donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Hakim Ajmal Khan : Aik Tabeeb Aur Mujahide Azadi


حکیم اجمل خاں : ایک طبیب اور مجاہد آزادی


احسان عالم

ریسرچ اسکالر

(اردو)

ایل۔این۔ایم۔یو۔ ، دربھنگہ

 

    حکیم اجمل خاں کے آبا و اجداد مغل بادشاہ بابر کے زمانے میں بخارا سے ہندوستان تشریف لائے۔ آپ کی پیدائش ۱۸۶۴ء میں ایک معزز خاندان میں ہوئی۔ صدیوں سے اس خاندان کا طرئہ امتیاز رہا ہے ۔ ان کے خاندان کے بیشتر افراد علمی وجاہت، فن طب کا کمال اور دست شفا میں شہرئہ آفاق حیثیت کا حامل رہا ہے۔ ملکی خدمات اور ہمدردیاں رکھنے والے ان کے خاندان کی گذشتہ تاریخ پر نظر ڈالیں تو ہمیں صرف فن طب کا امتیاز رکھنے والے اور جید علمائے کرام ہی نہیں ملتے بلکہ صوفیائے کرام کے نورانی چہرے بھی نظر آتے ہیں۔جب آپ نے عالم شعور میں قدم رکھا تو آپ کے والد محترم نے آپ کی تعلیم و تربیت کی طرف توجہ کی ۔ اردو زبان سے تعلیمی سلسلہ کا آغاز ہوا۔ابتدائی تعلیم کے بعد مدرسہ اسلامیہ عربیہ جامع مسجد امروہہ میں آپ کی تعلیم کا نظم کیا گیا۔ جہاں عربی کی تعلیم کے بعد منطق، فلسفہ، ادب، معانی، فقہ ، حدیث وغیرہ کی تعلیم پائی۔ آپ کے اساتذہ میں مولانا احمد حسن صاحب مرحوم صدر مدرس اسلامیہ امروہہ اپنے متعلقہ مضامین کے علاوہ آپ کی تمام تعلیم سے خاص دلچسپی رکھتے تھے۔ آپ کی تیز طبیعت، نہایت با ادب ، سلیقہ مند اور محنتی طالب علم ہونے کی وجہ سے اساتذہ کی شفقت آپ پر خاص طور سے ہوتی رہی۔آپ کے اساتذہ میں دوسری بزرگ شخصیت جناب مولوی حکیم امین صاحب کی تھی جو اس وقت طبیہ کالج دہلی کے وائس پرنسپل کے عہدہ پر فائز تھے۔ انہوں نے اجمل خاں صاحب کو منطق اور فلسفہ کی تعلیم بہت محنت اور شفقت سی دی۔

    اس تعلیم سے فراغت کے بعد آپ کی دلچسپی اور رجحانات کو دیکھتے ہوئے آپ کے والد نے آپ کو طب کی تعلیم دلانے کا فیصلہ لیا۔ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۱۱ء کو مدرسہ طبیہ دہلی میں داخل ہوئے۔ اپنے زمانۂ تعلیم میں آپ کا شمار ممتاز شاگرد کی حیثیت سے ہوتا تھا۔طب کی تعلیم آپ کو والد حکیم محمود خاں اور بڑے بھائی حکیم عبدالمجید خاں سے بھی ملی۔ تعلیم سے فراغت اور فن طب میں کمال حاصل کرنے کے بعد ۲۸ سال کی عمر میں رام پور دربار سے منسلک ہوگئے۔ یہ آپ کی زندگی کا اہم دور تھا۔ وہاں طبی خدمات دینے کے ساتھ ساتھ آپ قدیم لائبریری کا کام بھی دیکھنے لگے۔ لائبریری میں طرح طرح کی کتابیں دستیاب ہوتی ہیں لہٰذا کچھ قدیم نسخوں سے آپ کو استفادہ حاصل کرنے کا موقع ملا۔ رام پور قیام کے دوران آپ مسلمانوں کی تقریباً سبھی سماجی و تعلیمی تحریکات سے جڑ گئے کیونکہ سبھوں کو کسی نہ کسی شکل میں رام پور سے مالی تعاون حاصل تھا۔

    حکیم اجمل خاں بیک وقت طبیب، بانیٔ ادارہ، مجاہد آزادی اور اچھے مصنف ثابت ہوئے۔ آپ فن طب کے ایک درخشاں ستارے کے مانند تھے ۔ آپ نے دنیائے طب میں اپنے عظیم کارناموں سے ایک انقلاب برپا کردیا۔ ہندوستان کی سرزمین پر پہلا طبیہ کالج قائم کرکے یونانی طب کو دوبارہ حیات بخشا اور ہندوستان میں طب کی تعلیم کو ایک روج دیا۔آپ نے قدیم طرز کی تعلیم حاصل کی تھی لیکن آپ ترقی پسندی رجحانات کے حامی تھے۔ آپ ہر پیتھی سے استفادہ حاصل کرنے کی کوشش کرتے تھے ۔ ان کے خیال میںکوئی پیتھی کسی سے کمتر نہیں تھی۔ لیکن آپ نے اپنی زندگی کا زیادہ تر وقت یونانی اور آیورویدک طریقۂ علاج کے مطالعے اور ان کو ہم آہنگ کرنے میں گذارا۔ ۱۹۱۰ء میں آپ نے انگلینڈ ، فرانس اور آسٹریلیا کا دورہ کیا۔ وہاں کے ماہر ڈاکٹروں سے ملاقاتیں کیں ، ان سے تبادلۂ خیال کیا ، وہاں کے اسپتالوں اور دواخانوں کا جائزہ لیا اور ان کی اچھی باتوں سے کچھ سیکھنے اور لینے کی ہر ممکن کوشش کی۔

    ۱۹۰۲ء میں رام پور سے دہلی واپسی پر آپ نے پہلا کام یہ کیا کہ اپنے خاندانی ورثہ ’’مدرسہ طبیہ‘‘ کی نئے سرے سے اصلاح کی اور مشترکہ خاندانی ملکیت ’’ہندوستانی دواخانہ‘‘ خرید کر مدرسہ طبیہ کو وقف کردیا۔ ۱۹۰۹ء میں مدرسہ طبیہ میں زنانہ شعبہ کھولا ۔ ۱۹۱۶ء میں مغربی طب کی جدید تحقیقات اور طب یونانی کے سنگم کے مقاصد سے ’’طبیہ کالج‘‘ کا سنگ بنیاد رکھا۔ جب ۱۹۰۶ء میں پہلی طبی کانفرنس بلائی گئی جو ملک کے اطباء اور ویدوں کو ایک پلیٹ فارم پر جمع کرنے کی کوشش تھی ۔ اس کا نتیجہ یہ ہوا کہ ملک کے کئی حصوں میں آیورویدک اور طب یونانی کالج قائم ہوئے۔ ملک میں دیسی طریقہ علاج کو فروغ ملا۔

    حکیم اجمل خاں اور ان کے خاندان کے دیگر افراد کا دہلی کے سبھی تعلیمی، تہذیبی سرگرمیوں سے گہرا تعلق رہا۔ ۲۰؍ سال تک آپ علی گڑھ کے ٹرسٹی رہے۔ ندوۃ العلماء کے دہلی اجلاس جو ۱۹۱۰ء میں منعقد ہوا آپ اس کے صدر بنائے گئے۔ ایک ایسا بھی وقت آیا جب علامہ شبلی اور ندوہ میں میں اختلاف بڑھنے لگا ۔ ویسے نازک حالات میں آپ نے مولانا ابوالکلام آزاد کے ساتھ مل کر مصالحت کرائی۔ علی گڑھ اورندوہ کے بعد آپ جامعہ سے جڑ گئے۔ آپ جامعہ کے پہلے امیر جامعہ (Chancellor)بنائے گئے۔ جب جامعہ کے حالات کچھ نازک موڑ پر آنے لگے تب ۱۹۲۵ء میں اسے علی گڑھ سے دہلی لے آئے ۔ تمام عمر اس کی بھرپور کفالت کرتے رہے۔ آپ کے بارے میںمولانا محمد علی لکھتے ہیں:

’’طبیہ کالج حکیم اجمل خاں کی جوانی کی اولاد ہے اور جامعہ ان کے بڑھاپنے کی‘‘
        شمس الرحمن محسنی، ہندوستانی مسلمانوں کی قومی تعلیمی تحریک، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ،

دہلی، ص:۲۸)

’’حکیم صاحب ہندو مسلمان سبھی میں ایک مشفق و بزرگ کی حیثیت سے مقبول تھے جب بھی دونوں میں یا خود مسلمانوں میں اختلافات بڑھتے آپ ہی آگے آکر صلح و صفائی کراتے۔ تعلیمی سرگرمیوں کے علاوہ آپ نے جد وجہد آزادی میں بھی سرگرم رول ادا کیا۔ ترک موالا ت اور عدم بغاوت کی تحریکوں میں حکیم صاحب نے گاندھی جی اور مولانا محمد علی کا ساتھ دیا۔ آپ کا شمار کانگریس اور خلافت تحریک کے ممتاز رہنمائوں میں ہوتا تھا۔ ‘‘

 (حکیم اجمل خاں کی سوانح حیات’’حیات اجمل‘‘ مرتبہ قاضی عبدالغفار)

    حکیم اجمل خاں طبی دنیا کے بے تاج بادشاہ تھے۔ ان کے مطب کی رونق شاہی دربار کو پیچھے چھوڑدیتی تھی۔ طب کی بنیاد نبض پر مہارت ہے۔ آپ کو نبض پر بڑی گہری پکڑ تھی۔ نسخہ تجویز کرنے کے دوران آپ بہت سستی اور مفید دوائیں تجویز کرتے۔ غریبوں کا علاج مفت کرتے۔ اپنی طبی مہارت کی بناپر آپ کے مطب میں مریضوں کی بھیڑ لگی رہتی تھی۔ مریضوں میں جہاں غریب اور عام لو گ ہوتے وہیں ایک سے بڑھ کر ایک صاحب حیثیت اشخاص قطاروں میں کھڑے نظر آتے۔

    حکیم اشہر قدیر نے اپنی کتاب تاریخ طب و اخلاقیات میں حکیم اجمل خاں کی تشخیص کا ایک واقعہ نقل کیا ہے۔ پیش ہے وہ واقعہ:

’’ایک مرتبہ حکیم اجمل خاں لندن کے چیئرنگ کراس اسپتال(Chairing Cross Hospital)تشریف لے گئے۔ وہاں اسپتال کا ایک قابل سرجن Dr. Stanley Boyd نے ایک مریض کا معائینہ کیا اور اس کو ورم مرارہ (Cholecystitis)کا مریض بتایا۔ حکیم موصوف نے بھی مریض کی نبض دیکھی لیکن ڈاکٹر صاحب کی تشخیص سے اتفاق نہیں کیا ۔ آپ نے اس مریض کو Duodenal Ulcerکا مرض بتایا۔ بالآخر جب سرجن صاحب نے آپریشن کیا تو حکیم صاحب کی تشخیص درست ثابت ہوئی۔ ‘‘

    جب ہندوستان پر برطانوی حکومت قائم ہوگئی تب اس نے Allopathyکو فروغ دینے کی غرض سے دیسی طبوں کے خلاف سازشی کاروائیاں شروع کیں۔ حکیم اجمل خاں نے اس نازک حالات میں مجاہدانہ قدم اٹھایا۔ انہوں نے حکیموں اور ویدوں کے درمیان اتحاد پیداکیا اور ۱۹۰۶ء میں آل انڈیا ویدک اور یونانی طبی کانفرنس قائم کی۔

    مطب اور دیگر طبی، سماجی و سیاسی سرگرمیوں میں مصروف رہنے کے باوجود حکیم اجمل خاں نے اپنے مطالعہ اور تصنیفات کے کام کو نظر انداز نہیں کیا۔ طب کے مختلف موضوعات پر آپ کے مضامین لگاتار شائع ہوتے رہے۔ ان کی بہت سی طبی تحریریں زیور طبع سے آراستہ نہیں ہوپائیں جو یقینا دنیائے طب کے لئے ایک بڑا نقصان ہے۔

    حکیم اجمل خاں نے طبی تحقیق میں براہ راست حصہ لیا۔ اپنے وقت کے ماہر Chemistڈاکٹر سلیم الزماں صدیقی سے مشہور نباتی ادویہ اسرول (Rauwolfia Serpentina)پر تحقیق کا کام آپ نے کروایا۔ یونانی ادویہ پر جدید طرز سے تحقیق کا کام حکیم اجمل خاں نے ہی شروع کیا۔ ان کی اس تحقیقی کام کو آگے بڑھانے میںجامعہ ہمدرد اورسی ۔سی۔ آر ۔یو ۔ایم ۔جیسے ادارہ کے کارنامے کافی اہم ہیں۔

    ہندوستان کی آزادی میں حکیم اجمل صاحب نے غیر معمولی رول ادا کیا۔ ہندو اور مسلمان اتحاد قائم کرنے کی آپ نے بھرپور کوشش کی جو کہ برطانوی حکومت کو کبھی گوارہ نہ تھی۔ جنگ آزادی کی لڑائی میں مہاتما گاندھی،موتی لال نہرو وغیرہ کا کھل کر ساتھا نبھایا۔ انڈین نیشنل کانگریس جوائن کیا۔ برطانوی حکومت نے جو خطابات دیئے اسے واپس کر دیا۔ اس سے بڑا حب الوطنی کا ثبوت اور کیا ہوسکتا ہے۔ آپ جب سیاست کی طرف رجوع ہوئے تو اس زور و شور سے رجوع ہوئے کہ صر ف دس سال کی مدت میں اس کا بلند منزل پر پہنچا دیا۔ آپ کی شرکت اور رہنمائی نے کانگریس کو نمائندہ عوام ملکی کانگریس بنایا۔

    حکیم اجمل خاں نے آزادی حاصل کرنے کے لئے دو باتوں پر خصوصی زور دیا۔ اول تعلیم کا فروغ اور دوم ہندو مسلم اتحاد ۔ حکیم صاحب کی تعلیمی کوششوں کو آپ ہی کے الفاظ میں ۱۹۲۱ء میں جامعہ کے اول تقسیم اسناد کے موقع پر صدارتی خطبہ میں اس طرح سنا گیا:

’’ہم نے اصولی حیثیت سے تعلیم کو صحیح شاہراہ پر ڈال دیا ہے اور جہاں ہم نے سچے مسلمان پیدا کرنے کی تدابیر اختیار کرلیں وہاں اس بات کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے کہ تعلیم و تربیت میں ماحول کا بہت بڑا اثر ہوتا ہے اور سلامیت کے ساتھ وطن کی خدمت کا جذبہ پید ا کرنا بھی ہمارے پیش نظر ہے چنانچہ اس امر کا خاص طور پر لحاظ رکھا گیا ہے کہ جہاں ہندو طلبہ کے لئے بہت سے اسلامی معاملات پر معلومات حاصل کرنا ضروری ہے وہاںمسلمان طلبہ بھی اہم ہندو رسوم اور ہندو تہذیب و تمدن سے ناآشناہیں ۔ ایک متحد ہندوستانی قومیت کی اساس محکم اسی باہمی تفہیم و تفہم پر منحصر ہے۔ ‘‘

شمس الرحمن محسنی، ہندوستانی مسلمانوں کی قومی تعلیمی تحریک، مکتبہ جامعہ لمیٹیڈ، دہلی، ص:۴۰)

    اس طرح ہم دیکھتے ہیں حکیم اجمل خاں صرف ایک طبیب ہی نہیں بلکہ کئی خوبیوں کے مالک تھے۔ ایسی شخصیتیں اس سرزمین پر بہت کم آیا کرتی ہیں جسے لو گ لمبے عرصے تک یاد کرنے کے لئے مجبور ہوتے ہیں۔ ان کے کارناموں سے استفادہ کا سلسلہ جاری رہتا ہے۔ وہ بیک وقت ایک طبیب، مجاہد آزادی ، سیاست کے سرگرم سپاہی اور ایک مخلص اور قوم پرست انسان تھے۔

 (مطبوعہ روزنامہ ’’راشٹریہ سہارا‘‘، امنگ، ۱۵؍فروری ۲۰۱۵ئ)


٭٭٭

Ahsan Alam
Moh: Raham Khan, Near Al-Hira Public School,
P.O.: Lalbagh, Darbhanga - 846004
Mob: 9431414808, Email: ahsanalam16@yahoo.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 525