donateplease
newsletter
newsletter
rishta online logo
rosemine
Bazme Adab
Google   Site  
Bookmark and Share 
mazameen
Share on Facebook
 
Literary Articles -->> Personality
 
Share to Aalmi Urdu Ghar
Author : Dr. Ahsan Alam
Title :
   Maulana Abul Kalam Azad : Sahafat Ke Azeem Sutoon


مولانا ابوالکلام آزاد: صحافت کے عظیم ستون


احسان عالم

ریسرچ اسکالر

(اردو)

ایل ۔این۔ ایم۔ یو، دربھنگہ

 

    مولانا ابوالکلام آزاد ایک بے باک لیڈر، عظیم خطیب، متبحر عالم دین، بااثر سیاست داں، اسلامی روح کے حامل ، منفرد ادیب کے ساتھ اقلیم صحافت کے عظیم ستون تھے۔ انہوں نے اپنی تمام تر صلاحیتیں عالم اسلام کے اتحاد ، بر صغیر کے مسلمانوں کی رہنمائی اور ملک کی آزادی کے لئے اپنے آپ کو وقف کردیا۔ آپ کسی بھی مسائل پر اپنی رائے کا اظہار پوری قوت اور بے باکی سے کرتے تھے۔ جنگ آزادی میں حصہ لے کر جہاں آپ نے جیل کی صعوبتیں جھیلیں وہیں شعر و اد ب کا خوبصورت نمونہ پیش کرتے ہوئے ادب کی تاریخ میں امتیازی مقام حاصل کیا۔

    مولانا ابوالکلام آزاد نے صحافت کو وسیلہ قرار دیتے ہوئے ’’لسان الصدق‘‘ کی بنیادرکھی ۔ اس کے ذریعہ ادبی صحافت کا آغاز کرتے ہوئے ’’الہلال‘‘ اور ’’البلاغ‘‘ کی سیاسی صحافت کے ذریعہ شہرت حاصل کی اور اسے اپنے افکار و خیالات و جذبات کے اظہار کا ذریعہ بنایا ۔ آپ صرف صحافی ہی نہیں تھے بلکہ ہشت پہلو شخصیت کے مالک تھے۔ بہت ہی جلد پوری صحافت پر چھا گئے۔ پورے ہندوستان میں ان کے صحافت کی طوطی بولنے لگی۔ مولانا آزاد کو نہ کسی مخالفت کی پرواہ تھی اور نہ حکومت کا خوف تھا۔ اس کے نتائج ہوئے کہ جو بھی آواز ان کے خلاف اٹھی وہ اپنی موت آپ مر گئی۔ انہوں نے ہندوستان میں تعلیمی بیدار اور صحافت کے ذریعہ علم و ہنر میں اضافہ کی طرف توجہ دی۔

    ۱۹۰۱ء میں مولانا آزاد بمبئی تشریف لے گئے۔ وہاں انہیں عربی اور فارسی کتابوں کے مطالعہ کا بھرپور موقع ملا ۔ اس مطالعے نے ان کے دل میں خود ایک ماہنامہ یا ہفتہ وار نکلالنے کی کسک پیدا کر دی۔ ان کے ذہن میں انگڑائیاں اٹھنے لگیں اور آخر کار ہفتہ وار ’’المصباح ‘‘ نکالا۔ اس رسالہ کی تحریروں میں ایسا جادو تھا کہ جو بھی شائقین اس رسالہ کو پڑھ لیتا ہفتہ بھر بے چینی سے اس کا انتظار کرتا۔ اس رسالہ نے انہیں اردو کے صف اول کا صحافی بنا ڈالا جس نے اردو صحافت کی عظمت کو آسمان کی بلندیوں تک پہنچا دیا۔ اس کے متعلق خود مولانا آزاد فرماتے ہیں:
’’چند دنوں کے بعد کی بات ہے کہ محمد موسیٰ نامی ایک شخص نے نیا نیا پریس جاری کیا تھا۔ والد مرحوم کے بعض کاغذات وغیرہ لینے کے لئے وہ آمد و رفت رکھتا تھا ۔ اس نے خیال کیا کہ تجارتی اغراض سے کوئی اخبار نکالے ۔ یہ میرے خاص ذوق کی بات تھی، میں نے اور زیادہ ترغیب دی اور بالآخر وہ آمادہ ہوگیا۔ ’’مصباح الشرق‘‘مصر سے نکلتا تھا ۔ میں نے اس کا نام ’’المصباح‘‘ تجویز کیا ۔       

 (آزادی کی کہانی خود آزاد کی زبانی بہ روایت ملیح آبادی، ص:۲۷۵)

    ۲۰؍ نومبر ۱۹۰۳ء میں لسان الصدق شائع ہوا۔ جس وقت یہ ماہنامہ جاری ہوا اس وقت مولانا آزاد کی عمرپندرہ برس کے قریب تھی۔ انہوں نے لسان الصدق کو اسم بامسمیٰ بنانے کی ہر ممکن کوشش کی۔ اس کے مضامین کا معیار معتبر اور بلند تھا۔ اس کے بیشتر قاری کو یہ خیال ہوا کہ اس کے مدیر کوئی معمربزرگ ہوں گے۔ ملک گیر پیمانے پر اس رسالے نے کافی شہرت حاصل کی ۔ انجمن حمایت اسلام اپنے وقت کا ایک مشہور ادارہ تھا جو آج بھی قائم و دائم ہے۔ لسان الصدق کے مضامین کے معیار نے اس انجمن کے اصحاب مجاز کو اتنا متاثر کیا کہ ۱۹۰۴ء کے سالانہ جلسے کے موقع پر انہیں لاہو ر آنے اور اجلاس کو مخاطب کرنے کی دعوت دی گئی۔ آپ اس جلسے میں تشریف لے گئے اور اجلاس سے خطاب بھی کیا۔ ان کی تقریر کا موضوع تھا ’’تبلیغ اسلام کا طریق کار‘‘ ۔ تقریباً ۱۸؍ ماہ کی مدت میں لسان الصدق بند ہوگیا۔

    ۱۹۰۵ء میں مولانا شبلی نعمانی نے مولانا ابولکلام آزاد کو لکھنؤ آنے کی دعوت دی اور یہ خواہش ظاہر کی کہ دارالعلوم ندوۃ العلماء کے ماہانہ رسالہ ’’الندوہ‘‘ کی ترتیب و تدوین میں ہاتھ بٹائیں۔ مولانا شبلی نعمانی خود اس کے ایڈیٹر تھے۔ ایسے میں ایک سترہ سالہ نوجوان کو الندوہ کی ادارت میں شامل ہونے کی دعوت دینا اس بات کی علامت ہے کہ وہ مولانا آزاد کی عظمت کو تسلیم کرتے تھے۔ مولانا آزاد اکتوبر ۱۹۰۵ء سے مارچ ۱۹۰۶ء تک الندوہ سے وابستہ رہے اس کے بعد انہوں نے الندوہ سے تعلق قطع کر لیا۔

    ’’لسان الصدق نے  مولانا آزاد کو شہرت کی بلندیوں پر پہنچا دیا تھا۔ اس زمانے میں امرتسر سے ایک مشہور سہ روزہ ’’وکیل‘‘ نکلتا تھا جس کے مالک شیخ غلام محمد تھے۔ جب مولانا ’’الندوہ‘‘ سے علاحدہ ہوگئے تو شیخ غلام محمد نے انہیں امرتسر آکر ’’وکیل‘‘ کی ادارت سنبھالنے کی دعوت دی۔ مولانا آزاد امرتسر تشریف لے گئے اور ’’وکیل‘‘ کے ادارت کی ذمہ داری سنبھالتے ہوئے اس میں کئی تبدیلیاں کیں، جس سے پرچہ کی مقبولیت میں کافی اضافہ ہوا۔ لیکن اپنے زندگی کے ایک حادثہ کی وجہ سے مولانا آزاد کو امرتسر سے لوٹ آنا پڑا۔ ان کے والد محترم مولوی محمد خیر الدین صاحب نے انہیں پیری مریدی سنبھالنے کے لئے بلایا تھا لیکن انہوں نے صاف طور پر انکار کردیا اور جواب دیا ’’مجھے یہ کام پسند نہیں کہ لوگ آئیں اور میرے ہاتھ پائوں کو فرط عقیدت سے چومیں ۔‘‘ والد بھی کافی سمجھ دار آدمی تھے۔ انہیں نے اس کام کے لئے انہیں مجبور کرنا مناسب نہیں سمجھا اور امرتسر جانے کی اجازت دے دی۔ دوبارہ ’’وکیل‘‘ کے ادارت کی ذمہ داری ان کے سپرد کی گئی۔ ان دنوں آپ کافی بیمار رہنے لگے۔ مجبوراً خود کو ایک بار پھر وکیل کی ادارت سے الگ کرنا پڑا۔

    مولانا آزاد اب بیس برس کے ہوچکے تھے۔ اس دوران انہوں نے کئی پرچوں میں کام کیا ۔ بعض کے وہ خود مالک تھے اور بعض مرتبہ دوسروں کے یہاں تنخواہ پر کام کیا۔ وہ کہیں بھی رہے اپنے نصب العین کو بلند رکھا۔ ان کی ہمیشہ یہ خواہش رہی کہ صحافت کو ملک و ملت کی بہتری، بہبودی، خدمت گزاری اور خیر خواہی کا ذریعہ بنایا جائے۔ آپ مختلف قسم کے تجربوں سے گذرتے رہے۔ آخر کار وہ منزل مقصود پر پہنچ گئے۔ ۱۳؍ جولائی ۱۹۱۲ء کو ہفتہ وار ’’الہلال ‘‘ نکالا۔ وہ الہلال جس کا انداز بیان دیکھ کر ہر کوئی مولانا آزاد کا گرویدہ ہوجاتا ہے۔ مولانا آزاد نے بار بار یہ اعلانیہ طور پر کہا کہ الہلال ایک دعوت تھا جس کا مقصد دین کی تبلیغ اور اس کے بنیادی اصول کو زندہ کرنا تھا۔ وہ بڑے بے باکانہ اندا زمیں اپنی رائے کا اظہار کرتے ۔

    مولانا ابوالکلام آزاد کے الہلال اور البلاغ کے اداریوں میں جذبہ اور جوش نمایاں ہوتا انداز خطیبانہ اور بے باکی غالب ہوتی ۔ وہ کسی بھی مسئلہ میں اپنی رائے کا اظہار پوری قوت اور بے باکی سے کرتے تھے۔ اور ان اداریوں کے ذریعہ ایک طرح انگریزوں اور سامراجی طاقتوں کو دعوت مبارزت دی جاتی اور ایسا معلوم ہوتا کہ آزاد اپنے اداریہ کے ذریعہ قوم کے سوئے ہوئے افراد کو جھنجھوڑ جھنجھوڑ کر جگانے کی کوشش کر رہے ہیں اور زبان کے اعتبار سے ان پر ادب کا غلبہ ہوتا چونکہ مولانا آزاد عظیم صحافی کے ساتھ بڑے خطیب بھی تھے۔

    اس وقت  ہفت روزہ وطن ، مدینہ اور ہمدم کے ساتھ مسلم گزٹ بھی شائع ہورہا تھا۔ اس کے علاوہ سیاست پرتاپ ، وندے ماترم کیسری ملاپ وغیرہ جاری ہوئے۔ لیکن ان میں سے کوئی بھی مولانا آزاد کی ادارت میںنکلنے والا اخبار ’’الہلال‘‘ کا مقابلہ نہ کر سکا ۔ باوجود اس کے کہ یہ اخبار ہفت روزہ تھا لیکن اس کے سامنے یومیہ اخبار کی بھی چمک ماند پڑ گئی تھی اور ایک طرح سے بیسویںصدی کے ربع اول میں اردو صحافت اور مقالہ نگاری سراپا جذبات پر آکر کھڑی ہوگئی تھی۔ اس فضا ہمارے سامنے جو بڑے نمونے اخبار نویسی کے پیش کئے ان میں ’’الہلال‘‘ کو نمایاں مقام حاصل ہے ۔ گویا اس وقت سب سے زیادہ موثر اداریہ نگارمیں حضرت مولانا ابوالکلام آزا دکا نام آتا تھا، جن کی اداریہ نگاری نے سامراجی طاقتوں کو دعوت مبارزت دی اور انگریزوں کو ناکوں چنے چبوادئے ۔ اور سوئی ہوئی قوم کو بیدار کرکے اس کو اس کے حق سے آگاہ کیا۔ اور فضا میں آزادی کے ساتھ سانس لینے کا جو حق ایک انسان کو اللہ نے دیا تھا اس سے واقف کرایا ۔ مدارس کے چہار دیواری سے وقت کے نامور اساتذہ کو نکال کر ان کو ان کا بھولا ہوا سبق یاد دلایا۔ اور خانقاہوں کے بزرگوں کو فلسفہ آزادی اور دین میں سیاست کی کیا اہمیت ہے اس سے آگاہ کیااور قرآنی آیات اور رسول اللہ کی روایت کے ذریعہ بتایا کہ دین میں سیاست کی کیا اہمیت ہے اور آزادی کا مطالبہ کرنا حق ہے یا نہیں؟

    اس طرح ہندوستان کی اس وقت کی گرما گرم سیاست میں مولانا آزاد کے ’’الہلال‘‘ اور ’’الہلال‘‘ کے بند ہونے کے بعد ’’البلاغ‘‘ نے اور خاص طور پر مولانا کے اداریہ نے بڑا موثر اور اہم کردار ادا کیا  اور ہندوستان کے گوشہ گوشہ میں آگ لگادی۔ مسلمان جو تحریک آزادی کے ایک اہم ترین قوت تھے اور جن کی شمولیت کے بغیر اس لڑائی میں فتح پانا ممکن نہ تھا مولانا کی تحریروں کے ذریعہ تحریک میں شریک ہوئے اور ہندوستان کی تحریک آزادی کامیابی کے قریب آنے لگی۔

    مولانا خالد سیف اللہ رحمانی لکھتے ہیں:

’’وہ الفاظ و زبا ن کے سہارے قارئین کے بربط دل سے کھیلتے تھے اور ان کا آبدار قلم پڑھنے والوں کے قلب و جگر میں پیوست ہوجاتا تھا وہ اس کے سینے میں جوش و خروش کی آگ، عزم و حوصلہ کی توانائی اس کے دماغ میں شوکت و جلال کا احساس اور عظمت رفتہ کو حاصل کرنے کا جذبہ بے کراں بھر دیتے تھے ، سوئے ہوئے ضمیر اور ٹھٹھرے ہوئے اعصاب میں حوصلہ سر فروشی اور جرات و بے باکی کی برقی لہر دوڑا دینے میں ان کو یدطویٰ حاصل تھا ۔ تحریر وانشاء کی دنیا میں ان کا قلم شمشیر برہنہ تھا۔ جو دلوں کو آسانی سے فتح کر لیتا تھا۔ وہ اپنے اس فن میں یکتا تھے۔ بہتوں نے ان کی پیروی کی ان کی بنائی ہوئی شاہراہ پر قدم جمانے کی کوشش اور سعی نے کئی نئے اسلوب پیدا کردئے مگر ان کی پیروی کی دشوار گذار وادی کو شاید کوئی بھی عبور نہ کرسکا۔
        (وہ جو بیچتے تھے دوائے دل، مولف مولانا خالد سیف اللہ رحمانی، ص:۲۰۳ء ، ایفا پبلیکشنز ، دہلی)

    یہی حال ان کے ادریہ نگاری کا تھا ۔ کہ وہ سب میں یکتا تھے اور حالات کے پس منظر میں لکھی گئی ان کی تحریر کا اس وقت کے سماج اور خاص طور پر مسلمانوں کو انتظار ہوا کرتا تھا اور لوگ مولانا آزاد کو پڑھ کر اپنی سمت طے کر تے تھے۔

    مولانا آزاد نے الہلال کی طرح ’’البلاغ‘‘ میں بھی ادارئیے لکھے البتہ ’’البلاغ‘‘ کے ابتدائی دو نمبروں میں اداریہ کا کالم نہیں تھا ۔ جس کے بارے میں مولانا خود رقم طراز ہیں:

بہر رسالہ تو جاری ہوگیا۔ مگر اب تک لکھنے کا موقع باالکل نہیں ملا۔ ابتداکے دو نمبروں کے تمام ابتدائی صفحات عربی کے خطبہ افتتاحیہ نے لے لئے اور وہ نہایت اہم اور ضروری مطالب جن کے لئے فواتح سین ماضیہ کی طرح اردو  کے ایک مبسوط و مستقل فاتحہ البلاغ کا لکھنا ناگزیر ہے۔ اب تک انضباط تحریر سے محروم ہیں۔ اسی طرح وقت کے بعض مسائل مہمہ ہیں جن کے متعلق کچھ نہ کچھ لکھنا ضروری ہے ازاں جملہ مسلم یونیورسٹی ایسوسی ایشن کا گذشتہ اجلاس علی گڑھ اور خود موضوع رود قبول یونیورسٹی اور اس کے بعض احوال و اطراف ایسے مواضع حوالی و اطراف ایسے مواقع نظر و انکشاف ہیں جن سے کسی طرح قطع نظر نہیں کیا جاسکتا۔ ‘‘

                (’’البلاغ‘‘ کلکتہ، جلد نمر:۱، شمارہ نمر:۳، ۱۰؍ دسمبر ۱۹۱۵ء ص:۲)

    مندرجہ بالا اقتباس سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ ’’البلاغ‘‘ کے جاری ہونے کے بعد دو نمبروں میں مولانانے  اداریہ کے نام سے کوئی تحریر نہیں لکھی اور تنگی وقت نے اس کا موقع نہیں دیا ۔ البتہ اس کے بعد مولانا نے جو اداریئے لکھے وہ وقت و حالات کے لحاظ سے نہایت مستند اور بے باک ثابت ہوئے۔ حالات کی ستم ظریفی نے مولانا کے قلم کو روکنے کے بجائے اور تیز کردیا۔اس طرح مختصر طور پر ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مولانا آزاد ایک بے باک صحافی تھے۔ ان کی آواز ’’الہلال ‘‘ اور ’’البلاغ ‘‘ میں صاف طور پر سنائی دیتی ہے۔   

 (مطبوعہ ’’قومی تنظیم‘‘ ۲۲؍ مارچ ۲۰۱۵ئ)

٭٭٭

Ahsan Alam
Raham Khan, P.O. Lalbagh, Darbhanga-846004
Email: ahsanalam16@yahoo.com

 

Comments


Login

You are Visitor Number : 560