donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulan Azad Ke Nazariye Taleem Ki Asri Manviyat


ڈاکٹراحسان عالم

رحم خاں، دربھنگہ

 

مولانا آزاد کے نظریۂ تعلیم کی عصری معنویت


    جب ہم موجودہ نظام تعلیم کا جائزہ لیتے ہیں تو ہمیں یہ بات واضح طور پر نظر آتی ہے کہ اس نظام کا انحصار مولانا ابوالکلام آزاد کے نظریۂ تعلیم پر مبنی ہے۔ مولانا آزاد ایک ساتھ روایتی اور جدید دونوں ہی طرح کے نظام تعلیم کے حامی اور نظریہ ساز تھے۔ ہندوستان زمانہ قدیم سے ہی علم وتہذیب کا گہوارہ رہا ہے ۔ یہاں غیر ملکوں سے بھی لوگ حصول تعلیم کے لئے آتے رہے ہیں۔ جس تعلیم کو ہم پرانا اور دقیانوسی کہتے ہیں اسی نے شیخ سعدی، حافظ شیرازی ،ٹوڑدمل اور ابوالفضل جیسی شخصیتوں کو پیداکیا۔بے حد افسوس کی بات ہے کہ ہم نے اس جانب توجہ نہیں دی نتیجہ یہ ہوا کہ زمانہ آگے نکل گیا اور ہمارا نظام تعلیم وہیں کا وہیں رہ گیا۔ مولانا آزاد نے ہمیشہ اس زمانہ کی یاد دلائی اور صرف یاد ہی نہیں دلائی بلکہ اس کی تجوید کی بھی کامیاب کوشش کی۔ موجودہ دور کے رہنما اپنی نامور ی کے لئے تجدید کا سہرا اپنے سر باندھنے کی تاک میں لگے رہتے ہیں۔ شاید یہ بات انہیں معلوم نہیں ہے کہ وہ جس راستے پر چلنے کی کوشش کر رہے ہیں دراصل وہ مولانا آزاد کے بتائے ہوئے راستے ہی ہیں اور ان کے نظریہ کو پیش کرکے اپنے نام کا ڈنکا پیٹ رہے ہیں۔ آج جو کچھ تعلیمی نظریات پیش کئے جارہے ہیں وہ ۱۹۲۰ء سے ہی مولانا آزاد نے پیش کرنا شروع کردیا تھا۔ دسمبر ۱۹۲۰ء کو کلکتہ کے مدرسہ اسلامیہ کا افتتاح کرتے ہوئے انہوں نے کہا تھا:

’’آپ یقین کیجئے کہ بجا طور پر آج صرف یہی ایک جماعت علم کی سچی پرستار کہی جاسکتی ہے ۔ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ انگریزی تعلیم وسیلۂ رزق ہے ۔ یہ جانتے ہیں کہ انگریزی تعلیم کی ڈگریوں نے گربڑے بڑے عہدوں اور نوکریوں کے دراوزوں میں قدم رکھ سکتے ہیں اور ایک کلر ک سے لے کر لارڈ صاحب کی نوکری تک صرف انگریزی تعلیم سے ہی پہونچ سکتے ہیں۔ ‘‘

    مولانا آزاد کتابی تعلیم کے بجائے حصول علم کو زیادہ اہمیت دیتے رہے۔ انہیں معلوم تھا کہ کتابیں پڑھ کر جو علم حاصل ہوتا ہے وہ ادھورا اور محدود ہوتا ہے۔ اس لئے وہ اس تعلیم پر زور دیتے تھے جو لکچر کے ذریعہ دیا جاتا ہے۔ آج ہم اسکول میں کتابوں کے بوجھ کو کم کرنے کی بات کر رہے ہیں ۔ خواص کر سی بی ایس ای اسکولوں میں بچوں کے بستے کتابوں سے بھرے ہوتے ہیں ۔ کبھی کبھی ایسا بھی ہوتا ہے کہ بچوں کے اپنے وزن سے زیادہ کتابوں کا وزن معلوم پڑتا ہے ۔ اس پر لگاتار یہ بحث ہوتی رہتی ہے کہ بچوں کے بستے میں کتابوں کے بوجھ کو کم کیا جائے ورنہ وہ ڈپریشن کے شکار ہوسکتے ہیں۔ لیکن اکثر یہ بحث اور اس سے ہونے والے نتائج سرد بستے میں چلے جاتے ہیں۔ مولانا آزاد نے اب سے تقریباً ۷۵ سال قبل پہلے یہ نظریہ دیا تھا کہ طالب علم کو صرف کتابوں سے نہیں بلکہ لکچر کے ذریعہ علم دیا جائے۔ انہیں کتابی کیڑا بنانے کے بجائے حصول علم کی ترغیب دی جائے۔ مولانا آزاد اس لکچر یا زبانی تعلیم کو املا کہتے ہیں۔لکچر کے ذریعہ جو تعلیم دی جاتی ہے وہ بچوں کے ذہن پر لمبے عرصے کے لئے منعکس ہوجاتی ہے۔ ۲۲؍ فروری ۱۹۴۷ء کو عربی نصاب کمیٹی لکھنو میں دی گئی ان کی تقریر کے الفاظ اس طرح ہیں:

’’بدقسمتی سے املا کی جگہ کتابیں لے لیتی ہیں۔ یاد رکھئے کہ قد ماء کے طریقہ تعلیم میں کیا تھا ۔ ان کا اعتماد املا کے اوپر تھا نہ کہ کتابوں کے اوپر حتی کہ اگر میں آپ سے کہوں کہ علوم عالیہ اور صرف و نحو یعنی گرامر ایسی چیز ہے کہ آپ اس کے لئے کہیں گے کہ کتابیں ہونا چاہئے ۔ آج بھی طریقہ تعلیم یہ ہے کہ ان چیزوں کا دارومدار کتابوں پر ہے لیکن آپ کو تعجب ہوگا کہ متقدمین اور مسلمانوں کا جو طریقہ رہا تھا اسلامی علوم اور صرف و نحو اور ادب یا اس قسم کی جو چیزیں ہیں اس میں اعتماد املا پر تھا کتابیں بن چکی تھیں لیکن اعتماد جو کچھ تھا وہ املا پر تھا۔۔۔۔اس نکتے سے جہاں اعلیٰ علوم کی تعلیم ہی نہیں بلکہ علوم عالیہ یعنی صرف و نحو اور گرامر وغیرہ کی تعلیم بھی زبانی درس کے ذریعے سے ہوتی تھی جس کو املا کہتے ہیں۔‘‘

    اس سے یہ ظاہر نہیں ہوتا کہ مولانا آزاد کتابوں کے خلاف تھے۔ بلکہ ان کا ماننا تھا کہ کتابوں کی مدد لی جانی چاہئے لیکن کتابوں پر اکتفا کرنا درست نہیں۔ کتاب کوئی خاص شخص کسی خاص مقصد اور نظریہ کے تحت لکھتا ہے اور طالب علم کو کسی خاص نظریہ میں باندھنا درست نہیں ہے۔ ان کا مقصد حصول علم ہے اس لئے ہر طرح کا علم حاصل کرنا چاہئے۔ ٹھیک اسی طرح کسی استاد کو اپنا نظریہ طالب علم کو نہیں تھوپنا چاہئے۔ انہیں ہر طرح کا علم دینا چاہئے ۔ وہ طالب علم کو کتابوں کے مطالعہ کے ساتھ ساتھ لکچر سننے پر زور ڈالتے ہیں اور استاد کو نوٹس لکھانے کے بجائے انہیں لکچر دینے کی تلقین کرتے ہیں ۔لکچر کے ذریعہ جو بات ایک طالب علم کے ذہن میں پیوست ہوتی ہے اس کا اثر لمبے عرصے بلکہ کبھی کبھی زندگی بھر کے لئے ہوتا ہے۔ اکثر لوگوں کے ساتھ ایسا ہوتا ہے کہ بچپن میں استاد نے درجہ میں کچھ بات بتادی اور وہ بات اس کے دماغ کے اسکرین پر ایسے پرنٹ ہوگئی جس کی سیاہی کبھی اڑتی ہی نہیں۔ لوگ حوالے کے طور پر ان باتوں کو پیش کرتے ہیں۔ اس سلسلے میں ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

’’جس علم کو آپ حاصل کرنا چاہتے ہیں اس علم کے لئے آپ کے دماغ کو کسی ایک معین کتاب کے اوراق میں بند کرنا چاہئے، مقفل کرنا چاہئے یا کہ ایک کتاب سے مدد لیتے ہوئے پڑھنے والے کا دماغ اور پرھانے والے کا دماغ علم وفن کی وادیوں میں کھلے طور پر پڑھ سکے۔ اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ تعلیم کے لئے ایک خاص حد تک کسی معین کتاب کا رکھنا ضروری ہے۔ وہ پڑھنے والے کو مدد دیتی ہے وہ اس کے دماغ کو عبارت کے حل کرنے کی مشق کراتی ہے۔ ‘‘

    مولانا آگے فرماتے ہیں:

’’جب کتابوں کا راستہ کھل گیا تو اب تمام تر دارومدار ہوگیا کتاب پر۔ جس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ۱۲ برس سے ۱۴ برس تک آپ اپنا دماغ صرف کرتے ہیں مگر نتیجہ کیا نکلتا ہے؟ مجھے معاف کیا جائے۔ یہ کہنے کی میں جرأت کروں کہ چند کتابوں کا علم حاصل ہوجاتا ہے اور علوم حاصل نہیں ہوتے ہیں۔ آپ جانتے ہیں کہ چند کتابوں کاعلم حاصل کرنے میں اور نفس علم حاصل کرنے میں بڑا فرق ہوتا ہے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس تبدیلی سے روز بروز ختم ہوتا گیا۔۔۔۔۔اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ روز بروز تعلیم کا ڈھانچہ بگڑتا گیا۔ تعلیم گرتی گئی۔ ایک بڑی غلط چیز جو پیدا ہوئی وہ تھا متون و شرح کا حد اعتدال سے آگے بڑھ جانا‘‘

(۱۹۴۷ئ)

    مولانا آگے لکھتے ہیں:

’’طریقۂ درس میں جو تبدیلی آئی ہے اس سے اسلامی علوم کو بہت ہی سخت نقصان پہنچا۔ قدما کے طریقۂ املا کو ترک کردیا۔ اعلیٰ علوم کی تعلیم زبانی درس کے ذریعے اور لکچرس سے دی جاتی تھی۔ یہ بالکل ناپید ہوگیا اور تمام تر کتابوں پر اعتماد ہوگیا اور جو طریقہ اختیار کیا گیا وہ اصول تعلیم کے لحاظ سے بالکل غلط طریقہ اختیار کیا گیا۔‘‘

(۱۹۴۷ئ)

    ان نکات سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ مولانا آزاد کو اپنے تعلیمی نظام اور بدلتے ہوئے رویے سے کس قدر شکایت تھی اور وہ اس کی تلقین کرتے تھے کہ اگر ہم نے اپنا رویہ نہیں بدلا تو نہ صرف تعلیم کے میدان میں پچھڑجائیں گے بلکہ اس کا اثر زندگی کے دوسرے شعبوں پر پڑے گا۔ آج ہم مدرسہ کے نصاب تعلیم میں تبدیلی کی بات کر تے ہیں ، حکومت بھی اس کی بات کر تی ہے۔ دراصل یہ کوئی نئی بات نہیں ہے۔ مولانا آزاد نے بیسویں صدی کے بالکل ابتدائی دور میں ہی اس طرف اشارہ کیا تھا اور آج ان کی باتوں کو صرف نقل کررہے ہیں نئی بات بالکل نہیں ہورہی ہے۔ اس سے اندازہ لگا سکتے ہیں کہ مولانا آزاد کتنے دور اندیش تھے۔ مولانا آزاد کی تقریر کے چند ٹکڑے دیکھیں:

’’جن مدرسوں میں آپ نے آج سے پانچ سو برس پہلے قدم رکھا تھا اس پانچ سو برس کے اندر دنیا بیٹھی نہیں رہی۔ زمانہ بھی چلتا رہا۔ وہ پانچ سو برس کی مسافت طے کر چکا ہے اور آپ وہیں بیٹھے ہوئے ہیں۔ آج جو تعلیم آپ ان مدرسوں میں دے رہے ہیں ۔ آپ وقت کی چال سے اسے کیسے جوڑ سکتے ہیں ؟نہیں جوڑ سکتے ۔ نتیجہ یہ ہے کہ وہ تعلیم کہ جس تعلیم سے ملک کے بہتر مدبر ، ملک کے بہترین منتظم اور ملک کے بہترین عہدہ دار پید اہوتے تھے ، آج ان ہی مدرسوں کو یہ سمجھ لیا گیا ہے کہ یہ لوگ بالکل نکمے ہیں۔ ان مدرسوں سے نکلنے کے بعد مسجدوں میں بیٹھ کر یہ لوگ بس خیرات کی روٹیاں توڑلیں۔ کتنے افسوس کی با ت ہے۔ اس میں شک نہیں کہ جو لوگ ایسا سمجھتے ہیں انہوں نے حقیقت کو نہیں سمجھا ہے لیکن ہمیں یہ ماننا پڑے گا اور اس میں کوئی شبہ نہیں ہے کہ ہم زمانے سے دور ہو گئے ہیں۔ ‘‘

    مولانا آزاد آگے تلقین کرتے ہوئے کہتے ہیں:

’’آپ نے کبھی اس کی کوشش نہیں کی کہ آپ اپنے مدرسوں کو زمانہ کی چال کے ساتھ جوڑ سکیں۔ زمانہ چلتا رہا اور ترقی پر پہنچ گیا اور آپ وہیں رہے جہاں تھے۔ نتیجہ یہ ہوا کہ آپ کی تعلیم کو زمانہ کی مانگوں سے کوئی رشتہ نہیں رہا اور زمانہ نے آپ کے خلاف آپ کو نکما سمجھ کر فیصلہ کردیا۔ زمانہ نے آپ کو بیکار سمجھا ہے ، آپ کو نکما سمجھا ہے۔۔۔۔۔ہمارا فرض تھا کہ ہم زمانے کے تقاضوں کا ساتھ دیتے مگر ہم نے زمانے کا ساتھ نہیں دیا۔ ‘‘

(۱۹۴۷ئ)

    مولانا آزاد نے جن نکات کی جانب نشاندہی کی تھی ہم نے اس وقت اس پر دھیان دیا اور نہ اب تک ہمارے دماغ میں یہ بات آئی ہے۔ ہاں ہماری حکومتوں نے ان نکات کی رسی پکڑ کر کچھ سیاسی فائدے کے لئے اور کچھ ہمارے لئے اس پر غو ر کیا ہے اور اب وہ اس جانب کچھ کام کرنا چاہتی ہے۔ کچھ سال قبل ہمارے سامنے سچر کمیٹی کی رپورٹ آئی ۔ اس میں مادری زبان کو ابتدائی تعلیم میں فوقیت دی گئی ہے ۔ حقیقت تو یہ ہے یہ سچر کمیٹی کے ممبران کے دماغ کی اپج نہیں ہے۔ اس بات پر مولانا آزاد نے آزادی سے قبل ہی زور دیا تھا کہ ابتدائی تعلیم مادری زبان میں ہی ہونی چاہئے خواہ و مدرسہ کی تعلیم ہو یا نارمل اسکولوں کی تعلیم۔ انہوں نے ابتدائی تعلیم کی بنیاد مادری زبان میں رکھنے پر زور دیا تھا۔ ان کی تقریر کا ایک حصہ دیکھیں:

’’ہندوستان میں عربی علم اور تعلیم میں جس فن کی تعلیم بھی شروع کی جائے اس کی پہلی رونمائی مادری زبان میں ہونا چاہئے۔ تاکہ وہ اس کو فوراً پکڑلے اور اگر پہلی رونمائی مادری زبان میں نہیں ہوتی ہے اور ایک اجنبی روپ اس کے سامنے آتا ہے جسے وہ پہچانتا نہیں تو پھر کافی وقت اس کے دماغ کو لگ جاتا ہے کہ وہ اپنے دماغ کو اس اجنبی صورت سے آشنا کرے۔ ‘‘

    ان نکات پر مزید روشنی ڈالتے ہوئے کہتے ہیں:

’’بنیادی اصول یہ ہونا چاہئے کہ ہر فن کی ابتدائی رونمائی مادری زبان میں ہوا کرے۔ کوئی علم جو اس کے سامنے آئے ، پہلی مرتبہ جو اپنا گھونگھٹ ہٹائے اپنے چہرہ سے ، تو وہ یہ سمجھے کم یہ جانی بوجھی ہوئی صورت ہے۔ ‘‘

    ابتدائی تعلیم اگر مادری زبان میں ہوتو بچوں کے ذہن پر بوجھ کم پڑتا ہے۔دوسری زبانوں میں تعلیم دینے پر طالب علم کے ذہن پر اضافی بوجھ پڑتا ہے اور اس کے علم کے سیکھنے میں مشکلات کا سامنا ہوتا ہے بلکہ اس کی رفتار سست ہوجاتی ہے ۔ مولانا آزاد کے خیال میں ایسا کرکے ہم طالب علم کے ذہن پر تین طرح کا بوجھ ڈالتے ہیں۔ خود ان کے الفاظ ملاحظہ ہوں:

’’آپ نے اس کے اوپر ایک وقت میں تین بوجھ ڈالے۔ پہلا بوجھ خود عربی زبان کا ہے، دوسرا بوجھ کتاب کا جو اس میں عبارت لکھی گئی ہے اور تیسرا بوجھ یہ کہ اس زبان کو سیکھنے کا جو اس کی مادری زبان نہیں ہے۔ ‘‘

(۱۹۴۷ئ)

    ہم نے مادری زبان کی طرف دھیان کیوں نہیں دیا اس کا احساس بھی مولانا آزاد کو بہت پہلے ہوگیا تھا۔ اس لئے انہوں نے ابتدائی زمانے سے ہی مادری زبان میں تعلیم پر زور دیا۔ دراصل ہم نے چمکنے والی چیز کی طرف اپنا ذہن مرکوز کرلیا جبکہ 

All glitters are not gold.
    ہر چمکدار چیز سونا نہیں ہوتی ۔ یہی وجہ ہے کہ آج ہم ہر میدان میں پیچھے ہیں۔ کسی بھی میدان میں ہم پختہ نہیں ہوسکے۔ حقیقتاً ہونا یہ چاہئے تھا کہ پہلے ہم اپنے آپ کو اس لائق بناتے اور جب ہم اس کے مستحق ہوتے تب اپنا قدم کسی دوسری جانب بڑھاتے۔ مولانا آزاد نے اس بات کو سمجھ لیا تھا۔ یہی وجہ ہے کہ چمکنے والی چیز سے بہت زیادہ اہمیت نہیں رکھنے کے باوجود نہ صرف کامیاب رہے بلکہ ملک و قوم کو راہ راست پر لانے کی کامیاب کوشش کی۔ انگریزی تعلیم اور اس کو ذریعہ تعلیم بنانے کی ابتدا اور اس وبا میں مبتلا ہونے کی کوشش کی جانب اشارہ کرتے ہوئے ہندوستانی کمیٹی ،بہار کے جلسہ (۱۹۳۷ئ)میں انہوں نے کہا:

’’۱۸۱۵ء میں میکالنے نے ہندوستان میں تعلیم کا خاکہ کھینچا اور ایک نئی تبدیلی رونما ہوئی۔ ایک گروہ کا خیال تھا کہ مشرقی علوم کو مشرقی زبان میں سیکھنا چاہئے اور دوسرے گروہ نے کہا کہ انہیں انگریزی میں۔ میکالے نے دوسرے گروہ کا ساتھ دیا اور اپنی وہ مشہور رپورٹ لکھی جس میں اس نے لکھا کہ ہندوستانیوں کو ایک نئی زبان سیکھنا چاہئے اور نئے علوم و فنون کو اس کے ذریعہ سیکھ کر ترقی کے راستہ پر بڑھنا چاہئے۔ ‘‘

(۱۹۳۷ئ)

آگے کہتے ہیں:

’’جو دروازہ ان کے لئے کھل گیا تھا وہ چاہتے تھے کہ کسی طرح اسے محفوظ کرلیا جائے۔ اس لئے کوشش کی کہ تعلیم کا ذریعہ وہ زبان ہو جو ملک کی مادری ، قومی ، روایتی ، معاشرتی اور تاریخی نہیں ، بلکہ ایک سمندر پار کی زبان کو وسیلہ بنایا جائے۔ ‘‘

(۱۹۳۷ئ)

    ہم ہندوستانیوں نے اسے بخوشی قبول کیا ۔ ہماری ذہنیت بننی شروع ہوگئی کہ سمندر پار سے آئی ہوئے ہر شئے ، ہر فلسفہ اور ہر علم ہمارے لئے مفید ہے اور ہم نے اسی نظریہ کے تحت ان کی ہر چیز کو نہ صرف قبول کرنا شروع کیا بلکہ اس پر مکمل ایمان لاتے رہے ۔ تبھی تو مولانا آزاد نے ایک جلسے میں کہا:

’’آپ کی آنکھوں پر پہلے ہی ایک مصنوعی عینک لگادی گئی ہے اور وہ قوت جو قومی زبان کے ذریعہ سے حاصل ہوسکتی تھی وہ ایک اجنبی صدا سے مٹادی گئی ہے اور اب حالت یہ ہے کہ آپ کوئی چیز اپنی آنکھوں سے نہیں دیکھ سکتے ‘‘

(۱۹۳۷ئ)

    مختصر طور پر یہ کہا جاسکتا ہے کہ مولانا ابوالکلام آزاد ایک ایسے مفکر تھے جو صرف ماضی اور حال کے تعلیمی نظام پر نظر رکھتے تھے بلکہ اس کے بارے میں فکر مند بھی تھے اور انہیں مستقبل کی فکر ستاتی رہتی تھی۔ اس لئے جب وہ آزاد ہندوستان کے پہلے وزیر تعلیم مقرر کئے گئے تو نہ صرف ہندوستان کے نظام تعلیم کا ڈھانچہ مشرقی علوم کی روشنی میں بنانے کی کوشش کی بلکہ اسے محفوظ رکھنے کی غرض سے مختلف تنظیموں اور اکیڈمیوں کا قیام بھی عمل میں لایا۔ انہوں نے ایک ٹھوس تعلیمی ڈھانچہ تیار کیا جس پر وہ خود عمل نہ کر سکے لیکن وقتاً فوقتاً اس پر عمل کیا جاتا رہا ہے۔ یہاں تک کہ اب Right to Education کا بل بھی پاس ہوچکا ہے۔ 

 (مطبوعہ’’تمثیل نو‘‘ دربھنگہ،  جولائی ۱۳ تا جون ۲۰۱۴ء )

٭٭٭

Ahsan Alam
Moh: Raham Khan, Lalbagh, Darbhanga
Mob: 9431414808

    

Comments


Login

You are Visitor Number : 555