donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Hasnain Azimabadi Inshaiya Nigari Ki Aik Buland Shakhsiat


احسان عالم

ریسرچ اسکالر

(اردو)

ایل۔این۔ایم۔یو، دربھنگہ


حسنین عظیم آبادی انشائیہ نگاری کی ایک بلند شخصیت


    حسنین عظیم کی پیدائش ۲؍ اکتوبر ۱۹۲۵ء کو عظیم آباد کے ایک معزز خاندان میں ہوئی۔ عظیم آباد وہ سرزمین اور دبستان شعر وادب ہے جہاں اردو کے نامور ادیب، دانشور ، صحافی ، افسانہ نگار ، ناقد اور محقق پیدا ہوئے۔آپ اردو کے مشہور و معروف انشائیہ نگار، خاکہ نویس، افسانہ نگار، ڈراما نویس، سوانح نگار ، محقق اور تنقید نگارتھے۔ ان کا اصل نام سید محمد حسنین اور قلمی نام حسنین عظیم آبادی تھا۔ ان کے والد میر محمد رشید کا تعلق تاج فقہی خاندان سے تھا۔ حسنین عظیم آبادی کی تعلیم و تربیت علمی وا ادبی ماحول میں ہوئی۔ راجہ رام موہن رائے سیمنری اسکول پٹنہ سے ۱۹۴۰ء میں میٹرک کا امتحان پاس کیا۔ ۱۹۴۴ء میں پٹنہ کالج سے بی اے اور پٹنہ یونیورسٹی سے ۱۹۴۶ء میں ایم اے (اردو) پاس کیا۔ مرزا محمد علی ندوی کی شخصیت اور شاعری پر پروفیسر کلیم الدین احمد کی نگرانی میں تحقیقی مقالہ لکھا جس پر ۱۹۵۶ء میں یونیورسٹی آف بہار سے پی ایچ ڈی کی ڈگری ملی۔ کہا جاتا ہے کہ یہ صوبہ بہار کے اردو ادب میں پہلے پی ایچ ڈی ہولڈر ہیں۔ ۱۹۴۷ء میں جی بی بی کالج جو فی الحال لنگٹ سنگھ کالج کے نام سے مشہور ہے اور مظفر پور شہر میں واقع ہے میں ارد و کے لکچرر مقرر ہوئے۔ پھر ۱۹۴۸ء میں ایس ایس کالج اورنگ آباد اور ۱۹۵۰ء میں گیا کالج گیا میں درس و تدریس کے فرائض انجام دیتے رہے۔ ۱۹۶۸ء میں مگدھ یونیورسٹی کے صدر شعبۂ اردو بنے۔ ان کی سربراہی میں شعبے نے کافی ترقی کی۔ ان ہی کے دور صدارت میں پروفیسر کلیم الدین احمد کا جشن تزک و احتشام کے ساتھ منایا گیا اور ایک ضحیم مجلہ بھی شائع ہوا۔

    حسنین عظیم آبادی نظم و ضبط کے قائل اور نفاست پرست تھے۔ جب تک صدر شعبہ اردو رہے پوری محنت ، لگن اور دلجمعی کے ساتھ شعبہ کا کام کرتے رہے۔ ۱۹۷۵ء میں ملازمت سے سبکدوش ہوگئے۔ لکھنے پڑھنے اور علمی و ادبی کاموں سے تادم حیات شغت رہا۔ وہ اردو پروموشن کونسل کے ڈکشنری پروجکٹ سے اخیر وقت تک جڑے رہے۔ ۱۰؍ اکتوبر ۱۹۹۹ء کو اسلام آباد پاکستان میں ان کا انتقال ہوگیا۔

    حسنین عظیم آبادی مخلص اور ملنسار انسان تھے۔ ان کے اندر خوش مزاجی، بلند اخلاقی اور مہمان نوازی کوٹ کوٹ کر بھری ہوئی تھی۔ خود غرضی، خود ستائی اور غرور و تکبر سے بہت دور تھے۔ نہایت خوددار قسم کے آدمی تھے۔ انہوں نے ہمیشہ وسیع النظری کا مظاہرہ کیا۔ وہ مگدھ یونیورسٹی کے پہلے صدر شعبۂ اردو تھے۔ کم و بیش تین دہائیوں تک درس و تدریس کی خدمات انجام دیتے رہے ۔ ان کے سینکڑوں شاگرد ملک کی مختلف یونیورسٹیوں ، کالجوں اور دوسرے شعبوں میں اپنی اہلیت کا ثبوت پیش کر رہے ہیں۔ وہ کئی ادبی ، سماجی اور ثقافتی تنظیموں سے بھی جڑے رہے۔ مختلف اعزازات و انعامات سے نوازے جاچکے ہیں۔ ساہتیہ اکادمی نئی دہلی نے ۱۹۹۹ء میں ان پر انگریزی میں ان کا ایک مونوگراف شائع کیا ہے۔

    حسنین عظیم آبادی کو بچپن ہی سے لکھنے پڑھنے کا شوق تھا۔ دس بارہ سال کی عمر ہی سے بچوں کے لیے ماہنامہ’’غنچہ‘‘ اور ماہنامہ ’’پھول‘‘ میں لکھنے لگے۔ ادبی میدان میں پروفیسر کلیم الدین احمد، اختر اورینوی، قاضی عبدالودو اور حسن عسکری جیسے مشاہیر سے استفادہ حاصل کرتے رہے۔ ان کا پہلا افسانہ ’’جب رات کے گیارہ بجے تھے‘‘ کے عنوان سے ۱۹۴۴ء میں ماہنامہ ’’ندیم‘‘ گیا میں شائع ہوا تھا۔ اس کے بعد وہ ملک کے معیاری ادبی رسائل، ماہنامہ ’’معاصر‘‘ پٹنہ ، ماہنامہ ’’ندیم‘‘ گیا، ماہنامہ ’’آج کل‘‘ دہلی اور ماہنامہ’’سہیل ‘‘ گیا میں چھپتے رہے۔ ان کی تصانیف ’’ثریا کا خواب‘‘ افسانوی مجموعہ ۱۹۵۰ء ’’بہار کے نو چراغ‘‘ خاکوں کا مجموعہ ۱۹۵۲ء مرزا محمد علی فدوی عصر۔ حیات اور شاعری ‘‘تحقیقی مقالہ ۱۹۵۴ء ’’برزخ کا مشاعرہ‘‘ ڈراما ۱۹۵۷ء (دوسر ا ایڈیشن ۱۹۷۲ئ) ’’صنف انشائیہ اور چند انشائیے‘‘ تنقید ۱۹۵۸ء (چھٹا ایڈیشن ۱۹۹۷ئ) ’’نیل مرام‘‘ رپورتاژ اور افسانے ۱۹۶۸ء ’’نشاط خاطر‘‘ انشائیوں کا مجموعہ ۱۹۷۶ء (تیسرا ایڈیشن ۱۹۸۸ئ) ’’حیات کلیم‘‘ کلیم الدین احمد پر مقالات کا مجموعہ ۱۹۷۶ء ’’نمود ہستی‘‘ سیرتی سوانحی مقالے ۱۹۸۰ ’’نوائے دید‘‘ رپورتاژ ۱۹۹۸ء ہیں۔ ان کی بہت ساری تحریریں ابھی غیر مطبوعہ ہیں۔  

    حسنین عظیم آبادی بہار میں اردو انشایہ نگاری کے سر تاج سمجھے جاتے ہیں ۔انہوں نے نہ صرف انشائیے لکھے ہیں بلکہ صنف انشائیہ پر جو کام کیا ہے اس کی مثال نہیں ملتی ہے۔ ’’صنف انشائیہ اور چند انشائیے‘‘ ایک ایسی تنقیدی و تحقیقی کتاب ہے کہ اب تک اس کے چھ ایڈیشن شائع ہوچکے ہیں پھر بھی اس کی مانگ میں کوئی کمی نہیں ہوئی ہے۔ 

    حسنین عظیم آبادی کا صرف ایک انشائیوں کا مجموعہ ’’نشاط خاطر‘‘ ۱۹۷۶ء میں منظر عام پر آیا لیکن اس کی مقبولیت کا یہ حال ہے کہ اب تک اس کے کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں لیکن اس کی مقبولیت میں کوئی کمی نہیں آتی ہے۔ اس مجموعہ میں کل ۱۳ ؍ انشائیے ہیں۔ ’’مزاج اور رواج‘‘ ’’عشق‘‘، ’’بدنامی‘‘ ’’چکر‘‘ ’’’آداب اور ادیب‘‘ ’’تقویٰ‘‘ ’’ہیرو‘‘ ’’ہیئت اور جلد‘‘ ’’ٹیکسی‘‘ ’’استاد‘‘ ’’مطالعہ اور مشاہدہ‘‘سفر اور سریر سفر‘‘ اور سنجر‘‘

    حسنین عظیم آبادی کے انشائیوں میں طنز و مزاح کی بہت بڑی اہمیت ہے۔ انہوں نے اپنے انشائیوں میں طنز و مزاح کا بہتر استعمال کیا ہے۔ مزاح پیدا کرنے کے لیے انہوں نے واقعات اور لطائف کا سہارا اس طرح لیا ہے کہ پڑھنے والا مسکرائے بغیر نہیں رہ سکتا ہے لیکن اس مزاح میں متانت اور سنجیدگی ہے ۔ ان کے انشائیے ایک خاص انداز بیان رکھتے ہیں۔ اس سلسلے میں انہوں نے خود ہی فرمایا ہے۔

    ’’نشاط خاطر‘‘ محض سامان تفریح نہیں ۔ یہ وہ مرکب ہے جس میں مزاح کو سرد اور گرم کرنے یا رکھنے کی خاصیت موجود ہے۔ عام خیال ہے کہ ہنسنا تندرستی کی علامت ہے مگر دوسرے پر ہنسنے سے زیادہ صحت مند فعل اپنے آ پ پر ہنسنا ہے۔ تجربہ شرط ہے۔ آئینہ سامنے رکھ کر کبھی اپنے پر ہنسنے کی لذت محسوس کیجئے۔‘‘

(نشاط خاطر، حسنین عظیم آبادی، ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ، ۱۹۸۸ء ص:۲۷)

    حسنین عظیم آبادی نے انشائیے زبان و بیان کے لحاظ سے بہت اہم ہیں۔ ان کے انشائیوں کے جملے چھوٹے چھوٹے ہوتے ہیں لیکن ہر جملہ توجہ کا طلبگار ہوتا ہے۔ ان کی نثر میں شگفتگی ہے۔ وہ بے تکلفانہ انداز میں بہت سی کام کی باتیں کہہ جاتے ہیں۔ 

’’جوا ، شراب، چوری، زناجیسی کثرت العام عادتوں کو میں جدید نقطۂ نظر سے دیکھتا ہوں۔ کسی شخص کو ، جوان افعال کا مرتکب ہے اور ارتکاب اعلانیہ نہیں کرتا ’’بدکار‘‘ کہہ کر بدنام کرنا نامناسب سمجھتا ہوں۔ وجہ یہ ہے کہ انسان کی ضد شیطاں، یا شیب کا الٹا شباب نہیں ورنہ خود سوچئے خوش فعلی کی ضد بدفعلی ہوجائے گی اور عصمت مآب  بیوی کی شوہر نوازی میں مرد پر ستی کی ہوس نظر آئے گی ۔‘‘   (بدنامی

    کہا جاتا ہے کہ انشائیے میں مصنف کی شخصیت جلوہ گر ہوتی ہے۔ اس کے ذریعہ سماج میں رونما ہونے والے واقعات اور حادثات کو بہتر طور پر پیش کیا جاسکتا ہے ۔ یہ اصلاح کا ایک اچھا ذریعہ ہے۔ اس میں پڑھنے والوں کے لیے ہنسنے ہنسانے کا اچھا انتظام کیا جاتا ہے لیکن طنز کے تیر اس طرح چلائے جاتے ہیں کہ قارئین اپنی اصلاح کرنے پر آمادہ ہوجاتا ہے۔ ’’استاد‘‘ ’’مطالعہ اور مشاہدہ‘‘ ’’ہیرو‘‘ اور ’’تقوی‘‘ اس کی بہترین مثال ہے۔

    حسنین عظیم آبادی نے اپنے انشائیوں کے متعلق خود فرمایا ہے۔

    ’’نشاط خاطر‘‘ میرے انشائیوں کا مجموعہ ہے۔ یہ میرے تصور انشائیہ کی تصویر اور میرے مزاج و مذاق کی صورت ہے۔ اس تصویر کو دیکھنے اور صورت کی پہچاننے کے لیے احسن یہ ہے کہ میں بہ زبان خود نشاط خاطر کے ان خرافات سے آپ کو آشنا کردوں جن سے آپ کا مکدر یا سرور ہوجانا یقینی ہے۔‘‘

(نشاط خاطر۔ حسنین عظیم آبادی، ایجوکیشنل بک ہائوس علی گڑھ، ۱۹۸۸ء ص:۱۲)

    حسنین عظیم آبادی کے انشائیوں میں تازگی اور دل آویزی ہے ان کی تحریروں میں ان کافکر بھی شامل ہے ۔ وہ بے تکلفانہ انداز میں سب کچھ کہہ جاتے ہیں۔ ان کے زیادہ تر انشائیوں میں علمیت اور طنز و ظرافت کے علاوہ حسن آفرینی اور دلفریبی ہے:۔

’’رسم عقیقہ اور رسم ختنہ کی طرح جشن اجرا کی حیثیت بھی ثقافتی ہوتی ہے کہ ایک کہتا ہے، دوسرے حظ اٹھاتے ہیں ۔ یعنی ہماری چیز ہم ہی سے لٹائی جاتی ہے۔ یہ پہلو بلاشبہ اس رسم کی ایک تلخ حقیقت ہے۔۔۔۔سچ بتائیے یہ قدر ومنزلت باعث شمانت نہیں کہ بھرے مجمع میں اپنی متاع حیات کو غیر کے ہاتھ سے کوئی آپ قبول کرے۔‘‘  

(مزاج اور رواج)

    کچھ ادیبوں کی نگاہیں معاشری کی خوبیوں اور خامیوں کو ٹھیک سے سمجھ نہیں سکتی ہیں اس لیے وہ دوسروں کو نصیحت تو کرتے ہیں لیکن خود اس پر عمل نہیں کرتے ایسے ادیبوں پر حسنین عظیم آبادی نے اپنے انشائیے ’’آداب اور ادیب‘‘ ’’ہیئت اور حلیہ‘‘ اور ’’کنجر‘‘ کے ذریعہ بھرپو رطنز کیا ہے۔
    حسنین عظیم آبادی اپنے انشائیوں کے ذریعہ سماج کے اندر چھپی ہوئی برائیوں کو بڑی سلیقگی اور خوش اسلوبی سے اجاگر کرتے ہیں۔ ایسے اشخاص کے خلاف جو مال حرام حاصل کرنے میں دریغ نہیں کرتے لیکن سماج میں سرخرو ہونے کے لیے دکھاوے کے طور پر بڑے بڑے کام کرتے ہیں۔ آواز اٹھائی ہے۔ ’’بدنامی‘‘ ایسا ہی انشایہ ہے جس کے ذریعہ ایسے لوگوں پر چوٹ کی گئی ہے۔

    حسنین عظیم آبادی کا انشائیہ ’’ہیرو‘‘ بہت مشہور و مقبول انشائیہ ہے۔ یہ کئی یونیورسٹیوں کے نصاب میں بھی شامل رہا ہے۔ اس کے ذریعہ انہوں نے ایسے نااہل نوجوان جو اپنے آپ کو سب سے اہم اور اعلیٰ سمجھتے ہیں ، جو بڑے بزرگوں کو بھی خاطر میں نہیں لاتے ہیں پر ایسی چوٹ کی ہے کہ وہ اپنی اصلاح کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔

’’ہمارے پھلوں میں جتنی شکل اور سواد کے آم ملتے ہیں ، اتنی اقسام کے ہیرو بھی ہیں۔  مثال کے طور پر فلمی ہیرو، کلاس کا ہیرو، بازار کا ہیرو، محلہ کا ہیرو اور بیچ کا ہیرو وغیرہ وغیرہ۔ یہ ہیرو کسی جگہ اداکاری کرتا ہے کہیں سودا بازی، کہیں سردار ی کرتا ہے کہیں سواری، کہیں اس کا شکل پہلوان ہوتا ہے اور کہیں عاشق۔‘‘  

(ہیرو)

    حسنین عظیم آبادی نے اپنے ایک انشائیہ ’’استاد‘‘ میں اساتذہ کی ناہلی کو دکھایا ہے۔ وہ اس انشائیے کے ذریعہ انہیں ان کی اصلی حقیقت سے آگاہ کیا ہے دراصل حسنین عظیم آبادی کے دل میں تعلیم کی بہت اہمیت تھی، وہ خود بھی استاد تھے۔ وہ تعلیمی نظام کی کمزوریوں پر افسردہ تھے۔ وہ تعلیمی نظام کی خامیوں کو دور کرنے کے ساتھ ساتھ شاگرد اور استاد کے حقیقی رشتے کو دوبارہ قائم کرنے کے بھی خواہاں تھے۔ 

    مختصر یہ کہ حسنین عظیم آبادی کے انشائیے ہر لحاظ سے فن کی کسوٹی پر کھڑے اترتے ہیں۔ اردو انشائیہ نگاری میں ان کے انشائیے اہم مقام رکھتے ہیں۔ انہوں نے کم ہی انشائیے لکھے لیکن انہیں شہرت کی بلند ی پر پہنچانے کے لیے یہی انشائیے کافی ہیں۔

٭٭٭

Ahsan Alam
Moh: Raham Khan, P.O.: Lalbagh, Darbhanga
Mob: 9431414808, Email: ahsanalam16@yahoo.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 1440