ سال کے دوران انہوں نے ایسے علمی ، ادبی اور تعلیمی کارنامے انجام دئیے جس سے بہار میں ایک بڑا انقلاب آگیا۔ ۱۹۶۲ء کے عام انتخاب کے بعد ڈاکٹر رادھا کرشنن صدر جمہوریہ اور ڈاکٹر ذاکر حسین کو نائب صدر جمہوریہ کے طور پر منتخب کیا گیا۔ آزاد ہندوستان کی تاریخ میں ایسا پہلا واقع تھا کہ ہندوستان کا صدر اور نائب صدر دونوں ہی ماہر تعلیم تھے۔ ۱۳؍ مئی ۱۹۶۷ء کو ڈاکٹر ذاکر حسین ملک کے صدر جمہوریہ بھی منتخب ہوئے۔

    نومبر ۱۹۴۶ء میں جامعہ ملیہ اسلامیہ کی سلور جبلی تقریبات کا انعقاد کیا گیا ۔ اس موقع پر ڈاکٹر ذاکر حسین نے ایک پر مغز خطبہ پیش کیا ۔ اس خطبہ نے انسانوں کے ذہن کو جھکجھوڑ کر رکھ دیا ۔ اس تقریب میں جو لوگ شریک ہوئے ان میں سے بہتوں نے لکھا کہ یہ ایسا خطبہ تھا جو حالات کا رخ پلٹنے کے لئے کافی تھا۔

     اپنے دور صدر جمہوریہ میں ہی انہوں نے اردو کے عظیم شاعر مرزا اسد اللہ خاں غالب کی صد سالہ تقریب منائی ۔ اسے ’’غالب صدی‘‘ کے طور پر تاریخی یادگار کی حیثیت سے ایسے منایا کہ یہ تقریب اپنے آپ میں ایک مثال بن گئی۔

    ڈاکٹر ذاکر حسین ماہر تعلیم بھی تھے اور معلم بھی ۔ وہ قومی رہنما بھی تھے اور عظیم سماجی کارکن بھی ۔ تعلیم اور سماج کے تمام گوشوں پر ان کی بڑی گہری نظر تھی۔ وہ اپنے دور کے سماج کی ہمہ جہت ترقی کے خواہاں رہتے تھے۔

    اس عظیم ہستی کا انتقال ۳؍ مئی ۱۹۶۹ء کو حرکت قلب بند ہوجانے کے سبب ہوگیا۔


 (مطبوعہ سہ ماہی ’’تمثیل نو‘‘ جولائی ۲۰۱۴ء سے جون ۲۰۱۵ئ)


٭٭٭

Ahsan Alam
Raham Khan, Darbhanga
Mob: 9431414808

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 522